www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

300004
سوال: میں ایک لڑکی ھوں اور سات مھینوں سے ایک لڑکے کے ساتھ فون پر رابطہ برقرار تها- لیکن اس وقت یہ رابطہ میری تجویز پر منقطع ھواہے، جو میرے اور اس لڑکے کے لئے تکلیف کا سبب بنا ہے- البتہ ھمارا رابطہ ایسا نھیں تها جو دوسروں کے لئے مشکل پیدا ھونے کاسبب بنے، ھم آپس میں اظھار محبت بهی نھیں کرتے تهے، دو لڑکوں کے مانند آپس میں رابطہ رکهتے تهے، کیا آپ کی نظر میں اس رابطہ میں کوئی حرج ہے؟
جواب: لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان رابطہ ایک نازک اور حساس مسئلہ ہے، اگر اس میں شرعی اور اخلاقی حدود کی رعایت نہ کی جائے تو ممکن ہے کہ ایسے افراد مشکلات سے دوچار ھوجائیں گے- اس لئے اسلام کے شرعی اور اخلاقی دستور اس اصول پر مبنی ہیں کہ نامحرم مرد اور عورت کے درمیان کم ترین رابطہ برقرار ھونا چاھئے کیونکہ ایسے رابطہ میں گناہ کے مرتکب ھونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں اور کافی حد تک لغزش کے مواقع فراھم ھوتے ہیں، خاص کر اگر یہ رابطہ صمیمی اور خاص صورت میں ھو- اس بناپر فھمائش کی جاتی ہے کہ کام اور تعلیم کے سلسلہ میں بهی جنس مخالف کے ساتھ کم از کم رابطہ برقرار کرنےپر اکتفا کرنا چاھئیے اور غیر ضروری مواقع پر عادی رابطہ بر قرار کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاھئے-
جوانوں کو پیش آنے والے اکثر اخلاقی مفاسد ان ھی روابط کا نتیجہ ھوتے ہیں، لیکن ابتداء میں یہ رابطہ کسی خاص اھمیت کا نھیں لگتا ہے اور انسان تصور نھیں کرتا ہے کہ کوئی خطرہ در پیش ہے اور ایک دوسرے کے بارے میں جذبات ابھر جائیں گے، لیکن ان روابط کے گھرے اور صمیمی ھونے کے بعد ، روحی لطائف اور معنوی حساسیتیں رفتہ رفتہ کم ھوتی ہیں اور عارضی جذبات اور دل لگی اور محبت عمل میں آتی ہے اور اس وقت ان روابط کے برے اثرات رونما ھوسکتے ہیں- البتہ ممکن ہے بعض افراد اس قدر خود اعتمادی کے مالک ھوں کہ ایسے مواقع پر ھرگز مشکلات سے دوچار نہ ھوں، لیکن یہ ایک استثناء ہے-
اس کے علاوہ اس لڑکے کے ساتھ رابطہ کی کیا ضرورت ہے جسے اپ جاری رکهنا چاھتی ہیں- اگر حقیقت میں آپ دونوں کے درمیان کوئی صمیمیت نھیں پائی جاتی ہے تو ایک دوسرے سے جدائی آپ دونوں کے لئے کیوں اس قدر تکلیف دہ ہے؟ یہ جو آپ کھتی ہیں کہ فون پر رابطہ کے دوران آپ دونوں نے آپس میں محبت کا اظھار نھیں کیا ہے، اس کے یہ معنی نھیں ہیں کہ آپ آپس میں محبت اور وابستگی نھیں رکهتے ہیں- آپ کو اس بات پر توجہ کرنی چاھئے کہ بڑے گناہ ابتدا میں چهوٹی چیزوں سے شروع ھوتے ہیں جنھیں عام طور پر کوئی خاص چیز شمار نھیں کیا جاتا ہے-
ازدواج سے پھلے روابط جس قدر سالم اور پاک تر ھوں، آپ کی آئندہ زندگی کے لئے مفید ہیں، حتی کہ اگر آپ اسی لڑکے سے شادی بهی کریں، تب بھی آپ کی طرف سے روابط کو منقطع کرنے کے عمل کو ھم اسی زاویہ سے دیکهتے ہیں-
اس قسم کی احتیاط اچهی اور معقول ہے- امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ جوان عورتوں کو سلام کرنے میں پھل نھیں کرتے تهے اور فرماتے تهے: "میں ڈرتاھوں کہ کھیں ان کی طرف سے سلام کا جواب سننے کے سبب میرے دل میں کوئی ایسی چیز داخل ھوجائے جس کا نقصان سلام کا جواب دینے کے ثواب سے زیادہ ھو-(۱)
حضرت موسی علیہ السلام کی سرگزشت میں آیا ہے کہ جب حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی حضرت موسی علیہ السلام کی اپنے گهر کی طرف راھنمائی کرتی تهیں، تو وہ حضرت موسی علیہ السلام کے آکے آگے چل رھی تهیں اور حضرت موسی علیہ السلام ان کے پیچھے جارھے تهے، لیکن جب اس لڑکی کے لباس سے ھوا ٹکرانے لگی، تو حضرت موسی علیہ السلام نے لڑکی سے کھا کہ: میں آگے چلوں گا اور دوراھوں پر میری راھنمائی کرنا-(۲) اس طرح حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی عفت اور شرم و حیا کا مظاھرہ کیا- اس بنا پر جن مواقع پر اولیائے الھی اس طرح احتیاط سے کام لیتے ہیں تو دوسرے لوگوں کا بھی فریضہ ظاھر ہے-
اس بناپر نامحرم کی آواز سننا بهی ممکن ہے انسان کے دل میں منفی اثر ڈالے- البتہ ممکن ہے کہ انسان اپنے لئے ایسے مواقع پر کچھ توجیھات پیش کرے، مثال کے طور پر کوئی ضروری کام ہے اور یا اس قسم کا رابطہ، فطری اور انسانی ہے وغیرہ، لیکن توجہ کی جانی چاھئے کہ یہ ایسی توجیھات ہیں جنهیں انسان کا نفس امارہ اور شیطان فرائض سے فرار کرنے کے لئے پیش کرتا ہے اور اس سے حقیقت پر کوئی اثر نھیں پڑتا ہے- نامحرم لڑکے اور لڑکی کے درمیان رابطہ جس قدر زیادہ ھو اور ان کی ایک دوسرے سے محبت جس قدر عمیق تر ھو اس سے اجتماعی اور خاندانی روابط پر زیادہ منفی اثرات پڑتے ہیں اور خدا کی محبت اور تقرب حاصل کرنا مشکل تر ھوجاتا ہے اوراس قسم کی ناپائدار لذتیں انسان کو پائدار لذتوں سے محروم کردیتی ہیں-
حوالہ:
۱۔ کلینی، اصول كافى، ج 2، ص 648، ح 1، باب التسليم على النساء.
۲۔ مکارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 16، ص 59، دار الكتب الإسلامية، ٰطبع تهران، طبع اول، 1374 ش‏؛ فخرالدين رازى، ابوعبدالله محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج ‏24، ص 590، دار احياء التراث العربى‏، بيروت، طبع سوم، 1420 هجری‏.

Add comment


Security code
Refresh