www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اڑتیسواں جلسہ
۱۔ تحریک مشروطیت اور مغربی کلچر کا رواج
قارئین کرام! ھم نے ”اسلامی سیاسی نظریات“ کی بحث کے دوران بعض ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا جو مغربی ثقافت کے نفوذ کی وجہ سے ھمارے ملک میں پیدا ھوگئی ھیں، اور ھم نے ان اسباب کی طرف بھی اشارہ کیا جن کی وجہ سے یہ مشکلات پیدا ھوئی ھیں تاکہ ھمارے برادران خصوصاً جوانانِ عزیز اور آئندہ انقلاب کے وارث ان مشکلات میں گرفتار نہ ھوں منجملہ ان مشکلات کے جس کو گذشتہ بحث میں بیان کیا آزادی اور ڈیموکریسی کی بحث تھی۔

”تحریک مشروطیت“(۱) کے آغاز سے اس وقت تک ھمارے رابطہ مغربی کلچر سے زیادہ ھوتا گیا ھے، فرامانسون "Francmaconne" (۲) اور مغرب پرست (مغربی کلچر سے متاثر افراد) نے مغربی ممالک میں رائج مختلف کلچر کو اپناتے ھوئے ان کو اسلامی معاشرہ میں رائج کرنا شروع کردیا اگرچہ مختلف وجوھات کی بنا پر بعض چیزوں (جیسے آزادی اور ڈیموکریسی) کے رائج ھونے کا راستہ فراھم تھا، کیونکہ شاہ کے ظلم وستم سے ھمارا معاشرہ پریشان ھوچکا تھا، لھٰذا آزادی کی آواز پر فوراً لبیک کھا اور جب بھی کسی نے آزادی کا نعرہ لگایا اس کا بھت زیادہ استقبال ھوا، جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ اس طرح کے نعرے سب کی زبان پر آنے لگے، اور آزادی اور آزادی خواھی کے بھت زیادہ طرفدار بن گئے البتہ اسلامی اقدار کے مخالف ان قید و بند اور ظلم و ستم سے عوام الناس آزادی چاھتے تھے لیکن مغربی تمدن سے متاثر حضرات نے آزدای کا دوسرا رخ پیش کیا یعنی اسلام سے آزادی در حقیقت وہ اس نعرے کے ذریعہ عوام الناس کو اسلام سے دور کرنا چاھتے تھے تاکہ وہ اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کی پابندی نہ کرپائیں۔
اسی طرح وہ عوام الناس جو خان، راجہ اور فئوڈل( اشرافی حکومت، یا جاگیر داری )کی ظالم حکومت سے پریشان تھے، لھٰذا ان کو ڈیموکریسی کا نعرہ اچھا لگا اور ڈیموکریسی حکومت بنانے کی کوشش کرنے لگے، نہ یہ کہ اس طرح کے ظالم و جابر افراد ان کی سر نوشت اور زندگی کے بارے میں منصوبہ بندی بنائیں اسی وجہ سے یہ نظریہ عوام الناس میں قابل قبول تھا لیکن جن لوگوں نے اس معنی کو عام طور پر رواج دیا اور اس مغربی تحفہ کی عبادت وپرستش کرتے ھوئے دوسروں کو بھی اس کی پرستش کی دعوت دی، تو ان کا مقصد ڈیموکریسی کے اس نعرہ سے اسلامی اقدار کو بالائے طاق رکہ دینا تھااور دین کو معاشرہ کی سیاسی زندگی سے ھٹانا تھا، نیز عوام الناس کے نظریات اور ان کی مرضی کو اسلامی اور مذھبی اقدار کی جگہ قرار دینا ان کا مقصد تھا لیکن جو لوگ مغرب پرستوں کے ان ناجائز اھداف سے واقف نہ تھے وہ اس طرح کے مطلق شعار کو قبول کرلیتے تھے؛ لیکن جو لوگ دور اندیش اور ھوشیار تھے انھوں نے اس کے خلاف عکس العمل دکھایا، اور عوام الناس پر اس حقیقت کو واضح کرنے اور دشمن کی سازش کو برملا کرنے کے لئے انھوں نے اپنی جان تک کی بازی لگادی، اور اپنے تمام تر وجود کے ساتھ یہ اعلان کردیا کیا کہ وہ مطلق آزادی اور ڈیموکریسی جو اسلام اور اسلامی قوانین کے مخالف ھو؛ وہ اسلامی لحاظ سے قابل قبول نھیں ھے۔
شھید بزرگوار شیخ فضل اللہ نوری رحمة اللہ علیہ کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے ڈیموکریسی اور مشروطھٴ غربی کی مخالفت کی جو کہ اسلامی اور الٰھی اقدار کے مخالف تھی، اور موصوف نے ”مشروطھٴ مطلقھ“ کے مقابلہ میں ”مشروطہ مشروعہ“ (۱) پیش کی چنانچہ موصوف فرماتے تھے: ھم مشروطھٴ کو مطلق طور پر قبول نھیں کرتے، بلکہ ھم اس مشروطہ کو قبول کریں گے جو اسلام اور قوانین اسلامی کے موافق ھو ، لیکن دوسرے لوگ مشروطہ مطلقہ کا نعرہ لگاتے تھے، کیونکہ ان کی نظر میں اس کا موافق شریعت ھونا یا نہ ھونا کوئی اھمیت نھیں رکھتا تھا؛ لھٰذا اپنے ناپاک اھداف کے تحت اس عالی قدر عالم روحانی کو ظلم و استبداد کی طرف داری اور مشروطہ مطلقہ کی مخالفت کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا اور ان کو شھید کردیا اگرچہ ایک طرف سے ”اصول گرایان“ اور ”اسلام خواھان“کے درمیان اور دوسری طرف دگر اندیشان اور مغرب پرستوں میں یہ جنگ و جدال اور کشمش ابھی تک جاری و ساری ھے۔
