www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مسجد نبوی میں تاریخ ساز خطبہ شیعہ وسنی دونوں فریقوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے کہ

جس کی سند کا سلسلہ زید بن علی تک پهونچتا ہے ، اس طرح کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار جد اعلیٰ سے نقل کیا ہے، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے، نیز جابر جعفری نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا، اسی طرح جناب عبد اللہ بن حسن نے اپنے والد امام حسن علیہ السلام سے، نیز زید بن علی نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، اسی طرح خاندان بنی ھاشم کے بعض افراد نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، نیز عروة بن زبیر نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے ، یہ سب کھتے ھیں :
حتیٰ دخلت علی ابي بکر وهو فی حشدٍ من المھاجرین والانصار وغیرھم، فنیطت دونھا ملاء ة، فجلست ثم انّت انّةً اجہش القوم لھا بالبکاء، فارتجّ المجلس، ثم امھلت ہنیہة، حتی اذا سکن نشیج القوم، وھدات فورتھم، افتتحت الکلام بحمدالله فقالت:
” الحمدُ للّٰہ علیٰ ما انعم ولہ الشکر علی ما الھم، والثناء بماقدّم من عموم نِعَمٍ ابتداٴھا،وسبوغ آلاء اٴسداھا وتمام منَن اٴولاھا،جمّ عن الاحصاء عددھا، وناٴیٰ عن الجزاء اٴمدُھا،وتفاوت عن الادراک اْبدھا وندبھم لاِسْتِزادتھا باالشکرلاتّصالھا واستحمد الی الخلائق باجزالھا،وثنّی بالندب الی امثالھا۔
واشھدان لا الہ الّا اللّٰہ وحد ہ لاشریک لہ،کلمةٌجعل الاخلاص تاٴ ویلھا وضمن القلوب موصولھا ،وانار فی
جس وقت ابوبکر نے خلافت کی باغ ڈور سنبھالی اور باغ فدک غصب کرلیا، جناب فاطمہ (س) کو خبر ملی کہ اس نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹا کر اپنے کارندے معین کردئیے ھیں تو آپ نے چادر اٹھائی اور با پردہ ھاشمی خواتین کے جھرمٹ میں مسجد النبی (ص) کی طرف اس طرح چلی کہ نبی (ص) جیسی چال تھی اور چادر زمین پر خط دیتی جا رہی تھی۔
جب آپ مسجد میں وارد هوئیں تو اس وقت جناب ابو بکر، مھاجرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹهے هوئے تهے، آپ پردے کے پیچ ہے جلوہ افروز هوئیں اور رونے لگیں، دختر رسول کو روتا دیکھ کر تمام لوگوں پر گریہ طاری هوگیا، تسلی و تشفی دینے کے بعد مجمع کو خاموش کیا گیا، اور پھر جناب فاطمہ زھرا (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے هوئے فرمایا:
” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ھیں جس نے مجهے اپنی بے شمار اور بے انتھا نعمتوں سے نوازا، میں شکر بجالاتی هوں اس کی ان توفیقات پرجو اس نے مج ہے عطا کیں، اور خدا کی حمد و ثناء کرتی هوں ان بے شمار نعمتوں پر جن کی کوئی انتھا نھیں، اور نہ ھی ان کا کوئی بدلا هو سکتا ہے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باھر ہے، خدا چاھتا ہے کہ ھم اس کی نعمتوں کی قدر کریں تاکہ وہ ھم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ھمیں شکر کی دعوت دی ہے تا کہ آخرت میں بھی وہ ایسے ھی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔
میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی هوں، وہ وحدہ لا شریک ہے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ہے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے هو تا ہے اور اس کے حقیقی معنی پر غور و فکر کرنے سے دل و دماغ روشن هوتے ھیں۔
التّفکّر معقولھا،الممتنع من الا بصار روٴیتہ، ومن الاٴلسن صفتہ، ومن الا وھا م کیفیّتہ ،ابتدع الا شیاء لامن شیء کان قبلھا ،وانشاھا بلااحْتِذاء امثلةٍامْتثلھا،کوّ نھا بقدرتہ، وذراٴھابمشیتہ من غیرحا جةمنہ الی تکو ینھا ،ولا فا ئدة لہ فی تصویر ھا، الا تثبیتا لحکمتہ ،وتنبیھاً علی طاعتہ، واظھاراً لقدرتہ،تعبّداً لبر یتہ و اعزازالدعوتہ۔ ثم جعل الثواب علی طاعتہ ووضع العقاب علی معصیتہ ،زیادةلعبادہ من نقمتہ وحیاشة لھم الی جنتہ۔
