www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سیتیسواں جلسہ
1۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
ھم نے عرض کیا کہ اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ھوتی ھے کہ معاشرہ میں اسلامی قوانین نافذ کرے اور امن وامان برقرار رکھے نیز ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے ظاھر سی بات ھے کہ اس سلسلہ میں پولیس ، طاقت اور تشدد سے کام لیا جائے گا اور جو لوگ اسلامی ملک سے دشمنی اور عناد کی بنا پر جنگ وجدال کرتے ھیں؛ ان سے پیار ومحبت اور نرمی کے ساتھ مقابلہ نھیں کیا جاسکتا، یا وہ لوگ جو اندرون ملک شیطانی حرکتوں کے تحت فساد کرتے ھیں ؛ ان سے پیار ومحبت کے ذریعہ ان سے مقابلہ نھیں کیا جاسکتا۔

ھم نے یہ بھی عرض کیا کہ جس طرح سے اسلامی قوانین رحمت ومحبت اور مھربانی پر مبنی ھوتے ھیں اور اسلام پیام دوستی ومحبت دیتا ھے؛ اسی طرح خاص مواقع پر طاقت، سخت رویّےاور خشونت (شدت پسندی)سے بھی کام لیا جاتا ھے، اور اسلام مجرموں اورفساد کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرنے اور سزا دینے کا بھی حکم دیتا ھے لیکن چونکہ یہ بحث ایک فرعی تھی اور اس بحث کا شمار ھماری اصلی بحث میں نھیں ھوتا، لھٰذا مختصر طور پر اس سلسلہ میں گفتگو ھوئی لیکن حق مطلب ادا نھیں ھوسکا لیکن اس سلسلہ میں اخباروں اور جرائد میں ھونے والے عکس العمل (ری ایکشن) سے اندازہ ھوتا ھے کہ محبت اور تشدد کے سلسلہ میں مزید تفصیلی بحث کی ضرورت ھے، لھٰذا اس جلسہ کے لحاظ سے اس موضوع پربعض چیزیں بیان کرتے ھیں۔
2۔ دشمنوں کی طرف اسلام کے خلاف پروپیگنڈا اور کارکردگی
ایک زمانہ سے اسلام کے دشمنوں نے دین اسلام کو تشدد اور شدت پسندی کا دین قرار دے رکھا ھے اور کھتے ھیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ھے، کیونکہ اسلام نے دشمنوں سے جھاد اور مقابلہ کو قابل ستائش قرار دیا ھے، چنانچہ قرآنی بھت سی آیات جھاد کے بارے میں موجود ھیں، اور جھاد کو فروع دین قرار دیا گیا ھے۔
چنانچہ بعض لوگ اس مسئلہ سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ھوئے کھتے ھیں کہ اسلام، تشدد اور شدت پسندی کا دین ھے ، اور اسلام پھیلانے کے لئے طاقت اور تلوار کا استعمال کیا گیا ھے، یعنی لوگوں نے ڈر کر اسلام کوقبول کیا ھے ان کے مقابلہ میں بعض لوگوں نے اس نظریہ سے متاثر ھوتے ھوئے دفاعی لھجہ اختیار رکرتے ھوئے کھا کہ اسلام میں تشدد نھیں ھے، اسلام ھمیشہ پیار ومحبت کی دعوت دیتا ھے، اور جھاد یا شدت پسندی کے مسائل ایک خاص زمانہ اور خاص مقام سے مخصوص تھے ، عصر حاضر میں ان مسائل سے کوئی سروکار نھیں ھے، اور ان کو (آج کل) بیان بھی نھیں کرنا چاھئے، آج کل صرف پیار محبت اور جھک کر باتیں کرنا چاھئے!
ھماری ملت جانتی ھے کہ دشمن کن اغراض ومقاصد کے تحت اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکررھا ھے لھٰذا ھماری ملت دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نھیں ھوتی لیکن توجہ رھے کہ مسئلہ یھی پر ختم نھیں ھوتا بلکہ اس سے آگے قدم رکھا جاتا ھے ، اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ آج اسلامی دشمن طاقتیں نئے نئے طریقوں سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکررھی ھیں اور ھر روز مختلف طریقوں؛ جیسے ادبی، ھنری اور دیگر طریقوں سے اسلامی معارف میں شبھات و اعتراضات وارد کررھی ھیں، تاکہ ھماری ثقافت میں خطرناک برے آثار پھیلادیں تاکہ عوام الناس دینی سلسلہ میں کمزور ھوجائیں یہ وہ چیز ھے جس کے بارے میں نفسیاتی اور ذاتی تجربات شھادت دیتے ھیں۔
ھم نے اپنی آنکھوں سے اپنے اسلامی معاشرہ اور دوسرے اسلامی ملکوں کو دیکھا ھے کہ جس وقت اسلام دشمن طاقتیں اپنے مختلف طریقوں سے مسلسل پروپیگنڈاکرتی ھیں اور کسی ایک معاشرہ کو تحت تاثیر قرار دیتی ھیں ، یھاں تک کہ آنے والی نسل (جودشمن کے مد نظر ھوتی ھے) دشمن کی تبلیغ سے متاثر ھوجاتی ھے، اور جوان طبقہ دشمن کے پروپیگنڈے کی زد میں آکر اپنی دینی اور قومی حیثیت بھول جاتا ھے اور جیسا کہ دشمن چاھتا ھے اپنی اصلی حیثیت کو بھول کر دشمن کی پیش کردہ صورت اپنالیتا ھے۔
اگر ھم عصرِ حاضر کی ثقافت خصوصاً روشن خیال رکھنے والوں کے یھاں رائج ثقافت کو دیکھیں تو دشمن کے پروپیگنڈے کے آثار واضح طور پر دکھائی دیں گے، اور ان چیزوں کا بھی مشاھدہ کرلیں گے جو دشمن نے ھماری یھاں رائج کی ھیں ھماری ثقافت میں دشمن کی رائج کردہ چیزوں میں سے آزادی اور ڈیموکریسی ھیںجس کو مطلق اقدار کی صورت میں ھمارے معاشرہ میں رائج کردیا گیا ھے، اور ان چیزوں کے بارے میں اس قدر پروپیگنڈا کیا جاتا ھے کہ گویا ایک بت ھے کہ کوئی اس ڈیموکریسی کے خلاف بولنے کی جرائت نھیں کرتا اور نہ ھی اس کے نقائص کو بیان کرسکتا ھے حالانکہ خود مغربی دانشور وں نے ڈیموکریسی کے سلسلہ بھت زیادہ اور سخت تنقید کی ھے، اور آج بھی بھت سے سیاسی فلاسفہ اور سماج ماھرین مختلف مواقع پر ڈیموکریسی کے برخلاف گفتگو کیا کرتے ھیں نیز اس سلسلہ میں کتابیں بھی لکھی جاتی رھی ھیں، اور یھی نھیں بلکہ ان میں سے بعض (بھترین) کتابوں کا دنیا کی مختلف مشھور زبانوں میں ترجمہ ھوتا ھے منجملہ فارسی (و اردو) ، ان کو عوام الناس پڑھتے ھیں؛ لیکن اس زمانہ میں دشمنوں کی طرف سے ڈیموکریسی کے اس طرح مقدس جلوہ دکھائے جاتے ھیں کہ جھان سوم میں کوئی اس کے خلاف بولنے کی جرائت نھیں کرتا اور اس سلسلہ میں تنقید نھیں کرسکتا، اگر کوئی مغربی ممالک میں رائج ڈیموکریسی اور آزادی کے بارے میں زبان کھولے تو اس کو بیک ورڈ اور ظلم واستبداد جیسی تھمتوں سے نوازا جاتا ھے۔
3۔ مغربی ممالک میں حقوق بشر کا جھوٹا دعویٰ
بے شک مغربی باشندے اپنے پروپیگنڈوں کے پیچھے ایک خاص مقصد چھپائے ھوئے ھیں، اور اپنے منافع کے خاطر نیز انقلابی ممالک کو اپنے تحت لانے کے لئے ھمیشہ ڈیموکریسی، آزادی اور حقوق بشر کا دم بھرتے ھیں، اور اگر کوئی ان کی مخالفت کرتا ھے تو اس پر ڈیموکریسی کی مخالفت اور حقوق بشر کی پامالی کی تھمت لگاتے ھیں حالانکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ظالم ترین اور ڈکٹیٹر"Dictaor" حکومتوںکے ظلم وستم کے مقابلہ میں کوئی عکس العمل ( ری ایکشن) نھیں دکھایا جاتا، کیونکہ اس حکومت کے ذریعہ ان کے مقاصد پورے ھوتے ھیں بلکہ خود وہ حکومتیں انھیں کی پٹھو ھوتی ھیں۔
قارئین کرام ! ان کے جھوٹے دعوں کا پول تو اس وقت کھلتا ھے جب کسی ملک میں ڈیموکریسی اصول وضوابط کے تحت انتخابات ھوتے ھیںلیکن اسلام پسند پارٹی اکثریت میں آجاتی ھے اور وہ پارٹی کامیاب ھوجاتی ھے تو اس وقت ان انتخابات کو باطل قرار دیدیا جاتا ھے؛ اور فوجی بغاوت کے ذریعہ فوجی حکومت قائم کردی جاتی ھے اور ھر روز ھزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بھایا جاتا ھے، اور آزادی خواہ مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ھے اور حقوق بشر کے یہ جھوٹے نعرے لگانے والے نہ صرف یہ کہ اس حکومت کو حقوق بشر پامال کرنے اور آزادی کی رعایت نہ کرنے کا الزام نھیں لگاتے بلکہ جلد ھی اس حکومت کو تسلیم بھی کرلیتے ھیں اور ان کے کارناموں کی تائید کرتے ھیں اور بھت ھی وسیع پیمانے پر ان کی حمایت کرتے ھیں۔
یا جس وقت صھیونیزم ”سر زمین فلسطین“ پر قبضہ کرتے ھیں اور لوگوں کو اپنے گھروں سے باھر نکال دیتے ھیں اور ھزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بھاتے ھیں اور لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک سے باھر نکال دیتے ھیں،اس وقت کوئی نھیں کھتا کہ ان کا یہ کام حقوق بشر کے خلاف ھے بلکہ طاقتور ممالک اور سوپر پاور ممالک اس غاصب اور قابض حکومت کو تسلیم کرلیتے ھیں، جبکہ یہ ظالم اور غاصب حکومت اس سر زمین کے اصلی مالکوں کا قتل عام کرتی ھے اور ان کے گھروں کو مسمار کر رھی ھے، لیکن ان سب کو دیکہ حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے کوئی اعتراض نھیں کرتے صرف کبھی کبھار اقوام متحدہ اپنی سیاست کے تحت کوئی بے معنی اور غیر موثر حکم صادر کرتی ھے اور عملی طور پر اس غاصب وظالم حکومت کو گرین لائٹ دکھاتی ھے کہ اگر اس حکم نامہ پر عمل نہ بھی کیا تو کوئی بات نھیں کوئی مشکل پیش آنے والی نھیں ھے اور کسی طرح کا کوئی ایکشن نھیں لیا جائے گا۔


جب کہ ھم دیکھتے ھیں کہ دسیوں حکم نامہ اسرائیل غاصب کے خلاف دئے جاچکے ھیں لیکن اس نے کسی پر بھی عمل نھیں کیا ھے اورھمیشہ ان کی مخالفت کرتا رھا ھے ، لیکن نہ یہ کہ کبھی اس کو سزا دی گئی بلکہ انعام کے طور پر اس کو کروڑوں ڈالر کی (بلا عوض) امداد کی جاتی ھے اور بڑے بڑے اسلحے، مھلک ھتھیار (آئیٹم بم) بنانے کی ٹکنالوجی دی جاتی ھے توکیا کوئی حکومت اور حقوق بشر کا دفاع کرنے والوں نے اس غاصب اسرائیل کے بارے میں جو انسانوں کے روز مرہ کے حقوق بھی پامال کر رھا ھے اور اقوام متحدہ کے حکم ناموں کو بھی نھیں مانتا او رھمیشہ ان کی مخالفت کرتا ھے، کیا اس کو کبھی کسی نے ڈیموکریسی اور حقوق بشر کا مخالف قرار دیا؟!!
