www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلام کے اقتصاد میں اعتدال کے بارے میں متعدد پھلو ہیں میں اس کے ھر پھلو پر مختصر روشنی ڈالوں گا،میں نے عرض کیا تھاکہ اسلام زیادہ سے زیادہ تولید کے حق میں ہے

 البتہ فقر اور زیادہ مال ودلت کو پسند نھیں کرتا، اسلام یہ چاھتاہے کہ ھمار ے پاس اپنی ضروریات کے مطابق مال ودولت ھونا چاھئیے ۔

زیادہ تولید اور مصرف میں اعتدال

اسلام کے اقتصادی معاشرہ میں ھمارا اصلی ھدف یہ ہے کہ ھم تولید میں اضافہ کریں اور اپنے مصار ف میں اعتدال سے کام لیں یھی معاشرے کے لئے اسلام کا اقتصادی ھدف ہے ۔

تولید ،توزیع ،اور خدمات میں ھمارا ھدف

 یہ مسئلہ انتھائی اھمیت کا حامل ہے کہ مختلف اقتصادی پھلوؤں کی تلاش کی جائے اگر ھم نے صحیح راہ تلاش کر لی تو یہ تمام کوشش مفید ثابت ھوگی اور اگرغلط ھدف کی طرف چل دیئے تو اقتصادی اقدامات کا نتیجہ الٹا ھو جائے گا۔ھماری ریاضت بے کار ھو جائے گی تولیدی اور توزیعی کوشش بھی ناکام ھو جائے گی،ھم ایک ناکام راہ کے مسافر ھوں گے اور انفرادی طور پر بھی ھمیں کامیابی نصیب نہ ہوگی اور معاشرہ بھی ایک نامکمل اقتصادی نظام کا شکار ھو جائے گا۔

اسلام کی نظر میں دنیا اور آخرت

ھمارے پاس دنیا اور آخرت کے متعلق روایات کی خاصی تعداد موجود ہے جس میں دنیا کی مذمت اور آخرت کی مدح کی گئی ہے یہ روایات اجتماعی اورانفرادی کوششوں کا خلاصہ ہیں۔آسمانی نشانیوں میں تامل کے ساتھ ،اسلامی معارف کے ذریعہ،ھم واضح طور پر جھت دار اقتصاد کو تلاش کر سکتے ہیں،البتہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا دنیا کی مذمت، اور کام کرنے کا شوق دلانے والی روایات کے درمیان کوئی تعارض تو نھیں ہے ۔

ان باتوں کو اچھی طرح بیان نھیں کیا جاتا ، بعض کھنے اور لکھنے والے صرف ایک پھلو کو لیتے ہیں،شاید ان کی بات تصوف اور ریاضت کی حد تک ھو۔ ان باتوں پر عمل کوتاہ نظری کے علاوہ کچھ بھی نھیں ہے ،اسی طرح آخرت کے متعلق ان کی باتیں بھی اس طرح ہیں کہ دنیا اور آخرت کا آپس میں کوئی ربط اور تعلق نھیں ہے ۔

ھمیرے خیال میں(البتہ یہ میرا ذاتی خیال نھیں ہے ، میں نے تو اسلام کے بزرگ دانشوروں سے استفادہ کیا ہے)اسلام میں دنیا اور آخرت آپس میںجدانھیں ہیں انسان پیدائش سے لے کر موت تک ایک زندگی کا مالک ہے اصولی طور پر زندگی اور موت کو ایک دوسرے سے جدا نھیں سمجھنا چاھئے ۔

دنیا کی بدی ھماری روح میں ہے

دنیا کی حقارت ھماری روح میں مضمر ہے انسان ایک اچھے ھدف کا انتخاب کرے، خدا اور حقیقت کو ھدف سمجھے تو جو قدم بھی اٹھاے گا وہ آخرت کے لئے ھو گادنیا سے اس کا کوئی ربط نھیں ھو گا ۔

