www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

خداوند متعال نے کائنات کے وجود کی بقاء اور رشد کے لئے سلسلہ نبوت کا اھتمام کیا ہے، یعنی عالم انسانیت کو تکامل تک پھنچانے کے لئے رھنماء بھیجے، تاکہ وہ منابع ھدایت امت کی رھنمائی کرسکیں۔

 جس سے امتیں اپنے انفرادی و اجتماعی سفر میں کمال و رشد کی منازل طے کرسکیں۔
بعثت انبیاء کا بنیادی مقصد نظام امت کا قیام ہے۔ جس کے لئے وہ تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ کائنات کے اندر ھر آنے والا نبی و رسول اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق امت کی فلاح کے لئے تگ و دو کرتا ہے، لیکن سب انبیاء کا بنیادی ھدف امت کی اصلاح کے ساتھ نظام اسلامی کا قیام ہے۔ جس میں بعض انبیاء کو یہ توفیق حاصل ھوئی کہ انھوں نے نظام اسلامی کا نفاذ کیا۔
عھد انبیاء دو حصوں پر مشتمل ھوتا ہے، ایک حصہ ان کی دور زندگی اور دوسرا حصہ ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد کا ہے۔
پھلا مرحلہ انبیاء کا ترویج نظام امت کو سرانجام دینا ہے، جبکہ دوسرا مرحلہ اس ھدف کے حصول کو ممکن بنانا ہے۔ دوسرے مرحلے کے لئے ضروری نھیں ہے کہ انبیاء خود زندہ ھوں اور وہ اس کام کو سرانجام دیں بلکہ دوسرے مرحلے کو مکمل کرنا امت کی ذمہ داری ھوتی ہے۔
لھذا وراثت انبیاء مال و ثروت نھیں ھوتی بلکہ وراثت انبیاء منشور ھدایت ھوتا ہے۔ وہ منشور کہ جس کو اپنا کر امتوں نے اپنے اجتماعی سفر کو مکمل کرنا ھوتا ہے۔ ھدایت و رشد کے راستوں کو انبیاء شروع کرتے ہیں، لیکن ان کو ختم کرنا امت کی ذمہ داری ھوتی ہے۔
حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ علماء انیباء کے حقیقی وارث ہیں۔ لیکن علماء کس وراثت کے مالک ہیں؟ وہ وراثت کہ جو امت کی فلاح کی وراثت ہے۔ نظام انیباء و فکر انبیاء کے وارث علماء ھوتے ہیں۔ علماء نظریات کے وارث ھوتے ہیں۔ وہ نظریات کہ جن کی ترویج کے لئے انبیاء نے اپنی زندگیاں صرف کی ھوتی ہیں۔
امام خمینی(رح) کون ہیں؟
امام خمینی (رح) وہ وارث انبیاء ہیں جنھوں نے انبیاء کی گمشدہ میراث کو زندہ کیا ہے۔ وہ حقیقی وارث کہ جن کی محنتوں سے کتابوں میں پڑے ھوئے اسلام کو نفاذ ملا۔
امام خمینی (رح) ایک زندہ حقیقت کا نام ہے کہ جن سے تاحال زمانہ صحیح متعارف نھیں ھوا۔ جن کے بارے میں آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں کہ امام خمینی (رح) کی معرفت شائد اس معاشرے کو دو سو سال تک ممکن ھوسکے۔ امام خمینی اسرار الھیہ میں سے ایک سر ہے کہ جو بھت بعد اس امت پر آشکار ھوگا، کیونکہ امام راحل جس زمانے میں زندگی گزار گئے ہیں، وہ زمانہ ان کا ھم عصر نھیں تھا، جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا۔
عصر من دانندہ ای اسرار نیست
یوسف من بھر این بازار نیست