4۔ اسلامی نظام پر تشدد طلب ھونے کا الزام اور اس کے خلاف سازشیں
ھمارے ملک میںاسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد (اسلام دشمن طاقتوں نے) تشدد کے سلسلہ میں بھت زیادہ پروپیگنڈا کیا ھے، سب سے پھلے یہ کھا کہ شاہ پھلوی کی قانونی حکومت کے سامنے قیام کرنا تشدد ھے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد، جب منافقین گروھوں نے عوام الناس کو اپنے غیر اسلامی اھداف سے ھم آھنگ نہ پایا تو انھوں نے انقلاب اور عوام الناس سے مقابلہ شروع کردیا اور دینی اور سیاسی مھم شخصیتوں کو قتل کرنے لگے یھاں تک کہ بے گناہ لوگوں پر بھی رحم نہ کیا، جس کے بعد عوام الناس نے بھی ان سے مقابلہ شروع کردیا اور ان کو ملک سے بھگادیا؛ اس روز سے آج سے مغربی ممالک ھمارے خلاف پروپیگنڈا کرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ منافقین سے ایسا برتاؤ کرنا تشدد ھے! کوئی یہ نھیں دیکھتا کہ ان منافقین کے گروھوں نے کس قدر ھمارے ملک کو نقصانات پھونچائے ھیں کوئی مھم شخصیتوں کے قتل کی مذمت نھیںکرتا ھے، لیکن جس وقت ایک ملت اپنے دین اور ملک سے دفاع کرنے کے لئے قیام کرتی ھے اور ٹرورسٹوں "Terroristes"کو پسپاکرتی ھے اور ان میں سے بعض لوگوں کو سزائے اعمال تک پھنچاتی ھے اور بعض کو ملک بدر کرتی ھے تو اس وقت شور و غل مچاتے ھیں کہ یہ سب کچھ حقوق بشر کے خلاف ھے!!
اسی طرح جب 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی کے بعد بعض فتہ وفساد برپا کرنے والے بیت المال، عوامی مال دولت، بینک، ذاتی اور سرکاری گاڑیوں یھاں تک کہ مسجدوں میں بھی آگ لگادیتے ھیں اور عورتوں کو بے آبرو کرتے ھیں عورتوں کے سروں سے چادر چھین لیتے ھیں؛ اس وقت کوئی نھیں کھتا کہ یہ کام حقوق بشر کے خلاف ھے ، بلکہ ان لوگوں کو اصلاح طلب اورڈیموکریسی و آزادی کا طرف دار کھا جاتا ھے! لیکن اگر اسلامی جمھوری ایران اور فدا کار بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) بے خوف وخطر ان سے مقابلہ کرتی ھے اور دین و شرف اور اپنے محبوب نظام سے دفاع کے لئے اٹہ کھڑی ھوتی ھے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کا قلع وقمع کرتی ھے تو اس موقع پر یہ لوگ فلک شگاف نعرے لگاتے ھیں کہ ایران میں آزادی نھیں ھے، اور ایرانی نظام حکومت ڈکٹیٹر شب"Dictaorship" ھے!!
مغربی ممالک اپنے دعوی کے باطل ھونے کو جانتے ھیں لھٰذا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے اسلامی نظام کو درھم و برھم کرنے کے لئے اس طرح کے پروپیگنڈے کیا کرتے ھیں اگرچہ ھم ان کے نحس مقاصد اور ارادوں سے بے خبر نھیں ھیں، لیکن وہ اپنے تجربات کی بنا پر اچھی طرح جانتے ھیں کہ کس طرح ایک نظام کو سرنگوں کیا جاتا ھے چاھے پچاس سال کے بعد ھی کیوں نہ ھو، (اگرچہ ان کا یہ خیال باطل اور بے ھودہ ھے) لھٰذا وہ ابھی سے اس سلسلہ میں مختلف طریقوں سے بھت زیادہ کارکردگی کر رھے ھیں ان کا مقصد یہ ھے کہ انقلاب کی ایک دو نسل گذرنے کے بعد جنھوں نے انقلاب کو نھیں سمجھا ھے اور انقلاب سے پھلے مفاسد اور شاہ پھلوی کے ظلم و جور کو نھیں دیکھا ھے اور اسلامی نتائج سے آگاھی نھیں رکھتے نیز حضرت امام خمینی (رہ) اور ان کے ساتھیوں کے تربیت یافتہ نھیں ھے، یہ سبب ان کے پروپیگنڈوںسے متاثر ھوجائیں گے؛ تاکہ اسلامی حکومت کو سرنگون کرکے اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیں جس کو آج کی اصطلاح میں ڈیموکراٹک "Democratic"کھا جاتا ھے۔
5۔ لوگوں میں انتخابات سے بائیکاٹ کا راستہ ھموار کرنا
یہ لوگ اپنے نحس مقاصد تک پھنچنے کے لئے حساب شدہ منصوبہ بندی کرتے ھیں اور ثقافتی بنیادی فعالیت انجام دیتے ھیں اور موثر و کارگر وسائل کو بروئے کار لاتے ھیں انقلاب کی کامیابی کے بعد سے (خصوصاً آخری چند سالوں سے) جن الفاظ سے استفادہ کرتے ھیں ، ان میں سے تساھل (سستی) تسامح (لاپرواھی) اور مدارا(تال میل) ھیں جن کو مطلق اقدار کے عنوان سے پیش کرتے ھیں، اور اس کے مقابلہ میںقاطعیت اور تشدد کی مطلق طور پر مذمت کرتے ھیں۔
اس نظریہ کی دلیل یہ ھے کہ انھوں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ھے کہ جو چیز نظام اسلامی کے بقاء کی ضامن ھے وہ ھے عوام الناس خصوصاً جوانوں اور بسیجیوں کا اسلام اور رھبری سے لگاؤ اور محبت ھے ؛ یھاں تک کہ ان اقدار کی حفاظت (جو کہ لاکھوں شھیدوں کے خون کی برکت سے حاصل ھوا ھے) ؛ کے لئے اپنی جان سے کھیلنے کے لئے حاضر ھیں یہ لوگ علم و ادب اور ثقافتی پروپیگنڈوں سے عوام الناس کی شجاعت، ایثار، بھادری، معنوی طاقت اور دینی غیرت کو چھین لینا چاھتے ھیں اسی وجہ سے منفی ، غیر انسانی اور ظالمانہ تشدد جو دنیا بھر میں ھوتی رھتی ھے، اور جس کے تباہ کن نتائج ھر روز دیکھنے میں آتے رھتے ھیں؛ اس کو ھمارے سامنے بیان کرتے ھیں تاکہ یہ سمجھائیں کہ تشدد کے یہ برے نتائج ھوتے ھیں؛ لھٰذا کسی بھی طرح کی کوئی تشدد صحیح نھیں ھے بلکہ مذموم ھے یھاں تک کہ اگر کوئی غیظ وغضب میںکچھ کھے، یا” امریکہ مردہ باد“ کے نعرہ لگائے یا فساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کرے اوران کو کچل دے ، تو ان کا یہ کام تشدد ، شدت پسندی اور محکوم و مذموم ھے۔
ان لوگوں مقصد یہ ھے کہ اس طرح انقلابی اقدار کا دفاع کرنے والوں کو شدت پسندی کانام دے کر عوام الناس کو سست کردیں تاکہ کوئی ان کی خطرناک سازشوں سے مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ھو ، اور اپنے خیال ناقص میں 28 مرداد 1332ھجری شمسی کی بغاوت کی طرح ایک دوسری بغاوت کرادیں اور جیسا کہ ان لوگوں کا کام ھے 28 مرداد میں مٹھی بھربد معاش، لچّے لفنگے لوگوں کے ذریعہ بغاوت کرادی اور انھوں نے لوگوں کی جان ومال اور ناموس پر حملہ کیا اور دشمن کے نقشہ کو عملی جامہ پھنادیا؛ اسی طرح 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی کو بھی اپنے ناپاک منصوبہ کے لئے مناسب پایا اور ملک میں بغاوت پھیلادی چنانچہ ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بھت زیادہ مطالعہ اور تحقیق ، بھت زیادہ خرچ کرکے سادہ لوح افراد کو فریب دینے کے لئے اس کام کے مقدمات پھلے سے تیار کررکھے تھے جیسا کہ اس حادثہ میں ملوث افراد نے خود اپنے انٹر یو میں اس بات کا اقرار کیا کہ انھوں نے امریکہ سے پیسہ اور فکری امداد حاصل کی تھی ، یہ سب اسی حقیقت کی عکاسی ھے تاکہ جب موقع پائیں تو بد معاش اور لچّے لفنگے لوگوں کو میدان میں اتار دیں تاکہ یہ لوگ اندرونی اور بیرونی میڈیا کی امداد اور مختلف طریقوں سے کمک کے ذریعہ بدامنی پھیلائیں اور دکانوں ، گھروں اور دفتروں کو آگ لگائیں خلاصہ بغاوت کے نقشہ کو عملی جامہ پھنادیں۔
