www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

قرآن کریم میں اھل بیت(ع) کی شان میں متعدد آیات نازل ھو ئی ھیں جن میں ان کے سید و آقا امیر المو منین(ع) بھی شامل ھیں اُن میں سے بعض آیات یہ ھیں:

۱۔خداوند عالم کا ارشاد ھے:"ذَلِکَ الَّذِی یُبَشِّرُاللهُ عِبَادَہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًاإِلاَّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَہُ فِیہَاحُسْنًاإِنَّ اللهَ غَفُورٌشَکُورٌ"۔[۱]

یھی وہ فضل عظیم ھے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ھے جنھوں نے ایمان اختیار کیا ھے اور نیک اعمال کئے ھیں ،تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کو ئی اجر نھیں چا ہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کو ئی نیکی حاصل کرے گا ھم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر داں ھے “۔

تمام مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جن اھل بیت(ع) کی محبت واجب کی ھے ان سے مراد علی(ع) ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیھم السلام ھیں ،اور آیت میں اقتراف الحسنہ سے مراد اِن ھی کی محبت اور ولایت ھے اور اس سلسلہ میں یھاں پردوسری روایات بھی بیان کریں گے جنھوں نے اس محبت و مودت کی وجہ بیان کی ھے:

ابن عباس سے مروی ھے :جب یہ آیت نازل ھو ئی تو سوال کیا گیا :یارسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ آپ کے وہ قرابتدارکو ن ھیں جن کی آپ نے محبت ھم پر واجب قرار دی ھے؟

آنحضرت (ص) نے فرمایا :”علی(ع) ،فاطمہ(س)اور ان کے دونوں بیٹے “۔[۲]

جابر بن عبد اللہ سے روایت ھے :ایک اعرابی نے نبی کی خدمت میں آکر عرض کیا :مجھے مسلمان بنا دیجئے تو آپ نے فرمایا:” تَشْھَدُ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ،وَاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُتم خدا کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گو اھی دو میں قرابتداروں کی محبت کے علاوہ اور کچھ نھیں چا ہتا “۔

اعرابی نے عرض کیا :مجھ سے اس کی اجرت طلب کر لیجئے ؟رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایاإِلا َّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی“۔

اعرابی نے کھا :میرے قرابتدار یا آپ کے قرابتدار ؟فرمایا :” میرے قرابتدار “۔اعرابی نے کھا:

میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتا ھوں پس جو آپ اور آپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس پر اللہ کی لعنت ھے ۔۔۔نبی نے فوراً فرمایا :”آمین “۔[۳]

۲۔خداوند عالم کا فرمان ھے:" فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ اٴَبْنَائَنَاوَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَاوَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ"۔[۴]

پیغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ھم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں “۔

مفسرین قرآن اور راویان حدیث کا اس بات پر اجماع ھے کہ یہ آیہ  کریمہ اھل بیت ِ نبی کی شان میں نازل ھو ئی ھے ،آیت میں ابناء( بیٹوں) سے مراد امام حسن اور امام حسین عليهما السلام ھیں جوسبط رحمت اور امام ھدایت ھیں ،نساء ”عورتوں “ سے مراد فاطمہ زھرا دختر رسول سیدئہ نساء العالمین ھیں اور انفسنا سے مراد سید عترت امام امیر المو منین(ع) ھیں ۔[۵]

 

۳۔خداوند عالم کا ارشاد ھے:"ھَلْ اَتیٰ عَلَی الاِنْسَانِ ۔ ۔ ۔" کامل سورہ ۔

 

مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ یہ سورہ اھل بیت ِنبوت کی شان میں نازل ھوا ھے۔[۶]

 

۴۔خداوند عالم کا فرمان ھے:" إِنَّمَایُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا"۔[۷]

 

بس اللہ کا ارادہ یہ ھے اے اھل بیت کہ تم سے ھر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے “۔

 

مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اجماع ھے کہ یہ آیت پانچوں اصحاب کساء کی شان میں نازل ھو ئی ھے [۸]ان میں سرکار دو عالم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ،ان کے جا نشین امام امیر المو منین(ع) ،جگر گوشہ رسول سیدئہ نسا ء العالمین جن کے راضی ھونے سے خدا راضی ھوتا ھے اور جن کے غضب کرنے سے خدا غضب کرتا ھے ، ان کے دونوں پھول حسن و حسین  +جوانان جنت کے سردار ھیں ،اور اس فضیلت میں نہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)   کے خاندان میں سے اور نہ ھی بڑے بڑے اصحاب کے خاندان میں سے ان کا کو ئی شریک ھے۔ اس بات کی صحاح کی کچھ روایات بھی تا ئید کر تی ھیںجن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ھیں:

 

۱۔ام المو منین ام سلمہ کہتی ھیں :یہ آیت میرے گھر میں نازل ھو ئی جبکہ اس میں فاطمہ ،حسن، حسین اور علی علیھم السلام مو جود تھے ،آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اُن پر کساء یما نی اڑھاکر فرمایا :اللَّھُمَّ اَھْلُ بَیْتِیْ فَاذْھِبْ عنْھمْ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیرًا“”خدایا !یہ میرے اھل بیت ھیں ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جو پاکیزہ رکھنے کا حق ھے “آپ نے اس جملہ کی اپنی زبان مبارک سے کئی مرتبہ تکرار فر ما ئی ام سلمہ سنتی اور دیکھتی رھیں،ام سلمہ نے عرض کیا :یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کیا میں بھی آپ کے ساتھ چادر میں آسکتی ھوں ؟اور آپ نے چادر میں داخل ھونے کےلئے چا در اٹھائی تو رسول نے چادر کھینچ لی اور فر مایااِنَّکِ عَلیٰ خَیْرتم خیر پر ھو “۔[۹]

 

۲۔ابن عباس سے مروی ھے کہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سات مھینے تک ھر نماز کے وقت پانچ مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے دروازے پر آکر یہ فرماتے سناھے:السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَیہ" بات شایان ذکر ھے کہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں۱۵،روایات میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ھے کہ یہ آیت اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ھو ئی ھے ۔

 

 بَرَکَاتُہُ اَھْلَ الْبَیْتِ:" إِنَّمَایُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>،الصَّلَاةُ یَرْحَمُکُمُ اللّٰہُ“۔

 

اے اھل بیت(ع)تم پر سلام اور اللہ کی رحمت وبرکت ھو !”بس اللہ کا ارادہ یہ ھے اے اھل بیت(ع) کہ تم سے ھر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے“،نماز کا وقت ھے اللہ تم پر رحم کرے“آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ھر روز پانچ مرتبہ یھی فرماتے۔[۱۰]

 

Add comment


Security code
Refresh