www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

چھتّیسواں جلسہ
1۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
قارئین کرام! اس سے پھلے جلسہ میں ھم نے عرض کیا کہ انسانی عقل و وجدان ”باید ھا اور نباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) انسان کے لئے معین کرتی ھے اور بھت کاموں کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ھیں کہ کیا کام نھیں کرنا چاھئے اور کیا کام نہ کرنا چاھئے جس کے نتیجہ میں انسان کی آزادی محدود ھوکر رہ جاتی ھے؛ لیکن چونکہ آزادی کی محدویت انسان کی اندرونی طاقت کے ذریعہ ھوتی ھے

 لھٰذا اس کی آزادی سلب ھونے کا سبب نھیں بنتا اور کسی نے یہ دعویٰ نھیں کیا ھے کہ انسانی عقل کی نصیحتوں سے اس کی آزادی سلب ھوجاتی ھے انسانی عقل اور وجدان کی اندرونی نصیحتوں کی طرح مسلمانوں کے لئے خداوندعالم کے اوامر اور احکام ھوتے ھیں جو خدا اور رسول کے ذریعہ صادر ھوتے ھیں جس طرح ھماری عقل کسی کام کو انجام دینے کا حکم کرتی ھے اسی طرح خداوندعالم نے بھی ھمارے لئے کچھ وظائف قرار دئے ھیں وہ وظائف جو واقعی مصالح (و فوائد)کی بنا پر صادر ھوتے ھیں چونکہ خداوندعالم ان کے بارے میں لامحدود علم رکھتا ھے اور ان کا سمجھنا ھماری عقل سے بالاتر ھے۔
گویا یھاں پر اندرونی عقل متصل کے علاوہ خداوندعالم عقل منفصل اور بے نھایت ؛ انسان کے کامل مصالح اور اس کے خطرات سے مکمل طور سے معین کرتا ھے اسی وجہ سے ھم سے یہ چاھتا ھے کہ فلاں کام کو انجام دیں کیونکہ یہ کام ھمارے حق میں ھے اور فلاں کام کو انجام نہ دیں چونکہ ھمارے لئے باعث ضرر ھے۔
انسانی آزادی کی یہ محدودیت جو خدا اور بندے کے درمیان موجود رابطہ کی بنا پر پیدا ھوتا ھے سیاسی یا حقوقی فلسفہ سے متعلق نھیں ھے اور سیاسی لحاظ سے بھی مشکل ساز نھیں ھے کیونکہ خدا پر ایمان رکھنے والے افراد اپنے عقیدہ کی بنا پر اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ کچھ کاموں کو انجام دیا جائے اور کچھ کاموں سے پرھیز کیا جائے، اور یہ لازمی عقیدہ اور کار کردگی معاشرہ سے متعلق نھیں ھے بلکہ انسان کے خدا سے رابطہ کی بنا پر ھے جیسا کہ انسان اپنی عقل سے رابطہ رکھتا ھے۔
2۔ حکومت کی ضرورت اور انسان کی اجتماعی زندگی کا عکس العمل
قارئین کرام ! یھاں پر بحث یہ ھے کہ بھت سے کام خود انسان کے ذات اور اس کی دنیا و آخرت سے متعلق نھیں ھوتے بلکہ دوسروں کے لئے بھی موٴثر ھوتے ھیں اور ان کا فائدہ یا نقصان عوام الناس اور معاشرہ تک بھی پھونچتا ھے چنانچہ اس موقع پر دنیا بھر کے دانشور حضرات معتقد ھوجاتے ھیں کہ ایک ایسے نظام کا ھونا ضروری ھے جو معاشرہ کے لئے نقصان دہ چیزوں کی روک تھام کرسکے اور جو لوگ خلاف ورزی کریں ان کو سزائے اعمال تک پھونچائے۔