جی ھاں، یہ لوگ شدت پسندی کو برا اور مذموم کھہ کھہ کر عوام الناس میں مقابلہ کے حوصلوں کمزور کرنا چاھتے تھے نیز انقلاب سے دفاع کے سلسلہ میں ان کے حوصلے پست کرنا مقصود ھے،تاکہ جب ضد انسانی اور ضد انقلابی کارناموں کا نظارہ کریں اور عوام الناس کے مال و دولت کو غارت ھوتے دیکھیں نیز سرکاری ملکیت کو نابود ھوتا ملاحظہ کریں اور خود فروش لوگوں کے ذریعہ بلوا ھوتے دیکھیں تو سب کے سب خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رھیں اور فتنہ و فساد پھیلانے والوں کو کچلنے کی فکر نہ کریں بلکہ صرف تباھی پھیلانے والوں سے آرام کے ساتھ گفتگو کرنے کی دعوت دیں اور ان کے مطالبات کو سنیں اور ان سے کھیں کہ ھاں تمھیں اعتراض کرنے کا حق ھے، تم واقعاً پریشان ھو، لھٰذا تم اپنی طرف سے کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجو تاکہ آپس میں بیٹہ کر آرام کے ساتھ گفتگو کریں، تمھارے مطالبات کو پورا کیا جائے گا، آؤ اور آپس میں سمجھوتہ کرلیں کچھ تم لوگ اپنے مطالبات کم کرو اور کچھ ھم اپنی سیاست سے پیچھے ھٹیں۔
جب کہ یہ بات ظاھر ھے کہ ان کے مطالبات قوانین اسلامی کو ختم کرنے، اسلامی شعارکو حذف کرنے ، اور اسلام کا دفاع نہ کرنے کے علاوہ کچھ نھیں ھوں گے، اور ان سب مطالبات کو مان لینے کے بعدملکی پیمانہ پر ایک بھت بڑی بغاوت رونما ھوجائے گا جس کے نتیجہ میں اسلامی اقدار کا خاتمہ ھوجائے گا، اور اگر دوسرے ممالک کی امداد کی ضرورت ھوگی (جیسا کہ پھلے سے طے ھوچکا تھا) مشرقی اور مغربی سرحدپار سے ملک پر حملہ کرکے اس نظام کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور پھر اپنی مرضی کے مطابق کسی کو حاکم بنادیا جائے گا۔
6۔ اسلامی مقدسات کی توھین کرنے والوں اور ثقافتی سازشوں سے مقابلہ کی ضرورت
المختصر : ان آخری چند سال سے تشدد اور شدت پسندی کے مسئلہ کو مطلق طور پر اقدار کے مخالف قرار دیتے ھیں اور اس کے مقابلہ میں سستی، لاپرواھی اور تال میل کو مطلق اقدر کے عنوان سے بیان کرتے ھیں،اور مختلف میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈے اس قدر وسیع پیمانے پر حساب شدہ ھوتے ھیںکہ بعض اوقات تو بعض خواص (خاص الخاص افراد) بھی دھوکہ کھاجاتے ھیں، اور دشمن کے جال میں پھنس جاتے ھیں جب کہ ان لوگوں کا ھدف مسلمانوں سے دینی غیرت کو چھین لینے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے، تاکہ ضرورت کے وقت اسلام کے دفاع کے لئے کھڑے نہ ھونے پائیں اس بات پر گواہ ابھی کے تازہ ھونے والے واقعات ھیں اور بھت سی سازشیں تو ابھی تک فاش نھیں ھوئی ھیں اور(انشاء اللہ) آھستہ آھستہ معلوم ھوجائیں گی۔
اسی وجہ سے حقیر نے اپنی تشخیص کے مطابق یہ احساس کیا کہ نظام اسلامی کو درھم وبرھم کرنے کے لئے ایک بھت بڑی سازش ثقافتی خطرہ در پیش ھے،لھٰذا یہ طے کیا کہ دشمنوں کی طرف سے ھوئے اعتراضات اور شبھات کا جواب دے اور ان کی ثقافتی سازشوں کو فاش کیا جائے، اور اپنے برادران کو ھوشیار کروں نیز جو لوگ دشمن کے پروپیگنڈوں کی زد میں آکر خواب غفلت میں سوئے ھوئے ھیں ان کو بیدار کروں، اور کم سے کم دشمن کی طرف سے ھوئے پروپیگنڈوں کی وجہ سے پیدا ھونے والے جھوٹے عقائد اور نظریات میں شک وتردید پیدا کریں، اوردینی اور ثقافتی عھدہ داروں کو در پیش عظیم خطرات سے آگاہ کروںاور اپنے سوالات کو پیش کرکے معاشرہ کو متوجہ کروں تاکہ دشمن کے غلط پروپیگنڈوں کا اثر کم سے کم ھو۔
حقیر نے اپنا وظیفہ سمجھتے ھوئے یہ طے کیا کہ ”مطلق تشدد کے نفی“ کے بت کو توڑ ڈالوں، اور ھر تشدد کو برا نیز ھر نرمی اور پیار محبت کو اچھا کھنے والے تصور کی نفی کروں اسی وجہ سے ھم نے اس سے پھلے بھی جلسہ میں عرض کیا تھا کہ ھر مطلق تشدد او رشدت پسندی محکوم او رمذموم نھیں ھے اور ھر نرمی اور پیار و محبت اچھا نھیں ھے، بلکہ ھر ایک کے لئے مخصوص موقع و محل ھوتا ھے جیسا کہ یھی گفتگو آزادی کے سلسلہ میں بھی کی اور عرض کیا کہ مطلق آزادی اچھی نھیں ھے بلکہ مطلق آزادی باطل اور مردود ھے ، ھم اس آزادی کی قدر کرتے ھیں جو قوانین اسلامی اور دینی اقدار کے تحت ھو حالانکہ ھماری یہ باتیں سن کر بعض لوگ غضب ناک ھوگئے کہ فلاں صاحب آزادی کے خلاف گفتگو کررھے ھیں لیکن جب ان کو آزادی کے نعرے لگانے والوں کی سازشوں کا پتہ چل گیا تو ان پر یہ بات واضح ھوگئی کہ بعض لوگ اس آزادی کا پرچم بلند کرکے دین اور اسلامی اقدار اور مقدسات کی نابودی چاھتے ھیں؛ یھاں تک ھماری حکومت کے ایک بڑے عھدہ دار جو کہ ایک سیاسی شخصیت مانی جاتی ھے اپنی ایک تقریر میں کھتے ھیں:
”ھماری عوام الناس آزاد ھے یھاں تک خدا کے خلاف بھی مظاھرہ کرسکتے ھیں“ !!
چنانچہ (بعض) دوستوں نے واضح طور پر کھا کہ وہ آزادی مطلوب اور مقصود ھے جو اسلامی قوانین اور دینی اقدار کے تحت ھو اور اگر اس طرح کی باتیں بیان نہ کی جاتی تو معاشرہ کو وہ جھٹکا نہ لگتااور شایدحکومتی عھداران بھی یہ احساس نہ کرتے کہ ھم ”اسلامی قوانین اور دینی اقدار کے تحت آزادی“ کی طرف داری کریں نہ کہ مطلق آزادی کی۔
اور آج اگر ھم یہ کھتے ھیں کہ تشدد مطلقاً مذموم نھیں ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ بعض لوگ مطلق تشدد کے نفی کے پرچم کے نیچے اسلام اور اسلامی اقدار کے دفاع میں ھر اٹھنے والے قدم کو تشدد کا نام دےتے ھوئے اس کی مذمت کرتے ھیں اور یہ ایک حقیقت ھے نہ صرف یہ کہ ھمارے ذھن کی ایک پیداوار ، تاکہ بعض لوگ یہ کھیں کہ فلاں کی باتیں تو خیال خام اور ھوائی گولیاں ھوتی ھیں اتفاق سے ھمارے پاس اس بات پر بھت سے شواھد بھی ھیں ، اگرچہ سب کو بیان کرنے کی فرصت نھیں ھے، صرف ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں: ایک موقع پر بعض لوگوں نے جھاد کے سلسلہ میں اعتراض کیا اور اس کو تشدد اور شدت پسندی کا نام دیدیا ، جن میں سے ایک صاحب نے تھران یونیورسٹی میں محرم کے پھلے عشرہ میں اپنے تقریر کے دوران کھا: حضرت امام حسین علیہ السلام کا میدان کربلا میں قتل ھونا ؛جنگ بدر میں رسول اکرم (ص) کی تشدد کا ایک عکس العمل تھا!
یعنی یہ شخص حضرت رسول اکرم (ص) کی اسلامی جنگوں اور غزوات کو بھی محکوم کرتا ھے اور کھتا ھے کہ جب پیغمبراکرم (ص) نے مشرکین کو قتل کیا تو ان کی آل و اولاد پیغمبر کی آل و اولاد کو قتل کرتی، اور اگر پیغمبر ان کو قتل نہ کرتے تو ان کی اولاد بھی قتل نہ کی جاتی!! درحقیقت وہ یزیدوں کو بری الذمہ اور اسلام وپیامبر اسلام (ص) کو محکوم کرتا ھے اور افسوس کا مقام یہ ھے کہ ان باتوں کو سن کرجو کہ پیغمبر اکرم (ص) کی توھین ھے اور امام حسین علیہ السلام کی شخصیت نیز واقعہ کربلا میں تحریف ھے اور ضروریات دین کا انکار ھے، نہ صرف یہ کہ کوئی کچھ نھیں کھتا بلکہ بعض اخباروں اور جرائد میں اس شخص کی پوری تقریر چھپتی ھے اور وہ بھی صفحہ اول پر!! افسوس کہ ھمارے حکومتی عھدہ داران اس سلسلہ میں کوئی حساسیت نھیں دکھاتے حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام پر انقلاب برپا ھونے والے اور امام حسین (ع) کے نام سے باقی رھنے والے اسی ملک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کو تحریف کرکے پیش کیا جاتا ھے اور یہ نتیجہ لیا جاتا ھے کہ اگر ھم چاھتے ھیں کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں اور ھمارے زمانہ کے حسین قتل نہ ھوں تو ھمیں بھی تشدد آمیز برتاؤ اور شدت پسندی کو ترک کرنا ھوگا!!