۲۔ اسلام میں مطلوب اور مقصود آزادی کے نقشہ پر بعض موٴلفین کی نا رضا مندی
قارئین کرام ! ھم نے گذشتہ سال آزادی اور ڈیموکریسی کے سلسلہ میں بحث وگفتگو کی جس میں ھم نے بیان کیا کہ ھمارے معاشرہ میں مطلق آزادی قابل قبول نھیں ھے، اور جیسا کہ اسلامی تمدن اور بنیادی قوانین میں مشروط آزادی مقبول ھے بنیادی قوانین کی اصل نمبر ۴ کی بنا پر : بنیادی قوانین کے اصول، قوانین موضوعہ، پارلیمنٹ کے بنائے ھوئے قوانین،یا دوسرے اداروں کے ذریعہ بنائے جانے والے قوانین اس وقت معتبر ھیں جب وہ دلیل شرعی کے عموم اور اطلاق سے کسی طرح کی کوئی مخالفت اور مغایرت نہ رکھتے ھوں لھٰذا اگر بنیادی قوانین کی ایک اصل بھی آیات و روایات کے عموم اور اطلاق سے مخالفت رکھتے ھوں تو وہ غیر معتبر ھے! ھماری ملت نے اسی بنیادی قوانین کو ووٹ دیا ھے جو اس قدر اسلامی مضبوط پشت پناھی رکھتا ھے لھٰذا اسلام کے احیاء اور زندگی کے لئے انقلاب برپا کرنے والے ھماری ملتبنیادی قوانین میں اسلامی احکام اور اسلامی منزلت کے تحفظ کے طلب گار ھیں، تو پھر وہ غیر اسلامی تمدن کو کیسے قبول کرسکتی ھے؛ لھٰذا ھماری ملت کے نزدیک (جو اسلامی )یعنی وہ مشروطیت جس میں شرعی قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم)
نظریہ ھے)؛وہ آزادی قابل قبول ھے جو اسلامی احکام اور اقدار کے تحت ھو۔
لیکن ھماری اس بحث کے بعد بھت سے اخبار وں کے مالکان نے ھماری مخالفت شروع کردی، اور بھت سے مقالات ھماری مخالفت میں چھپنے لگے، اور ھم کو آزادی اور ڈیموکریسی کا مخالف اور ظلم وستم کا طرف دار بتایا جانے لگا، یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کھہ ڈالا کہ فلاں صاحب تو ایران کو پیچھے کی طرف لے جارھے ھیں! اور آخر کار ایک مسلمان اور انصاف پسند مقالہ نگار نے ھماری باتوں کا اعتراف کیا اور کھا: ھمارا معاشرہ اس آزادی کا دفاع کرسکتا ھے جو اسلامی احکام اور قوانین شریعت کے دائرہ میں ھو؛ جبکہ ھمارے حکومتی عھدہ داران نے بھی بارھا اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ھے اور کرتے رھتے ھیں۔
۳۔ مفسد فی الارض کے بارے میں اسلامی حکم
ھم نے گذشتہ بحث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ عدلیہ کو طاقتور ھونا ضروری ھے تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کی سزائے اعمال تک پھنچایا جاسکے، اور مجرموں کو سزا مل سکے، اور اس کام کے لئے پولیس اور قدرت کا استعمال کرنا ضروری ھے اور اگر اس طرح کی طاقت اسلامی حکومت میں نہ ھو تو پھر وہ معاشرہ میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی ضامن نھیں ھوسکتی اس چیز کو دنیا بھر کی حکومتوں میں قبول کیا جاتا ھے سوائے ”آنارشیسٹوں“"Anarchistes" ( فساد طلب ) اور حکومت کا انکار کرنے والوں کے، اور سبھی افراد حکومتوں کے لئے طاقت اور پولیس کو لازمی اور ضروری جانتے ھیں لھٰذا اسلامی حکومت کے لئے امن وامان قائم کرنے، معاشرہ میں نظم وضبط برقرار رکھنے،الٰھی احکام اور حدود نیز اسلام کے سزائی قوانین کو نافذ کرنے کے لئے قدرت اور طاقت کا استعمال ضروری ھے اسی طرح اگر کچھ لوگ اسلامی نظام کے خلاف مظاھرہ کرنے لگیں اور معاشرہ میں بد امنی پھیلانے لگیں تو اس وقت اسلامی حکومت کی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنی قدرت اور پولیس کے ذریعہ ان کو اپنی جگہ بٹھادے۔
قارئین کرام ! ھم نے عرض کیا کہ بغیر کسی حد اور قید کے مطلق آزادی کو ایک ناقابل انکار ارزش اور اقدار کے عنوان سے بیان کرنے والے اور اس کے مقابلہ میں تشدد اور شدت پسندی کو مطلق طور پر ضدِّ اقدار قلمبند کرنے والے افراد کھتے ھیں : ”یھاں تک کہ نظام اسلامی کے مقابلہ میں قیام کرنے والوںاور تشدد اور شدت پسندوں کے مقابلہ میں ؛ تشدد اور شدت پسندی کا مظاھرہ نھیں کرنا چاھئے، بلکہ پیار و محبت اور الٰھی و اسلامی رحمت کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاھئے۔“

Add comment


Security code
Refresh