www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

654897
ائمہ طاھرین علیھم السلام کی عملی زندگی کی گوشوں سے آشنائی آج کے دور کی اھم ضرورت ہے ، آج معنویت کے بحران سے جوجھتی اس دنیا میں اگر ھمارا کوئی سھارا ہے تو یھی ذوات مقدسہ ہیں جنھوں نے اپنی پرمعنی زندگی میں ھمارے لئے پربار زندگی کے اتنے خوشے رکھ دئے ہیں کہ ھم چنتے چنتے تھک جائیں گے لیکن ان میں کمی واقع نہ ھوگی ۔
ہھمارے سماج و معاشرہ میں جوان نسل آج اس ضرورت کو محسوس کر رھی ہے کہ ائمہ طاھرین علیھم السلام کی عملی زندگی سے آشنا ھو چنانچہ آج ائمہ اطھار علیھم السلام کی زندگیوں پر اس لحاظ سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ ان کی عملی زندگی میں ھمارے لئے کیا تھا بسا اوقات ھم ائمہ طاھرین علیھم السلام کی زندگی کے ان الھی پھلووں پر ھی نظر ڈالتے ہیں جن کا ھم سے کوئی عملی تعلق نھیں ہے مثلا ان کا علم غیب ، یا آنے والے زمانے کے سلسلہ سے ان کی پیشین گوئیاں ،یا مناظروں میں بغیر سوال پوچھے جواب دینا وغیرہ ، یہ سب کے سب ان کے فضائل و کمالات میں ہیں اور ھم سب کو ان پر فخر ھونا چاھیے کہ ھمارے ائمہ طاھرین علیھم السلام کمالات کی ان عظیم بلندیوں پر فائز تھے جنھیں ساری دنیا مل کر بھی نھیں حاصل کر سکتی ، لیکن ھمیں اس رخ سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کی عملی زندگی میں ھمارے لئے کیا تھا ؟
چنانچہ جب ھم اپنے اماموں کی زندگی کا اس رخ سے مطالعہ کرتے ہیں تو ھمیں ایسے گوھر ھائے نایاب و گرانبھہا ملتے ہیں جن کی روشنی میں ھہم جادہ حیات کی ھر تاریکی کو دور کرتے ھوئے اپنے مقصد حیات کی طرف گامزن ھو سکتے ہیں ،ایسے ھی چند گوھر نایاب ھم نے امام محمد باقر علیہ السلام کی زندگی سے نکالنے کی کوشش کی ہے جن سے ھماری معرفت میں تو اضافہ ھو گاھی زندگی کو بھتر طور پر گزارنے میں ھمارے لئے یہ شہ پارے بھت مدد گار و معاون ھوں گے خاص کر اس مھینہ میں ائمہ طاھرین علیھم السلام کی زندگی کو آئینہ بنا کر اپنے سامنے رکھنا بھی ایک عظیم ثواب ہے جس مہھینہ کو رجب کے نام سے جانا جاتا ہے۔
شک نہھیں کہ رجب کا مھینہ یوں تو خیر و برکت کا مھینہ ہے معنویت و بندگی کا مھینہ ہے لیکن ھمارے لئے اس کی ابتداء اس لئے اور بھی اھم ہے کہ اس کی پھلی تاریخ ھمارے پانچویں امام یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت سے منسوب ہے [۱] ، اورآپ کی ولادت کی مناسبت سے ھی ھم امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات کے کچھ نقوش آپ کے سامنے رکھ رھے ہیں شاید ماہ رجب کی برکتوں کے سایہ میں ھم روحانی طور پر اپنے اس امام سے کچھ نزدیک ھو جائیں جس نے رجب کے چاند کو اپنی آمد سے اور ھی نکھار دیا ہے ،یھی وجہ ہے کہ رجب کی آمد کی خوشیاں امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت کی منابست سے ھونے والی محافل کے پیش نظر دوبالا ھو گئی ہیں۔
یھاں پر ایک ضروری بات یہ ہے کہ ھماری کوشش یہ ھونا چاھیے کہ جب ھم اپنے ائمہ طاھرین علیھم السلام کی ولادت کی خوشیاں منائیں تو بس محفل سجا کر نہ اٹھ جائیں یہ بھی گرچہ ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی روح کو بھی ان کمالات سے سجائیں جو ھمارے ائمہ طاھرین علیھم السلام میں موجود تھے ان کمالات کو اگر جمع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ھو سکتی ہیں لیکن یھہاں پر اختصار کے پیش نظر ھم چند ایک ھی کی طرف اشارہ کر رھے ہیں ۔