اور اب ھم اس مقالہ نگار سے مخاطب ھے جس کا مقالہ ایک کثیر الانتشار اخبار میں چھپ چکا ھے ، چنانچہ وہ لکھتا ھے کہ فلاں صاحب موضوع سے الگ اورھوا میں باتیں کرتے ھیں اور ھم سے خطاب کیا ھے کہ اپنی گفتگو پر تجدید نظر کریں کیا ھم ھوا میں باتیں کرتے ھیں یا عصرِ حاضر کے اپنے معاشرہ وسماج کی؟ کیا ھماری باتیں اسی موضوع سے متعلق نھیں ھیں جو ھمارے ملک میں رائج ھے، اور کیا ھماری باتیں اسی حقیقت سے متعلق نھیں ھے جو ھر روز ھمارے ملک میں رونما ھوتی جارھی ھے؟ آیا ھم اپنی باتوں میں تجدید نظر کریں یا آپ کہ ایک وقت آپ ”بین الاقوامی اسلامی“ پارٹی کے عضو تھے اور فدائیان اسلام کی حمایت کو ایک افتخار سمجھتے تھے؟
قارئین کرام! یھاں پر ھم ضروری سمجھتے ھیں کہ حضرت امام خمینی علیہ الرحمةکا نورانی اور مشکل کشا کلام کی طرف اشارہ کریں جس میں موصوف نے آزادی کے پرچم کے نیچے پوشید ہ کن کن ثقافتی خطرات کو بیان کیا ھے:
” اب میری وصیت ھے حال حاضر اور آئندہ کی مجلس شورای اسلامی (پارلیمنٹ) اور اس وقت کے رئیس جمھور(صدر مملکت) اور ان کے بعد والے صدر، شورای نگھبان، شورای قضائی اور ھر زمانہ کی حکومت؛ سب کو چاھئے کہ میڈیا، جرائد اور مجلات کو اسلام اور ملکی مصالح سے منحرف نہ ھونے دیں، اور سب کو یہ معلوم ھونا چاھئے کہ مغربی ممالک کی طرح کی آزادی جوانوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو تباہ و برباد کردے گی اسلام ، ملکی مصالح اور عمومی عفت کے بر خلاف تبلیغات، مقالات، تقاریر، کتابیں اور جرائد کا وجودحرام ھے ھم سب پر اور تمام مسلمانوں پر ان کی روک تھام کرنا واجب ھے اور فساد برپا کرنے والی آزادی کی روک تھام کرنا ضروری ھے، اور جو چیزیں شرعی طور پر حرام ھیں یا وہ چیزیں جو ملت و اسلامی ملک کے برخلاف ھیں، یا جمھوری اسلامی کی حیثیت کے مخالف ھے، لھٰذا اگر ان کے خلاف سخت کاروائی نہ کی جائے تو تمام کے تمام لوگ ذمہ دار ھیں اور ھمارے عوام الناس اور حزب اللٰھی جوان اگر ان چیزوں کو دیکھیں تو متعلق اداروں کو مطلع کردیں، اور اگر وہ اس سلسلہ میں کوتاھی کریں تو وہ خود روک تھام کی ذمہ داری پر عمل کریں۔“(1)


7۔ خداوندعالم کی رحمت اور غضب کے بارے میں اسلامی تصویر کشی
اسلام اور قرآن کے سلسلہ میں مغربی افراد کے شبھات اور اعتراض میں سے ایک یہ بھی ھے کہ مسلمانوں کا خدا جیسا کہ قرآن میں بیان ھوا ھے ،بد خُلق، غصہ والا، اھل غضب اور انتقام لینے والا ھے، جبکہ خدائے انجیل بخشنے والا، مھربان، سعہ صدر(کشادہ دل) والا، تحمل کرنے والا اور بھت زیادہ مھربان اورلوگوں سے اس قدر دلسوزی کرنے والا ھے کہ نغوذ باللہ اس نے اپنے بیٹے (عیسیٰ) کو قربانی کے لئے بھیج دیا تاکہ تمام لوگوں کی بخشش ھوسکے اور اس کا خون تمام لوگوں کے گناھوں کا کفارہ بن جائے!! تو کیا قرآن مجید میں بیان شدہ خدا غصہ ور اور بد خلق ھے یا رحیم اور رؤف ھے؟
قارئین کرام! گذشتہ اعتراض کا جواب یہ ھے کہ ھمارا خدا صفت رحمت بھی رکھتا ھے اور صفت غضب بھی، وہ ”ارحم الراحمین“ (بھت زیادہ رحم کرنے والا) بھی ھے اور ”اشد المعاقبین (سخت عذاب دینے والا)بھی، قرآن مجید کے 114 سوروں میں سے 113 سورے (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) سے شروع ھوتے ھیں جس میں خداوندعالم کی دو صفات یعنی ”رحمن“ اور ”رحیم“ کا ذکر ھوتا ھے اور صرف ایک سورہ کی شروعات ”بسم اللھ“ سے نھیں ھوئی ھے، جبکہ سورہ نمل میںشروع کے علاوہ خود سورہ کے اندر بھی (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) تکرار ھوئی ھے؛ جب ملکہ سبا (بلقیس) حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کو اپنی قوم کے سامنے پڑھتی ھے تو اس کا آغاز (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ)سے ھوتا ھے، بھر حال پورے قرآن مجید میں 114 بار (بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) کی تکرار ھوئی ھے جس میں خداوندعالم کی دو رحمتی صفات کا ذکر ھے لیکن قرآن مجید میں خداوندعالم کی اسی رحمت واسعہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ خدا کے خشم (غصھ) اور غضب بھی ذکر ھوا ھے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
) وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انْتِقَامٍ )(2)
” اور خدا سخت انتقام لینے والا ھے “
( إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنتَقِمُونَ )(3)
”ھم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ھیں “
( فَبَاءُ وْا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُھینٌ ) (4)
” ا ب یہ غضب بالائے غضب کے حقدار ھیں اور ان کے لئے رسوا کن عذاب بھی ھے “
اگر یورپی لوگ (اپنے الفاظ میں) اپنے خدا کو صرف مھربان اور رحیم بتاتے ھیں اور کھتے ھیں کہ ھمارا خدا غصہ وغضب والانھیں ھے، لیکن حقیقت یہ ھے کہ جس طرح قرآن نے خدا کی توصیف کی ھے ، ان لوگوں نے اس کو صحیح طریقہ سے بیان نھیں کیا ھے؛ کیونکہ جس خدا پر ھم اعتقاد رکھتے ھیں وہ صرف اھل غضب ھی نھیں ھے بلکہ صاحب رحمت اور مھربان بھی ھے اور صاحب قھر و غضب بھی، لیکن اس کی رحمت اس کے غضب پر چھائی ھوئی ھے، اسی وجہ سے ارشاد ھوتا ھے:
"کَتَبَ عَلَی نَفْسِہ الرَّحْمَةَ " (5)
” اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے لیا ھے “
اور یہ معنی سنی شیعہ متواتر روایات میں بیان ھوئے ھیں، جیسا کہ ھماری دعاؤں میں وارد ھوا ھےیا مَنْ سَبَقَتْ رَحْمَتُہ غَضَبَہ اے وہ جس کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ھے۔
یعنی خدا کی رحمت اس کے غضب کی نفی نھیں کرتی بلکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ھے اور جھاں تک اس کا لطف وکرم اور اس کی حکمت تقاضا کرے وھاں تک بندوں پر اپنے لطف وکرم اور رحمت کی بارش کرتا ھے اور اپنے غضب کا مظاھرہ نھیں کرتا؛ مگر یہ کہ اس کی ضرورت ھو اور خداوندعالم کچھ لوگوں کو قھر وغضب میں گرفتار کرے اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں خداوندعالم نے بعض گذشتہ اقوام جیسے قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود پر اپنا غضب نازل کیا ھے اور اپنا عذاب بھیج کر ان کو نیست و نابود کردیا ھے (جیسا کہ ان اقوام کے مفصل واقعات قرآن مجید میں بیان ھوئے ھیں) لیکن اس کی وجہ یہ ھے کہ ان کی قوم میں بھیجے گئے انبیاء (ع) ھمیشہ ان کو راہ ھدایت کی دعوت دیتے تھے اور راہ ھدایت کو واضح اور روشن کرنے کے لئے معجزات اور الٰھی نشانیاںدکھاتے رھتے تھے ؛ لیکن ان لوگوں نے ان تمام چیزوں کے باوجود بھی کفر وضلالت کا راستہ اختیار کیا اور ان کی رفتار و گفتار میں ذرا بھی تبدیلی واقع نہ ھوئی، اور یھی نھیں بلکہ پھلے سے زیادہ فتنہ و فساد، گناہ عصیان اور احکام الٰھی کی مخالفت میں جری ھوتے چلے گئے تو اس موقع پر خداوندعالم کی حکمت او راس کی مشیت کا تقاضا تھا کہ ان کو اپنے غیظ و غضب اور عذاب میں گرفتار کرے تاکہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں، لجاجت کرنے والوں، خدا سے دشمنی کرنے والوں، اور متکبرین کے لئے بھترین عبرت حاصل ھوجائے۔
لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ قرآن کریم میں ذکر شدہ خدا غیظ وغضب والا نھیں ھے بلکہ خدائے رحمت و لطف وکرم ھے، اور صرف بعض مقامات پر جب اس کی حکمت اور مشیت کا تقاضا ھوتا ھے،اپنے غیظ وغضب کا اظھار کرتا ھے۔
لھٰذااس سوال( کہ کیا اسلام میں رحمت ومھربانی پائی جاتی ھے یا غیظ وغضب اور شدت پسندی؟)؛ کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں: اسلام میں رحمت اصل چیز ھے اوراس کی بنا یھی ھے کہ معاشرہ میں رحمت ومحبت کا رواج ھو، لیکن خاص موارد میں (جیسا کہ قرآن مجید نے بھی اشارہ کیا ھے) پیار محبت اور مھربانی سے کام نھیں لینا چاھئے بلکہ وھاں پر غیظ وغضب ، تشدد اور شدت پسندی کا مظاھرہ ھونا چاھئے خداوندعالم صفت رحمت بھی رکھتا ھے، اور صفت غیظ وغضب اور انتقام بھی۔
8۔ ھدایت کے موانع کو بر طرف کرنے ،دشمنوں اور منافقین سے مقابلہ کی ضرورت
اسلام ، اس کی نشر واشاعت اور اس کے دفاع سے متعلق عرض کرتے ھیں کہ اسلام پھلے مرحلہ میں انسانوں کو ھدایت کی دعوت دیتا ھے، لیکن اگر کوئی دعوت انبیاء (ع) کی نشر واشاعت میں رخنہ ڈالنا چاھے تو پھر قرآن حکم دیتا ھے کہ ان سے جنگ کی جائے، اور ھدایت کے راستے میں بچھے کانٹوں کو ھٹا پھینک دیا جائے اسی وجہ سے خود پیغمبر اکرم (ص) اور معصومین علیھم السلام کے زمانہ میں ”جھاد ابتدائی“ (یعنی اپنی طرف سے جھاد کی شروعات کرنا)واجب تھا، تاکہ لوگوں کی ھدایت کے موانع بر طرف کئے جاسکیں اسی بنیاد پر جب پیغمبر اکرم (ص) مبعوث برسالت ھوئے ، بات یہ نھیں کہ آنحضرت (ص) روم اور ایران جیسے ملکوں کے داخلی امور میں دخالت کر نے کا حق رکھتے ھیں یا نھیں؛ بلکہ حقیقت یہ ھے کہ پیغمبر اکرم (ص) روئے زمین کے تمام انسانوں کی ھدایت کے لئے مبعوث ھوئے ھیں، لھٰذا اگر کوئی یھاں تک کہ بادشاہ ایران اور قیصر روم بھی پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت اسلام کی مخالفت کریں تو اس صورت میں پیغمبر اکرم (ص) کا وظیفہ بنتا ھے کہ وہ ان سے جنگ کریں اسی وجہ سے آنحضرت (ع) نے (مختلف) ملکوں کے بادشاھوں کو خطوط لکھے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے یہ چاھا کہ اپنے اپنے ملکوں کی عوام الناس کے لئے رسول خدا اور ان کے نمائندوں کے ذریعہ ھدایت کا راستہ ھموار کریں؛ ورنہ جنگ کے لئے تیار ھوجائیں۔
