www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

١۔ بچپن میں آپ کی معاشی زندگی

رسول اکرم(ص) کی ولادت کے مبارک موقع پر انسانیت کے خزاں رسیدہ گلشن میں ایمان کی بھار آئی ۔

کفر کے ایوانوں میں خاک اڑنے لگی اور ھدایت کے چراغ روشن ھونے لگے ۔ ایوان کسری کے چودہ کنگرے گر گئے ، آتش کدہ فارس بجھ گیااور دریائے ساوا خشک ھو گیا اورآپ سے ایک ایسا نور نکلا جو پورے آسمان پر مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔(۱)

مشھور قول کے مطابق آ پ کے والد گرامی آپ کی ولادت سے پہلے اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے ۔ (۲)

اس لئے آپ کی ولادت کے بعدآپ کی کفالت کے اخراجات جھاں آپ کی والدہ اور چچا کے ذمہ تھے وھاں والد گرامی کی طرف سے وراثت سے بھی آپ کی کفالت کا سامان فراھم ھو نے لگا تھا ۔(۳)

ابن سعد اپنی تاریخ الطبقات الکبری میں آپ کے والد کی میراث کے بارے میں لکھتے ہیں:

'' ترک عبد اﷲ ابن عبد المطلب ام ایمن و خمسة اجمال اوارک یعنی تاکل الاراک و قطعة غنم فورث ذالک رسول اﷲ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فکانت ام ایمن تحضنہ و اسمہا برکة''۔(۴)

عبد اﷲ ابن عبد المطلب نے وراثت میں( ایک لونڈی )ام ایمن ، پانچ آوارک اونٹ یعنی ؛وہ اونٹ جو پیلو کے درخت کے پتے کھاتے ھوں، چند بھیڑیں جو آپ کومیراث میں ملیں۔ یھی ام ایمن ہیں جس نے آپ کی پرورش کی تھی، جس کا اصل نام برکة تھا۔

والدہ ماجدہ کی وفات کے بعدآپ کی پرورش اور معاشی کفالت کی ذمہ داری آپ کے دادا عبد المطلب نے قبول کی۔ عبد المطلب اپنے یتیم پوتے کو ھمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ پس دو سال ھی گذرے تھے کہ آپ کے شفیق دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے آپ کو آزمائش میں سرخرو ھو نے کا ایک اور موقع فراھم کیا ۔

دادا کی وفات کے بعدآپ کی معاشی کفالت کی ذمہ داری آپ کے چچا حضرت ابوطالب نے قبول کی۔ وہ آپ کو اپنی اولاد سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔ سفر میں ھوں یا حضر میں وہ آپ کو ھمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ قرآن مجید نے ابوطالب کے اس کریمانہ سلوک کو اس طرح بیان کرتا ہے:

"اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی"(۵)

(کیا تمھیں نہ پایا یتیم ،پھر ٹھکانا دیا)

یہ حقیقت ہے کہ اس شفیق چچانے اپنے یتیم بھتیجے کی معاشی کفالت،نصرت، و حمایت اور تکریم و جمیل میں اپنی بساط کے مطابق کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ حضرت ابو طالب ھی کے زیر سایہ آپ نے تجارت کے اصول وضوابط سے آگاھی حاصل کی اور اُس زمانے کی تجارتی دنیا سے آشنا ھوئے ۔

٢۔ بکریاں چرانا

اﷲ تعالی کی حکمت میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ اس نے اکثر انبیاء کرام سے بکریاں چروائیں۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ:۔

'' لیس من نبی الا و قد رعی الغنم'' (۶)

(کوئی بھی ایسا نبی نھیں جس نے بکریاں نہ چرائیں ھوں)

کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں بکریاں چرانے کے ذریعے لوگوں کے ساتھ رعایت اور مدارا کرنے کی تربیت دی ہے ۔ جیساکہ امام جعفر صادق (ع) نے ارشاد فریا کہ:۔

'' ما بعث اﷲ نبیا قط حتی یسترعیہ الغنم و یعلمہ بذالک رعیة الناس''(۷)

(اﷲ تعالی نے کسی نبی کو مبعوث نھیں کیا یھاں تک کہ اس سے بکریاں چروائیں تاکہ اس کے ذریعے اسے لوگوں کی رعایت سکھائے)

آپ نے بھی بکریاں چرائیںجیساکہ ابن ھشام اپنی سیرت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے فرمایا کہ