آیا دنیا کا معنی( دنو)سے لیا گیا ہے جس کا معنی قرب ہے اور یہ ھماری زندگی کا پھلا حصہ ہے یا لفظ دنیا (دنی) سے ماخوذ ہے جس کا معنی پستی ہے دونوں معانی کے لئے دو اعتبار ممکن ہیں ۔بھت سے کاموں کا دنیاوی مشکلات کے ساتھ آخرت کے لئے انجام دیناممکن ہے کئی کام اس دنیا کے لئے پست ہیں ،لیکن انھیں آخرت کے لئے انجام دیا جاتا ہے۔

ایسا شخص جو خدا کے لئے کام کرتا ہے ، اب اگروہ دن رات کارخانے میں رہ کر کام کرتا ہے ،کافی مال بھی کما لیتا ہے اب اگر دنیا کی اقتصادی طاقت بھی اس کے ھاتھ لگ جائے تو بھی اسے دنیا دارنھیں کھیں گے بلکہ یہ آخرت کا طالب ہے۔

اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو خود خواہ اور خودفروش ہے وہ دن رات مسجد کا بن کر ھی کیوں نہ بیٹھ جائے اور اس قدر ریاضت میں مشغول ھو جائے کہ اس کا تمام بدن آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں سے بھہ جائے اور چل پھر بھی نہ سکے تب بھی وہ دنیا پرست ہے اور وہ روز بروز اللہ سے دور ھوتا جائے گا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کرنے لگا کہ میں یہ محسوس کر رھا ھوں کہ میرے وجود میں دنیاوی کاموں کی محبت موجود ہے ، میں یہ چاھتاھوں کہ ھمیشہ کام کر کے پیسہ کماتا رھوں۔

امام علیہ السلام نے پوچھا، اتنا مال کیوں کمانا چاھتے ھو؟

اس نے کہا،میںچاھتا ھوں کہ ھم اچھی زندگی گزاریں، ھمارے بچے آرام و سکون کی زندگی بسرکرسکیں ،ھم اپنے ھمسایوں اور فقرا کی مدد کرنا چاھتے ہیں،اور میں مکہ عمرہ کے لئے جانا چاھتا ھوں۔

حضرت نے ارشاد فرمایا:

"ھذا لیس طلب الدنیا ،ھذا طلب الاخرة"

تم تو آخرت کے متلاشی ھو۔

 اس کے مقابلے میں ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنی زندگی گرجا گھروں میں گزاردی۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوںنے اپنی پیشانیاںسجدہ گاہ پر رگڑ رگڑ کر سیاہ کر لی ہیںتاکہ انھیں اس دنیا کا مخالف تصور کیا جائے ،ایسا کام نہ دنیا ہے اور نہ آخرت ہے ۔

معصوم علیہ السلام کا فرمان ہے:

"من طلب الدنیا استعفافامن الناس و سیبا علی جارہ"

 ایک اورروایت اس طرح ہے

"تعطفا علی جارہ،و سیبا علی اھلہ"

تیسری روایت کا مضمون اس طرح ہے

 "لقی اللہ تعالی یوم القیمة و وجھہ لیلة البدر"

جو شخص اپنے اور اپنے خاندان کے لئے مال ودولت جمع کرے کہ اس سے اچھی زندگی بسر کر سکے ،اپنے ھمسائیوں کی مدد کر سکے ، ایسا شخص جب قیامت والے دن اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اس کا چھرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رھا ھو گا،اس طرح کی زندگی دنیاداری نھیں ہے بلکہ یہ آخرت ہے۔جس شخص کا کوئی ھدف ہے وہ دنیادار نھیں ہے امام خمینی(رہ) نے اس روایت پر بھت زور دیا تھا

"حب الدنیا راس کل خطیئة"

دنیا کی محبت ھر گناہ کی بنیاد ہے، یعنی بدبختی کا موجب بننے والی ھر چیز دنیا کی محبت ہے ۔


نامناسب ھدف

مادی مسائل سے دل لگانے والا شخص نا مناسب ھدف کی طرف چل رھا ہے جو دنیا کو اس دنیا کے لئے چاھے اورمال ودولت کو مال ودولت کی چاھت میں جمع کرے نیز دنیا کو طاقت کے بل بوتے پر حاصل کرنے والا سب سے بد ترین شخص ہے۔