لھٰذا حکومت کی ضرورت اور یہ کہ ھمیں ایک طاقت کی ضرورت ھے جو معاشرہ کے نقصان کو روک سکے ، سماج کا نقصان نہ ھو اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا مل سکے، اسی وجہ سے حکومت کی ضرورت ھوتی ھے اسی بنا پر ”انارشیسٹ“ "Anarchiste" (فساد طلب) کے علاوہ دنیا بھر کے تمام صاحب علم سیاست اور حقوق کے رکھوالے حکومت کو ضروری سمجھتے ھیں؛ لیکن اخلاقی اقدار اور وہ اچھائیاں اور برائیاں جن کو خود انسانی عقل اپنی ذاتی زندگی میں معین کرتی ھے ان کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نھیں ھے۔
یھاں پر ایک دوسری بحث یہ ھوتی ھے کہ عقل انسانی انفرادی ، ذاتی اور معنوی مسائل کے علاوہ آزادی کے ایک حصے کو محدود کرتی ھے توکیا حکومت بھی انسان کی آزادی کو محدود کرسکتی ھے؟
تو اس کا جواب یہ ھے کہ اجتماعی زندگی کے لحاظ سے حکومت کی خصوصیت اور اس کا تقاضا ھی آزادی کو محدود کرنا ھے، کیونکہ اگر کوئی حکومت کی ضرورت کو مانتا ھو لیکن آزادی کو محدود کرنے کو قبول نہ کرتا ھو تو اس کی بات تناقض گوئی پر مشتمل ھے حکومت قوانین اور مقررات مرتب کرتی ھے اور بعض کاموں کو جائز اور بعض کاموں کو ممنوع قرار دیتی ھے اور اگر کوئی ان کی خلاف ورزی کرے تو بعض کو مالی جرمانہ بعض کو زندان اور بعض کو دوسرے طریقوں سے سزائیں دیتی ھے۔
یھاں تک کہ بعض حکومتوں میں مثلاً اسلامی حکومت میں جسمانی سزائیں جیسے سزائے موت بھی قرار دی گئی ھے لھٰذا اس مقدمہ کو قبول کرنا ضروری ھے کہ بنیادی طور پر حکومت کا وجود اجتماعی آزادی کو محدود کرنے کے لئے ھی ھوتا ھے اور آزادی کے محدود نہ ھونے کا مطلب حکومت کا نہ ھونا ھے ھمیں یہ قبول کرنا چاھئے کہ اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت ھے یعنی یہ قبول کریں کہ انسان کی سیاسی اور اجتماعی آزادی محدود ھو، یا یہ قبول کریں کہ انسانی اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت نھیں ھے اور کسی کو دوسروں پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کا بھی حق نھیں ھے؛ جس کے نتیجہ میں عوام الناس سیاسی اور اجتماعی مسائل میں مطلق آزادی سے بھرہ مند ھوسکیں۔
قارئین کرام ! ھماری گذشتہ گفتگو کے پیش نظر یہ بات روشن ھوجاتی ھے کہ جو لوگ یہ نعرہ لگاتے ھیں کہ ”آزادی حکومت اور قانون سے بالاتر ھے“ صرف ایک مغالطہ ھے حکومت کو چاھئے کہ آزادی کو محدود کرے اور اگر کوئی اس بات کاقائل ھوجائے کہ کوئی بھی حکومت انسانوں کی سیاسی اور اجتماعی آزادی کو محدود نھیں کرسکتی۔؛ تو اس کا مطلب یہ ھے کہ حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے ، اور حکومت بے کار، نامشروع اور غیر قانونی اور طاقت کے بل بوتے پر ھے۔
3۔ حکومت کی مشروعیت کے منشاء کی طرف ایک اشارہاور ڈیموکریسی پر اشکالات
قارئین کرام ! اب جبکہ ھم نے یہ قبول کرلیا ھے کہ معاشرہ میں ایک قانونی اور مشروع حکومت کا وجود ضروری ھے جس سے سیاسی اور اجتماعی آزادی محدود ھوجائے، اس کے بعد ایک اساسی اور بنیادی مسئلہ ھمارے سامنے ھے: اول یہ کہ حکومت کس وجہ سے قانونی اور مشروعیت پیدا کرتی ھے اور حکومت کس حق کی بنا پر آزادی کو محدود کرتی ھے؟ دوسرے یہ کہ حکومت کس حد تک آزادی کو محدود کرسکتی ھے؟
