www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انقلاب اسلامی کے عظیم قائد و اسلامی دنیا کے عظیم مفکر، فلسفی، مربی، راھنما، رھبر، مظلوموں کے مسیحا، ظالموں کے لئے آھنی تلوار، طاغوت شکن، انسان کامل، پیرو انبیاء

 و اوصیاء حضرت امام خمینی (رہ) کو ھم سے بچھڑے ھوئے اب چھبیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن یہ حقیقت جھاں دوستوں کے لئے واضح طور پر آشنا ہے، وھاں دنیائے طاغوت کی تمام تر شیطانی قوتوں کے لئے بھی اسی طرح سے آشنا ہے کہ رھبر عظیم حضرت امام خمینی (رہ) آج بھی دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اسی طرح زندہ و جاوید ہیں، جس طرح کہ وہ آج سے چھبیس برس قبل تھے، ظاھری طور پر ان کا جسد خاکی اس دنیا سے کوچ کر گیا ہے، لیکن ان کی پاکیزہ روح آج بھی ھر ذی شعور کے دل میں اور ھر ایسے انسان کے دل میں دھڑکن بن کر دھڑک رھی ہے جو امت مسلمہ کے لئے درد رکھتا ہے، یا کم از کم ظلم پر خاموش نھیں رھتا ہے۔
دنیا کی ظالم و جابر قوتوں اور شیطانی نظاموں کے سامنے اپنا سر نگوں نھیں کرتا ہے، یھی وہ پیمانہ ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ انیسویں صدی میں مشرق کے افق پر رونما ھونے والا آفتاب امام خمینی (رہ) آج بھی زندہ و جاوید حقیقت کی مانند دنیا کے لئے نمونہ عمل بنا ھوا ہے، یہ ایسا آفتاب نمودار ھوا تھا کہ جس کو زوال نھیں، یہ ایسا روشن دمکتا ھوا چاند ہے کہ جو ھمیشہ اسلام کی سربلندی کے لئے تابناک رھے گا۔
امام خمینی (رہ) کی عظیم شخصیت اور ان کے افکار کے بارے میں لکھنا انتھائی مشکل کام ہے، کیونکہ سمندر کو کوزے میں بند کرنا ممکن نھیں، تاھم کوشش کی جائے گی کہ امام خمینی (رہ) کی زندگی اور آپ کے افکار کے چند پھلوئوں پر روشنی ڈالی جائے۔
دور حاضر کے بدلتے ھوئے حالات و واقعات اور دنیا میں ھونے والی خونریزی کہ جسے عالمی استعماری قوتوں نے شروع کر رکھا ہے، ایسے حالات میں دنیا کے ھر ملک میں، ھر گوش و کنار میں، ایک ھی آواز سنائی دے رھی ہے کہ کاش ھمارے وطن میں کوئی ایک خمینی بن کر آجائے۔
امام خمینی (رہ) نے ایران کی سرزمین پر ایک ایسے انقلاب اسلامی کی بنیاد رکھی جو آج پینتیس برس گزر جانے کے بعد بھی اسی رفتار کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رھا ہے، جبکہ صرف یھاں تک محدود نھیں رھا ہے بلکہ سرحدوں سے نکل چکا ہے، دنیا کے ھر گوش و کنار میں اسی اسلامی انقلاب کی کرنیں نظر آتی ہیں، جو 1979ء میں امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران میں نمودار ھوا تھا۔
امام خمینی (رہ) کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات تو بڑی واضح نظر آتی ہے کہ آپ کی پوری زندگی تعلیمات انبیاء و اوصیائے کرام اور اسلام و قرآن و اھلبیت علیھم السلام کے بتائے ھوئے بنیادی اصولوں کے گرد گھومتی ھوئی نظر آتی ہے، حتٰی کہ آپ کے بارے میں مشھور ہے کہ آپ جب پانی بھی نوش فرماتے تھے تو اس نیت و دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالٰی اس پانی سے جسم کو ملنے والی قوت و توانائی کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کی پوری زندگی کے حالات و واقعات اس قدر سخت اور مشکل گزرے ہیں کہ اگر کوئی عام انسان ان حالات سے گزرے تو شاید ایک دو روز میں ھی شکست خوردہ ھوجاتا، لیکن یہ امام خمینی (رہ) کی ثابت قدمی اور اللہ پر ایمان کامل کا نتیجہ رھا کہ آپ کی زندگی میں پیش آنے والے سخت سے سخت حالات کا آپ نے احسن طریقے سے مقابلہ کیا اور سرخرو ھوئے۔