 دنیا کے بڑے ممالک کا یھی سب سے بڑا ھدف ہے لہذاھمیں تولید اور دوسرے اھم کاموں میںصحیح راہ کا انتخاب کرناچاھئیے کیونکہ اسی ھدف سے خرابیاں پیدا ھوتی ہیں ۔

اسی بد بختیمیں بنی صدر،رجوی ،بختیار، اویسی اوران جیسے دوسرے لوگ مبتلا ھوئے،یہ اس غلط راستہ کا نتیجہ ہے جس کاانھوں نے خود انتخاب کیا تھا۔ مسلمانوں نے جو یہ صحیح راہ کا انتخاب کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عرصہ جنگ میں تھے ۔

انسان کے عمل کا اصلی نقطہ

مشھور روایت ہے ۔

"نیت المومن خیر من عملہ"

اس روایت کے متعلق بحث ھوگی کہ کس طرح مومن کی نیت اس کے عمل سے بھتر ہے اس مقام پر صرف اتنا کھنا کافی ہے ،چو نکہ مومن کے عمل کی ایک اھمیت ہے، روح روایت یہ ہے کہ عمل کا مرکزی نقطہ وہ نیت ہے جس کی وجہ سے اس نے عمل انجام دیا ہے ۔

انسان کے عمل کا اصلی نقطہ اس کی نیت ہے اس وقت عمل ھی بھت سی چیزوں کا وسیلہ بن جاتا ہے اچھے کاموں کا تعین اسکی نیت اورعمدہ ھدف سے ھوتی ہے اسلام بھی ھم سے اسی کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اسلام کی نظر اس سے کھیں وسیع ہے ۔

"من لا معاش لہ لا معاد لہ"

 جس کا کوئی ذریعہ معاش نھیں ہے اس کے لئے قیامت میں کوئی اجر نھیں ہے ۔اور فرمایا:

 "کن فی الدنیا کانک تعیش ابدا و کن للاخرةکانک تموت غدا لیس منا من ترک الدنیا لاخرتہ او اخرتہ لدنیا"

تمھاری دنیا اس طرح ھو کہ تمھیں ایک لمبے عرصے کے لئے یھاں رھنا ہے اور آخرت اس طرح ھو ،گویا کل ھی تمہیں رخت سفر باندھنا ہے ،جس نے دنیا کو آخرت کے لئے چھوڑ دیا وہ ھم میں سے نھیں ہے ۔ اسی طرح جس نے آخرت کودنیا کے لئے ترک کر دیا اس کا بھی ھم سے کوئی واسطہ نھیں ہے ، اگر انسان کی زندگی ایک مناسب انداز میں ھو تو اس کی ابتدا اور انتھا معین ھو جاتی ہے ۔

اسلام، دین زندگی

اسلام ،زندگی کا دین ہے،موت کا دین نھیں ہے اب وہ زمانہ نھیں رھا جب یہ گمان کیا جاتا تھا کہ قرآن صرف قبرستان،بچوں کی پیدائش اور شادی بیاہ کے لئے ہے حالانکہ قرآن زندگی کے تمام اصول لے کرآیا ہے ۔

اسلام ھرچیز کو اپنی جگہ ضروری سمجھتاہے جھاد،تولید،درس و تدریس ،کام،تفریح اورھروہ چیز جو اللہ نے انسان کے لئے خلق فرمائی ہے سب کو اسلامی معاشرے کالازمی جزو شمار کرتا ہے۔

حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جنگ کے موقع پر اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے اصحاب نے دور سے ایک طاقتور شخص کو آتے ھوئے دیکھا تو کھنے لگے۔

"حبذا لو کان جلدہ فی سبیل اللہ"۔

کیا ھی خوب ھوتا کہ یہ جنگ میں شریک ھو تا۔

 اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ جنگ تھا ،اس وقت جنگ بھی بازؤں کے زور پر تلواروں اور نیزوں کے ساتھ لڑی جاتی تھی حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔

"لو کان جلدہ فی استغناء نفسہ ولو کان جلدہ فی سیب اھلہ"۔

اگر کوئی شخص اپنی طاقت کو اپنے خاندان کی بھتری ،تولید میں اضافہ،اورھمسائیوں سے اچھے سلوک میں استعمال کرے یہ سب اللہ کی راہ میں جھاد ہے یعنی حضرت کی نظر میں ھر وہ کام جو معاشرے کی اصلاح کے لئے ھوتا ہے وہ اللہ کی راہ میں جھاد ہے ایک فوجی کی نظر میں سب سے اھم مقام میدان جنگ ہے۔

فنون کا سیکھنا واجب ہے

کتاب مکاسب کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ھو گا کہ ایسے تمام فنون جو معاشرے کے لئے ضروری ہیں ان کا سیکھنا واجب کفائی ہے ،لھذا ھر وہ کام جس کی ھمارے ملک کو ضرورت ہے ان تمام کاموں کاسیکھنا ھمارے لئے واجب ہے اورانھیںنہ سیکھنا گناہ ہے البتہ اگر کوئی ایک شخص اس فن کو سیکھ لے تو باقی لوگوں کی ذمہ داری ختم ھو جاتی ہے۔

 اگر آج ھمیں کسی مشینری کی ضرورت ہے تو ھمارے انجینئروں پر ایک مسلمان ھونے کے ناطے واجب ہے کہ اس کے متعلق فکر کریں تاجروں کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لوازمات مھیا کر یں اور ھمارے مزدوروں پر لازم ہے کہ وہ کام کریں اور حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ سرمایہ فراھم کرے۔

 اگرھمارے پاس گندم نھیں تو ھمارے لئے ضروری ہے کہ ھم اپنی زمینوں کو آباد کریں ھر وہ شے یا فن جس کی اس ملک کو ضرورت ہے اسے انجام دینا واجب کفائی ہے اور علماء کا فتویٰ بھی یھی ہے،واجب کفائی کی تعریف بھی یھی ہے کہ یہ کام ھم سب لوگوں کی ذمہ داری میں شامل ہیں البتہ جب بعض لوگ یہ کام شروع کر دیں تو باقی لوگوں پر واجب نھیں رھتا ۔


فن اور ھدف

 حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح ایک مجاھد کو دوست رکھتے ہیں اسی طرح کام کرنے والے کی تعریف کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ہیں:

"ان اللہ یحب العبد المحترف"۔

 خدا وند عالم کام کرنے والے انسان کو دوست رکھتا ہے ۔

 حتی ٰکہ کراٹے سیکھنا بھی ایک کام ہے (اگرچہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ درست نھیں ہے )اللہ اس کے کام کرنے والے کو بھی دوست رکھتا ہے ۔

خدا وند متعال مجاھد ،متقی ،اورھرمحسن انسان کو دوست رکھتا ہے کیونکہ یہ افراد اسلامی معاشرے میں مختلف دردوں کی دوا ہیں لیکن ھر فن کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی نیک ھدف ھوناچاھئیے۔

 اگر کسی کے پاس کوئی فن ہے اور وہ اسے غلط کاموں میں استعمال کرتا ہے ،اس کی وجہ سے اسراف ،شھوت اور اس جیسے دوسرے غلط کاموں میں اپنی توانائیاں صرف کرتا ہے تو وہ شخص گناہ گار ہے اور اگر یھی کام دفاعی اور نیک کاموں میں شامل کرے تو وہ ایک عظیم کام شمار ھوگا۔

جو انسان اس بلند مقام تک پھنچ جائے اسے یہ سب کچھ مد نظر رکھناچاھئیے میانہ روی کا دامن ھاتھ سے نہ چھوڑے،یہ نہ ھو کہ ایک طرف حد سے بڑھ جائے اور دوسری طرف حد سے گر جائے اسلام حقائق، ضروریات زندگی اور مفید کاموں پر بھت زور دیتا ہے ۔

درخت لگانا

یہ شجر کاری کا ھفتہ ہے اس سلسلے میں بھت سی روایات بھی وارد ھوئی ہیں حضرت امیر المؤ منین علی ابن ابی طالب علیہ السلام مدینہ میں سب سے زیادہ درخت لگانے والی ھستی ہیں اس وقت بھی آپ کے ھاتھوں سے لگائے کھجور کے درخت موجود ہیں ان کے علاوہ بھت سے درخت کاٹ دیئے گئے ہیں اور ان کی جگہ پر اور درخت لگائے گئے ہیں۔

