www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

بعض لوگوں کو یوں لگتا ہے کہ جیسے اسلام نے جن عظیم کرداروں کا تعارف کروایا ہے وہ فقط کتابوں میں بستے ہیں، خارجی دنیا میں چلتے پھرتے کم از کم اب دکھائی نھیں دے سکتے،

 لیکن اگر واقعی امام خمینی(رح) کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو یوں لگتا ہے جیسے خواب و خیال حقیقت بن گئے ہیں۔
کتابوں سے نکل کر عظیم کردار باھر آگیا ہے اور اس آب و تاب سے باھر آیا ہے کہ اس نے ماضی کے عظیم اور عظیم تر کرداروں پر بھی انسانی اعتماد کو زندہ کر دیا ہے اور ایمان کو مضبوط تر کر دیا ہے۔ ایسے ھی تو نھیں شھید باقر الصدر نے فرمایا تھا: تم امام خمینی(رح) کی ذات میں اس طرح سے جذب ھو جاؤ جیسے وہ اسلام میں جذب ھوچکے ہیں۔
عجیب لگتا ہے جب ھم امام خمینی(رح) کی زندگی کے مختلف پھلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں۔ استعماری قوتوں اور سامراجی طاغوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والا کیسے محروم، مظلوم اور پابرھنہ انسانوں کے لئے تڑپتا ہے۔ اسے اس کی پرواہ نھیں کہ وہ خود تھران میں بیٹھا شمالی تھران کے موٹی گردن والے بے رحم سرمایہ داروں کو للکار رھا ہے۔
ایک شب زندہ دار عارف دن چڑھے اپنے عوام کے ساتھ پیار، محبت اور شفقت کی باتیں کر رھا ہے۔ وہ ایک عام سپاھی کے ایمان افروز جذبۂ جھاد و ایثار کو خراج عقیدت پیش کرتے ھوئے کھتا ہے:
اے کاش! من یک پاسدار بودم
اے کاش! میں ایک پاسدار اور سپاھی ھوتا۔
پھر وہ کھتا ہے:
من دست پاسداران را می بوسم
میں سپاھیوں اور نگھبانوں کے ھاتھ چومتا ھوں۔
دنیائے فقاھت کو نئی وسعتوں اور بلندیوں سے آشنا کرنے والا، اجتھاد کو زمان و مکان کے تقاضوں سے ھم آھنگ کرنے والا اور فقیھوں کو تدبیر و تدبر کی دعوت دینے والا، فقہ و اجتھاد کا عظیم راھنما بیک وقت مربئ اخلاق بھی ہے اور میدان شجاعت کا پیشوا بھی۔
امام خمینی(رح) کے دروس تفسیر پر نگاہ ڈالی جائے تو اور بھی کئی پھلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ انھوں نے قرآن حکیم کے لفظوں کی اوٹ میں چھپے بطون کی طرف جھانکنے کی دعوت دی اور علماء کے سامنے معانئ قرآن کے نئے پرت کھولے۔
اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے سامنے ان کا زانوئے تلمذ طے کرنا اور اس کے حضور ایک عام سے طالب علم کی حیثیت سے دست بستہ کھڑے ھوجانا اور اپنی بات کو فقط ایک احتمال کے طور پر پیش کرنا، تمام مفسرین کو ایک گھرے سبق اور درس سے آشنا کرتا ہے۔
دنیا کی تمام سیاسی قوتیں اور سیاسی مراکز جب یہ سمجھ رھے تھے کہ اب عالم سیاست فقط مادی تصور کائنات کی گرفت میں رھے گا، مشرق ھو یا مغرب روحانیت اور عالم باطن کا کوئی معنی اب عالم سیاست میں نھیں ھوگا۔
جب ایک طرف سرمایہ داری نظام اپنی گرفت اور شکنجے کو آگے بڑھا رھا تھا اور دوسری طرف اشتراکیت اس کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑی تھی اور دنیا کے سیاسی مراکز میں ایک ھی فکر غلطاں تھی کہ یا ھمیں سرمایہ داری نظام کے جھنڈے تلے کھڑا ھونا ہے یا پھر اشتراکیت کے پرچم تلے ھمیں پناہ ملے گی اور دونوں نظام ھائے زندگی کائنات کی مادی تعبیر کی دو مختلف شکلوں کے علاوہ کچھ نہ تھے، ایسے میں امام خمینی(رح) نے عرصۂ سیاست میں قدم رکھا۔
لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرۂ مستانہ بلند کیا اور دنیا کے ھر طرح کے طاغوت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور لا الہ الا اللہ کے عظیم سیاسی معنی کو دنیا سے روشناس کروایا تو دنیا حیران ھو کر رہ گئی کہ کیا روحانی تصور کائنات کے کسی مرکز اقتدار پر جلوہ افروز ھونے کا امکان عالم امکاں میں ابھی باقی تھا۔ ھاں امام خمینی(رح) کے وجود سے کائنات کی روحانی تعبیر پھر سے خارجی وجود پاکر سامنے آگئی۔
امام خمینی کی شخصیت ان کے جانے کے بعد رزق خاک نھیں ھوگئی بلکہ بقول بلھے شاہ:
بلھے شاہ اساں مرنا ناھیں
گور پیا کوئی ھور
امام خمینی(رح) کی شخصیت وسعت پذیر ہے، آگے کی طرف بڑھ رھی ہے۔ زمان و مکان کی سرحدیں اسے مقید نھیں کرسکتیں۔ اس لئے کہ اس کی دوستی کا ایک اور صرف ایک ھی مرکز تھا اور وہ وہ صاحب لامکاں تھا، جس کے حضور اس کی خشیت دیکھنے والوں نے ایسی ایسی باتیں بیان کیں کہ انسان کو ایک مدت ورطۂ حیرت رکھنے کے لئے کافی ہیں۔
انھوں نے پوری دنیا کے مستضعفین اور پسماندہ طبقوں کی حمایت میں دنیا کے مستکبرین کو للکارا۔ انھوں نے تمام ادیان کے ماننے والوں کو اسی ایک نقطے پر اکٹھے ھونے کی دعوت دی۔
انھوں نے مسلمانوں کو بھی فرقہ واریت سے نکل کر اتحاد و وحدت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا قرآنی پیغام دیا۔
سرمایہ داری اور استعماری قوتوں کی مخالفت کا معنی ان کے نزدیک انسانی علوم میں اھل مغرب کی ترقی کی مخالفت نہ تھا۔
وہ انسانی ارتقاء اور پیش رفت کے لئے ھر علم کے حصول پر زور دیتے رھے۔ دین کا اصل مقصد ان کے نزدیک تزکیہ نفس اور پروردگار سے ایسا رابطہ تھا جو بندے کو اپنے ھم نوع انسانوں سے غافل نہ کردے۔
خود ان کا ذاتی عمل بھی ان کے اس نظریئے کی شھادت دیتا ہے۔ وہ اگر خطیب جماران تھے تو نثر و نظم میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔
ان کے فلسفیانہ مطالب، ان کے فقیھانہ جواہر، دنیا کو متغیر کر دینے والے ان کے سیاسی افکار اور انسانی روح میں سما جانے والے ان کے اخلاقی مواعظ ھمیشہ دین و دانش کے موتی لٹاتے رھیں گے اور آنے والی نسلیں ان سے بصیرتیں سمیٹتی رھیں گی۔
تحریر: ثاقب اکبر
 

Add comment


Security code
Refresh