www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

200110
امام حسن عسکری علیہ السلام نے دشمن کی شدید نگرانی میں امام عصر(عج) کی غیبت کے سلسلے میں تین خصوصی کارنامے سرانجام دیئے: عوام کو غیبت کے زمانے میں اپنے امور کے انتظام کے لئے تیار کرنا؛ غیبت کے زمانے میں امام معصوم کی موجودگی کا اثبات اور شیعیان اھل بیت کو امام مھدی عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشریف کا بطور امام دوازدھم، تعارف کرانا:
*امام عسکری علیہ السلام حضرت حجت عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کی غیبت اور ظھور کے لئے ماحول سازی
امام حسن عسکری علیہ السلام کا اھم ترین کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے امام عصر حجت ابن الحسن العسکری عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کی غیبت اور ظھور کے لئے ماحول فراھم کیا۔
گوکہ یہ مسئلہ امام حسن عسکری علیہ السلام تک محدود نھیں تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے سے امام عصر عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کی غیبت اور ظھور کے لئے ماحول سازی کا عمل جاری رھا تھا لیکن چونکہ امام عسکری علیہ السلام کی شھادت کے بعد امام معصوم کو غائب ھونا تھا لھذا آپ نے اس حوالے سے زیادہ وسیع اور مؤثر اور اھم کردار ادا کیا۔
معصومین علیھم السلام کے دور میں ھم جس قدر کے عصر غیبت سے قریب سے قریب تر ھوتے ہیں، یعنی امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے زمانے کے بعد، ائمہ علیھم السلام نے اس سلسلے میں زیادہ کوششیں کی ہیں۔
* اکثر شیعہ اور سنی مآخذ کے مطابق ائمہ کی تعداد 12 ہے
امام عسکری علیہ السلام کے کردار پر روشنی ڈالنے سے پھلے یہ نکتہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جب آپ شیعہ اور سنی مآخذِ حدیث کے متن کا مطالعہ کرتے ہیں، مشاھدہ کرتے ہیں کہ اھل تشیُّع اور اھل سنت کے پھلے درجے کے اکثر مآخذ حدیث میں جب ائمہ ھُدی علیھم السلام کے اسماء گرامی کا تذکرہ آتا ہے، تو تمام بارے ائمہ علیھم السلام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخی ذھنیت اور فکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے سے معرض وجود میں آئی ہے اور جب یہ سلسلہ امام حسن عسکری علیہ السلام تک پھنچتا ہے تو ھمیں 12 حدیثیں ملتی ہیں جو شیعہ اور سنی علماء نے اپنے اپنے منابع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل کی ہیں اور ان بارہ حدیثوں میں امام حسن عسکری علیہ السلام اور آپ کے فرزند امام مھدی عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف سمیت 12 ائمہ طاھرین علیھم السلام کے اسمائے گرامی مندرج ہیں۔
اس نکتے کی وضاحت یہ سمجھنے کے لئے تھی کہ اگر امام حسن عسکری علیہ السلام امام عصر عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کی غیبت اور ظھور کے لئے ماحول سازی کرتے ہیں تو امام کا یہ عمل درحقیقت ایک تاریخی، اسلامی اور شیعی فریضہ ہے یعنی یہ کہ یہ فریضہ آپ کو اپنے جد امجد حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے ورثے میں ملا ہے۔
اس سلسلے میں روایات اور احادیث بکثرت نقل ھوئی ہیں۔ فارسی، عربی اور اردو میں بھت ساری کتابیں اس سلسلے میں دستیاب ہیں اور فارسی میں "خورشید سامرا" نامی کتاب متن اور سند کے لحاظ سے بھت معتبر کتاب ہے جو معاصر محقق جناب محمد جواد طبرسی کی کاوش اور اھل بیت علیھم السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام اور امام عصر عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کے سلسلے میں ان کا تخصصی درس ہے۔ اس معتبر کتاب میں ھم دیکھتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس اور عائشہ بنت ابی بکر سے 12 حدیثیں نقل ھوئی ہیں اور اس موضوع پر میری تاکید کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اھل سنت کے اکابرین نے بھی ان روایات میں 12 اماموں کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس سلسلے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔
* امام مھدی عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کی ولایت، غیبت اور ظھور کی بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے سے شروع ھوئی
چنانچہ کھا جاسکتا ہے کہ حضرت قائم آل محمد عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کی ولایت، غیبت اور ظھور کی بحث حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے سے شروع ھوئی ہے اور 11 ائمہ سلف نے بھی ھر موقع اور مناسبت سے اس موضوع کا تذکرہ کیا ہے لیکن جس قدر کہ ھم ظھور کے لحاظ سلسلہ امامت کی انتھا کے قریب آتے ہیں، بالخصوص امام رضا علیہ السلام کے زمانے کے بعد، یہ موضوع بھت سنجیدگی سے زیر بحث لایا جاتا ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں عروج کو پھنچتا ہے۔
ایران کے شھر، شھر رے میں حضرت عبدالعظیم حسنی سلام اللہ علیہ کا حرم ایک زندہ سند اور دستاویز ہے جن کا حرم ایران سمیت مختلف ممالک اور بالخصوص تھران اور شھر رے کے مؤمنین کی زیارتگاہ اور دعا و مناجات کا مرکز ہے۔ حضرت عبدالعظیم علیہ السلام امام علی النقی الھادی علیہ السلام سے ملاقات کرتے ہیں، آپ سے یہ حدیث اخذ کرکے ایران لاتے ہیں۔
* امام عسکری علیہ السلام کا پھلا کام لوگوں کو غیبت کے زمانے میں معاشرے کے انتظام کے لئے تیار کرنا تھا
امام حسن عسکری علیہ السلام کو اس امر کے آخری ذمہ دار کے طور پر چند اھم کام انجام دینا تھے: اول یہ کہ عوام کو شیعہ معاشرے کے انتظام و انصرام کے لئے تیار کرتے، وہ بھی ایسے حال میں کہ امام معصوم تک رسائی مزید بھت آسانی سے ممکن نھیں تھی؛ یہ مسئلہ سب سے زیادہ اھم ہے۔
اس بات کے ادراک کے لئے ایک فقھی بحث کی طرف اشارہ کرنا چاھیں گے: ھماری فقہ میں "قضاء" اور "شھادت" کے موضوعات میں اس موضوع پر بحث کرتے ہیں؛ اور وہ یہ کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمۂ معصومین علیھم السلام کے زمانے میں، قضاء [نظام عدل] میں علم غیب سے استفادہ نھیں کیا جاسکتا؛ اور ھمیں حکم ہے کہ دو شھادتیں سامنے آئیں یا قاضی کے ذاتی علم ـ نہ کہ اس کی غیبی معلومات ـ سے استفادہ کریں؛ لیکن صرف امام عصر عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کے زمانے میں آپ کو اپنے علم غیب کی بنا پر مجرمین کو سزائیں دینے کی اجازت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ کیونکہ آخری امام معصوم [امام حسن عسکری علیہ السلام] کے حضور کے بعد بھت طویل عرصہ گذر چکا ہے اور اس عرصے میں ائمہ معصومین حاضر نھیں تھے۔ چنانچہ بنی نوع انسان کو عصر غیبت میں اپنی ھدایت کے لئے یہ فقھی قاعدہ قرار دیا گیا کہ فیصلہ اور حکم سنانے کے لئے دو گواھوں کی شھادت کافی ہے۔ یھاں سے غیبت کے لئے ماحول سازی کا سلسلہ شروع ھوتا ہے۔ اور اس مھم کو ـ کہ غیبت کے زمانے میں بنی نوع انسان کے امور و معاملات کا انتظام و انصرام بھت ھی پیچیدہ موضوع ہے ـ رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک بھت سنجیدہ لیا جاتا ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کے سامنے سب سے اھم نکتہ یہ تھا کہ لوگ عصر غیبت میں تحمل، بردباری، صبر، پرامن بقائے باھمی، اور اسی اثناء میں دینداری کی مشق کریں اور ان امور میں تجربہ حاصل کریں اور اپنے آپ کو [ظھور کے لحاظ سے] اپنے امام و سرپرست کی غیر موجودگی کے زمانے میں زندگی بسر کرنے کے قابل بنائیں اور انتظار ظھور کے سلسلے میں ثابت قدم رھیں۔ یھی غیبت کے لئے تیاری کا اصول ہے۔ امام عسکری علیہ السلام اپنے نائبین اور اصحاب خاص نیز خطوط و مکاتیب کے ذریعے شیعیان اھل بیت کے ساتھ رابطے کرنے کی کوشش کرتے تھے تا کہ لوگوں کو عصر غیبت اور امام عصر تک عدم رسائی کے زمانے کے لئے آمادہ کریں۔