واشھد ان ابی محمدا عبدہ و رسولہ، اختارہ قبل ان ارسلہ، (وسمّاہ قبل ان اجتباہ) واصطفاہ قبل ان ابتعثہ، اذ الخلائق بالغیب مکنونة وبسَتْرِ الاھاویل مصونة،وبنھایة العدم مقرونة ،علما من اللّٰہ تعالی بمایل الامُور واحاطة بحوادث الدّهور ومعرفة بمواقع الامور، ابتعثہ اللّٰہ اتما ماً لامرہ وعزیمةعلی امضاء حکمہ وانفاذ اً لمقادیررحمتہ فراٴی الاُ مم فر قاً فی ادیانھا،عُکفَّاًعلی نیرانھا وعابدةً لاٴوثانھا، منکرةللّٰہ مع عر فا نھا ۔
وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھا نھیں جا سکتا، زبان کے ذریعہ اس کی تعریف و توصیف نھیں کی جا سکتی، جو وھم و گمان میں بھی نھیں آ سکتا۔
وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشٴیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت هو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پهونچتا هو۔
بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظھار کرسکے، بندوںکواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اھمیت جتاسکے؟
اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ہے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔
میں گواھی دیتی هوں کہ میرے پدر بزرگوار حضرت محمد، اللہ کے بندے اور رسول ہیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پھلے اللہ نے ان کو چنا، (اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا) اور بعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنھاں تھیں، نیست و نابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اور عدم کی وادیوں میں تھیں ، چونکہ خداوندعالم ھر شیٴ کے مستقبل سے آگاہ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اور قضا و قدر سے مطلع ہے۔
فاناراللّٰہ باٴبی محمد ( صلی الله علیہ وآلہ وسلم)ظلمھا، وکشف عن القلوب بُہَمھا وجلی عن الابصار غُمَمھا وقام فی الناس بالھدایة،وفا نقذ ھم من الغوایة وبصّرھم من العمایة۔ وھداھم الی الدّ ین القویم، ودعا ھم الی الطریق المستقیم ۔
ثم قبضہ اللّٰہ الیہ قبض رافةواختیارور غبةوایثار، فمحمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) من تعب ھذہ الدارفی راحة۔
قد حُفّ با لملائکة الابرار،ورضوان الرَّبِّ الغفار،ومجاورة الملک الجبار۔
صلی اللّٰہ علی اٴبی نبیّہ وامینہ، وخیرتہ من الخلق وصفیہ والسلام علیہ ورحمةاللّٰہ وبرکاتہ۔
خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پهونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔
 (جب آپ مبعوث ہوئے ) تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے هوئے تهے، کفر و الحاد کی آگ میں جل ر ہے تهے، بتوں اور آگ کی پرستش کرر ہے تهے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تهے۔
مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ (حصّہ دوّم)


حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود مقدس سے تاریکیاں چھٹ گئیں جھالت و نادانیاں دلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سر گردانیاں آنکھوں سے اوجھل هوگئیں، میرے باپ نے لوگوں کی ھدایت کی اور ان کو گمراھی اور ضلالت سے نجات دی، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلام کی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔
اس کے بعد خدا نے اپنے پیغمبر کے اختیار، رغبت اور مھربانی سے ان کی روح قبض کی، اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہے اوراس وقت فرشتوں اور رضایت غفّار اور ملک جبّار کے قرب میں زندگی گزار رھا ہے ، خدا کی طرف سے میرے باپ، نبی اور امین خدا، خیر خلق اور صفی خدا پر درود و سلام اور اس کی رحمت هو۔
ثم ّ التفتت الیٰ اھل المجلس وقالت :
انتم عباداللّٰہ نصب امرہ ونھیہ، وحملة دینہ ووحیہ، وامناء اللّٰہ علی انفسکم ،وبلغاء ٴہ الی الاُمم زعیم حقّ لہ فیکم ،وعھد قدّمہ الیکم،ونحن بقیةاستخلفھا علیکم کتاب اللّٰہ الناطق ،والقرآن الصاد ق ، والنور الساطع،والضیاء اللامع ،بیّنة بصائرہ ،منکشفة سرائرہ ، منجلیة ظواھرہ ،مغتبطة بہ اشیاعہ،قائداً الی الرضوان اتباعہ، مودٍّالیٰ النجاةاستماعہ،بہ تنال حجج اللّٰہ المنوّ رة،و عزائمہ المفسرة، و محارمہ المحذّرة و بیّناتہ الجالیة وبراھینہ الکافیة، و فضائلہ المندوبة ورخصہ الموهوبہ و شرائعہ المکتوبة ۔