آپ نے ھمیشہ اپنے ساتھیوں کو بھی اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اپنی ذمہ داری کو بھرپور انداز میں ادا کرنے کا درس دیا۔ خلاصہ کیا جائے تو یہ کھا جاسکتا ہے کہ دور حاضر میں امام خمینی (رہ) کی شخصیت ایک ایسی روحانی اور کامل شخصیت تھی، جنھوں نے اللہ پر اپنا یقین اس طرح سے کامل کر لیا تھا، جیسے ایک مرد مومن کو کرنا چاھئیے۔
امام خمینی (رہ) نے اپنی زندگی میں اس وقت کے تمام طاغوتی نظاموں کو چیلنج کیا اور اللہ پر کامل یقین رکھتے ھوئے اپنی جدوجھد کا آغاز کر دیا، ایران میں شاہ کا زمانہ تھا، لوگوں پر سخت سے سخت شکنجے لگائے جاتے تھے، حتٰی آپ کو بھی متعدد مرتبہ مصائب و آلام کا نشانہ بنایا گیا، جلاوطن کیا گیا، سختیوں میں رکھا گیا، لیکن آپ اپنے ھدف اور مقصد سے پیچھے نہ ھٹے۔
آپ نے اسلام کی سربلندی کی راہ میں ھر وہ قربانی پیش کی، جس کا آپ سے تقاضہ کیا گیا اور بالآخر آپ کو ملک بدر کر دیا گیا، لیکن آپ ملک بدر ھونے کے بعد اپنی جدوجھد میں اسی طرح وارد رھے، یہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت تھی جس نے اس وقت کہ فرعونوں کو للکار دیا تھا، ایک طرف ایران کا بادشاہ تھا جو آپ کا دشمن بنا ھوا تھا، جبکہ دوسری طرف عالمی استعماری قوتیں امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپی ممالک تھے جن کا اصل چھرہ آپ نے عوام کو دکھایا اور بتایا کہ یہ طاغوتی قوتیں دنیا میں مسلمانوں کا خون چوس رھی ہیں، ھمیں ان کے مقابلے میں قیام کرنا ھوگا، ورنہ ھمارا انجام بھی دنیا کی دیگر اقوام کی طرح ھوگا۔
یہ حضرت امام خمینی (رہ) ھی تھے جنھوں نے دنیا کو بتایا کہ مسلمانوں کی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے، آپ نے امت اسلامی کو واضح طور بتا دیا کہ جس دن امریکہ ھم سے خوش ھو جائے اس دن یوم سوگ ہے۔
آپ نے دنیا کے باشعور لوگوں کو بتایا اور جو شعور نھیں رکھتے تھے، ان میں شعور بیدار کیا کہ ھمارا دشمن امریکہ ہے، آپ نے دنیا کو باور کروایا کہ امریکہ شیطان بزرگ ہے، جو دنیا کے متعدد ممالک میں انسانوں کے خون سے ھولی کھیلتا ہے اور پھر امن کا داعی بن کر دنیا کے عوام کو دھوکہ دھی کا شکار بناتا ہے۔
آپ نے دنیا پر آشکار کیا کہ یہ امریکہ شیطان بزرگ ھی ہے کہ جو 1948ء سے قبل اور آج تک غاصب صھیونی ریاست اسرائیل کی کھلم کھلا اور بے دریغ مدد کرتا ہے، تو کس طرح پھر امریکہ ھماری مشکلات کا حل دے سکتا ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) دنیا میں وہ واحد راھنما ہیں جنھوں نے فلسطین کے مظلوموں کے لئے صدائے احتجاج بلند کی، صرف صدائے احتجاج ھی نھیں بلکہ آپ نے ملت کو ایک منشور عطا کیا کہ فلسطین سمیت دنیا کے مظلوموں کی مدد کرنا نہ صرف ھمارا اخلاقی بلکہ شرعی فریضہ ہے۔
آپ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ ''جمعة الوداع'' کو مظلوم فلسطینیوں سے ھمدردی اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کا دن قرار دیتے ھوئے ''یوم القدس'' قرار دیا اور فرمایا کہ ''یوم القدس، یوم اللہ، یوم اسلام اور یوم رسول اللہ (ص) ہے، جو اس دن کو نھیں مناتا وہ استعمار (امریکہ اور اسرائیل) کی خدمت کرتا ہے۔''