آپ بھت سے چشموں کو بھی وجود میں لائے،جن پچیس سالوں میں آپ کو ظاھری حکومت سے دور رکھا گیا ،آپ نے اس عرصہ میں مسلسل کام کیا راوی کہتا ہے کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ سامان اٹھا کر لے جا رھے ہیں،اس وقت میں نے عرض کی آقا یہ کیا ہے ۔آپ نے فرمایا یہ ایک لاکھ کھجور ہیں اس کے بعد آپ نے ان تمام کو کاشت کیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد ھم نے دیکھا کہ یہ سب سر سبز پودوں میں بدل گئے ہیں ۔

 حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے لوگوں سے ارشاد فرماتے ہیں:

"من سقا طلحة او سدرة فکانما سقا مؤمنا ظلمائ"۔

 جو شخص کسی درخت کو پانی دے وہ اس طرح ہے کہ اس نے کسی تشنئہ مومن کو سیراب کیا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"الفلاحون(الزراعون) ھم کنوزاللہ فی ارضہ"۔

کاشتکاری کرو ،یہ تو زمین میں پوشیدہ اللہ کے خزانے ہیں۔

 اس کے ساتھ ھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی زراعت کے علاوہ کسی اورپیشہ کو دوست نھیں رکھتا،جب تک زندہ ھوں کاشتکاری کرتا رھوں گا۔

درخت باعث برکت ہیں

 یقینا آپ جانتے ہیں کہ ھمارے ملک میں کس قدر پانی ضائع ھوتا ہے ،کئی کئی کلو میٹر تک پانی زمین کو گھیرے رکھتا ہے اگر ھم فقط لکڑیاں پیدا کرنے کے لئے ھی درخت کاشت کر لیتے تو ھمارے پاس اس کا بھت بڑا ذخیرہ محفوظ ھو جاتا،یھی وجہ ہے کہ درخت کا وجود سراسر خیر وبرکت ہے ۔

ھر درخت ،دن مھینے ،اور سال میں ترقی کرتا ہے ،ھر سال اس کاوزن پانچ کلو بڑھ جاتا ہے ، جس قدر درخت ھمارے پاس زیادہ ھوں گے ھم اسی قدر زیادہ پیدا وار حاصل کر سکیں گے،اس کے پتے ،پھول، اور سایہ وغیرہ یعنی درخت مکمل طور پر فائدہ مند ہیں۔

انتھائی افسوس کا مقام ہے کہ ایران جیسا ملک جس کے پاس پانی جیسی دولت موجود ھو اور وہ اس سے بھرہ مند نہ ھو، میں بھت سے ایسے دیھاتوں میں گیا ھوں جھاں مجھے ایک درخت بھی دیکھنے کو نھیں ملا۔

 اگر ھر شخص ایک ایک درخت لگا لے تو نہ معلوم کتنی بڑی دولت ھاتھ لگ جائے نجانے ھم اتنی اھم عبادت کیوں انجام نھیں دیتے؟۔ھمیں چاھیے کہ ایک درخت ھی کاشت کر لیں ھر روز وہ جتنا بڑا ھو گا ھمارے معاشرے کے لئے اتنا خیر وبرکت کا موجب بنے گا،ھم ھوںیا نہ ھوں یہ اپنی برکتیں بانٹتا رھے گا ۔

 ھمارے پاس سولہ ملین ایکڑ جنگل موجود ہیں کہ جن میں سے تین چار ملین تجاری اور باقی آزاد ہیں،آزاد جنگل جتنی زیادہ لکڑی پیدا کریں گے، ھمارے لئے خیروبرکت ہے تجارتی جنگل بھی معاشرے کے لئے مفید ہیں۔

