www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سنی اصلاحی دنیا کا تیسرا علمبردار شیخ عبدالرحمان کواکبی ہے‘ وہ صفوی نژاد اور شام کا رہنے والا تھا اور شیخ صفی الدین اردبیلی کی نسل میں سے تھا‘ وہ ترکی اور فارسی زبانیں جانتا تھا اور عُبدہ کا براہ راست اور سید جمال کا بالواسطہ شاگرد تھا۔ وہ شام میں ۱۲۷۱ھ میں پیدا ہوا اور زندگی کا زیادہ حصہ اپنے ملک میں ہی گزرا۔

کون یہ جنگ لڑے؟ عوام‘ لیکن عوام کو کس طرح میدان جنگ میں اتارا جائے؟ کیا اس راسے سے کہ ان کو بتایا جائے کہ تمہارے حقوق کو کس طرح پامال کیا گیا ہے؟ یہ بجا ہے کہ اس کو بنیادی اہمیت دی جائے‘ لیکن یہ کافی نہیں تو پھر کیا کرنا چاہئے؟… بنیادی کام یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں پختہ یقین پیدا کرنا چاہئے کہ سیاسی جدوجہد ایک شرعی اور مذہبی فریضہ ہے‘

غالباً سید جمال ہی پہلا شخص تھا جس نے مغرب کے خلاف اسلامی اتحاد کا نعرہ بلند کیا‘ اسلامی اتحاد کا مطلب مذہبی اتحاد نہیں ہے جو کہ غیر عملی امر ہے‘ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک متحدہ سیاسی محاذ بنایا جائے اور استعماریت کے خلاف متحدہ صف بنائی جائے۔

اس کا مطلب اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں سیاسی دخل اندازی اور اقتصادی استعمار جس میں حصول مراعات کے ظالمانہ نظام کا اجراء اور مسلمانوں کے اقتصادی اور مالی ذرائع کو ختم کر کے تہذیبی استعمار کو لانا اور پھر مسلمانوں کی تہذیب کو برباد کرنا اور ان کو تہذیبی طور پر کمزور بنانا ہے۔ آخری نوآبادیاتی یا استعمار یہ ہے کہ اس بات کو ثابت کریں کہ

انیسویں صدی میں جو واقعات و تبدیلیاں مغرب میں ہوئے ہیں‘ ان سے اکثر مسلمان ناواقف رہے اگر ان میں کسی نے یورپ کا چکر لگایا اور تھوڑا بہت جانا کہ مغرب میں خیا ہو رہا ہے‘ تو ان سے مرعوب ہو گئے اور ان کی ترقی نے ان کو بہت متاثر کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مشرق کے مسلمان مغرب کے عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