فجعل اللّٰہ الایمان تطھیراًلکم من الشرک، والصلاة تنزیھاً لکم من الکبر،والزکاةتزکیةللنفس،ونماءً فی الرزق،والصیام تثبیتا للاخلاص، والحج تشییدا للدین، والعدل تنسیقا للقلوب، وطاعتنا نظاماً للملّة،واِمَامتنا اٴماناًمن الفرقة،والجھاد عزًاللاسلام۔
اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:
تم خدا کے بندے، امر و نھی کے پرچم دار اور دین اسلام کے عھدہ دار هو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین هو، تم ھی لوگوں کے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پهونچ رھا ہے، تم نے گویا یہ سمجھ لیا ہے کہ تم ان صفات کے حقدار هو، اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمھارا کوئی عھد و پیمان ہے؟ حالانکہ ھم بقیة اللهاور قرآن ناطق ھیں وہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا هوا نور ہے جس کی بصیرت روشن و منور اور اس کے اسرار ظاھر ہیں، اس کے پیرو کار سعادت مند ھیں، اس کی پیروی کرنا، انسان کو جنت کی طرف ھدایت کرتا ہے، اس کی باتوں کو سننا وسیلہٴ نجات ہے اور اس کے با برکت وجود سے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جا سکتی ھیں اس کے وسیلہ سے واجبات و محرمات، مستحبات و مباھات اور قوانین شریعت حاصل هو سکتے ھیں۔
خداوند عالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک سے پاک هونے کا وسیلہ قرار دیا، نماز کو تکبر سے بچنے کے لئے، زکوة کو وسعت رزق اورتزکیہ ٴنفس کے لئے، روزہ کو اخلاص کے لئے،حج کو دین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت کو نظم زندگی اور دلوں کے آپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ہے۔
وذلاً لاھل الکفر والنفاق والصبر معونة علی استیجاب الاجر ،والامر بالمعروف والنھی عن المنکر مصلحة للعامّة،وبرّ الوالدین وقایةًمن السخط ،وصلةالارحام منساٴة فی العمر ومنماة للعدد والقصاص حقناً للدماء والوفاء بالنذر تعریضا للمغفرة،وتوفیةالمکاییل والموازین تغیراً للبخس ،والنھی عن شرب الخمرتنزیھاًعن الرجس، واجتناب القذف حجاباعن اللعنة وترک السرقةایجاباًللعفةوحرم اللّٰہ الشرک اخلاصا لہ بالربوبیة۔
<فاتقوا اللّٰہ حق تقاتہ ولاتمو تن الاّ وانْتم مسلمون> [1]
واطیعوااللّٰہ فیما امرکم بہ ونھا کم عنہ ۔
<انمایخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء> [2]
ثم قالت: ایھاالناس اعلموا انّی فاطمة ،وابی محمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم ) اقول عوداً وبدواً اٴولا اقول مااقول غلطا،ولاافعل ماافعل شططا۔
اور ھماری اطاعت کو نظم ملت اور ھماری امامت کو تفرقہ اندازی سے دوری، جھاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کا سبب قرار دیا، اور صبر کو ثواب کے لئے مددگار مقرر کیا، امر بالمعروف و نھی عن المنکر عمومی مصلحت کے لئے اور والدین کے ساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کا ذریعہ اور صلہ رحم کو تاخیر موت کا وسیلہ قرار دیا، قصاص اس لئے رکھاتا کہ کسی کو ناحق قتل نہ کرو نیز نذر کو پورا کرنے کو گناھگاروں کی بخشش کا سبب قرار دیا اور پلیدی اور پست حرکتوں سے محفوظ رہنے کے لئے شراب خوری کو حرام کیا، زنا کی نسبت دینے سے اجتناب کو لعنت سے بچنے کا ذریعہ بنایا، چوری نہ کرنے کو عزت و عفت کا ذریعہ قرار دیا، خدا کے ساتھ شرک کو حرام قرار دیا تاکہ اس کی ربوبیت کے بارے میں اخلاص باقی ر ہے۔
”اے لوگو! تقویٰ وپرھیز گاری کواپناؤ اور تمھارا خاتمہ اسلام پر هو“
اور اسلام کی حفاظت کرو خدا کے اوامر و نواھی کی اطاعت کرو۔
”اور خدا سے صرف علماء ڈرتے ھیں ۔“
حوالہ جات:
[1] سورہ آل عمران آیت ۱۰۲
[2] سورہ فاطر-آیت ۲۸
مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ (حصّہ سوّم)


حضرت فاطمہ زھرا نے فرمایا:
اے لوگو! جان لو میں فاطمہ هوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تهے، میری پھلی اور آخری بات یھی ہے، جو میں کہہ رھی هوں وہ غلط نھیں ہے اور جو میں انجام دیتی هوں بے هودہ نھیں ہے۔
”خدا نے تم ھی میں سے پیغمبر کو بھیجا تمھاری تکلیف سے انھیں تکلیف هوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تهے اور مومنین کے حق میں دل سوز و غفور و رحیم تهے۔“