''ما من نبی الا و قد رعی الغنم و قیل انت یا رسول اﷲ ، قال و انا'' (۸)

(کوئی بھی ایسا نبی نھیں جس نے بکریاں نہ چرائیں ھوں، پوچھا گیا کہ آپ نے بھی ، فرمایا ھاں میں نے بھی (بکریاں چرائیں ہیں)۔

ابواب فقہ میں بکریاں چرانے کو مستحب عمل کھا گیا ہے۔لہٰذا آپ بچپن ھی میں جب آپ کی عمر مبارک دس سے بارہ سال تھی تو آپ نے اپنے چچا کا معاشی ھاتھ بٹانے کے لیے بکریاں چرانا شروع کیں ۔علامہ مجلسی "بحارالانوار" میں ابوداؤد کی روایت بیان کرتے ہیں کہ :۔

''کانت لہ ماة شاة لایرید ان یزیدو کان صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کلما ولدت سخلة ذبح مکانھا شاة۔'' (۹)

(آپ کے پاس سو(١٠٠) بکریاں تھیں ، ان سے زیادہ (تعداد)بڑھانا نھیں چاھتے تھے ، جب کوئی بچہ پیدا ھوتا تھا تو آپ اس کی جگہ ایک بکری ذبح کرتے تھے)

(ابو داؤد نے ایک تفصیلی واقع بیان کیا جو اس حدیث میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے)۔

٣۔ تجارت

جب آپ جوان ھوئے تو آپ نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔اس ذریعہ معاش کے انتخاب کی وجوہ میںسے نمایاں وجہ یہ تھی کہ آپ کے خاندان بنوھاشم اور قریش مکہ بھی تجارت پیشہ تھے ۔ آپ کے آباء واجدادتجارت ھی کی وجہ سے شھرت رکھتے تھے۔ جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ:

''کان اصحاب الایلاف اربعة اخوة: ھاشم ، و عبدالشمس، ولمطلب، و نوفل بنو عبد مناف ۔ فاما ھاشم فانہ کان یؤلف ملک الشام ای اخذ منہ حبلا و عھدا یأمن بہ فی تجارتہ الی الشام ۔ اخوہ عبد الشمس کان یؤلف الی الحبشة۔ و المطلب الی الیمن ۔ و نوفل الی فارس۔'' (۱۰)

(اصحاب ایلاف چار بھائی ہیں: ھاشم ، عبد الشمس ، مطلب اور نوفل ہیں جو اولا د عبد المناف میں سے ہیں ۔ ھاشم نے شام کے بادشاہ سے امان نامہ اورتجارتی عھد لیا تھا تاکہ ملک شام کی طرف ان کی تجارت پر امن رھے۔ ان کے بھائی عبد الشمس نے حبشہ کے حاکم سے تجارتی معاھدہ کیا تھا۔ مطلب نے یمن کے بادشاہ اور نوفل نے ایران کے بادشاہ کسری کے ساتھ تجارتی معاھدہ کیا تھا)۔

شام کا تجارتی سفر اور حضرت خدیجة الکبری کے ساتھ عقدجیسا کہ پھلے ذکر ھوا ہے آپ نے بچپنے ھی میں اپنے چچا حضرت ابو طالب کے زیر سایہ تجارت کے بنیادی اصول وضوابط کی تربیت حاصل کرلی تھی ۔لہٰذا اسی دوران پہلی بار آپ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ تجارت کے لیے شام کا سفر کیا تھا، لیکن اس سفر میں آپ تاجر کی حیثیت سے نھیں تھے ۔

دوسری بار جب آپ ٢٥ سال کے ھوئے تو آپ کی امانت و دیانت اور سچائی مشھور ھو گئی تھی ۔ حضرت خدیجہ الکبری جو عرب کی شریف ترین اور مالدار ترین خاتون تھیں، ان کا تجارتی کاروان اھل مکہ کے تجارتی کاروان کے برابر ھوتا تھا، وہ اپنا مال دے کر تجارت میں شریک ھو جاتیں تھیں اور شرکاء کے لیے ایک حصہ بھی مقرر کرتی تھیں،خود قریش کے لوگ بھی تاجر تھے ۔ جب انھیں رسول کی سچائی ،امانتداری اور شرافت و اخلاق کے واقعات کی خبر پہنچی تو آپ کو بلوا بھیجا اور درخواست کی کہ آپ اُن کا مال لیکر میرے ایک غلام کے ساتھ جس کا نام میسرہ تھا، تجارت کے لیے تشریف لے جائیں۔ آپ کو معاوضہ بھی اس سے زیادہ دونگی جو دوسرے تاجروں کو دیتی ھوں۔ رسول اﷲ نے حضرت خدیجہ کی یہ درخواست قبول فرمالی ۔ آپ ان کا سامان لے کر میسرہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ھوگئے ۔ (۱۱)