یھی وجہ ہے کہ آج دنیا نے امام خمینی (رہ) کی زندہ و جاوید سیرت اور افکار کو فراموش نھیں کیا ہے اور دنیا بھر میں آج مظلوم فلسطینیوں کے لئے آواز بلند کی جا رھی ہے، جس کا سھرا یقیناً حضرت امام خمینی (رہ) کے سر ہے۔
یہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت ھی تھی جنھوں نے دنیا کے مظلوموں کو تمام ظالموں کے مقابلے میں کھڑا کر دیا، مظلومین جھاں کو قوت عطا کی، زبان عطا کی، حوصلہ دیا کہ وہ مبارزہ میں شامل ھوں، دنیا کے ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں۔
آپ نے دنیا کے تمام ان مظلوموں کی حمایت کی، جنھیں عالمی استعماری قوتوں نے جبری طور پر مظلوم (مستضعف) بنا دیا تھا، آپ نے اپنی ملت اور امت اسلامی کو تاکید کی کہ دنیا کے مستضعفین کی حمایت جاری رکھی جائے، آپ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوراً ھی بعد فلسطین کے مظلوم عوام کی عملی طور پر مدد کا اعادہ کیا اور سرکاری سطح پر فلسطین فنڈ سمیت فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجھد کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت و نصرت کو اسلامی انقلاب کی اولین ترجیحات میں قرار دیا، جس کی سب سے بڑی مثال یہ تھی کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران میں پھلے سے موجود اسرائیلی سفارت خانہ کو بند کر دیا گیا اور اس عمارت کو فلسطینی سفارت خانہ بنایا گیا۔
امام خمینی(رہ) نے دین و سیاست کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا ہے اور اس میں عملی حصہ لیکر پوری دنیا پر اسلامی سیاست کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا میں نھیں ملتی۔
امام خمینی(رہ) نے اْن لوگوں کا یہ نظریہ بھی غلط ثابت کیا ہے کہ دین و سیاست دو جدا مفھوم ہیں اور اْن لوگوں کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیا ہے جن کے نزدیک سیاست ایک گندا کھیل ہے، جس میں علماء کو داخل نھیں ھونا چاھیے۔
امام خمینی (رہ) نے دنیا کے مسلمانوں کو بتایا کہ اگر اسلام کے اجتماعی احکام کو نکال دیا جائے تو اس دین مبین میں سے سوائے بے روح جسد کے اور کچھ باقی نھیں رھتا، اسلام کا ایک بڑا حصہ اجتماعیات پر مشتمل ہے اور اس کا اجراء کرنا بھی اقتدار اور حاکمیت کے ساتھ تعلّق رکھتا ہے۔
لھذا اسلام کو ھم ایک فردی دین اور لوگوں کی خصوصی زندگی سے مخصوص مذھب نھیں قرار دے سکتے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی بات یا تو اصل دین کے بارے میں کج فھمی کا نتیجہ ہے یا بدخواھوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔
اگر انسان ایک اجتماعی اور سیاسی مخلوق ہے اور اگر ھم دین اسلام کی جامعیت کے بھی قائل ھوں، جو انسانی زندگی کے تمام پھلوؤں پر مشتمل ہے تو ان سب باتوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دین ھرگز سیاست سے جدا نھیں ھوسکتا۔
پس سیاست سے دین کی جدائی کی بحث ایک مشکوک بحث ہے۔ ''اس بات کو استعمار (امریکہ اور اس کے حواریوں) نے پھیلایا ہے کہ دین کو سیاست سے جدا ھونا چاھئے اور علمائے اسلام کو اجتماعی و سیاسی امور میں دخالت نھیں کرنی چاھئے۔ یہ سب بے دین افراد کا پروپیگنڈا ہے۔
