www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

903313
ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ اس لحاظ سے بھت اھم ہے کہ اپنے دامن میں اپنی معنویت کے ساتھ کچھ اھم مناسبتوں کو بھی سمیٹے ھوئے ہے ایسی مناسبتیں جو تاریخ اسلام کے اھم موڑ سے گزرنے کی یاد دلاتی ہیں ۔
جھاں ان تاریخوں میں نام کے ان مسلمانوں کے قلعی کھلتی نظر آتی ہے جنھیں اپنی بھادری پر بڑا ناز تھا اور اسلام کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا انھوں نے ھمیشہ نعرہ دیا لیکن جب میدان عمل میں قدم رکھا تو ساری پول کھل کر سامنے آ گئی کہ کتنا دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ہے اور کتنا خود کوھر قیمت پر بچانے لے جانے کی تمنا جھاں ایسے لوگوں کے چھروں سے نقاب اٹھتی ہے وھیں ماہ مبارک رجب کا یہ آخری عشرہ تاریخ اسلام کے اس سورما کی شجاعت کی یادگار بھی ہے جس نے فتح و ظفر کی ایک لازوال تاریخ رقم کر کے بتایا کہ انسان اگر خدا و رسول سے واقعی محبت کرتا ھوگا اور اس کے پیش نظر خدا ھوگا تو کبھی بھی اس کے قدم کسی میدان سے پییچھے نھیں ھٹ سکتے ۔
ان ایام میں ۲۴ رجب کی تاریخ جھاں اس لحاظ سے اھم ہے کہ فتح خیبر کی یاد گار ہے وھیں ۲۲ رجب کی تاریخ جنگ خیبرمیں نمایاں شخصیتوں کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی یاد دلاتی ہے چنانچہ ملتا ہے کہ ۲۲ رجب ھی کی تاریخ میں جب ایک طرف یھودی خیبر نامی مضبوط قلعے کی پناہ میں تھے اور مسلمان سرداران لشکر قلعہ کو فتح کرنے کے لئے نکلے تو ایک بھت ھی نمایاں شخصیت اپنے پیروں کو جنگ میں جما نہ سکی پرچم ھاتھ میں لیکر نکلنے کے بعد بھی یھودیوں کے قلعہ پر پرچم نہ لھرا سکی [۱]۔
یوں تو تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ھم اپنے حال کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ تب ھوگا جب ھم اس سے عبرت لیں گے اور تاریخ کے ان کرداروں کو پھچانیں گے جنھوں نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنھوں نے دین کے نام پر قوم کو لوٹا اور ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنھوں نے دین کےلئے سب کچھ لٹا دیا وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے دین کا درد رکھنے والے بنتے تھے لیکن جب دشمن سے مقابلہ پر آئے تو ان کے چھکے چھوٹ گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ھوئے اور وہ بھی ہیں جنھوں نے کبھی کوئی بڑا دعوی نھیں کیا ان کا ھر عمل دین کی تقویت کا سبب بنا اور انھوں نے اپنے ھر ایک عمل کو خدا سے منسوب کر کے اپنے ایمان اور اپنے خلوص کو واضح کیا ، وہ جو کچھ کرتے گئے یہ کہہ کر کرتے گئے کہ یہ سب رب حقیقی کی عنایتوں میں سے ہے ھم نے کیا کیا ہے اسی خضوع اور اسی انکساری نے انھیں دنیا میں سربلند کر کے علی علیہ السلام بنا دیا وہ علی علیہ السلام جس کی فکر بھی بلند ، جس کا عمل بھی بلند جس کا نام بھی بلندی و کمال کا استعارہ قرار پایا ، جھاں یہ رجب کا آخری عشرہ نام کے مسلمانوں کی بھادری کی پول کھولنے والی مناسبتوں کو ھمارے سامنے پیش کر رھا ہے وھیں اسلام کے حقیقی جانثاروں ، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب جعفر سے جڑی مناسبتوں کو بھی پیش کر رھا ہے ایک مناسبت وہ ہے جھاں امام علی علیہ السلام نے خیبر کے قلعہ کو فتح کر کے اسلام کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو دوسری مناسبت وہ ہے جھاں جناب جعفر کی حبشہ سے سربلند بازگشت کی بنا پر سرکار رسالت مآب کے لبوں پر مسکراھٹ آئی ، یہ ایام اسلام کے مثبت اور منفی دونوں ھی طرح کے کرداروں کو پیش کر رھے ہیں لیکن جن منفی کرداروں کو تاریخ نے پیش کیا ہے اور ان کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے وھاں ھمیں ٹہر کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انھیں صرف اس لئے پیش نھیں کیا گیا کہ ھم اسلام و مسلمانوں کی شرمساری کا سبب بننے والے اور میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ھونے والے لوگوں کے سیادہ کارناموں کو ھم سن کر انھیں کھری کھوٹی سنا دیں کہ کتنے بیھودہ لوگ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ھوتے ھوئے یھودیوں کے سامنے نہ ٹک سکے ،یقینا ان کا یہ عمل لائق مذمت ہے اور ان کی شرمناک حرکت قابل ملامت ہے لیکن محض اتنا ھی نھیں کہ ھم دوسروں کی ملامت کرتے رھیں ھم ھی کیا ان پر تو پوری تاریخ ملامت کر رھی ہے اھم یہ ہے کہ ھم یہ طے کریں کہ آج کے خیبر میں ھم کھاں ہیں آج جب یھودیوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشیں ھو رھی ہیں تو ھمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ھم کھاں کھڑے ہیں ؟ میدان میں ہیں بھی یا نھیں ۲۲ رجب کی تاریخ ھمارے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ کل جو بھاگے تھے وہ تو بھاگے ھی تھے آج ھم کھاں پر کھڑے ہیں ؟
۲۳ رجب المرجب
۲۳ رجب کی ایک مناسبت جنگ خیبر میں ھی ایک اور نمایاں شخصیت کے پرچم ھاتھ میں لیکر یھودیوں کی طرف بڑھنے اور دشمن کو دیکھ کر بھاگ کھرے ھونے کی تاریخ ہے[۲] اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ صاحب نہ صرف جنگ سے بھاگے بلکہ دوسروں کو بھی بھاگنے کی ترغیب دلاتے نظر آئے تھے[۳] ان کا کردار تاریخ نے محفوظ کر لیا ۔ جنگ خیبر میں فرار کے بعد دوسروں کو ترغیب دلانا کتنی بڑی خیانت ہے آج بھی ھمیں اپنے معاشرہ میں ایسے لوگوں کو پھچاننے کی ضرورت ہے جودشمن کے مقابل خود تو کھیں نظر نھیں آتے اور ان لوگوں کو بھی مقابلہ نہ کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں جو احساس ذمہ داری کے تحت دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں ۔اور اپنی اس بات کی ھزاروں تاویلیں بھی پیش کرتے ہیں مثلا اسلامی جمھوریہ ایران ھی کی مثال لے لیں وہ ملک جو مکمل طور پر اقتصاری ناکہ بندی کو جھیل رھا ہے چاروں طرف سے دشمنوں کے محاصرے میں ہے شدیدترین اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلام کے حقیقی دشمنوں کے خلاف مظلوموں کی آواز بنا ھوا ہے کچھ لوگ اس کے بارے میں ھی کھتے نظر آتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ساری دنیا سے بیر لینے کی ؟ کیا ضرورت ہے اتنے دباو کے باوجود اس فلسطین کے مسئلہ کو زندہ رکھنے کی جسے خود عربوں نے مردہ خانے میں ایک لاش کی صورت ڈال دیا ہے ،علاوہ ا ز ایں بر صغیر میں بھی اسی قسم کی فکر دوسرے انداز سے دیکھنے کو مل جائے گی اگر فرض کریں پاکستان میں کوئی فرض شناس عالم غلط رسوم اور سماج میں رائج غلط ریتی رواجوں کے بارے میں زبان کھولتا ہے تو سب اسے نصیحت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ھم تو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کیا ضرورت ہے ھر مسئلہ میں ٹانگ لڑانے کی ھر ایک کا اپنا