* امام حسن عسکری کا دوسرا کام عصر غیبت میں امام کی موجودگی بیان کرنا تھا
دوسری بات یہ کہ امام حسکن عسکری علیہ السلام کی ذمہ داری یہ تھی کہ غیبت کے زمانے میں بھی امام موجود ہیں گوکہ وہ آنکھوں سے اوجھل ھونگے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اس موضوع پر بھت زیادہ کام کیا حالانکہ آپ عباسی حکومت کے ھاں نظربندی کے ایام گذار رھے تھے اور خاص قسم کے بحران سے گذر رھے تھے اور آپ کے لقب سے بھی معلوم ہے کہ آپ ایک فوجی احاطے کے اندر مقیم تھے۔
بعض لوگ لفظ "عسکر" کی صحیح تشریح نھیں کرتے ہیں کیونکہ آپ کی قیامگاہ محض چھاؤنی ھی نھيں تھی بلکہ جس علاقے میں آپ مقیم تھے اس علاقے کا نام عسکر تھا؛ آج کے فوجی قصبے (ٹا‎ؤن یا فوجی ھاؤسنگ سوسائٹی) جیسا علاقہ تھا۔ عسکر بھی ایسا ھی ایک مقام تھا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کچھ ایسے احاطے میں محدود تھے کیونکہ ایک فوجی مسکن میں دیدبان، چوکیدار، نگھبان اور جاسوس ھوتے ہیں اور مختلف قسم کے سیکورٹی اھلکار ھوتے ہیں۔ عباسی سلطنت بنی ھاشم میں سے، ین صدیوں کے پس منظر کے مالک سنجیدہ مخالف اور رقیب اور عصمت و طھارت اور علم و دانش کے وارث کو اپنے قابو میں لانا چاھتی تھی؛ چنانچہ عوام کے ساتھ بھت معمولی اور مختصر سا رابطہ بھی ظالم عباسی حکمران کے لئے نقصان دہ سمجھا جاتا تھا؛ لھذا عباسی حکمران آپ کی کڑی نگرانی کررھا تھا تا کہ آپ مکمل طور پر زیر نگرانی ھوں، اور لوگ آپ کو کم دیکھیں، اور اگر دیکھ بھی لیں کم بولیں اور اگر بولیں تو امامت کے مسائل زیر بحث نہ آئیں۔
فرض کریں کہ نظربندی اور کڑی نگرانی کی اس بحرانی صورت حال میں، امام حسن عسکری علیہ السلام پھلے اور دوسرے مقاصد کو حاصل کرنا چاھتے ہیں، اور لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ "آپ کے ایک امام ہیں اور آپ کے امام زندہ اور موجود ہیں اور تمھارا حامی اور ھادی ہے لیکن تمھارے لئے ان تک رسائی ممکن نھیں ہے اور امام کوشش کرتے ہیں کہ غیب پر لوگوں کے ایمان کو تقویت پھنچائیں؛ [تو آپ نے ان اھداف تک پھنچنے کے لئے کیا کیا مشکلات برداشت کی ھونگی اور کن کن وسائل اور روشوں سے استفادہ کیا ھوگا، لیکن جو امر مسلّم ہے وہ یہ ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں سے بخوبی عبدہ برآ ھوئے]۔
* امام عسکری علیہ السلام کا تیسرا اھم کام امام مھدی عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کا بارھویں امام کے طور پر تعارف کرانا تھا
امام حسن عسکری علیہ السلام کا تیسرا اھم اور خاص کارنامہ یہ تھا کہ مؤمنین کو امام مھدی عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کا بطور امام دوزادھم، تعارف کرا دیں۔ اس مرحلے میں آپ کی پھلی ذمہ داری یہ تھی کہ امام مھدی عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کو عباسی سرکار کے ھاتھوں دھشت گردی کا نشانہ بننے اور قتل ھونے سے محفوظ رکھتے اور ساتھ ساتھ اپنے اصحاب خاص سے آپ کا تعارف کراتے۔
یہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی فعالیتوں کا دشوار ترین اور حساس ترین مرحلہ تھا؛ کیونکہ پھلے دو مراحل میں کسی خاص شخص بطور مصداق لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت نھیں تھی جس کو دشمن کی طرف سے جانی خطرہ ھو یا دشمن اس کو قید کرسکے؛ اور صرف ایک فکر اور ایک سوچ تھی، ایک تزویر (strategy) تھی، لیکن تیسرے مرحلے میں مصداق بھی پیش کرنا تھا، ایک خارجی مصداق، جس کے بارے میں عباسیوں نے اپنے درباری علماء سے بارھا سنا تھا، علویوں کے بزرگوں سے بھی سنا تھا کہ آخری معصوم شخصیت ظلم اور ظالم کا قلع قمع کرے گا۔ اس آخری معصوم شخصیت کی یہ خصوصیت ظالم حکمرانوں کے لئے بھت ناقابل برداشت تھی۔ چنانچہ وہ کڑی نگرانیاں کررھے تھے اور روایات میں اس واقعے کو حضرت موسی علیہ السلام کے قصے سے تشبیہ دی گئی ہے، کہ حتی وہ گھوارے کو بھی تلاش کررھے تھے اور بچوں کی اشیاء ضرورت کو بھی امام عسکری علیہ السلام کے گھر اور اطراف میں ڈھونڈا کرتے تھے اور اگر کوئی ایسی چیز انھیں نظر آتی تھی تو اس کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے تھے اور معلوم کرتے تھے کہ یہ اشیاء کیا ہیں اور کس کی ہیں؟ کیا یھاں کوئی بچہ ہے؟ اور اگر بچہ ہے تو کیا اس کا تعلق علویوں سے ہے یا نھیں؟
خوش قسمتی سے امام حسن عسکری علیہ السلام نے یہ بھاری اور دشوار فریضہ بھی نھایت ذکاوت اور کیاست کے ساتھ سرانجام کو پھنچایا اور مختلف شھروں ـ بالخصوص شھر قم، رے، تھران، کاشان، جو کہ شیعہ اکثریتی علاقے تھے ـ میں اپنے خاص اصحاب اور محبین کو آپ کا تعارف کرایا اور غیبت اور ظھور کے بارے میں آگاہ فرمایا۔ یہ کام اس گھٹن کی فضا اور دشوار حالات میں ـ جبکہ شیعیان اھل بیت حتی کہ شارع عام پر بھی امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ بات چیت کرنے سے محروم تھے ـ بھت ھی عظیم کام تھا۔
امید ہے کہ تمام شیعیان عالم، ھوشیار مسلمان اور اس امام ھمام کے پیروکار اپنے زمانے کے امام عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف کی شناخت اور معرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں، آپ کے ظھور کے لئے ماحول سازی کریں، آپ کے مقاصد کے مخالفین اور آپ کے ظھور کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کی سازشیں آشکار کردیں تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک، کی تمام تر کوششیں بارآور ھوں اور دکھی انسانیت کے نجات دھندہ حضرت امام م ح م د المھدی المنتظر عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف جلد از جلد ظھور فرمائیں۔
دعائے امام زمانہ عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریف (اللھم کن لولیک ۔۔۔) اور دعائے فَرَج کو نہ بھولیں اور اپنے حوائج کے لئے بھی یہ دعائیں تلاوت کیا کریں کیونکہ امام عصر عَجَّلَ اللہُ تَعَالَی فَرَجَہُ الشَّریفَ نے فرمایا:
"أكْثِروْا الدُّعَاءَ بِتَعْجِيْلِ الْفَرَجِ فَإِنَّ ذَلِكَ فَرَجُكُمْ؛ جلد از جلد فَرَج کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرو، کیونکہ یھی آپ کے لئے فَرَج اور کشادگی ہے۔ (1﴾
خطاب: حجت الاسلام والمسلمین حسن غفاری فر
ترجمہ: فرحت حسین مھدوی
1۔ صدوق، كمال الدين، ج2، ص485، ح4؛ طوسی، الغيبة، ص293، ح247؛ الطبرسی، منصور أحمد بن علي بن أبي طالب، الاحتجاج على اهل اللجاج، ج2، ص284؛ الطبرسی، الشيخ الفضل بن الحسن، إعلام الورى بأعلام الهدى، ج2، ص272؛ اِرْبِلی، ابوالحسن علی بن عیسی، کَشْفُ الغُمَّة فی مَعْرِفَةِ الأئمّة علیهم السلام، ج3، ص340؛ راوندی، سعید بن هِبة‌ُ الله مشهور به قطب الدین، الخرائج و الجرائح، ج3، ص 1115؛ مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، ج53، ص181، ح10۔

Add comment


Security code
Refresh