ذکر الھی میں مشغول ذات
امام علیہ السلام کی زندگی میں ھر دم ذکر الھی کا ھونا ھمارے لئے اب بات پر توجہ کا سبب ہے کہ جس طرح آپ خدا کو ھر پل یاد رکھتے تھے آپ کے شیعہ ھونے کے اعتبار سے ھمارے لئے بھی ضروری ہے کہ زبان کو ادھر ادھر کی باتوں میں استعمال کرنے کے بجائے ذکر الھی میں استعمال کریں ۔
ابن قداح نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہےکہ آپ فرماتے تھے : میرے بابا کثیرالذکر تھے ، خدا کی یاد میں رھتے تھے اس کے ذکر میں مشغول رھتے تھے جب میں ان کے ساتھ کھانے کے لئے دسترخوان پر بیٹھتا تو دیکھتا کہ ان کی زبان ذکر الھی میں مشغول ہے ،وہ لوگوں سے گفتگو بھی کرتے تو ذکر خدا سے غافل نہ ھوتے میں ھمیشہ ھی انھیں لا الہ الا اللہ کھتے دیکھتا ، ھمیں گھر میں جمع کر کے وہ کھتے سورج کے طلوع ھونے تک ذکر خدا کرو جو قرات قرآن میں مشغول ھونا چاھتا طلوع آفتاب تک وہ ذکر خدا کرتا اور جو قران کی تلاوت نھیں کرتا آپ اسے حکم دیتے ذکر الھی میں مشغول رھے۔ [۲]
آج ھمارے گھروں سے اگر ھر قسم کی آوازیں سنائی دیں لیکن قرآن کی آواز نہ سنائی دے تو کیا سمجھا جائے ؟ یہ فیصلہ ھم خود کریں جبکہ امام کی خود بھی ذکر الھی میں مشغول رھتے تھے دوسروں کو بھی تلاوت قرآن و ذکر الھی میں مشغول رھنے کا حکم دیتے تھے ۔
ھم اپنا محاسبہ کریں کہ صبح جب ھ آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پھلی آواز ھمارے کانوں میں کس چیز کی آتی ہے ، گھر سے تلاوت قرآن کریم اور ذکر الھی کی آوازیں آتی ہیں یا شیطانی آوازیں ھمارا استقبال کرتی ہیں ؟…
باطل کی وجہ سے حق سے منھ نہ موڑنا
زرارہ بن اعین کھتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام قریش کی ایک تشیع جنازہ میں حاضر ھوئے ، میں بھی آپ کی خدمت میں تھا عطا ء بن ابی رباح نامی اس دور کی ایک شخصیت بھی حاضرین میں تھی جنازے کے پیچھے ایک خاتون بھت زور سے چلا کر رو رھی تھی اور فریاد کررھی تھی عطاء نے اس خاتون سے کھا : خاموش ھو جاو تمھاری آواز نہ نکلے لیکن وہ عورت گریہ کرتی رھی اور اس کی فریادیں بلند تھیں جس کے سبب عطا ء نے کھا تم اگر خاموش نہ ھوئیں تو میں تشییع چھوڑ کر چلا جاوں گا پھر بھی وہ عورت خاموش نہ ھوئی تو عطا نے تشیع جنازہ چھوڑ دی میں نے امام علیہ السلام سے کھا مولا عطا ء نے تشیع جنازہ کو ترک کر دیا امام علیہ السلام نے پوچھا کیوں؟ میں نے کھا یہ عورت جو تشیع جنازہ میں فریاد کر رھی تھی اس کے سبب امام علیہ السلام نے کھا کہ تشیع جنازہ کو جاری رکھو اگر ھم کسی صحیح جگہ پر کوئی غلط بات دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ سے حق کو نھیں چھوڑتے اگر کوئی انسان کسی درست و صحیح مقام پر کسی بے جا کام کی وجہ سے صحیح کام کو چھوڑ دے تو اس نے اپنے مسلمان بھائی کے حق کو ادا نھیں کیا ہے ، جب نماز میت ختم ھو گئی تو میت کے ولی نے امام کی خدمت میں عرض کی مولا آپ واپس چلے جائیں میں نے بھی امام علیہ السلام سے عرض کی مولا مجھے بھی آپ سے کام ہے اس لئَے واپس چلتے ہیں مولا نے کھا ھم نے اس لئے تشیع جنازہ میں شرکت کی کہ خدا کے اجر و فضل کے مستحق قرار پائیں اس میں کسی کی اجازت کا معاملہ نھیں ہے انسان جس قدر بھی جنازے کے ساتھ رھے گا اتنا ھی اسے اجر نصیب ھوگا [۳]عطاء بن ابی رباح کے بارے میں ہے کہ درباری ملاوں میں ایک تھا جس کی بنی امیہ میں بڑی بات تھی اور وہ اس کا خاص احترام کرتے تھے حتی لوگوں کے درمیان یہ مشھور تھا کہ عطا ء کے علاوہ کسی کو فتوی دینے کا حق نھیں ہے ۔