اور چونکہ جھاد ؛ اسلام کے مسلم اصول میں سے ھے اور تمام شیعہ سنی فرقے اس سلسلہ میںمتفق ھیں اور کسی نے کوئی مخالفت نھیں کی ھے، (اور کفر وشرک کے سرداروں سے جھاد اس وجہ سے واجب تھا کہ وہ اپنے تحت لوگوں کی ھدایت وارشاد اور پیغمبروں کی دعوت کی تبلیغ میںمانع ھوتے تھے، اسی وجہ سے رسول خدا (ص) کا یہ وظیفہ تھا کہ ان لوگوں کو ھدایت کے راستہ سے ھٹانے اور عوام الناس کی ھدایت کے راستہ صاف کرنے کے لئے ان سے جنگ کریں) ان تمام چیزوں کے پیش نظر یہ بات کیسے کھی جاسکتی ھے کہ اسلام مطلقاً جھاد اور جنگ کو لازم اور جائز نھیں جانتا ھے؟ کیا ھم ان آیات قرآن جو کفار ومشرکین اور منافقین نیز دشمنان اسلام سے جھاد کے بارے میںنازل ھوئی ھیں ان کو نظر انداز کردیں اور ان کو چھپادیں؟
قارئین کرام ! ھم (یہ بات علی الاعلان) کھتے ھیںکہ دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا اسلامی اصول کے تحت ھے او ر اسلام نے احکام جھاد کے سلسلہ میں انسانی بھترین اصول کو مد نظر رکھا ھے، اور ان کی رعایت کرنے پر زور دیا ھے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی زور دیا ھے کہ جب دشمنان (اسلام) اور وہ لوگ جو دانستہ طور پر حق و حقیقت کے خلاف کھڑے ھوجائے اور دین خدا سے مقابلہ کرنے لگے اور اپنے عھد و پیمان کو توڑ ڈالیں؛ تو ان سے جنگ کرو:
( وَإِنْ نَکَثُوا اٴَیْمَانَھمْ مِنْ بَعْدِ عَھدِھمْ وَطَعَنُوا فِی دِینِکُمْ فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّھمْ لاَاٴَیْمَانَ لَھمْ لَعَلَّھمْ یَنتَھونَ ) (6)
” اگر یہ عھد کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑدیں اور دین میں طعنہ زنی کریں، تو کفر کے سربراھوں سے کُھل کو جھاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نھیں ھے شاید اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔“
اسی طرح خداوند عالم سورہ تحریم اور سورہ توبہ میں فرمان دیتا ھے کہ پیغمبر اور مسلمان؛ کفار ومنافقین سے جنگ کریں اور ان کے ساتھ غیظ و غضب اور شدت پسندی کا برتاؤ کرو:
( یَااٴَیُّھا النَّبِیُّ جَاھدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْھمْ وَمَاٴْوَاھمْ جَھنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ) (7(
” اے پیغمبر ! کفار اور منافقین سے جھاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے کہ ان کا انجام جھنم ھے جو بد ترین ٹھکانہ ھے۔“
( وہ مذکورہ مقالہ نگار جس نے لکھا تھا کہ جھاد سے متعلق قرآنی آیات کفار سے مخصوص ھیں ، اس نے اس آیت پر غور فکر نھیں کیا کہ اس آیہٴ مبارکہ میں خداوندعالم نے کفار سے جھاد کے علاوہ داخلی منافقوں سے بھی جھاد او رمقابلہ کا حکم دیا ھے۔)
اسی طرح سورہ توبہ میں ایک دوسری جگہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنْ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ) (8)
” اے ایمان لانے والو ! اپنے آس پاس کفار سے جھاد کرو تاکہ وہ تم میں سختی اور طاقت کا احساس کریں اور یاد رکھو کہ اللہ صرف پرھیز گار افراد کے ساتھ ھے۔
مذکورہ آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ھے کہ وہ کفار جو تمھارے نزدیک زندگی گذار تے ھیں ؛ ان سے جنگ کرو اور ان سے غافل نہ ھو جانا اور اپنے غیظ وغضب کا مزہ اپنے پڑوسی کفار کو چکھا دو تاکہ وہ (مسلمانوں سے) ڈریں اور ان کے خلاف کوئی خیانت اور سازش نہ کریں۔
اسی طرح خداوندعالم فرماتا ھے:
( وَاٴَعِدُّوا لَھمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھبُونَ بِہ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِھمْ لاَتَعْلَمُونَھمْ اللهُ یَعْلَمُھمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ
وَاٴَنْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ ) (9)
” اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نھیں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے سب کو خوفزدہ کردو ، اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گا۔“
(وہ حضرات جو عربی ادبیات (زبان) جانتے ھیں ؛ ھم ان کو اس بات کی تاکید کرتے ھیں کہ وہ لفظ ”ارھاب“ کے ھم معنی لفظ دوسری زبانوں میں تلاش کریں؛ اور اگر ھم عرض کردیں تو کل ھی اخباروں کی سرخی بن جائے گی کہ فلاں صاحب تو ٹروریزم "Terrorisme"کے طرفدار ھیں۔)
بھر حال قرآن مجید نے حکم دیا ھے کہ جن لوگوں سے منطق اور اصول کے ساتھ گفتگو نھیں کی جاسکتی اور انھوں نے جراٴت او ردلیری کے ساتھ راہ ھدایت کو بند کردیا ھے اور بغض و عناد اور دشمنی کی بنا پر اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ھیں، ان کے ساتھ تو تشدد اور غیظ وغضب سے مقابلہ کرنا چاھئے اور مسلمانوں کو چاھئے کہ ان کے درمیان رعب و دھشت ایجاد کردیں تاکہ ان کے اندر مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنے اور اسلام کو نقصان پھونچانے کا تصور بھی پیدا نہ ھو ان سے یہ نھیں کھا جاسکتا کہ : ”تم اپنے دین پر ھم اپنے دین پر، آؤ مل جل کر ایک ساتھ اطمینان کی زندگی بسر کریں۔“
9۔ اسلامی سزا کے احکام کی مخالفت
بعض مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات میں ھم پر یہ اعتراض کیا کہ اسلام نے کفار و مشرکین کے سلسلہ میں تشدد اور شدت پسندی کے برتاؤ کا حکم دیا ھے ، اور ان کواپنا ھمشھری ماننے سے انکار کیا ھے، حالانکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ھیں کہ اسلام نے بعض جرائم پر خود مسلمانوںکے لئے سخت سے سخت سزا معین کی ھے، اور اپنے قوانین میں ایسے لوگوں کے لئے کڑی سزا مقرر کی ھے مثال کے طور پر چوری کے مسئلہ میں اسلام کا حکم ھے کہ چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں یا زنا، عفت اور عزت کے دوسرے مسائل میں مجرموں کے لئے حد اور سزا معین کی ھے مثلاً زنا کرنے والے کو سو تازیانے لگانے کی سزا معین کی گئی ھے، اور بعض عفت کے منافی جرائم کے سلسلہ میں سزائے موت بھی رکھی گئی ھے در حقیقت اس طرح کے مجرموں کے لئے اسلامی سزا بھت سخت اور ناقابل برداشت ھیں لیکن اس چیز پر توجہ رکھی جائے کہ اسلام نے بعض عفت کے منافی جرائم جیسے زنا؛کوثابت کرنے کے لئے سخت شرائط معین کئے ھیں جس کی بنا پر بھت ھی کم یہ جرم ثابت ھوپاتے ھیں تاکہ ان پر حد جاری ھوسکے۔
بعض شرعی اور اسلامی حدود اور سزا کی بنا پر اسلام دشمن افراد کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ایک بھانہ مل گیا ھے جس کی بنا پر یہ لوگ کھہ دیتے ھیں کہ اسلام میں حقوق بشر کی رعایت نھیں کی جاتی، اور اسلام کی سزا میں تشدد پائی جاتی ھے نیز انسانی شرافت کو نظر انداز کیا جاتا ھے جی ھاں! دشمن اور حقوق بشر کے جھوٹے مدعی کھتے ھیں: ”ایک مسلمان چور کے ھاتھوں کو کاٹنا غیر انسانی عمل اور تشدد آمیز ھے اور انسانی شرافت کے مخالف ھے؛ کیونکہ جس شخص کے ھاتہ کاٹے جاتے ھیں تو وہ انسان پوری زندگی کے لئے اس مفید عضو سے محروم ھوجاتا ھے اور ھمیشہ معاشرہ میں ایک چور کے عنوان سے پھچانا جاتا ھے“ ۔
جبکہ اس کے مقابلہ میں بعض اسلام کا دعویٰ کرنے والوں نے اسلام کا دفاع کرتے ھوئے اس طرح کا نظریہ پیش کرتے ھیں: اسلام کے یہ سزا کے احکام گذشتہ زمانہ سے متعلق تھے اور ایک خاص زمانہ سے مخصوص تھے ، آج کل تو امنیت کے تحفظ اور چوری سے روک تھام کے لئے نئے نئے طریقے موجود ھیں لھٰذا کسی چور کے ھاتہ کاٹنے کی ضرورت نھیں ھے اگر امنیت کے تحفظ اور دوسرے جرائم سے روک تھام کے لئے بھتر طریقے موجود ھوں تو پھر امریکہ ؛ جس میں جرائم سے روک تھام کے لئے نئے نئے طریقے نافذ کئے جاتے ھیں، لیکن پھر بھی روزانہ ھزاروں جرائم ھوتے ھیں، اور وھاں کے کالجوں میں مسلح پولیس کا رھنا ضروری ھے۔
جولوگ جو نھایت بے شرمی کے ساتھ کھتے ھیں کہ یہ اسلامی سزائیں نا قابل قبول ھیں اور ان کو تشدد اور شدت پسندی کا عنوان دیتے ھوئے یہ کھتے ھیں کہ یہ سزائیںچودہ سو سال پھلے سے متعلق تھیں عصر حاضر میں کوئی ان کو قبول نھیں کرسکتا، کیا وہ لوگ یہ بھول گئے کہ جن لوگوں نے قصاص (بدلا) کے قوانین کو غیر انسانی کھہ کر اس کے خلاف مظاھرے شروع کردئے تھے، اس موقع پر حضرت امام خمینی (رہ) نے ان کو مرتد قرار دیتے ھوئے فرمایا تھا کہ ان کا خون مباح اور ان کی بیویاں ان لوگوں پر حرام ھیں اور ان کا مال ان کے مسلمان ورثہ میں تقسیم کر دیا جائے۔
جی ھاں امریکن حقوق بشر کے طرفداروں نے اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی اور تشدد آمیز کا عنوان دے کر ان کو محکوم و مذموم قرار دیا ھے لیکن ھم ان سے یہ کھتے ھیں کہ اگر اسلامی سزائیں تشدد آمیز ھیں، مان لیتے ھیں کہ بعض مواقع پر اسلامی حدود اور سزائیں تشدد آمیز ھیں، لیکن ھم اسلامی قوانین کا دفاع کرنے والے ھیں اور اس کے خلاف ھر طرح کی سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے دل و جان سے آمادہ ھیں، ھم یہ نھیں مانتے کہ احکام منسوخ ھوگئے ھیں، بلکہ ھمارا تو عقیدہ یہ ھے کہ:
”حَلاٰلُ مُحَمَّدٍ حَلاٰلٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَحَرَامُ مُحَمَّدٍ حَرَامٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ “
) آنحضرت(ص) کی حلال کردہ چیزیں قیامت تک حلال اور آپ کی حرام کردہ چیزیں قیامت تک حرام ھیں۔)
ھم نے انقلاب اسی وجہ سے برپا کیا ھے کہ ھمارے معاشرہ میں اسلامی احکام نافذ ھوں، ورنہ تو شاہ پھلوی بھی کھتا تھا: ”جو کچھ میں کھتا ھوں وہ اسلام کے مطابق ھے،اور علماء غلطی پر ھیں، اور یہ لوگ بیک ورڈ ھیں“!
