www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

402181
آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی نے کربلائے معلی کے سفر سے واپسی پر ملاقات کے لئے آنے والے ادارہ اربعین کے کارکنوں سے خطاب کرتے ھوئے کھا: ھمارے ھاں حب الوطنی ہے لیکن یہ ایک نافلہ ہے اور جو کچھ واجب اور فریضہ ہے وہ پرچم یا علی(ع) ہے۔
خطاب کے بنیادی نکات:
پھلا اصول یہ ہے کہ قرآن کریم ـ جو کہ عالم اسلامی کا بنیادی قانون (آئین) ہے ـ کے بیان کے مطابق، ھماری ذمہ داری ہے کہ تین "اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی" شعبوں کے ساتھ رابطہ اور تعلق استوار کریں اور جان لیں کہ ان تینوں شعبوں میں ھم اس طرح سے عمل کریں [جو قرآن کریم نے ھمیں بتایا ہے کیونکہ] قرآن کریم نے ان تین شعبوں میں رابطوں کی صحیح روش بیان کی ہے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ ایران اللہ کے فضل نیز اسلامی انقلاب اور مسلط کردہ جنگ کی برکت سے نیند سے جاگ اٹھا، لیکن ھمیں سمجھ لینا چاھئے کہ جس چیز نے اس ملک کے سہ رنگی پرچم کو تحفظ فراھم کیا وہ "یا علی(ع)، یا زھراء(س) اور یا حسین(ع)" کے پرچم تھے۔ ھم حب الوطنی کے قائل ہیں لیکن وطن کی محبت نافلہ ہے اور جو کچھ فریضہ ہے وہ یا علی(ع) کا پرچم ہے۔
دشمن نے دو سال تک خانہ جنگی اور آٹھ سال تک بیرونی جنگ ھم پر مسلط کی اور ھم در حقیقت 10 سال تک جنگوں میں الجھے رھے۔ اس پوری مدت میں جس چیز نے بنیادی کام کیا اور جس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا وہ یھی "یا علی(ع)، یا زھراء(س)" کے پرچم تھے؛ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم معاد پر یقین رکھتے ہیں اور یہ کہ موت کے بعد بھی کچھ ہے، اور یہ کہ انسان مر کر فنا نھیں ھوجاتا بلکہ ایک کھال سے نکل کر باھر آتا ہے، اور یہ کہ انسان ابدی ہے لھذا اس ابدی مخلوق کی فکر بھی ابدی ھونا چاھئے، اور اس کا سے صرف دین خدا عھدہ برآ ھوسکتا ہے۔
اتنے سارے بادشاہ، اتنی ساری سلطنتیں تاریخ میں ابھریں لیکن دنیا میں ایک بالشت برابر مٹی بھی ان کے نام نھیں رھی ہے لیکن دیکھ تو لیں کہ حسین بن علی(ع) خالی ھاتھوں دنیا پر چھا گئے ہیں، لھذا معلوم ھوتا ہے کہ کوئی راز ضرور ہے۔

Add comment


Security code
Refresh