ھم غور کریں امام علیہ السلام کا یہ عمل ھمیں کیا سبق دے رھا ہے ؟ آیا کسی ایک چھوٹی سی غلط بات کو کسی دوسرے ثواب کے کام میں رکاوٹ بنایا جا سکتا ہے ؟ یا پھر ھمیں سماج اور معاشرے کے سدھارنے کے لئے تھوڑا صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے ؟ سماج و معاشرے میں کسی غلط رسم و رواج کی بنیاد پر کسی مستحب کام کو ترک کر دینا بنی امیہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے کسی عطائی کی فکر تو ھو سکتی ہے باقری فکر ھرگز نھیں ۔
تسلیم و رضا
امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس کچھ لوگ آئے ، دیکھا کہ امام علیہ السلام کے پاس ایک بچہ ہے جس کی طبیعت خراب ہے اور سخت علیل ہے بچے کی علالت کی وجہ سے امام علیہ السلام بھی شدید طور پر متاثر ہیں اور سخت مضطرب و پریشان ہیں انھوں نے اپنے آپ سے کھا خدا نہ کرے اس بچے کا انتقال ھو جائے ورنہ امام کو جس پریشانی کہ عالم میں ھم نے دیکھا ہے اس کے مطابق امام کو بھی خطرہ لاحق ہے اتنے بھی عورتوں کے نالہ و شیون کی آوازیں بلند ھو گئیں پتہ کرنے پر معلوم ھوا کہ بچہ دنیا سے چلا گیا کچھ ھی دیر کے بعد امام علیہ السلام ان کے پاس آئے تو لوگوں نے دیکھا اب امام کی وہ کیفیت نھیں ہے جو پھلے تھی لوگوں نے کھا ھماری جانیں آپ پر قربان ھم نے تو جب بچہ مریض تھا تو آپ کو اس عالم میں دیکھا کہ اگر خدا نخواستہ اسے کچھ ھو جائے تو آپ کی جان کو خطرہ ھو جائے گا لیکن اس وقت تو آپ پھلے سے زیادہ مطمئن نظر آ رھے ہیں امام علیہ السلام نے جواب دیا ھم یہ دوست رکھتے ہیں کہ ھمارا جو بھی محبوب و عزیز ہے وہ بخیر و عافیت رھے لیکن جب قضائے الھی کو دیکھتے ہیں تواس کے حکم کے آگے تسلیم ھو جاتے ہیں اس طرح جوخدا چاھتا ہے ھم بھی وھی چاھتے ہیں[۴] ۔ تسلیم و رضا کی یہ منزل یقینا بیان کرنا آسان ہے اور اس پر عمل سخت ہے لیکن اگر امام علیہ السلام کی یہ سیرت ھم سامنے رکھیں تو ان لوگوں کو بڑا حوصلہ ملے گا جن سے ان کی قیمتی چیز چھن گئی یا کوئی عزیز و چاھنے والی ذات اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر دیار باقی کی طرف کوچ کر گئی ۔
غضبِ الھی کا خوف و ڈر
امام محمد باقر علیہ السلام کا افلح نامی ایک غلام کھتا ہے :میں امام علیہ السلام کے ساتھ حج کے لئے گیا ، لیکن جب مسجد الحرام میں داخل ھوا تو میں نے دیکھا جیسے ھی امام علیہ السلام نے مسجد الحرام میں قدم رکھا اور آپ کی نگاہ کعبہ پر پڑی تو آپ نے بلند آواز سے گریہ فرمایا : میں نے کھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ھو جائیں لوگ دیکھ رھے ہیں کیا بھتر نھیں کہ آپ کی آواز تھوڑا دھیمی رھے ، آپ نے جواب دیا : ویحک یا افلح ، وائے ھو تجھ پر افلح کیوں کر میں گریہ نہ ھوں ،میرا گریہ اس لئے ہے کہ شاید خدا میرے اوپر ایک نظر رحمت ڈال دے اور قیامت کے دن میں کامیاب ھو جاو اس کے بعد آپ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور آپ مقام ابراھیم کے پاس آئے آپ نے نماز پڑھی اور جب آپ نے سر کو سجدہ سے اٹھایا تو میں نے دیکھا سجدگاہ آنسووں کی کثرت سے بھیگ چکی تھی ،صرف یھی مقام نھیں اگر آپ کسی بات پر مسکراتے تب بھی یھی دعاء کرتے اللهم لاتمقتنى» پروردگار میرے اوپر غضبناک نہ ھونا [۵]