اپنا عقیدہ ہے ،اگر کوئی دردمند شخصیت ملکی پیمانے پر اھلبیت اطھار علیھم السلام کے چاھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم لانے کی کوشش کرتے ھوئے یہ چاھتی ہے کہ علی والوں کی واحد آواز ھو اور تاکہ ملکی سطح پر اس کے راست اثرات پڑ سکیں تو کچھ اپنے ھی اس کی ٹانگ کھیچنا شروع کر دیتے ہیں ، دشمن کی تو ضرورت ھی نھیں پڑتی اپنے ھی دشمن کی پالیسی کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں اسی طرح ھندوستان میں بڑھتی ھوئی منافرت کے سامنے اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو خود اپنے ھی مکھوٹے اس کے خلاف زھر افشانی کرتے نظر آتے ہیں ایسے میں ھمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آج کے خیبر میں ھم کھاں کھڑے ہیں کیا ھمیں اپنے ھی دوستوں سے لڑائی لڑتے لڑتے موت کی آغوش میں چلے جانا ہے یا دشمنوں کے خلاف بھی کچھ کرنے کا عزم پیدا کرنا ہے ۔
ایسے میں ۲۲ رجب کے دن خیبر سے بھاگنے والوں سے اظھار بیزاری کے ساتھ کیا ھی اچھا ھو کہ ھم سوچیں کہ دین کے میدان میں ھم کھاں کھاں سے بھاگیں ہیں اور کھاں جمے ھوئے ہیں ۔
۲۴ رجب المرجب
جھاں ۲۲ رجب المرجب تاریخ اسلام کے بھگوڑوں کے بھاگ کھڑے ھونے سے پردہ اٹھاتی ہے وھیں ۲۴ رجب المرجب تاریخ اسلام کی عظیم فتح سے منسوب ہے جب ساتویں ھجری میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ھاتھوں یھودیوں کے پرچم دار اور مرحب نامی بڑے سورما کو شکست ھوئی اور آپ نے مرحب کو ذوالفقار کا شکار بنا کر در خیبر فتح کیا [۴]
تاریخ کھتی ہے خیبر کی جنگ میں حضور سرورکائنات نے قلعہ قموص کا محاصرہ کر لیا تھا اور خیبر کی فتح کے لئے آپ نے مختلف بڑے بڑے لوگوں کو علم دیا لیکن کسی کو کامیابی نصیب نہ ھو سکی [۵]انجام کار حضور سرور کائنات نے اعلان کر دیا کہ کل اسکو علم دونگا جو مرد ھو گا بڑھ بڑھ کر حملے کرنے والا ھوگا ، میدان جنگ سے فرار نھیں کرے گا وہ خدا و) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (کو دوست رکھتا ھوگا اور خدا و) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ( اسے دوست رکھتے ھوں گے اور خدا خبیر کو اس کے ھاتھوں فتح کرے گا[۶] ، تمام اصحاب کی یہ تمنا رھی کہ علم انھیں ملے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علم علی علیہ السلام کو دیا ، اور آپ کو میدان کارزار میں بھیجتے ھوئے یہ اھتمام کیا کہ اپنی زرہ آپ کو پھنائی ، اپنے ھاتھوں سے عمامہ بنا کر آپ کے سر پر رکھا ذوالفقار کو آپ کی کمر میں حمائل کیا اور خود مرکب پر سوار کیا اور چونکہ امام علی ع آشوب چشم میں مبتلا تھے حضور سرورکائنات نے آب دھان آپ کی آنکھوں پر لگایا جس سے آپ کو شفا ھوئی اسکے بعد آپ کے کے لئے دعا ء فرمائی کہ پروردگار گرمی اور سردی کی زحمت کو علی سے اٹھا جس کے بعد آپ کو نہ کبھی آشوب چشم کی شکایت ھوئی اور نہ ھی ٹھنڈک اور گرمی نے پریشان کیا [۷]، آپ نے امام علی علیہ السلام کو میدان میں بھیجتے ھوئے فرمایا:
اس پرچم کو اٹھاؤ اور اپنے ساتھ لے جاؤ تاکہ خدا تمھارے ذریعہ خیبر کو مسلمانوں کیلئے فتح کرے[۸] حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو رخصت کرتے ھوئے خاص انداز میں اپنی محبت کا اظھار یوں فرمایا :
“علی جبرئیل داھنی جانب سے ، میکائیل بائیں جانب سے عزرائیل سامنے سے اور اسرافیل پیچھے سے ، خدا سر کے اوپر سے اور میری دعاء تمھارے پیچھے پیچھے تمھاری محافظ ہے “۔