ھمارے معاشرہ میں قرآن مجید کے اندر بیان شدہ اسلامی مسائل اور احکام کو نافذ ھونا چاھئیں یہ وھی اسلام ھے جس کی سرفرازی اور بلندی نیزاسلامی حکومت کے لئے ھم نے اپنے رشتہ داروں کی قربانی پیش کی ھے اور اب بھی جانفشانی کرنے کے لئے تیار ھیں ، اسی اسلام کی پھچان مقام معظم رھبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی)نے فرماتے ھوئے کھا ھے : ” اسلام ناب وھی اسلام ھے جو قرآن اور سنت میں بیان ھوا ھے ، جس کے احکام اور قوانین مناسب اور اجتھادی طریقہ سے انھیں دو عظیم الٰھی منبع و مرکز (قرآن و سنت) سے استنباط (حاصل) کئے جاتے ھیں اور جو لوگ اس اسلام کو نھیں مانتے، انھوں نے گویابنیادی طور پر اسلام کو قبول ھی نھیں کیا ھے، کیونکہ اسلام (صرف ایک ھی ھے) دو نھیں ھیں۔“


10۔ تشدد ، اسلامی سزائی قوانین میں محدود نھیں ھے
ایک مقالہ نگار نے اپنے مقالہ میںیہ بیان کیا کہ ” اسلام نے جن قوانین میں تشدد کو جائز قرار دیاھے وہ جزائی اور سزائی قوانین ھیں اور ھم بھی اس بات کو مانتے ھیں کہ اسلام نے فتنہ گروں اور تباہ کارو ں کے لئے جو سزائیں معین کی ھیں ان میں کم و بیش تشدد پائی جاتی ھے لیکن جس تشدد کے بارے میں ھماری بحث ھے اور ھم جس کو محکوم کرتے ھیں، وہ اسلام کے سزائی قوانین سے متعلق نھیں ھے اور اصولی طور پر سزائی قوانین ھماری تشدد کی بحث سے متعلق نھیں ھیں۔“
اور یہ لکھا کہ میں موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتا ھوں اور اسی بات کو کئی اخباروں نے سرخی بنایا کہ کیوں فلاں صاحب موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتے ھیں! لھٰذا ھم عرض کرتے ھیں کہ ھمارا موضوع معاشرہ میں ھونے والے ثقافتی کج روی ھے ، جیسا کہ اخباروں نے لکھا تھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قتل ھونا ؛ آپ کے جد (رسول اللہ (ص)) کی جنگ بدر میں تشدد کا عکس العمل تھا!!
ھم اس مقالہ نگار کی خدمت میں عرض کرتے ھیں کہ اے قاضی اور حقوقدان آپ ھمارے بارے میں لکھتے ھیں کہ فلاں صاحب موضوع سے ھٹ کر گفتگو کرتے ھیں ، لیکن کیا آپ کو معلوم ھے کہ جو بات حضرت امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بارے میں کھی گئی ھے اس میں کس تشدد کی بات ھے اور کس طرح کی تشدد کی نفی کی گئی ھے؟ ھم تو معاشرہ میں پیدا ھونے والی انھیں چیزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں ھم تشدد، آزادی اور میل جول جیسے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں، یھاں تک یہ بھی کھہ دیا گیا کہ ”جنگ بدر ایک تشدد تھی“ لھٰذا اسلام تشدد کادین ھے! لھٰذا ھم اپنے موضوع سے خارج نھیں ھوئے ھیں۔
ھوسکتا ھے کوئی شخص یہ کھے: ”ھم اس طرح کے ناجائز فائدہ اٹھانے والی فکر کو ردّ کرتے ھیں اور اسلام کو تشدد کا دین نھیں مانتے۔“ ھمارا اس سے کھنا یہ ھے کہ حکومتی قوانین ، سزائی قوانین اور وہ عدالت جس میں سزائی احکام بنائے جاتے ھیں ان تمام چیزوں سے صرف نظر کرتے ھوئے ؛کیا عوام الناس بھی تشدد کا برتاؤ کرسکتے ھیں، اور وارد میدان ھوسکتے ھیں اور کیا حکومتی اداروں سے ھٹ کر خود عوام الناس تشدد سے کام لے سکتی ھے؟ ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ تم لوگ اسلامی انقلاب کو تشدد سمجھتے ھو یا نھیں؟ جن لوگوں کو 17/ شھریور 1357ئہ شمسی اور اس کے بعد کے حادثات یاد ھیں وہ جانتے ھیں کہ ھمارے غیرت مند جوانوں اور بھارد قوم نے شاہ پھلوی کے خلاف کیا کیا اقدامات کئے تو کیا شاہ پھلوی کے خلاف مظاھرے اور اقدامات تشدد تھا، یا نھیں؟ کیا یہ کام صحیح تھے یا نھیں؟ اور کیا اسلام اس طرح کے اقدامات پر راضی ھے یا نھیں؟ اگر اسلام نے اس طرح کے اقدامات کو جائز قرار نھیں دیا ھے تو آپ کا یہ انقلاب غیر قانونی ھے، کیونکہ (آپ کے نظریہ کے مطابق تو) اسلام میں تشدد نھیںپائی جاتی اور اسلام تشدد آمیز اقدامات کو جائز ھی نھیں مانتا! اسی طرح وہ مقدس کارنامے جو مرحوم نواب صفوی اور فدائیان اسلام نے شاہ کی حکومت کے خلاف کئے ،( جن کے مھم کارناموں کی بنا پر ان کا نام ھمیشہ ھمارے ملک میں زندہ رھے گا، اور ھم ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ھیں، اور آج کل تھران اور دوسرے شھروں کی بھت سی سڑکوں کا نام انھیں حضرات کے ناموں پر ھے)تو کیا ان کے یہ اقدامات صحیح تھے یا نھیں؟ اسی طرح ”ھیئت موٴتلفہ اسلامی“ کے اعضاء ؛ یعنی شھید محمد بخارایی اور ان کے ساتھی جنھوں نے شاہ پھلوی کے جلاّد وزیر اعظم کو واصل جھنم کیا۔
ھوسکتا ھے کہ کوئی شخص یہ کھے کہ واقعاً اس طرح کے تشدد والے اقدامات نھیں کرنا چاھئے تھے ، بلکہ قانونی طور پر صلح و صفائی کی ایک پارٹی بنانا چاھئے تھی جس کے ذریعہ شاہ پھلوی کے سامنے اپنے مطالبات کو رکھا جاتا اور اس سے گفتگو کی جاتی“ لیکن کیا ان کی باتوں کو سنا جاتا اور وہ حساب شدہ باتوں کو سنتے تویہ لوگ اس طرح کے غیظ وغضب کے ساتھ قدم نہ اٹھاتے، جب انھوں نے دیکہ لیا کہ ان کی جائز باتیں اس طرح گفتگو کے ذریعہ نھیں سنی جاتی تب جاکے انھوں نے اس طرح کے اقدامات شروع کئے۔
ممکن ھے وہ قاضی صاحب فرمائیں: ھماری نظر میں وہ اقدامات محکوم او رمذموم ھیں ، ان کو چاھئے تھا کہ آرام و سکون اور مکمل حوصلہ کے ساتھ برتاؤ کرتے، اور اپنی مشکلات کو حل کرنے نیز اپنے مطالبات کوپورا کرانے کے سلسلہ میں کوشش کرتے!