محبت اھلبیت اطھار علیھم السلام
ابو حمزہ سے نقل ہے کہ سعد بن عبد اللہ جو کہ عبد العزیز بن مروان کے فرزندوں میں تھے اور امام علیہ السلام نے انھیں سعد الخیر کھا امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے اور رقیق القلب عورتوں کی طرح گریہ کرنے لگے امام علیہ السلام نے فرمایا: ائے سعد کیوں گریہ کر رھے ھو ؟ سعد نے کھا کیونکر گریہ نہ کروں جب کہ میں بنی امیہ کے گھرانے سے تعلق رکھتا ھوں جسے خدا نے قرآن میں شجرہ ملعونہ کھا ہے آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نھیں ھو تم ہم میں سے ھو تم دوست داران اھلبیت میں سے ھو[۶] کیا تم نے خدا وند متعال کا یہ قول نھیں سنا ہے جس میں جناب ابراھیم علیہ السلام سے نقل کر کے خدا فرماتا ہے : فمن تَبعنى فانه منّى[۷] جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے ۔ یعنی امام بتانا یہ چاھتے تھے کہ خاندانی پس منظر کے لحاظ سے ممکن ہے تم کسی جگہ سے وابستہ کیوں نہ ھو لیکن حقیقت میں تم اگر ھمارا اتباع کرتے ھو تو ھم میں سے ھو۔
برید بن معاویہ عجلی سے نقل ہے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ خراسان سے ایک شخص آیا اور امام کے گھر میں داخل ھو گیا اس نے اپنے پیروں کو دکھایا جو پیدل چلنے کی وجہ سے چاک چاک ھو گئے تھے اور بری طرح زخمی تھے اس آنے والے شخص نے کھا کہ” میں خراسان سے آ رھا ھوں خدا کی قسم خراسان کا یہ طولانی سفر طے کرکے میں نھیں آیا مگر یہ کہ آپ کی محبت میں”، امام علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم ایک پتھر بھی ھم سے محبت کرے گا تو خدا اسے بھی ھمارے ساتھ محشور کرے گا کیا دین محبت کے علاوہ اور کچھ ہے[۸] یعنی مکمل دین محبت میں سمٹا ھوا ہے ۔
رزق حلال اور محنت و مشقت
طاووس یمانی و ابراھیم بن ادھم کی طرح صوفی طرز فکر کا حامل اور امام محمد باقر علیہ السلام کے دور کا ایک معروف زاھد محمد بن منکدر نقل کرتا ہے :
سخت گرمیوں کے دنوں میں میں مدینہ کے مضافات سے نکل رھا تھا کہ میں نے گرم ھوا میں محمد بن علی علیہ السلام کو دیکھا جو اپنے دو خادموں کے ساتھ کام میں مشغول تھے میں نے اپنے آپ سے کھا کس طرح قریش کے بزرگوں کی ایک بڑی شخصیت اتنی گرمی میں اور اتنے بھاری بدن کے ساتھ دنیا کی فکر میں مشغول ہے خدا کی قسم میں ابھی جا کر انھیں موعظہ کرتاھوں یہ سوچ کر میں امام محمد باقر علیہ السلام کے نزدیک گیا اور میں نے انھیں سلام کیا انھوں نے ھانپتے ھوئے پسینہ پسینہ ھوتے ھوئے میرے سلام کا جواب دیا میں نے کھا خدا آپ کے کاموں کو سدھارے کیوں آپ جیسی بزرگ شخصیت اتنی سخت گرمی میں مال دنیا کے حصول میں لگی ہے اگر اس حالت میں موت آ جائے تو کیا کروگے۔
امام باقر علیہ السلام نے خادموں کے ھاتھوں کو چھوڑا اور کھڑے ھو گئے اور پھر فرمایا: خدا کی قسم اگر اس حالت میں موت آ جائے تو خدا کی اطاعت کی حالت میں آئے گی میری یہ جدو جھد و کوشش خدا کی اطاعت میں صرف ھو رھی ہے اس لئے میں اس کام کے ذریعہ اپنے آپ کو تم سے اور دوسروں سے بے نیاز کر رھا ھوں تاکہ مجھے کسی کے سامنے ھاتھ نہ پھیلانا پڑے میں اس وقت خدا کے حضور جانے سے ڈرتا ھوں جب معصیت میں مبتلا ھوں اور میری موت آ جائے محمد بن منکدر کا کھنا ہے جب میں نے یہ باتیں سنیں تو میں نے کھا خدا آپ پر اپنی رحمتوں کو نازل کرے میں آ پ کو وعظ و نصیحت کرنا چاھتا تھا لیکن آپ نے مجھے نصحیت کر دی[۹] یعنی آپ نے مجھے صحیح راستہ دکھا دیا اور میری راھنمائی کی ۔