کہ جس زمانے کے اندر میں زندگی گزار رھا ھوں، یہ زمانہ میرا ھم عصر نھیں ہے اور یوسف کو جس بازار میں فروخت کیا گیا وہ بازار یوسف کے قابل نھیں تھا۔ امام خمینی(رح) کے ھم عصر لوگ بھی بھت کم تھے اور شائد اب بھی بھت کم ہیں۔
امام خمینی(رح) وہ مرد قلندر ہیں جنھوں نے مدفون میراث آئمہ کو زندہ کیا اور دنیا کو بتایا کہ اسلام آفاقی دین ہے۔ وہ دین جو عالمی حکومت کا نظام رکھتا ہے۔ امام راحل(رح) باقی فقھاء سے ممتاز اس لئے ہیں کہ انھوں نے دنیا کے سامنے اسلام ناب کا نفاذ کیا، جو آج پوری شان و شوکت کے ساتھ وقت کے استعمار کے مقابلے میں نبرد آزماء ہے۔
میراث امام خمینی (رح) کیا ہے؟
امام راحل(رح) کی میراث انقلاب اسلامی ہے، وہ انقلاب کہ جس نے پوری دنیا کے مظلوموں کو ظالموں کے خلاف قیام کرنے کی دعوت و طاقت دی ہے۔
میراث خمینی وہ اسلام ناب محمدی(ص) ہے کہ جس کی ماھیت آج پوری دنیا تسلیم کرچکی ہے۔ امام کی میراث وہ نظریات ہیں کہ جو پوری امت مسلمہ کے لئے ہیں۔
امام خمینی(رح) کسی خاص مکتبہ فکر کے لئے نھیں تھے بلکہ امام کی میراث آج میدان التحریر سے وال اسٹریٹ تک قیام کی صورت میں نظر آتی ہے۔ آج جھاں کھیں بھی آزادی حقوق کی بات ھوتی ہے اور قومیں اپنے حقوق لینے کے لئے ظالم حکمرانوں کے خلاف قیام کرتی ھوئی نظر آتی ہیں، یہ سب امام راحل کا دیا ھوا ورثہ ہے۔
امام کے ظالم شاہ کے خلاف قیام سے پوری دنیا کے پسے ھوئے طبقات کو امید نجات نظر آئی ہے، کیونکہ امام خمینی(رح) بار بار اپنے خطابات میں یھی فرماتے ھوئے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ انقلاب جاگیرداروں اور وڈیروں کا انقلاب نھیں ہے بلکہ یہ جھونپڑیوں میں رھنے والے مظلوموں کا انقلاب ہے۔
پوری دنیا کے مظلومین کو یہ سوچ دی کہ اپنی حیثیت کا ادراک کرو اور ظالم حکمرانوں کے سامنے اپنی حیثیت پیدا کرو۔ امام خمینی (رح) کی میراث رھبر معظم سید علی خامنہ ای ہیں کہ جو پوری دنیا کے مستکبرین کے مقابلے میں صحیح جانشین خمینی ھونے کا حق ادا کر رھے ہیں اور اسی شان و شوکت کے ساتھ امت کی نجات کی کشتی کو طوفانوں سے بچاتے ھوئے منزل کی طرف لے کر جا رھے ہیں۔
امام خمینی(رح) کی میراث لاکھوں شھداء کے خون سے وقوع پذیر ھونے والا انقلاب ہے۔ امام خمینی(رح) کی وراثت وہ نظریات ہیں کہ جس کا اظھار انھوں نے قائد ملت جعفریہ علامہ شھید عارف حسین الحسینی کے چھلم پر بھیجے جانے والے پاکستانی قوم کے نام پیغام میں کیا کہ "اگر علماء و مبلغین اپنے شرعی وظیفہ کو سرانجام دیتے ھوئے عوام کو بتاتے کہ ایک ھی دین میں دو متضاد راستے نھیں ھوسکتے تو آج یہ شھید ھمارے درمیان زندہ ھوتے۔"
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کی بازیوں کی مکتی پریت میں ہے (علامہ اقبال)
تحریر: شاھد رضا
 

Add comment


Security code
Refresh