گذشتہ بحث میں یہ بات واضح اور روشن ھوچکی ھے کہ ھمارے عقیدہ کی بنا پر اسلامی سیاسی نظریہ کے علاوہ حکومت کے لئے کوئی قابل قبول اور عقل پسند دلیل نھیں ھے کیونکہ اگر ھم یہ کھیں کہ حکومت کے زیر سایہ عوام الناس خود اپنی آزادی کو محدود کرتے ھیں البتہ اس چیز سے قطع نظر کہ اگر کوئی چاھے تو اپنی آزادی پر کنٹرول کرسکتا ھے اور پھر اس صورت میں حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے تاکہ اس کی آزادی کنٹرول کی جاسکے،یہ نظریہ تناقض گوئی پر مشتمل ھے؛ کیونکہ جو شخص آزاد رھنا چاھتا ھے وہ کبھی بھی اپنی آزادی کو محدود کرنا نھیں چاھتا۔

سب سے آخری اور بھترین نظریہ جو دنیا بھر میںحکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے بارے میں بیان کیا جاتاھے اور دنیا بھر کے لوگ اس نظریہ کو قبول (بھی) کرتے ھیں یہ ھے کہ عوام الناس اپنے بعض حقوق حکومت کے حوالے کردیتے ھیں یعنی یہ انسان جو اپنی زندگی کا حاکم ھے اور اپنی زندگی کے لئے (مخصوص) قوانین بنا سکتا ھے اور اپنی آزادی کو محدود کرسکتا ھے، لیکن اپنے اس حق کو حکومت کے حوالے کردیتا ھے تاکہ اس کی اجتماعی زندگی کے لئے (بھترین) قوانین بنائے اور ان کو نافذ کرے یہ حکومت کو حاکمیت کا حق حوالے کرنا آج کل کی دنیا میں ڈیموکریسی کے نام سے مشھور و معروف ھے۔
قارئین کرام ! آج کل کی ڈیموکریسی تھیوری پر بھت سے اشکالات وارد ھوتے ھیں ، ھم ان میں سے صرف تین اشکالات پر اکتفاء کرتے ھیں:
پھلا اشکال:
کیا انسان کو اپنے اندر ھر طرح کا تصرف کرنے، اپنی آزادی کو محدود کرنے اور اپنے پر دباؤ ڈالنے کا حق ھے؟ یعنی کیا انسان کو حق ھے کہ خود اپنے کو سزا دے؟ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ دنیا بھر میں آج کل کی تمام حکومتیں خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا معین کرتی ھیں اور بعض جرائم کے لئے قید با مشقت قرار دیتی ھے اور بعض جرائم کے لئے جسمانی سزا، شکنجہ اور سزائے موت قرار دیتی ھے تو کیا انسان کو خود کُشی کا حق ھے کہ جس کے نتیجہ میںاپنے لئے سولی کا حکم حکومت کے حوالے کردے؟ اگر انسان خود کُشی کا حق رکھتا ھو تو وہ دوسرے کو اس طرح کے قانون بنانے کا حق دے سکتا ھے کہ اگراس نے بعض ایسے جرائم کو انجام دیا جن کی سزا سولی ھو اور حکومت اس کے حق میں جاری کرسکے بے شک انسان خود کُشی کا حق نھیں رکھتا کیونکہ انسان کو اپنی جان کا اختیار نھیں ھے تاکہ جب بھی چاھے ختم کردے، انسان کی جان خداوندعالم کی طرف سے ھے، اور کسی کو اپنی جان کو نقصان پھونچانے کا حق حاصل نھیں ھے حد تو یہ ھے کہ اسلامی نظریہ کے مطابق انسان اپنے بدن کو نقصان بھی نھیں پھونچا سکتا کسی شخص کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے بدن کو زخمی کرلے مثلاً اپنے ھاتہ یا انگلی کو کاٹ لے کیونکہ انسان کا بدن خداسے متعلق ھے اور انسان اس کا مالک اور صاحب اختیار نھیں ھے اس صورت میں کس طرح انسان حکومت کو سزائی اور فوجداری قوانین بنانے کا حق دے سکتا ھے اور حکومت کو مجرموں کو سزا دینے کی اجازت دے اور چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں اور بعض مجرموں کو سزائے موت دیدی جائے؟