ھم ان کی خدمت میں عرض کرتے ھیں کہ :
جب 18 تیر ماہ 1378ئہ شمسی اور اس کے بعد بعض فسادی اور بد معاش لوگوں نے بیت المال، عمومی اموال ، بینک، ذاتی اور سرکاری گاڑیوں یھاں تک کہ مسجدوں میں بھی آگ لگادی اور عورتوں کو بے آبرو کےا عورتوں کے سروں سے چادر چھین لیں اور اسلام کے خلاف نعرہ لگائے، تو کیا آپ نے ان لوگوں کے ساتھ پیار ومحبت اور ھنسی خوشی سے اپنی آغوش میں بٹھاکر ان کو خاموش کردیا ، یا یہ کام ھمارے ان بسیجیوں نے انجام دیا جو اپنے جان کو ھتھیلی پر رکہ کر آگے بڑھے اور تمام تر خطرات سے نپٹنے کے لئے میدان عمل میں وارد ھوئے اور ان کو کچل دیا،( بھت افسوس کے ساتھ یہ عرض کرتے ھیں کہ ان مظلوم بسیجیوں کے حق کو آج تک نھیں پھنچانا گیا اور اس کا شکریہ ادا نھیں کیا جاتا؛ جبکہ یہ جوان انقلاب اور اسلام کے دفاع کے لئے قربة الی اللہ حاضر ھوئے تھے اور خدا ھی ان کو بھترین اجر و ثواب عنایت کرے گا۔)
ممکن ھے وہ جناب کھیں: کہ ھم فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے سلسلہ میں بسیجیوں کے اقدامات کو محکوم کرتے ھیں ، اور ان کو اس طرح کا اقدام نھیں کرنا چاھئے تھا، کیونکہ ان کو لوگوں کو بھی یہ حق تھا کہ وہ اپنی بات کھیں اور اعتراض کریں وہ بھی آزاد ھیں جیسا کہ امریکائیوں کا کھنا ھے: جن لوگوں نے قیام کیا اور مظاھرے کئے اور مساجد میں آگ لگائی یہ آزادی خواہ تھے لھٰذا ان لوگوں کو یہ کھنے کاحق تھا کہ ھم آزادی چاھتے ھیں، اور دین نھیں چاھتے! (جیسا کہ ایک صاحب اپنی تقریر میںکھتے ھیں کہ لوگوں کو خدا کے خلاف مظاھرے کرنے کا بھی حق ھے۔ (
لیکن اگر وہ یہ کھیں : جب ان لوگوں نے دیکہ لیا کہ اگر خوش رفتاری سے اپنی بات کو علی الاعلان کھتے ھیں کہ ھمیں دین و اسلام نھیں چاھئے تو حکومت ان کی بات کو نہ مانتی؛ اسی وجہ سے یہ لوگ مجبور ھوگئے کہ ذاتی اور سرکاری عمارتوں اور مساجد میں آگ لگادیں اور اسلام کے خلاف نعرے لگائیں، تاکہ وہ کسی نتیجہ پر پھنچ پائیں؛ اوریہ لوگ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے، نہ کہ ان لوگوں کو کچلنے والے ۔
ھم اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرتے ھیں: آخر کار تم لوگ بھی تشدد اور شدت پسند ی کو مانتے ھو کیونکہ اس حادثہ کے سلسلہ میں دو باتوں میں سے کسی ایک کو تو ضرور قبول کروگے، یا فتنہ فساد برپا کرنے والوں اور مساجد میں آگ لگانے والوں کا اقدام صحیح تھا ؛ اس صورت میں تم خود تشدد کی تائید کر رھے ھو، چونکہ ان کا اقدام تشدد پر مبنی تھا، یا تم یہ کھوکہ بسیجی، عوام الناس اور پولیس کا رویہ صحیح تھا؛ تو اس صورت میں بھی تم نے تشدد کی تائید کی ، لھٰذا آپ بتائیں کہ کس تشدد کو جائز قرار دیتے ھو؟
ھم اس طرح کے لوگوں کی باتوں کو نھیںمانتے بلکہ ھمارے لئے معیار بانی انقلاب حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا کلام ھے ھم انھیں کے تابع ھیں ھم نے حکومتی اور ولایتی احکام انھیں سے سیکھے ھیں چنانچہ موصوف نے فرمایا:

” اگر ھمارے جوان اور حزب اللٰھی عوام الناس نے اس چیز کا مشاھدہ کیا کہ بعض تبلیغات، مقالات ، تقاریر، کتابوں اور جرائد میں اسلام اور حکومتی مصالح کے خلاف قدم اٹھایا جارھا ھے، تو ان کا وظیفہ ھے کہ وہ اس سلسلہ میں متعلقہ اداروں کو رپورٹ دیں اور ان اداروں کی ذمہ داری ھے کہ اس سلسلہ میں قدم اٹھائیں لیکن اگر متعلقہ اداروں نے کوتاھی کی اور قانونی طریقہ سے اس طرح کے انحرافات اور فاسد تبلیغات کا سد باب نہ کیا تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نھیں ھے کہ ھمارے دیندار جوان میدان عمل میں گود پڑیں اور ھر مسلمان پر واجب ھے کہ اس سلسلہ میں اپنا قدم آگے بڑھائے۔“(10)
تمام لوگ اس بات کے گواہ ھیں کہ جس مرتد سلمان رشدی نے ”شیطانی آیات“ نامی کتاب لکھی جس میں قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (ص) کی توھین کی گئی، توحضرت امام خمینی (رہ) نے اس کے قتل کا فتویٰ صادر کردیا،” اور ھر مسلمان پر واجب قرار دیدیا کہ اگر کوئی سلمان رشدی کو قتل کرسکتا ھے تو اس پر قتل کرنا واجب ھے“ اور یہ فتویٰ صرف امام خمینی (رہ) ھی کا نھیں تھا بلکہ تمام اسلامی فقھاء نے اسی طرح کا فتویٰ دیا اور تمام اسلامی ملکوں نے اس فتویٰ کی تائید کی اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا امام خمینی (رہ) کا یہ فتویٰ تشدد پر مبنی نھیں تھا؟ (کیوں نھیں) لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے بھی اس شخص کے بارے میں تشدد کا رویہ اختیار کیا جس نے ضروریات دین اور اسلامی مسلم اصول کی توھین کی اور اسلامی مقدسات کو حرمت کو پامال کرنا چاھا ، امام خمینی (رہ) نے اس طرح کی تشدد کو جائز قرار دیا بلکہ ضروری سمجھا اور ایسے شخص کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا۔
11۔ ھر موقع پر علمی شبھات اور اعتراضات کا جواب دیا جائے (اسلامی نظر یہ)
لیکن اگر کوئی شخص سازش یا کسی نقصان پھنچانے کا قصد نہ رکھتا ھو اور دین، ضروریات دین اوراحکام اسلام کے بارے میں کوئی شبہ یا اعتراض اس کے ذھن میں ھو تو وہ اس کو بیان کرسکتا ھے، بھر پور ادب و احترام کے ساتھ اس کی باتوں کو سنا جائے گا اور منطق و استدلال کے ساتھ اس کو جواب دیا جائے گا، کیونکہ دین اسلام دین منطق ھے ، اس کی بنیاد استدلال اور برھان پر قائم ھے، اور جب مسلمانوں اور علماء اسلام سے جب بھی کسی نے کسی اعتراض کا جواب طلب کیا ھے تو انھوں صبر و بردباری اورکشادہ دلی کے ساتھ بھترین دلائل پر مبنی عقلی اور شرعی جوابات پیش کئے ھیں اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا ھے اسی وجہ سے قرآن مجید کا حکم ھے کہ اگر کوئی شخص اگرچہ میدان جنگ میں دشمن کا سپاھی کیوں نہ ھو؛ سفید پرچم کو اٹھائے ھوئے اسلام کی حقانیت کے بارے میں تحقیق وجستحو کرنے کے لئےمسلمانوں کے پاس آئے اور اپنے سوالات کا جواب تلاش کرے، تواس وقت مسلمانوں کو چاھئے کی اس کو تحفظ دیں حفاظت کریں اور اس کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پھنچائیں، آرام وسکون اور پیار محبت سے اس کی باتوں کو سنیں،اور اسلام کی حقانیت اور بر حق ھونے کو دلیل اور برھان کے ذریعہ ثابت کریں؛ اس کے بعد اس کو تمام تر حفاظت کے ساتھ دشمن کے لشکر میں واپس کردیں۔
خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
( وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْہ حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ اٴَبْلِغْہ مَاٴْمَنَہ ذَلِکَ بِاٴَنَّھمْ قَوْمٌ لاَیَعْلَمُونَ ) (11)
” اور اگر مشرکین میں کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ کتاب خدا سنے اس کے بعد اسے آزاد کرکے جھاں اس کی پناہ گاہ ھو وھاں تک پھونچا دو اور یہ مراعات اس لئے ھے کہ یہ جاھل قوم حقائق سے آشنا نھیں ھے۔ “
قرآن کا حکم ھے کہ اگر کوئی شخص اسلام کی حقانیت کے بارے میں سوال اور تحقیق کے لئے آتا ھے، لیکن تحقیق کے بعد بھی مسلمان نہ ھو تو اس کو مکمل حفاظت کے ساتھ اس امن کی جگہ پھونچادو اور کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ اس کو کسی طرح کا کوئی گزند پھونچائے؛ کیونکہ وہ اپنے سوالات کا جواب لینے کے لئے آیا تھا لھٰذا اس کی حفاظت ضروری ھے، اس کے سوالات کا جواب دیدیا گیا ھے۔
قارئین کرام! اب ھم سوال کرتے ھیں کہ دنیا کے کس گوشہ اور کس مذھب میں اسلام کی طرح اس بلندترین برتاؤ پر زور دیا گیا ھے؟
لیکن اگر کوئی شخص عناد و دشمنی اور سازش کے تحت ، نظام اسلام کو نقصان پھنچانے کے لئے کوئی شبہ یا اعتراض کرتا ھے اور مسلمانوں کے عقائد، اصول اور اسلامی اقدار میں شک و تردید ایجاد کرنا چاھتا ھے تو پھر اس کا مقابلہ کرنا ضروری ھے ، اور اس شخص کا مسئلہ اس مسئلہ سے الگ ھے جو اپنے سوالات کا جواب چاھتاھو اور اس کے دل میں اسلام کو نقصان پھنچانے کا کوئی ارادہ نھیں ھو۔
12۔ دشمن کی سازشوں سے مقابلہ کی ضرورت
ھمیں ثقافتی امور میں وسیع پیمانے پراسلامی اصول اور عقائد کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے مقابلہ میں خاموش نھیں رھنا چاھئے ، اوراسیی طرح ان لوگوں کے سامنے جو اندرون ملک زر خرید قلم کے ذریعہ اسلام کو نقصان پھنچانے کے درپے ھیں؛ خاموش بیٹھے تماشا نھیں دیکھنا چاھئے واقعاً ان لوگوں نے سازش کا پروگرام بنا رکھا ھے جبکہ بعض لوگ اس کو ثقافتی ردّ وبدل کا عنوان دیتے ھیں،اور اخباروں میں لکھتے ھیں کہ کسی طرح کی کوئی سازش نھیں ھے ، اور سازشوں کے دعویٰ کو خیال خام قرار دیتے ھیں ، لیکن کچھ مدت پھلے ھوئے حادثہ نے ان سازشوں سے پردہ اٹھادیا ۔
وہ سب اسلامی نظام کے خلاف مظاھرے اور عمومی اور سرکاری اموال پر حملہ اور فتنہ وفساد؛ یہ سب اسی بات کی عکاسی کرتے ھیں کہ واقعاً اسلامی نظام کے خلاف ایک بھت بڑی سازش تھی، جیسا کہ مقام معظم رھبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی)نے بھی بیان فرمایا کہ اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے اسلامی نظام کے خلاف سازش تھی اور اسی حقیقت کے پیش نظر جب فتنہ گروں کو اپنے جگہ بٹھادیا گیا اور فتنہ کی لگائی ھوئی اس آگ کو فدا کار بسیجیوںنے بجھادیا تو اس وقت ان کی حمایت اور اسلامی نظام کی محکومیت میں دنیا میں شور ھونے لگا یھاں تک کہ خود امریکہ کے ممبر آف پارلیمنٹ نے یہ نعرہ لگایا کہ اسلامی جمھوری ایران کو محکوم ھونا چاھئے اور اس کے خلاف قوانین بنائیں جائیں؛ کیونکہ اسلامی حکومت نے بیرونی زر خرید نوکروں کو فتنہ وفساد پھیلانے کی اجازت نھیں دی!!