وہ پیغمبر میرے باپ تهے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ، میرے شوھر کے چچازاد بھائی تهے نہ کہ تمھارے مردوں کے بھائی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب هونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت ہے۔
انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کو عذاب الٰھی سے ڈرایا، اور شرک پھیلانے والوں کا سد باب کیا ان کی گردنوں پر شمشیر عدالت رکھی اور حق دبانے والوں کا گلا دبا دیا تا کہ شرک سے پرھیز کریں اور توحید و عدالت کو قبول کریں۔
اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو کچل دیا،کفار نے شکست کھائی اور منھ پھیر کر بھاگے، کفر کی تاریکیاں دور هوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح هوگیا، دین کے رھبر کی زبان گویا هوئی اور شیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے، نفاق کے پیرو کار ھلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے هوگئے۔
 (اور تم اھل بیت (ع) کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو هوگئے ، در حالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میں کھڑے تهے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھا جو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاھتا ہے۔
تم قبائل کے نحس پنجوں کی سخت گرفت میں تهے گندا پانی پیتے تهے اور حیوانوں کو کھال سمیت کھا لیتے تهے، اور دوسروں کے نزدیک ذلیل و خوار تهے اور اردگرد کے قبائل سے ھمیشہ ھراساں تهے۔
یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص) کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انھیں در پیش تھی، تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نما افراد اور اھل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تهے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی زبان کھولتا تھا تو حضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تهے، اور علی (ع) اپنی طاقت و توانائی سے ان کو نیست و نابود کردیتے تهے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ هوتے تهے۔
 وہ، علی (ع)، جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے رہے اور خدا کی راہ میں جھاد کرتے رہے، رسول اللہ (ص) کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تهے ھمیشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تهے، لیکن تم اس حالت میں آرام کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارتے تهے، (اور ھمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظر رھتے تهے اور دشمن کے مقابلہ سے پرھیز کرتے تهے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرار هوجایا کرتے تهے ۔
مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع) کا تاریخ ساز خطبہ (حصّہ چهارم)


جب خدا نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کرلیا، تو تمھارے اندر کینہ اور نفاق ظاھر هوگیا، لباس دین کہنہ هوگیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منھ گھل گئے، پست لوگوں نے سر اٹھالیا، باطل کا اونٹ بولنے لگا اور تمھارے اندر اپنی دم ھلانے لگا، شیطان نے اپنا سر کمین گاہ سے باھر نکالا اور تمھیں اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبول کرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمھیں غضبناک کیا، تم غضبناک هوگئے وہ اونٹ جو تم میں سے نھیں تھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھادیا جس کا وہ حق دار نہ تھا، حالانکہ ابھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کو زیادہ وقت نھیں گزرا تھا اور ھمارے زخم دل نھیں بھرے تهے، زخموں کے شگاف بھرے نھیں تهے، ابھی پیغمبر (ص) کو دفن بھی نھیں کیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بھانے سے خلافت پر قبضہ جمالیا۔
”لیکن خبردار رهو کہ تم فتنہ میں داخل هوچکے هو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کرلیا ہے “۔
افسوس تمھیں کیا هوگیا ہے اور تم نے کونسی ڈگر اختیار کرلی ہے حالانکہ اللہ کی کتاب تمھارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے امر و نھی ظاھر ھیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاھتے هو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاھتے هو؟
”ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ہے“
” جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیا رکریگا اس کا دین قبول نھیں کیا جائیگا اور آخرت میں ایسا شخص سخت گھاٹے میں هوگا ۔“
تم خلافت کے مسئلہ میں اتنا بھی صبر نہ کر سکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش هوجائے اور اس کی قیادت آسان هوجائے (تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مھار کو ھاتھوں میں لے لو) اس وقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کردیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیجے کیا (تاکہ لکڑیاں خوب آگ پکڑلیں) اور شیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول (ص) کو خاموش کرنے میں مشغول هوگئے، تم ظاھر کچھ کرتے هو لیکن تمھارے دلوں میں کچھ اور بھرا هوا ہے۔
میں تمھارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی هوں جس طرح کسی پر چھری اور نیزے سے پیٹ میں زخم کردیا جاتا ہے، اور وہ اس پر صبر کرتا ہے ۔
تم لوگ گمان کر تے هو کہ ھمارے لئے ارث نھیں ہے، ؟! ” کیا تم سنت جاھلیت کو نھیں اپنا ر ہے هو ؟!!
” کیا یہ لوگ (زمانہ) جاھلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ھیں حالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر کون هوگا۔“
کیا تم نھیں جا نتے کہ صاحب ارث ھم ھیں، چنانچہ تم پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ میں رسول کی بیٹی هوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ہے کہ میں اپنے ارث سے محروم رهوں (اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھاکر میرے ارث پر قبضہ جمالو۔)
اے ابن ابی قحافہ ! کیا یہ کتاب خدا میں ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث پاؤ ور ھم اپنے باپ کی میراث سے محروم رھیں، تم نے فدک سے متعلق میرے حق میں عجیب و غریب حکم لگایا ہے، اور علم و فھم کے با وجود قرآن کے دامن کو چھوڑدیا، اس کو پس پشت ڈال دیا؟
کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے
<وورث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داود سے ارث لیا“
، اور جناب یحيٰ بن زکریا کے بارے میں ارشاد هوتا ہے کہ انهوں نے دعا کی:
”بارِ الہٰا ! اپنی رحمت سے مج ہے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث هو“، نیز ارشاد هوتا ہے: ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باھم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں ) زیادہ حق دار ھیں۔“ اسی طرح حکم هوتا ہے کہ ” خدا تمھاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے “ ۔
نیز خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:
”تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی هو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ھیں ان پر یہ ایک حق ہے۔“
کیا تم گمان کرتے هو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہ نھیں ہے اور مجهے ان سے میراث نھیں ملے گی ؟
کیا خداوند عالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ھی لوگوں سے مخصوص کردیا ہے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کر دیا ہے ؟یا تم کھتے هو کہ میرا اور میرے باپ کا دو الگ الگ ملتوں سے تعلق ہے ؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نھیں لے سکتے۔
آیا تم لوگ میرے پدر بزرگوار اور شوھر نامدار سے زیادہ قرآن کے معنیٰ و مفاھیم ، عموم و خصوص اور محکم و متشابھات کو جانتے هو ؟
تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھار کرلیا ہے اور اس کو آمادہ کرلیا ہے جو قبر میں تمھاری ساتھ ر ہے گا اور روز قیامت ملاقات کرے گا ۔
اس روز خدا بھترین حاکم هوگا اور محمد بھترین زعیم ، ھمارے تمھارے لئے قیامت کا دن معین ہے وھاںپر تمھارا نقصان اور گھاٹا آشکار هوجائےگا اور پشیمانی اس وقت کوئی فائدہ نہ پهونچائے گی،” ھر چیزکے لئے ایک دن معین ہے“ ۔ ” عنقریب ھی تم جان لو گے کہ عذاب الٰھی کتنا رسوا کنندہ ہے ؟ اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نھیں“۔
(تحریر اقبال حیدر حیدری)
 

Add comment


Security code
Refresh