امام علیہ السلام کی زندگی سے ماخوذ یہ چند شہ پارے تو سب کے سب ھی ھمارے لئے اھم ہیں لیکن خاص طور پر رزق حلا ل کے سلسلہ سے امام علیہ السلام کا گرمیوں کے دنوں میں بھی نکل کر محنت کرنا ھمارے تمام جوانوں کے لئے عبرت ہے اور خاص کر ان جوانوں کے لئے جو حالات و گرمی کا بھانہ بنا کر بسا اوقات گھر میں ھی رک جاتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں بروقت ان کو وہ سب نھیں مل پاتا جو ملنا چاھیے اور پھر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ھو جاتے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی زندگی ھمیں یہ درس دیتی ہے کہ خدا کے لئے زندگی کیسے گزاری جائے ، جھاں آپ ھمیشہ ذکر الھی میں مشغول رھتے ہیں وھیں آپ محنت اور مزدوری بھی کرتے ہیں اور آپ کا یہ کھنا کہ جو ھماری اتباع کرے گا وہ ھمارے ساتھ ھوگا ، اس بات کی دلیل ہے کہ امام کو کام چور اور محنت سے جی چرانے والے لوگ ناپسند ہیں لھذا ھم سب کو کوشش کرنا چاھیے کہ اپنی معیشت اور اپنے اقتصاد کو لیکر فکر مند ھوں اور رزق حلال کے لئے محنت کریں کہ کسی کے سامنے ھاتھ نہ پھیلانا پڑے ۔
ایک ذمہ دار شیعہ کی یہ ایک معمولی سی پھچان ہے کہ وہ دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے کسی کے اوپر بوجھ نھیں بنتا ۔ تو آئیں امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے عھد کرتے ہیں :
مولا ھم اپنی زندگی کو اس طرح گزاریں گے کہ ھرگز کسی پر بوجھ نہ بنیں اور محنت و لگن کے ساتھ کوشش کریں گے وہ مقام حاصل کر سکیں جو ایک شیعہ اھلبیت اطھار علیھم السلام کا ھونا چاھیے ، ھم اپنے سامنے پھیلنے والے ھاتھوں کو عطا کرنے والے ھاتھوں کے حامل بنیں گے ھرگز ھرگز کسی کے سامنے دست سوال درازنہ کریں گے ۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشی :
١ ۔امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت علماءنے بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ ۵۷ ہجری مدینہ میں بیان کی ہے طبری، دلائل الإمامہ، ص۲۱۵؛ طبرسی، إعلام الورى، ج‏۱، ص۴۹۸
۲ ۔- اصول كافى: ج ۲ ص ۴۴۹ ضمن حديث.
۳ ۔ كافى: ج ۳ ص ۱۷۱ – ۱۷۲٫
۴ ۔ – فقال لهم: انا نحب ان نعافى فيمن نحب فاذا جاء امرالله سلمناالله فيمايحب كافى: ج ۳ ص ۲۲۶٫
۵ ۔- بحار: ج ۴۶ ص ۲۹۰٫
٦ ۔۵- اختصاص: ص ۸۵٫
۷ ۔ ابراهيم: ۵٫۳۹
۸ ۔: والله لو اَحبّنا حجر حشره الله معنا و هل الدّين الاالحّب، سفينة البحار: ج ۱ ص ۲۰۴
۹ ۔ رأیت الباقر (علیه السّلام) و هو متکی‏ء علی غلامین اسودین.فسلمت علیه فرد علی علی بهر و قد تصبب عرقا فقلت: اصلحک الله لوجاءک الموت و انت علی هذه الحال فی طلب الدنیا، فخلی الغلامین من یده و تساند و قال: لو جاءنی و انا فی طاعه من طاعات الله اکف بها نفسی عنک و عن الناس، و انما کنت اخاف الله لو جاءنی و انا علی معصیه من معاصی الله، فقلت: رحمک الله اردت ان اعظک فوعظتنی.ارشاد مفید ۲/۱۵۹، مناقب ۴/۲۰۱، کشف الغمه ۲/۳۳۰، الفصول المهمه ۲۱۳، بحار ۴۶/ ۲۸۷

Add comment


Security code
Refresh