دنیا بھر میں ھر روز ھڑتال ، مظاھرے اور توڑ پھوڑ ھوتی رھتی ھے اور بھت سے لوگ قتل اور زخمی ھوتے رھتے ھیں ھم ھر روز یہ دیکھتے ھیں کہ صھیونیزم بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کا خون بھاتے ھیں جو صرف اپنے پامال شدہ حقوق کا مطالبہ کر رھے ھیں، یھاں تک کہ امریکہ سے وابستہ حکومتوں کے ذریعہ سینکڑوں لوگوں کا قتل ھوتا ھے لیکن کوئی کچھ نھیں کھتا ، کھیں سے یہ آواز نھیں اٹھتی کہ یہ حقوق بشر کی پامالی ھے، یا ان لوگوں کا کچلنا آزادی کے خلاف ھے بلکہ اس حکومت کی حمایت کی جاتی ھے اور کھتے ھیں کہ یہ قانونی حکومت کے خلاف قیام تھا اور حکومت کو بھی اپنے دفاع کا حق ھے لیکن جب ایران کی کسی یونیورسٹی میں مشکوک طریقہ سے کسی کا قتل ھوجاتا ھے جس کا قاتل بھی ابھی تک پتہ نہ چل سکا (اگر چہ یہ بھی دشمن کے زر خرید نوکروں اور فساد پھیلانے والوں کا کام ھے) یا کسی شخص کی کسی حادثہ میں موت ھوجاتی ھے ، اسی طرح جب فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے ذریعہ مساجد میں آگ لگائی جاتی ھے، ناموس پر حملہ کیا جاتا ھے ، اور بسیجی ان کا مقابلہ کرتے ھیں ؛ تو اس وقت مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں ھمارے ملک کے خلاف ھنگامہ ھوتا ھے، اور ھماری حکومت کو محکوم کیا جاتا ھے، اور ھمارے ملک کو آزادی اور ڈیموکریسی کا مخالف قرار دیا جاتا ھے دعویٰ یہ کیا جاتا ھے کہ مظاھرہ کرنے والے اپنے حقوق اور آزادی کے خواھاں تھے، لیکن ایرانی حکومت نے ان کو کچل دیا ، جس کے نتیجے میں ایرانی حکومت کو محکوم کرنے کے علاوہ کوشش یہ ھوتی ھے کہ اسلامی جمھوری ایران سے مقابلہ کے لئے قوانین بنائے جائیں!
13۔ دشمنان اسلام سے مقابلہ اور اعلان برائت ضروری ھے (قرآن کریم)
قارئین کرام ! نتیجہ یہ ھوا کہ جس خدا کی پھچان قرآن کریم نے فرمائی ھے وہ خدا صاحب رحمت بھی ھے اور صاحب غضب بھی، اگرچہ اس کی رحمت اس کے غضب سے کھیں زیادہ ھے، اور اس کے غضب سے آگے آگے رھتی ھے ، اور یہ کہ خدا کی رحمت اس کے غضب کی نفی نھیں کرتی، جیسا کہ خداوندعالم نے گناھوں پر اصرار کرنے والی بعض گذشتہ اقوام پر اپنا غیظ وغضب کا مظاھر ہ کیا، اور ان پر اپنا عذاب نازل کیا ھے۔
دوسرے یہ کہ اسلام نے ؛ اپنے سے دشمنی اور عداوت رکھنے والوں کے لئے سخت سے سخت قوانین مرتب کئے ھیں اور مسلمانوں کو حکم دیا ھے کہ اسلام دشمن افراد سے واضح طور پر برائت اور نفرت کا اعلان کریں۔
اس سلسلہ میں آپ حضرات سورہ ممتحنہ کی تلاوت کریں جس میں کفار اور مشرکین سے مسلمانوں کے طور طریقہ کو بیان کیا گیا ھے اور جو لوگ دشمنان خدا سے دوستی کا نقشہ پیش کرتے ھیں ان کی سخت مذمت کی گئی ھے ، نیز خداوندعالم دشمنان اسلام سے مخفی طور پر دوستی کرنے سے ڈراتا ھے۔ اس سورہ مبارکہ میں خداوندعالم مسلمانوں کو حکم دیتاھے کہ ابراھیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب سے پند حاصل کریں اور دشمنان خدا کے مقابلہ میں ان کے رویہ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں، نہ یہ کہ جو لوگ اسلام اور مسلمین کی نابودی کے لئے ظاھری اور مخفی طریقہ سے فعالیت کرتے ھیں؛ ان کے سامنے بیٹھے مسکراتے رھیں!
چنانچہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اٴَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْھمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَائَکُمْ مِنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ اٴَنْ تُؤْمِنُوا بِاللهِ رَبِّکُمْ إِنْ کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِھادًا فِی سَبِیلِی وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِی تُسِرُّونَ إِلَیْھمْ بِالْمَوَدَّةِ وَاٴَنَا اٴَعْلَمُ بِمَا اٴَخْفَیْتُمْ وَمَا اٴَعْلَنْتُمْ وَمَنْ یَفْعَلْہ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیل ) (12)
” ایمان والوں خبر دار ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انھوں نے اس حق کا انکار کردیا ھے جو تمھارے پاس آچکا ھے اور وہ رسول کو او رتم کو صرف اس بات پر نکال رھے ھیں کہ تم اپنے پروردگار (اللھ) پر ایمان رکھتے ھو، اگر واقعاً ھماری راہ میں جھاد اور ھماری مرضی کی تلاش میں گھر سے نکلے ھو تو ان سے خفیہ دوستی کس طرح کر رھے ھو؟ جب کہ میں تمھارے ظاھر و باطن سب کو جانتا ھوں، اور جو بھی تم میں سے ایسا اقدام کرے گا وہ یقینا سیدھے راستہ سے بھک گیا ھے۔“
( قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إِبْرَاھیمَ وَالَّذِینَ مَعَہ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِھمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِکَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ اٴَبَدًا حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللهِ وَحْدَہ)(13)
” تمھارے لئے بھترین نمونھٴ عمل ابراھیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی ھے جب انھوں نے اپنے قوم سے کھہ دیا کہ ھم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بےزار ھیں ھم نے تمھارا انکار کردیا ھے اور ھمارے تمھارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ھے یھاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ “
ھم سے کھا جاتا ھے کہ زندگی کی باتیں کیجئے اور ”امریکہ مردہ باد“ کے نعروں کو چھوڑئیے، جی نھیں، ”امریکہ مردہ باد“ کے نعرے پورے زور وشور سے لگائے جائیں گے ، اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرح ان سے یہ بات واضح طور پر کھہ دی جائے کہ جب تک حق کے سامنے سر تسلیم نہ کروگے، خدا کے سامنے اپنا سر نہ جھکائیں اور دوسروں پر اپنی حکومت جتانا نھیں چھوڑتے اور استکبارکی حالت سے اپنے کو نھیں نکالتے اور اپنے اپنائے ھوئے راستہ کو نھیں بدلتے،دنیا بھر کے لوگوں کے منافع کو پامال کرنا نھیںچھوڑتے اور آزاد ملتوںپر ستم کرنا ترک نھیں کرتے، ھم تمھارے دشمن ھیں۔
حالانکہ ان لوگوں نے ھمارے اور دوسرے اسلامی ملکوں کے منافع کو غارت کیا اور بھت زیادہ نقصانات پھنچائے، ھماری عزت و آبرو کو پامال کیااور ھمارے بھت سے رشتہ داروں کا خون بھایا، ھم بھلا کس طرح ان سے دوستی اور محبت کا مظاھرہ کریں؟ کیا دنیا بھر میں سیکڑوں بار کا تجربہ ھمارے لئے کافی نھیں ھے کہ ھم یہ سمجھ لیں کہ ان کے اندر مفاد پرستی اور استکبار کے علاوہ کچھ نھیں ھے، ھم پھر ان کے مکر وفریب کے جال میں پھنس جائیں؟!
قارئین کرام! قرآن مجید نے ھمیں یہ حکم دیا ھے کہ خدا ورسول اور اسلام کے دشمنوںکے سامنے واضح طور پر برائت اور دشمنی کا اظھار کریں اور اگر ھم اسی اسلام اور قرآن کے ماننے والے ھیں جو کروڑوں کی تعداد میں ھر مسلمان کے پاس موجود ھے اور دشمنان خدا سے برائت پر زور دیتا ھے، اور یہ برائت اور دشمنی کا اعلان صرف جزائی (سزائی) قوانین کے تحت نھیں ھے بلکہ اس سے بھی آگے ھے؛ تو پھر یہ کس طرح کھا جاسکتا ھے کہ سب کے سامنے بیٹھے مسکراتے رھیں اور سب کے ساتھ مھربان رھیں؟
حوالے:
(1)وصیت نامہ سیاسی الٰھی امام خمینی (رہ) ، بند دوم .
(2)سورہ آل عمران آیت4 .
(3)سورہ سجدہ آیت22 .
(4) سورہ بقرہ آیت90 .
(5) سورہ انعام آیت 12. 
(6( سورہ توبہ آیت12 .
(7( سورہ توبہ آیت73،سورہ تحریم آیت نمبر 9 .
(8)سورہ توبہ آیت123 .
(9 ) سورہ انفال آیت60 .
(10( وصیت نامہ حضرت امام خمینی (رہ)، بند دوم .
(11)سورہ توبہ آیت6 .
(12) سورہ ممتحنہ آیت نمبر 1 .
(13) سورہ ممتحنہ آیت نمبر 4 . 

Add comment


Security code
Refresh