www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت عبد المطلب کے عہد میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک واقعہ ”عام الفیل“تھا اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کے حکمران ابرھہ نے اس ملک پر اپنا تسلط برقرار کرنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ اس کی حکومت کے گرد و نواح میں آباد عرب کی خاص توجہ کعبہ پر مرکوز ہے اور وہ ہر سال کثیر تعداد میں اس کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔

جس وقت بنی ہاشم اور بنی مطلب شعب ابو طالب میں محصور تھے اس وقت یثرب سے ”اسعد ابن زرارہ اور ذکوان ابن عبد القیس“ قبیلہ خزرج کا نمائندہ بن کر مکہ میں اپنے حلیف ”عقبہ ابن ربیعہ“ کے پاس آئے اور قبیلہ اوس سے جنگ کے سلسلے میں مدد چاہی۔

حبشہ کی طرف ہجرت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہونچنے سے لوگوں کو روکنا۔
گرد و نواح سے وہ لوگ جن کے دلوں میں دین اسلام کی محبت پیدا ھوگئی تھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرنے کی خاطر مکہ آتے مگر مشرکین انھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پھونچنے سے منع کرتے تاکہ دین اسلام کے اثر و نفوذ کو روک سکیں، وہ ھر حیلے اور بھانے سے انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ دین اسلام قبول نہ کریں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے الگ رہیں۔ یہاں بطور مثال ایک واقعہ پیش کیا جاتا ہے:

راہب کی اس روایت کو اگر صحیح تسلیم کر لیا جائے تو یہ تاریخ کا بہت معمولی واقعہ ہے لیکن بعض بد نیت مستشرقین نے اپنے ذاتی مفاد کے تحت اسے دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا اس پر اصرار ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اس غیر معمولی ذہانت کی بنا پر جو آپ کی ذات گرامی میں موجود تھی اس سفر کے دوران بحیرا عیسائی

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی خبر جیسے ہی مکہ کی فضا میں گونجی ویسے ہی قریش کے اعتراضات شروع ہوگئے، چنانچہ جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے اور ان کے خس و خاشاک جیسے دینی عقائد اور مادی مفاد کے لئے خطرہ ہے تو انہوں نے آپ کے پیش کردہ آسمانی دین و آئین کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی ہم یہاں ان کی بعض وحشیانہ حرکات کا ذکر کر رہے ہیں: