www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

903572
آج دنیا میں شیعت کی اپنی ایک الگ پھچان ہے اسے ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والی عالمی استکبار کے خلاف بر سر پیکار ایک ایسی قوم کے طور پر جانا جاتا ہے جو شھادتوں سے نھیں ڈرتی بلکہ انھیں اپنا افتخار سمجھتے ھوئے تاریخی گزرگاھوں پر شھادتوں کے چراغ جلاتے ھوئےآگے بڑھتی ہے نظام ظلم و ستم کے خلاف اگر ایک متحدہ آواز دنیا می سنائی دیتی ہے تو شیعت کی ہے ۔ اور کیوں نہ ھو اس کے ایک سمت کربلا ہے تو دوسری طرف ایک عادلانہ نظام حکومت کے قیام کی امید جو ظھور حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے وابستہ ہے، دنیا میں شیعت کی پھچان ایک سربلند و امن پسند قوم کے طور پر ہے ، وہ عراق و شام کے مقتل ھوں کہ لبنان و بحرین کے چمنستان شھادت یا پھر افریقا کے صحرواں میں شیخ زکزکی کی قیادت میں دین کی راھوں میں قربان ھو جانے کا جذبہ ، پاکستان میں محبت علی ع کا خراج ھو کہ دنیا کے گوشے گوشے میں حق کی آواز بلند کرنے کی بنیاد پر قتل و زنجیر و سلاسل شیعت ایک مضبوط و مستحکم قلعے کی صورت اپنے دشمنوں کے لئےناقابل تسخیر اور ان کی دسترس سے بھت دور دنیا میں عزت و استقلال کی آواز بنی ھوئی ہے،اور یہ جو کچھ بھی ہے ھمارے ائمہ طاھرین علیھم السلام کی ان کاوشوں کا نتیجہ ہے جو انھوں نے اپنے مختلف دورہ ھائے امامت میں انجام دیں اور آج ھم ان کے نتائج کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رھے ہیں.
شیعت کے قلعہ کو ناقابل تسخیر بنانے میں ھمارے ائمہ طاھرین علیھم السلام نے جو کرادار ادا کیا ہے نا قابل فراموش ہے. ھر ایک امام نے اپنے اپنے انداز میں شیعت کی فکری بنیادوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اس کے درخت کی دشوار ترین حالات میں اس طرح آبیاری کی ہے کہ بارھا دشمن نے اسے کاٹنا چاھا اسے اکھاڑ پھینکے کے لئے جو جتن ممکن تھے کئے لیکن یہ دشمن کی ھر کوشش کے بعد پھلے سے زیادہ بارور ھوکر سامنے آیا اور آج ھم اس کے ثمرات کو ایران و لبنان اور عراق و شام میں دیکھ رھے ہیں ۔
ان تمام ائمہ طاھرین علیھم السلام میں جنھوں نے شیعت کو دنیا میں ایک انقلابی و دشمن سے ٹکرانے والی قوم کی صورت شناخت ادا کرنے میں لافانی کردار ادا کیا امام جواد علیہ السلام کے بے نظیر کردار کو فراموش نھیں کیا جا سکتا ہے پیش نظر تحریر میں ھم نے ایک الگ زاویہ کے تحت امام علیہ السلام کی جانب سے شیعت کو مستحکم کرنے نیز اس کی توسیع و ترویج کے کچھ نمونوں پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔
امام جواد علیہ السلام اور شیعوں کا انسجام و انصرام
امام جواد علیہ السلام کے دور امامت میں کمسنی میں منصب امامت پر فائز ھونے اور آپ کی امامت کو لیکر بعض نادان چاھنے والوں کے درمیان شک و شبھے کے باوجود مجموعی طور پر شیعت کو مضبوطی حاصل ھوئی ،اور اس خطرے کے باوجود کہ شیعہ ایک محور سے ھٹ کر تتر بتر ھو جائیں گے آپ نے امامت کے سلسلہ سے پائے جانے والے شبھات کا جواب دیکر شیعوں کی بھترین انداز میں راھنمائی کی اور امت کو شبھات کے خطرناک گرداب سے نکال کر ساحل نجات تک پھنچایا جھاں آپ کی امامت کے آغاز میں شیعوں کے درمیان ایک بڑے شگاف کا خطرہ تھا وھیں آپ نے ان خطروں سے اس طرح مقابلہ کیا وھی لوگ جو امامت کو لیکر بکھرنے کی کگار پر تھے ایک ایسے مستحکم قلعہ کی شکل میں ڈھل گئے جو آج تک ناقابل تسخیر ہے۔
چنانچہ آپ کی امامت کے بعد شیعوں کے درمیان کوئی فرقہ وجود میں نھیں آیا اور آپ کی امامت کے برکت سے حکومت کے تمام تر دباو کے باوجود شیعوں کا انسجام و انصرام بھتر طور پر سامنے آیا اور آپ کی مساعی جمیلہ ،اس بات کا سبب بنیں کہ لوگوں کے جھاں عقائد مضبوط ھوں وھیں فقھی ، سیاسی اور فکری طور پر ان کے اندر بالیدگی پیدا ھو سکے سچ ہے آپ اپنے بابا کے اس قول کے مکمل مصداق تھے جس میں امام رضا علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ھمارے شیعوں کے لئے اس مولود سے زیادہ با برکت پیدا نھیں ھوا ۔[1]
امام جواد علیہ السلام کے دور میں شیعہ
شیعت کو امام جواد علیہ السلام کے دور میں بڑی عظمت حاصل ھوئی شیعت کے وقار میں و شان و شوکت میں قابل غور اضافہ ھوا اس کا ایک سبب یہ تھا کہ امام جواد علیہ السلام کے دور امامت میں شیعہ پوری اسلامی سرزمین پر پھیل چکے تھے ، بھت سے لوگ بغداد میں رھتے تھے تو کچھ مدائن و عراق میں رھائش پذیر تھے[2] جن کی آمد و رفت اور طرز زندگی خود بخود شیعت کی تبلیغ کا سبب تھی حتی مصر میں شیعوں کی ایک آبادی رھتی تھی اور کوفہ کے بعض محدثین جیسے محمد بن محمد ابن اشعث ، احمد بن سھل اور خاص کر اسماعیل بن موسی بن جعفر کے مصر میں قیام اور ان کی فعالیت و سرگرمیوں کی وجہ سے مصر میں بھی شیعت کا اچھا خاصا رسوخ تھا [3]۔
مصر کے شیعوں کے سلسلہ سے یہ بات بھی مشھور ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی شھادت کے بعد جب امام جواد علیہ السلام کی امامت کو لیکر شیعوں میں اختلاف پیدا ھوا تو مصر سے علی ابن اسباط نامی شخص بھی محض اس لئے آپ کے چھرے کو غور سے دیکھ رھا تھا کہ اپنے ذھن میں تصویر کو بٹھا لے اور مصر کے لوگوں کے درمیان جب پلٹے تو آپ کے چاھنے والوں کو بتا سکے کہ ان کے امام کا حلیہ کیسا تھا[4]، تاکہ لوگ آپ کے حلیہ ،چال ڈھال اور انداز کو اپنے ذھنوں میں رکھ کر ان لوگوں کے ممکنہ امامت کے دعوے کو مسترد کرد دیں جن کا تعلق آپ سے نھیں ہے لیکن وہ شیعت میں انحراف کی سازش کی بنا پر دعوی کر سکتے ہیں ۔
علی ابن ساباط کا آپ کے چھرے کو غور سے دیکھ کر اسے اپنے ذھن میں بٹھانے کی کوشش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مصر میں شیعہ موجود تھے ۔ جھاں مصر میں شیعہ موجود تھے وھیں ایران کے مختلف علاقوں جیسے خراسان ، سیستان ، ری ، قم ، طبرستان ، طالقان، اھواز، جیسے مقامات پر بھی شیعہ زندگی بسر کر رھے تھے ان علاقوں کے شیعہ آپ کی خدمت میں حاضر ھوتے اور آپ کو خمس ارسال کرتے حتی ان علاقوں میں آپ کی جانب سے بھت سے وکیل بھی موجود تھے جو ان علاقوں میں آپ کے کاموں کو دیکھ رھے تھے [5] اگرچہ ایران میں شیعت کا پرانا سابقہ رھا ہے اور یہ عباسی حکومت سے پھلے کی طرف پلٹتا ہے جیسا کہ جرجی زیدان نے اس بارے میں لکھا ہے : خراسان اور طبرستان و دیلم کے رھنے والے عباسی حکومت سے پھلے ھی شیعان علی علیہ السلام میں تھے [6]۔
امام رضا علیہ السلام کی جانب سے ایران کا سفر شیعت کےپھلنے پھولنے اور اس کی وسعت و اس کے نفوذ و رسوخ میں سنگ میل ثابت ھوا تھا جس سے مکمل فائدہ اٹھاتے ھوئے امام جواد علیہ السلام نے شیعت کو اور بھی مضبوط کیا اور یھی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں امام کے شاگردوں کی فعالیت بھی دوسرے مقامات کی بہ نسبت زیادہ تھی اور اسی بنا پر کھا جا سکتا ہے کہ امام جواد علیہ السلا م کے دور میں ایران شیعت کے اھم مراکز میں ایک تھا یھی وجہ ہے کہ علویوں کے قیام اسی خطے میں زیادہ ھوئے،اور خلافت کو لیکر ایران میں ناراضگی و مخالفت دوسری جگھوں سے زیادہ تھی ایران میں عباسی خلافت کو لیکر مخاف فضا کے دو بڑے نمونے یہ ہیں؛
الف: قم میں مامون کے خلاف شورش و بغاوت
۲۱۰ ھجری میں قم کے لوگوں نے مامون کے کارندوں کے خلاف شورش کی ان کی مخالفت کا سبب یہ تھا کہ مامون جب خراسان سے بغداد کی طرف ایک سفر سے پلٹ رھا تھا تو اس نے شھر رے کے ٹیکس میں لوگوں کو چھوٹ دی اور ٹیکس کم کر دیا قم کے لوگوں نے بھی اسے مکتوب لکھا اور اس سے اس بات کا تقاضا کیا کہ رے کے لوگوں کی طرح انھیں بھی کچھ چھوٹ دی جائے لیکن مامون نے اس بات کو قبول نھیں کیا جسکی بنا پر لوگوں نے شورش کر دی مامون نے بھی کچھ سپاھیوں کو بغاوت کا سر کچلنے کے لئے بھیج دیا ، مامون کے سپاھیوں نے نہ صرف لوگوں کا محاصرہ کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا بلکہ ۲۰ لاکھ درھم کے ٹیکس کو ۷۰ لاکھ کے ٹیکس میں بدل دیا [7]۔
اگرچہ اس پورے ماجرے سے جو چیز ظاھر ھوتی ہے وہ یھی ہے کہ یہ معاملہ اقتصادی معاملہ تھا لیکن اس جھت سے یہ بات قابل غور ہے کہ مامون نےیہ امتیازی سلوک ایران ھی کے قریب قریب کے دو شھروں کے لئے کیوں کیا ؟ اور کیوں قم کے لوگوں کی درخواست کو قبول نھیں کیا ، اس کو دیکھ کر کھا جا سکتا ہے کہ گرچہ رے میں بھی شیعہ تھے لیکن قم کے شیعوں کے درمیان ولایت و امامت کو لیکر جو پختہ فکر تھی وہ کھیں اور نہ تھی اور یہ امامت کو لیکر جتنا خالص تھے دوسرے شھر کے لوگ اتنا نہ تھے چنانچہ کھا جا سکتا ہے کہ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ امامت و ولایت سے نزدیکی کی بنا پر مامون نے ان کے ٹیکس کو نہ صرف کم کیا بلکہ بڑھا دیا ، اھل قم کا جرم یہ تھا کہ اھلبیت اطھار علیھم السلام سے ان کی محبت بے نظیر تھی تو اس محبت کی بنا پر ان پر حکومت کی جانب سے تنگیاں بھی ویسی ھی تھیں پابندیاں بھی ویسی ھی تھیں ۔
ب: محمد بن قاسم حسینی کاخروج
۲۱۹ ھجری میں محمد بن قاسم حسینی علوی ، جو کہ ایک عابد و زاھد پرھیزگار و فقیہ کے طور پر مشھور تھے اور ان کی دینداری میں کسی کو حرف نہ تھا اور امام سجاد علیہ السلام کےفرزندوں میں تھے انھیں کی نسل سے تھے ، انھوں نے کوفہ میں الرضا من آل محمد کے نام سے خروج کیا اور اس کے بعد خراسان چلے گئے ، جب یہ خراسان پھنچے تو ان کے نعرے کی بنیاد پر جو الرضا من آل محمد تھا ۴۰ ھزار لوگوں نے بیعت کر لی اس کے بعد ان کے اور حکومت کے سپاھیوں کے درمیان جنگ ھوئی ، اور آخر کار انھیں پکڑ کر گرفتار کر لیا گیا ۔
ان دو نمونوں سے واضح ھوتا ہے کہ ایران میں شیعہ کس قدر تھے اور اھلبیت اطھار علیھم السلام سے کس قدر مانوس تھے کہ ان کی خاطر ظالموں سے بیر لینے میں انھیں کوئی عار نہ تھی ۔ان شیعوں کے لئے ضروری تھا کہ ان کی فکری تربیت ھو سکے ان کے عقائد مضبوط ھوں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ قوی ھو امام جواد علیہ السلام نے یہ کام اپنے وکیلوں کو دیا اور آپ کے وکیلوں نے اس کام کو بخوبی اس طرح انجام دیا کہ آج بھی ایران کے بعض علاقوں کے شیعہ فکری و عقائد کے حوالے سے د یگرمقامات سے ممتاز نظر آتے ہیں ۔
شیعوں سے امام کا تعلق
ایک طرف حکومت کی مشینری کی کوشش تھی کہ امام علیہ السلام کے سامنے ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دے کہ امام سےشیعوں کا تعلق محدود ہو جائے تاکہ شیعوں کی رگ حیات کو کاٹا جا سکے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ شیعوں کی رگ حیات امامت سے انکا تعلق ہے ، وہ جانتے تھے کہ شیعہ اپنے امام کو اپنی پناہ گاہ سمجھتے ہیں اور امام کوساری دنیا میں سب سے افضل فرد جانتے ہیں اپنی زندگی کے خطوط کو امام علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں ترسیم و تنظیم کرتے ہیں ، لہذا حکومت کی پوری کوشش تھی کہ امام علیہ السلام سے کسی بھی طرح رابطہ نہ ہو سکے جبکہ امام علیہ السلام کی پوری کوشش تھی کہ شیعوں سے رابطہ و تعلق ٹوٹنے نہ پائے ، اسی وجہ سے آپ نے دنیا بھر کے شیعوں کے درمیان اپنے وکیلوں کو بھیج رکھا تھا جو شیعوں کی ضرورتوں کو آپ تک پھنچایا کرتے تھے ، آپ تک شرعی رقوم شیعوں ھی کے ذریعہ پھنچتی آپ جسے آپ اپنے نمائندوں کے ھی ذریعہ ضرورت مندوں تک منتقل کرتے جب امام علیہ السلام کی جانب سے شیعوں تک رسائی کے بارے میں ھم کتابوں میں تلاش کرتے ہیں تو ھمیں ملتا ہے کہ امام علیہ السلام کی جانب سے اھواز، ھمدان ، سیستان ، بصرہ، ری ، واسط، کوفہ قم میں ایسے نمائندے تھے جو آپ کے کاموں کو انجام دیتے اور شیعوں اور آپ کے درمیان پل کا کام کرتے تھے یھاں پر ھم ان میں سے اھم شخصیتوں کی طرف اس طرح اشارہ کر سکتے ہیں :
۱۔ ابراھیم بن محمد ھمدانی
یہ وہ شخصیت تھی جو ھمدان کے علاقے میں امام کی جانب سے وکیل قرار دی گئی تھی ان کے بارے میں امام علیہ السلام کا یہ مکتوب ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا: اس علاقے میں تمھارے علاوہ میرا کوئی وکیل نھیں ہے میں نے ھمدان میں اپنے دوستوں سے کہہ دیا ہے کہ تمھاری اطاعت کریں [8]
۲ ۔ صفوان بن یحی
یہ امام کاظم علیہ السلام ، امام رضا علیہ السلام اور امام جواد علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اورامام جواد علیہ السلام کے وکیل تھے [9] شیعہ اپنی شرعی رقوم ان کو دیتے تھے تاکہ امام علیہ السلام تک پھنچا دیں معمر بن خلاد کا کھنا ہے : جن غلوں کے بارے میں اسماعیل بن خطاب نے وصیت کی ہے وہ صفوان بن یحی کو دے دئے جائیں انھیں لیکر میں امام جواد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا حضرت نے فرمایا: پروردگار اسماعیل بن خطاب اور صفوان پر اپنی رحمتوں کو نازل کرے کہ وہ میرے بابا کی جماعت میں ہیں اور جو میرے بابا کی جماعت میں ھو خدا سے جنت میں ماوی عطا کرے گا ۔
صفوان ۲۱۰ ھجری میں اس دنیا سے رخصت ھو گئے امام جواد علیہ السلام نے ان کے لئے حنوط و کفن کا انتظام خود کیا اور اسماعیل بن موسی بن جعفر سے کھا کہ ان پر نماز پڑھیں۔ [10]
۳ ۔ علی بن مھزیار اھوازی
یہ وہ شخصیت ہے جو جلیل القدر منزلت کی حامل ہے ، امام کے اس مایہ ناز صحابی نے اسلامی معارف و دینی مسائل پر ۳۰ [11]یا ۳۳ کتابیں تحریر کیں ، شیعوں کے ھمیشہ مدد گار رھے ،ان کا طریقہ یہ تھا کہ زیادہ تر سوالات امام علیہ السلام سے لکھ کر پوچھتے تھے اور جو ضروری باتیں ھوتیں امام علیہ السلام تک منتقل کرتے امام علیہ السلام اور علی بن مھزیار کے درمیان بھت سے خطوط ردو بدل ھوئے ان میں ھم ایک کو پیش کر رھے ہیں ۔
علی بن مھزیار نے ایک خط کے ذریعہ جب امام علیہ السلام کو حکومتی کارندوں اور قم کے رھنے والے شیعوں کے درمیان تصادم کی اطلاع دی تو امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں لکھا : تم نے جو بھی قم کے بارے میں مجھے اطلاع دی اسے میں نے دیکھ لیا خدا انھیں نجات دے ،اور ان کی مشکلات کو حل کرے ، تم نے جو باتیں مکتوب کی ہیں ان سے اس قضیہ میں جان کر مجھے خوشی ھوئی ، اسی طرح سے یھی عمل کرتے رھو امید کرتا ھوں کہ خدا بدلے میں جنت دے کر تمھیں خوش کرے ، اور تم سے میری رضایت کی بنا پر راضی ھو جائے اس کے حضور عفو و کرم کا خواستار ھوں حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ [12]
اس مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ علی ابن مھزیار صرف اس علاقے میں آپ کے نمائندہ اور وکیل نہ تھے بلکہ آپ کو ایک خصوصی حیثیت بھی حاصل تھی اسی وجہ سے امام علیہ السلام فرماتے ہیں اسی طرح اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رھو اس کے علاوہ اور بھی ایسے مکتوب ہیں جنھیں امام علیہ السلام نے علی ابن مھزیار کے مکتوب کے جواب میں لکھ کر ان سے اپنی محبت اور اور اپنے اعتماد کا اظھار کیا ہے۔ [13]
علی ابن مھزیار کی شخصیت اس اعتبار سے ھمارے لئے اھم ہے کہ ان کے والد کا تعلق ھمارے ھی علاقے و خطے سر زمین ھندوستان سے تھا اور مذھب کے لحاظ سے پھلے عیسائی تھے[14] ان کے عیسائی مذھب ھونے کے بارے میں صراحت کے ساتھ کشی نے ان کے بارے میں بیان کیا ہے کہ پھلے وہ عیسائی تھے اور ان کا تعلق ھندوستان سے تھا لیکن خدا نے اپنے کرم و لطف سے ان کی ھدایت کی۔ [15]
علی ابن مھزیار کا یہ نمونہ ھمارے لئے قابل غور ہے کہ ھندوستان کا رھنے والا ایک شخص امام جواد علیہ السلام سے اتنا قریب ھو جاتا ہے کہ آپ کا مورد اعتماد بن جاتا ہے اور ان شخصیتوں میں قرار پاتا ہے جن کے لئے امام علیہ لسلام دعاء کرتے ہیں ، جھاں یہ بات ھمارے لئے پیروی اور اطاعت کے اصولوں کو لیکر بھت کچھ سبق رکھتی ہے وھیں امام علیہ السلام کی طرز امامت کو بھی بیان کرتی ہے کہ کس طرح دور دراز کے علاقے کے لوگوں کو امام علیہ السلام نے اپنے کردار کے بل پر اپنا گرویدہ بنا لیا تھا ۔
آج ھمارے لئے بھی ضروری ہے اپنے سامنے اس کردار کو بصورت آئینہ رکھیں جس نے ملک و جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر اپنے مثبت طرز عمل سے نہ صرف اپنوں بلکہ دوسرے مذاھب کے لوگو ں کو بھی متاثر کیا آج ھندوستان میں چھائے نفرتوں کے بادلوں کے درمیان ھمارے لئے ضروری ہے کہ اسی طرز کو اختیار کریں اور حلم وبردباری کے ساتھ متحد ھو کر جھاں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں وھیں جذبات میں آ کر ایسا کچھ نہ کریں کہ لوگ ھمارے دین و مذھب سے محض اس لئے دور ھو جائیں کہ انھیں اس میں عقل و شعور و منطق نظر نہ آ ئے اور وہ اپنی معنویت کی تسکین کے لئے ان راھوں پر چل پڑیں جس کی انتھا انسانیت کی ھلاکت کے سوا کچھ نھیں ۔
تحریر: سیدنجیب الحسن زیدی
حواشی :
[1] ۔ اعلام الورى ، ص 332.
[2] ۔ الغـيـبـه ، شـيـخ طـوسـى ، ص 212 بـه نقل حيات فكرى و سياسى امامان شيعه
[3] ۔ ر.ك ـ سيره پيشوايان ، پيشوايى ، ص 561.
[4] ۔ ر.ك ـ كافى ، ج 1، ص 384.
[5] ۔ ر.ك ـ سـيـره پـيـشـوايان ، ص 561 و حيات فكرى و سياسى امامان شيعه ، ج 2، ص 133.
[6] ۔ تـاريـخ تـمـدن اسـلامـى ، ج 2، ، ص 232 بـه نقل الحياة السياسية للامام الرضا(ع )، ص 172
[7] ۔ الكامل فى التاريخ ، ج 6، ص 399.
[8] ۔ ر.ك ـ بحار، ج 50، ص 109.
[9] - الامام الجواد، قزوينى ، ص 197.
[10] ۔ مسندالامام الجواد، ص 137.
[11] ۔ فهرست، شیخ طوسی، ص ۸۸
[12] ۔رک : رمضانعلی رفیعی, تاریخ زندگانی ائمه (امام محمدتقی علیه السلام)
[13] ۔ بحار الأنوار، ج ‏۵۰، ص ۱۰۵٫
[14] ۔زرکلی‌، الاعلام، ج ۵، ص ۱۷۸
[15] ۔ اختیار معرفة الرجال، شیخ طوسی، ص ۵۴۸

Add comment


Security code
Refresh