اس سفر میں آپ نے بھت سا منافع کمایا اور بھت سے معجزات بھی آپ سے وقوع پذیر ھوئے، یہ تمام واقعات اور عظیم الشان خبریں حضرت خدیجة الکبری کو میسرہ نے سنائیں ۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ نے رسول کے ساتھ وصلت کا پیغام بھیجا ۔چونکہ حضرت خدیجہ قریش کی عورتوں میں نسب و شرف کے لحاظ سے افضل و اعلی اور دولت کے لحاظ سے تمام عورتوں میں مال دار تھیں ۔ قریش کا ھر شخص اُن سے وصلت کا آرزومند تھا ۔ (۱۲)

رسول اﷲنے اپنے چچاؤں سے اس کا ذکر کیا ۔ آپ حضرت حمزہ بن عبد المطلب کے ھمراہ تشریف لے گئے اور اس طرح خدیجہ بنت خویلد سے آپ کا عقد ھو گیا۔ (۱۳)

اس وقت رسول اﷲ نے انھیں٢٠(بیس) جوان اونٹنیاں دیں۔ (۱۴)

اس سے ظاھر ھوتا ہے کہ آپ کے پاس اتنا مال تھا کہ آپ نے انھیں ٢٠ اونٹنیاں حق مھر میں دیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجة الکبری نے بھی اپنی تمام دولت آپ کے سامنے رکھدی یوں اﷲ تعالیٰ نے آپ کوغنی کر دیا ۔ یہ گواھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اس طرح بیان کرتا ہے:۔

''وَ وَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنَی'' (۱۵)

(اور آپ کو مفلس پایا اور پھر غنی کر دیا)

آپ کی تجارتی سفر:

اس کے بعد دوبارہ آپ حضرت خدیجة الکبری کا سامان تجارت لیکر جرش (یمن) تشریف لے گئے۔جرش یمن کا ایک بھت بڑا شھر تھا۔(۱۶)

اسی طرح آپ تجارتی غرض سے بحرین بھی تشریف لے گئے۔ (۱۷)

یہ تو اعلان نبوت سے پھلے کی آپ کی معاشی زندگی تھی ،بعثت کے بعد جب آپ نے مدینہ کی طرف ھجرت کی تو وھاں بھی آپ کی معیشت کے مختلف ذرایع تھے ۔

حوالہ جات:

١۔ تاریخ یعقوبی، ج ٢ ، ص ٨، تاریخ دمشق، ج ٣٧، ص ٣٦١۔

٢۔ طبقات ابن سعد ، ج ١، ٩٩۔

٣۔ یعقوبی، ج ٢، ص ١٠۔

٤۔ طبقات الکبری ابن سعد ، ج ١،ص ١٠٠۔

٥۔ سورہ الضحی،آیت٦۔۔

٦۔ اصول الکافی، ج ١، ٤٤٩؛ صحیح البخاری، ج٢، ص ١٥۔سیرت ابن ہشام، ج ١ ،ص ١٧٨۔

٧۔ الشیخ الصدوق،متوفی ٣٨١ھ ناشر مکتبة الحیدریة ، نجف، ١٩٦٦ع؛علل الشرائع، ج١، ص ٣٢۔

٨۔ سیرت ابن ھشام، ج ١، ص ١٠٨۔

٩۔ بحار الانوار ، ج٦١، ص ١١٦، ابوداؤد ، سنن ابی داؤد ، ج١، ص ٣٨، حدیث نمبر ١٤٢۔

١٠۔ تفسیر القرطبی ، ج٢٠، ص٢٠٤۔

١١۔ سیرت ابن ہشام ج ١،ص ١٢١۔

١٢۔ سیرت ابن ہشام ج ١،ص ١٢٢۔

١٣۔ ایضاً۔

١٤۔ ایضاً۔

١٥۔ القرآن ، الضحی :٨۔

١٦۔ ڈاکٹر پروفیسر نور محمد غفاری، نبی کریم ۖ کی معاشی زندگی، ص ٨٢۔

١٧۔ ایضاً۔

Add comment


Security code
Refresh