www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

قدرت
وہ فاعل کہ جو امور کو اپنے ارادہ سے انجام دیتا ہے اس کے لئے کھا جاتا ہے کہ وہ اپنے امور میں صاحب ''قدرت'' ہے، لھذا قدرت یعنی فاعل مختار کا ھر اس امر کو انجام دینے کا ارادہ کہ جس کا اس سے صادر ھونے کا امکان ہے، جو فاعل جس قدر مرتبہ وجودی کی رو سے کامل ھوگا اس کی قدرت بھی اتنی ھی وسیع ھوگی، پس جو فاعل اپنے کمال میں لامتناھی ھو اس کی قدرت بھی بے نھایت ھوگی ۔

علم
علم کا مفھوم تمام مفاھیم میں ھر ایک سے زیادہ واضح و روشن ہے، لیکن مخلوقات کے درمیان اس کے مصادیق محدود اور ناقص ہیں،لھذاان خصوصیات کے ساتھ یہ خدا پر قابل اطلاق نھیں ہے لیکن جیسا کہ پھلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ عقل میں اتنی توانائی ہے کہ وہ اس مفھوم ِکمالی کے لئے ایک ایسے مفھوم کا انتخاب کرئے کہ جس میں کسی قسم کی کوئی محدودیت اور نقص نہ ھو بلکہ عالم ھونا اس کی عین ذات ھو،علم خدا کے ذاتی ھونے کے یھی معنی ہیں ۔

حیات
حیات کا مفھوم دو طرح کی مخلوقات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ایک سبزہ اور گھاس پھوس جن میں رشد و نمو کی صلاحیت ھوتی ہے ، دوسرے حیوان اور انسان کہ جو ارادہ اور شعور سے متصف ہیں لیکن پھلا معنی ، نقص و احتیاج کا مستلزم ہے اس لئے کہ رشد و نمو کا لازمہ یہ ہے کہ موجود اپنے آغاز میں اس کمال سے عاری ھو ،بلکہ خارجی عوامل کے نتیجہ میں حاصل ھونے والے تغیرات سے آھستہ آھستہ کمالات کا مالک بن جائے، اور ایسا امر خداسے منسوب نھیں کیا جاسکتا، جیسا کہ صفات سلبیہ میں گذرچکا ہے۔