امام علی ع علیہ السلام کے جانےکچھ ھی دیر بعد خیبر کی فتح کی خبر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک آ گئی چنانچہ ابو رافع خادم رسول خدا(ص) کا فتح خیبر کے سلسلہ سے یہ بیان تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے : “علی بن ابی طالب(ع) کے کے ھاتھ میں رسول خدا(ص) کا دیا ھوا پرچم تھا۔ جیسے ھی حضرت علی(ع) قلعہ کے نزدیک پھنچے تو قلعہ میں موجود افراد نے باھر آکر جنگ کرنا شروع کر دی ۔ جنگ کے دوران دشمن کی جانب سے کسی نے آپ پر ایک وار کیا جس کی وجہ سے آپ کے ھاتھ سے ڈھال زمین پر گر گئی اس موقع پر آپ نے قلعہ کے دروازے کو اکھیڑا اور اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ھوئے جنگ کرنے لگے یھاں تک کے خدا نے آپ کو کامیابی نصیب کی [۹]
خیبرکے قلعہ کو فتح کرنا اور باب خیبر کو اکھاڑنا مرحب کو پچھاڑنا یہ تو امام علی علیہ السلام کا وہ کارنامہ ہے جس پر ھم سبھی خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں اور ایسا ھونا بھی چاھیے لیکن ایک بات جو بھت اھم ہے وہ یہ آپ نے ایک ایسی تدبیر اختیار کی جس کے چلتے جنگ میں جانی نقصان کم سے کم ھو چنانچہ امام علیہ السلام کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اس انداز سے جنگ کی کہ مرحب اور اس کے بھائی یاسر کو قتل کر دینے کے بعد دشمنوں کے اندر تاب مقاومت نہ رھی اور قلعہ میں موجود یھودیوں نے بغیر قید و شرط کے ھتھیار ڈال دئے ۔خیبر جیسی جنگ میں اس طرح جنگی حکمت عملی اختیارکرنا کہ قلعہ کے اندر تمام لوگوں نے ھتھیار ڈال دئے یہ امام علی علیہ السلام کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔ جس کی نظیر تاریخ میں نھیں ملتی ۔
جناب جعفر کی حبشہ سے واپسی
خیبر کی فتح کے ساتھ ھی جناب جعفر کی حبشہ سے بازگشت کی خبر نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھت مسرور کیا چنانچہ تاریخ میں ہے کہ آپ فتح خیبر کے دن ھی واپس پلٹے جب آپ کو جناب جعفر کی واپسی کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: میں کس بات پر زیادہ خوش ھوں ؟ جعفر کے آنے پر یا فتح خبیبر پر ، یہ کہہ کر جناب جعفر کو حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی آغوش میں لے لیا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا [۱۰]. یقینا خیبر کی فتح اسلام کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن جناب جعفر کی حبشہ سے واپسی کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آپ کی بازگشت کو خیبر کی تاریخی کامیابی کے ھم پلہ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی مسلمان ھجرت کر کے اپنے ایمان کو بچا لے جائے صر ف اتنا ھی نہ ھو بلکہ جس جگہ اس نے ھجرت کی ہے وھاں کے لوگوں کو بھی اپنے کردار و عمل سے متاثر کر دے اور دین کے پیغام کو لوگوں تک پھنچائے تو اس لائق ہے کہ اسکی واپسی کو خیبر کی فتح کے ھم پلہ قرار دیا جائے ، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک محض یھی بات نہ تھی یقینا آپ بھتر جانتے ہیں کہ جناب جعفر ﴿ع﴾ آپ کے لئے کیا تھے اور ان کی محبوبیت کا راز کیا تھا لیکن اس بات سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واقعی عاشق و پیرو ھوتا ہے اور حقیقیت میں صاحب ایمان ھوتا ہے تو رسول ﴿ص﴾ اس کی ھجرت سے بازگشت پر نہ صرف خوشی کا اظھار کرتے ہیں بلکہ اتنا خوش ھوتے ہیں کہ فرماتے ہیں آج اس مھاجر الی اللہ کی واپسی پر زیادہ خوشی کا اظھار کیا جائے یا خیبر کی فتح پر ، حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ عمل ھمیں بتاتا ہے یقینا اگر کوئی اپنے نفس کو فتح کر لے تو اس لائق ہے کہ ھجرت سے واپسی پر اسے فتح خیبر جیسے عظیم واقعہ کی خوشی کے ھمراہ قرار دیا جائے ۔