ایک ملین ایکڑ زمینوں کی بربادی

 شاہ کے آخری دور میں تقریبا ایک ملین ایکڑ جنگل کو ضائع کیا گیا، بھت سی زمینیں فوجی افسروں میں بانٹ دی گئی تھیں تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں،یہ ایک بھت بڑی غلطی تھی لھذا ان درختوں کو کاٹنے کی اجازت دینا کوئی عقل مندی بھی نھیں ہے کیونکہ ان درختوں کی ھر ھر چیز خیر وبرکت کا پیش خیمہ ہے ،اس کے پتے محیط زیست کو زندگی فراھم کرتے ہیں۔

  اگر ھم بامقصد زندگی بسرکریں،عبادت سمجھ کر اس کام کو آگے بڑھائیں تو ھم کسی کے محتاج نھیں رھیں گے ۔

 اگرھم اسلامی روایات پر ھی عمل کر لیتے تب بھی ھم اس کے محتاج نہ رھتے کہ غذائی مواد کسی اور ملک سے منگواتے،جبکہ ھمارے پاس ایسے علاقے موجود ہیں جھاں غربت ہے جیسے جیرفت ایک غریب علاقہ ہے کہ جسے چھوٹابھارت کھہ سکتے ہیں،اسی طرح کھنوج جیسی جگہ بھی موجود ہے جو تنھا پورے ملک کو غلہ فراھم کر سکتی ہے ۔

 میں نے جب صوبہ خوزستان کا دورہ کیا تو وھاں کے ماھرین نے بتایاکہ ھم اس علاقہ میں دس ملین ٹن چینی پیداکر سکتے ہیں یعنی ملکی ضرورت کے دس برابرچینی ھم صرف اسی علاقے سے حاصل کر سکتے ہیں۔

 یہ کتنی بڑی نعمت ہے اور کام کرنے کے بھت سے مواقع بھی اس سے فراھم ھوتے ہیں اسی طرح کاغذ کی صنعت ،حیوانات کی خوراک ،اور بھت سی لکڑیاں جنگل کی وجہ سے ھمیں میسر ھوتی ہیں ۔

اسلامی راستہ ھی بھترین زندگی ہے

اگر لوگ اسلامی روح کو مد نظر رکھ کر غورو فکر کریں ،عبادت سمجھ کراس راستے پرچل پڑیں اور آخرت کیلئے کام کریں تو یھی ان کے تمام مسائل کاحل ہے۔افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ ھماری اس طرح تربیت نھیں ھوئی۔

گذشتہ دور میں مسلمان صوفیانہ طرز تفکر سے زندگی گذارتے تھے ان کے خیال میں دنیا آخرت سے جدا تھی اور بعض لوگ دنیا دار تھے یہ لوگ دنیا کی طلب میں لگے ھوئے تھے۔ یہ لوگ اجنبی ، عیاش،اورغلط قسم کے لوگوں کیلئے بھت مفید تھے ان کے ذریعے تولید بھی ھو جایا کرتی تھی لیکن یہ معاشرہ کے لئے صحیح راستہ نہ تھا، اسلامی طرز تفکر کوان کی روش نے ھی صحیح راہ پرنہ چلنے دیا۔

  اگر ھماری زندگی میں اسلامی اعتقادات حاکم ھوںتوھم مفیدزندگی گذار سکتے ہیں اور ھماری وضع قطع بھی اچھی ھوسکتی ہے یہ انتھائی غلط روش ہے کہ ھم صرف ریاضت میں مصروف رہ جائیں اسلام کا اس سے کوئی تعلق نھیں ہے اور اسلام ایسی چیزوں کو پسند نھیں کرتا ۔جب شارع مسلمانوں کو حالت فقر میں اورغیر مسلموں کو خوش حالی میں دیکھتا ہےاس کادل خون ھو جاتا ہے۔اس خطبہ کے آغاز میں،سورہ فرقان کی جس آیت کی تلاوت کی گئی ہے وہ بھی مصرف میں اعتدال کو بیان کر رھی ہے ارشاد رب العزت ہے:

 "والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما"۔( سورہ فرقان،آیت٦٧)

اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں، تو وہ نہ فضول خرچ ہیں اور نہ بخیل۔بلکہ وہ اوسط درجے کا خرچ کرتے ہیں۔

Add comment


Security code
Refresh