کیا زمانہ پیغمبر(ص) میں سیاست دین سے جدا تھی؟ کیا اس زمانے میں بھی ایک گروہ علماء کا تھا اور دوسرا سیاستدانوں اور حکمرانوں کا؟ کیا خلفاء اور حضرت امیر کے زمانہ خلافت میں سیاست دین سے جدا تھی؟ آیا اس وقت دو نظام تھے؟ یہ سب باتیں استعمار اور ان کے کارندوں نے پھیلائی ہیں، تاکہ دین کو دنیوی امور اور مسلمانوں کے معاشرتی مسائل سے دور رکھ سکیں۔''
امام خمینی(رہ) کے نزدیک ''اسلام ایک ایسا مکتب ہے جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس تمام فردی و اجتماعی، مادی و معنوی، ثقافتی و سیاسی اور فوجی و اقتصادی مسائل میں دخالت اور نظارت رکھتا ہے اور اس (دین) میں کسی ایسے چھوٹے سے چھوٹے نکتے کو بھی نظر انداز نھیں کیا گیا، جو انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی و معنوی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ھو۔''
پس جو شخص ان دونوں میں جدائی کی بات کرتا ہے وہ درحقیقت نہ دین کی حقیقت سے آگاہ ہے اور نہ ھی سیاست کے مفھوم کو جانتا ہے۔ ''ھمیں سیاست سے کیا مطلب'' کا معنی یہ ہے کہ اسلام کو بالکل فراموش کر دینا چاھئے، اسلام کو چھوڑ دینا چاھئے اور اسلام کو (مدارس) کے حجروں میں دفن کر دینا چاھئے۔
یہ ھماری کتابیں دفن ھوجانی چاھییں۔'' امام خمینی کے نزدیک ''اسلام کی اساس ھی سیاست ہے۔'' اور ''رسول(ص) اللہ نے سیاست کی بنیاد دین پر رکھی ہے۔'' صدر اسلام اور زمانہ پیغمبر(ص)سے لے کر جب تک انحراف پیدا نھیں ھوا تھا، سیاست اور دین ایک ساتھ تھے۔''

امام خمینی(رہ) کی یہ باتیں بار ھا تکرار ھوئی ہیں، خصوصاً اس مفھوم اور تعریف کے ساتھ کہ جس کے وہ سیاست کے بارے میں قائل تھے اور اس کے مطابق یہ باتیں قابل فھم بھی ہیں اور قابل قبول بھی۔
جیسا کہ پھلے بھی گزر چکا ہے کہ امام خمینی(رہ) کے نزدیک ''سیاست، معاشرے کی ھدایت و راھنمائی کرنے، معاشرے کی مصلحت، انسانوں اور معاشرے کے تمام پھلوؤں کو مدنظر رکھنے کا نام ہے۔ ان کی اس چیز کی طرف راھنمائی کرنے کا نام سیاست ہے کہ جس میں ان لوگوں اور قوم و ملت کی مصلحت ہے اور یھی چیز انبیاء سے مخصوص ہے۔''
اس نظریہ کے مطابق اسلام کے تمام احکام و قوانین سیاسی جلوہ لئے ھوئے ہیں۔ ''دین اسلام، ایک سیاسی دین ہے۔ ایک ایسا دین ہے، جس کا سب کچھ سیاسی ہے حتٰی اس کی عبادت بھی سیاسی ہے۔'' حتٰی اس نگاہ سے دیکھیں تو ''اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔''
بھرحال خلاصہ یہ ہے کہ یہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت اور آپ کی پاکیزہ جدوجھد کی کرامات ہیں کہ آج پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کی کرنیں کھیں اسلامی مزاحمت کی تحریکوں حزب اللہ، حماس، جھاد اسلامی، القسام بریگیڈ کی صورت میں نمودار ھوچکی ہیں، جنھوں نے دنیا کے شیطان صفت نظاموں کو عملی طور پر شکست دے دی ہے اور اس انقلاب اسلامی کی کرنیں نہ صرف عرب دنیا بلکہ پورے ایشیاء سمیت دنیا کے تمام گوش و کنار میں پائی جاتی ہیں۔
امام خمینی (رہ) کی چھبیسویں برسی کی مناسبت سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ھمارے حکمران بھی اسلام کے سنھرے اصولوں کو اپنا طرہ امتیاز بناتے ھوئے مملکت عزیز کی ترقی کے لئے راھیں ھموار کریں اور طاغوتی نظاموں کی غلامی سے خود کو آزاد کر لیں۔
تحریر: صابر کربلائی
 

Add comment


Security code
Refresh