دوسرا اشکال:
فرض کرلیں کہ انسان اپنی جان اور بدن میں ھر طرح کا تصرف کرسکتا ھے اور اپنے بدن کو نقصان اور ضرر پھونچاسکتا ھے اور اپنی زندگی کو ختم کرسکتا ھے اور اس صورت میں اپنا یہ حق حکومت کے حوالے کردیتا ھے در حقیقت جو شخص پارلیمنٹ کو ووٹ دیتا ھے گویا قانون گذاری کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کو اپنا وکیل بنادیتا ھے کہ اس کی اجتماعی زندگی کے لئے قوانین اور مقررات بنائے جن میں سے حقوقی اور سزائے قوانین (بھی) ھیں؛ اسی طرح حکومت کو بھی اپنا وکیل بناتا ھے کہ اس پر قوانین نافذ کرے لیکن اس صورت میں صرف حکومت کو اپنے اوپر تصرف کا حق دیتا ھے، لیکن یہ حق نھیں دیتا کہ حکومت دوسروں پر بھی تصرف کرے اور ان کے حقوق اور ان کی آزادی کو سلب کرے بالفرض اگر انسان اپنے کو سزا دینے کاحق رکھتا ھو اور یہ حق حکومت کو دیدے کہ اگر اس نے خلاف ورزی کی تو اس کو سزا دے، تو اس صورت میں (بھی) صرف اپنا وکیل بنا سکتا ھے کہ اس کی طرف سے تصمیم گیری کرے اور اس پر عمل کرے لیکن دوسرووں کو سزا دینے کا حق (اسے نھیں ھے تاکہ یہ حق) حکومت کے حوالے کردے۔
ڈیموکریسی نظریہ کی رائج اصطلاح کا مطلب یہ ھے کہ عوام الناس حکومت کو وکالت دیتے ھیں اور اس کو اپنا وکیل اور نمائندہ قرار دیتی ھیں تاکہ وہ مختلف قوانین بنائے اور ان کو جاری کرے آج دنیا بھر میں رائج ڈیموکریسی حکومت اگر اکثریت سے جیت جائے یعنی 51% یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کرلے تو پھر اسے حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ پورے معاشرہ کے لئے منجملہ ان لوگوں کے لئے (بھی) جنھوں نے حکومت کو ووٹ نھیں دیا ھے؛ قوانین بنائے اور ان کو لاگو کرے در حقیقت جب آدھے لوگوں نے نہ کہ سب نے حکومت کو ووٹ دئے ھیں صرف وھی لوگ حکومتی قوانین کو قانونی مانیں گے اور معاشرہ کے وھی لوگ ان قوانین کے سامنے اپنا سر تسلیم کریں گے لیکن یھاں پر ایک اھم سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ تقریباً آدھے لوگوں نے حکومت کو ووٹ ھی نھیں دیا اور حکومت کو اپنا وکیل ھی قرار نھیں دیا کہ ان کی طرف سے قوانین بنائے اور ان کو جاری کرے، تو پھر اس صورت میں حکومت کو کیا حق حاصل ھے کہ وہ ان کی اجتماعی زندگی کے لئے قوانین بنائے ، اور کس وجہ سے وہ ان پر حکم چلائے؟ اور اگر انھوں نے خلاف ورزی کی ھو تو ان کو سزائے اعمالتک پھونچائے؟ لھٰذا طے یہ ھوا کہ حکومت کے لئے اپنے مخالفین اور جن لوگوں نے اس کو ووٹ نھیں دیا ھے ؛ ان پر حکومت کرنے، اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے کوئی (بھی) عقل پسند راستہ موجود نھیں ھے۔

Add comment


Security code
Refresh