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
حواشی
۱ ۔ الغدیر ، جلد ۷ ص ۱۹۹، مسند احمد جلد ۵ ص ۳۵۳، مستدرک حاکم ، جلد ۳ ص ۳۷، اسد الغابہ ، جلد ۴ ص ۲۱ ، کنزالعمال ، جلد ۱۰ ، ص ۴۶۳،تاریخ دمشق، جلد ۴۱، ص ۴۶۴
۲ ۔ وقائع الایام جلد ۱ ص ۲۱۱، ۲۱۳، وقائع المشہور ، ص ۱۴۷،
۳ ۔ الغدیر ، جلد ۷ ص ۱۹۹، تاریخ المدینۃ جلد ۲ ص ۶۶۵، تاریخ طبری، جلد ۲ ص ۳۰۰، سیر اعلام النبلاء ، جلد ۱۴ ص ۲۰۹
۴ ۔ مصباح المتھجد ص ۷۴۹، وقائع الایام ، جلد ۱ ص ۲۲۳
۵ ۔ إنَّ رَسولَ اللّهِ(ص) بَعَثَ أبا بَکرٍ، فَسارَ بِالنّاسِ، فَانهَزَمَ حَتّى رَجَعَ إلَیهِ. وبَعَثَ عُمَرَ، فَانهَزَمَ بِالنّاسِ حَتَّى انتَهى إلَیهِ
المصنّف لابن أبی شیبة، ج ۷، ص ۴۹۷، ح ۱۷؛ مسند البزّار، ج ۲، ص ۱۳۶، ح ۴۹۶؛ خصائص أمیر المؤمنین للنسائی، ص ۵۴، ح ۱۳ کلّها عن أبی لیلى؛ السیرة النبویة لابن هشام، ج ۳، ص ۳۴۹؛ البدایة والنهایة، ج ۷، ص ۳۳۷ و ج ۴، ص ۱۸۶؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲، ص ۸۹ والأربعة الأخیرة عن سلمة بن عمرو بن الأکوع؛ المناقب لابن المغازلی، ص ۱۸۱، ح ۲۱۷ عن أبی هریرة والخمسة الأخیرة من دون إسناد إلیه(ع)؛ الخصال، ص ۵۵۵، ح ۳۱ عن عامر بن واثلة؛ الأمالی للطوسی، ص ۵۴۶، ح ۱۶۸ عن أبی ذرّ؛ شرح الأخبار، ج ۱، ص ۳۰۲، ح ۲۸۳ والثمانیة الأخیرة نحوه؛ إعلام الورى، ج ۱، ص ۳۶۴ عن أبی لیلى وراجع: مسند ابن حنبل، ج ۹، ص ۱۹، ح ۲۳۰۵۴.
۶۔ لُاعطِینَّ الرّایةَ غَدا رَجُلاً یحِبُّ اللّهَ ورَسولَهُ، ویحِبُّهُ اللّهُ ورَسولُهُ، کرّارا غَیرَ فَرّارٍ، لا یرجِعُ حَتّى یفتَحَ اللّهُ عَلى یدَیهِ.۔ الکافی، ج ۸، ص ۳۵۱، ح ۵۴۸ عن عدّة من أبناء المهاجرین والأنصار؛ الإرشاد، ج ۱، ص ۶۴؛ الإفصاح، ص ۳۴ و ۱۳۲؛ الأمالی للطوسی، ص ۳۸۰، ح ۸۱۷ عن أبی هریرة؛ الاحتجاج، ج ۲، ص ۲۵، ح ۱۵۰ عن الإمام الحسن(ع) عنه(ص)؛ شرح الأخبار، ج ۱، ص ۱۴۸، ح ۸۶ عن بریدة وفیه «یفتح خیبر عنوة» بدل «لا یرجع.. .»؛ عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۸۸، ح ۱۱۱؛ إعلام الورى، ج ۱، ص ۲۰۷ عن الواقدی؛ الفضائل لابن شاذان، ص ۱۲۸؛ المناقب للخوارزمی، ص ۱۷۰، ح ۲۰۳ کلاهما عن عمر.مناقب امیر المومنین جلد ۱ ص ۳۴۵، صحیح بخاری ، جلد ۴ ص ۱۲ ، ۲۰، ۲۰۷ ، جلد ۵ ص ۷۶، صحیح مسلم ، جلد ۵ ص ۱۹۵، جلد ۷ ص ۱۲۲، مسند احمد ، جلد ۱ ، ص ۹۹ ، ۱۸۵، جلد ۳، ص ۱۶، جلد ۵ ص ۵۲، انساب الاشراف، ص ۹۳، ۹۴، مستدرک حاکم ، جلد ۳ ص ۳۸ ،
۷ ۔ وقالَ: اللّهُمَّ اکفِهِ الحَرَّ وَالبَردَ. قالَ: فَما آذانی بَعدُ حَرٌّ ولا بَردٌ، خصائص أمیر المؤمنین للنسائی، ص ۵۴، ح ۱۳ کلّها عن أبی لیلى؛ السیرة النبویة لابن هشام، ج ۳، ص ۳۴۹
۸ ۔”خذ هذه الرایة فامض بها حتی یفتح الله علیک؛، ۔ابن ھشام، سیرہ النوبویہ، ج۲، ص۳۳۴؛ حاکم نیشابوری، مستدرک، ج۳، ص۳۷
۹ ۔ ذھبی، میزان الاعتدال، ج۲، ص۲۱۸؛ ابن حجر، فتح الباری، ج۹، ص۱۸
۱۰ ۔ تھذِب الاحکام ، جلد ۳ ص ۱۸۶، وسائل الشیعہ ، جلد ۸ ص ۵۰۔

Add comment


Security code
Refresh