www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

فن اور ھدف

 حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح ایک مجاھد کو دوست رکھتے ہیں اسی طرح کام کرنے والے کی تعریف کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ہیں:

"ان اللہ یحب العبد المحترف"۔

 خدا وند عالم کام کرنے والے انسان کو دوست رکھتا ہے ۔

 حتی ٰکہ کراٹے سیکھنا بھی ایک کام ہے (اگرچہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ درست نھیں ہے )اللہ اس کے کام کرنے والے کو بھی دوست رکھتا ہے ۔

خدا وند متعال مجاھد ،متقی ،اورھرمحسن انسان کو دوست رکھتا ہے کیونکہ یہ افراد اسلامی معاشرے میں مختلف دردوں کی دوا ہیں لیکن ھر فن کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی نیک ھدف ھوناچاھئیے۔

 اگر کسی کے پاس کوئی فن ہے اور وہ اسے غلط کاموں میں استعمال کرتا ہے ،اس کی وجہ سے اسراف ،شھوت اور اس جیسے دوسرے غلط کاموں میں اپنی توانائیاں صرف کرتا ہے تو وہ شخص گناہ گار ہے اور اگر یھی کام دفاعی اور نیک کاموں میں شامل کرے تو وہ ایک عظیم کام شمار ھوگا۔

جو انسان اس بلند مقام تک پھنچ جائے اسے یہ سب کچھ مد نظر رکھناچاھئیے میانہ روی کا دامن ھاتھ سے نہ چھوڑے،یہ نہ ھو کہ ایک طرف حد سے بڑھ جائے اور دوسری طرف حد سے گر جائے اسلام حقائق، ضروریات زندگی اور مفید کاموں پر بھت زور دیتا ہے ۔

درخت لگانا

یہ شجر کاری کا ھفتہ ہے اس سلسلے میں بھت سی روایات بھی وارد ھوئی ہیں حضرت امیر المؤ منین علی ابن ابی طالب علیہ السلام مدینہ میں سب سے زیادہ درخت لگانے والی ھستی ہیں اس وقت بھی آپ کے ھاتھوں سے لگائے کھجور کے درخت موجود ہیں ان کے علاوہ بھت سے درخت کاٹ دیئے گئے ہیں اور ان کی جگہ پر اور درخت لگائے گئے ہیں۔

آپ بھت سے چشموں کو بھی وجود میں لائے،جن پچیس سالوں میں آپ کو ظاھری حکومت سے دور رکھا گیا ،آپ نے اس عرصہ میں مسلسل کام کیا راوی کہتا ہے کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ سامان اٹھا کر لے جا رھے ہیں،اس وقت میں نے عرض کی آقا یہ کیا ہے ۔آپ نے فرمایا یہ ایک لاکھ کھجور ہیں اس کے بعد آپ نے ان تمام کو کاشت کیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد ھم نے دیکھا کہ یہ سب سر سبز پودوں میں بدل گئے ہیں ۔

 حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے لوگوں سے ارشاد فرماتے ہیں:

"من سقا طلحة او سدرة فکانما سقا مؤمنا ظلمائ"۔

 جو شخص کسی درخت کو پانی دے وہ اس طرح ہے کہ اس نے کسی تشنئہ مومن کو سیراب کیا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"الفلاحون(الزراعون) ھم کنوزاللہ فی ارضہ"۔

کاشتکاری کرو ،یہ تو زمین میں پوشیدہ اللہ کے خزانے ہیں۔

 اس کے ساتھ ھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی زراعت کے علاوہ کسی اورپیشہ کو دوست نھیں رکھتا،جب تک زندہ ھوں کاشتکاری کرتا رھوں گا۔

درخت باعث برکت ہیں

 یقینا آپ جانتے ہیں کہ ھمارے ملک میں کس قدر پانی ضائع ھوتا ہے ،کئی کئی کلو میٹر تک پانی زمین کو گھیرے رکھتا ہے اگر ھم فقط لکڑیاں پیدا کرنے کے لئے ھی درخت کاشت کر لیتے تو ھمارے پاس اس کا بھت بڑا ذخیرہ محفوظ ھو جاتا،یھی وجہ ہے کہ درخت کا وجود سراسر خیر وبرکت ہے ۔

ھر درخت ،دن مھینے ،اور سال میں ترقی کرتا ہے ،ھر سال اس کاوزن پانچ کلو بڑھ جاتا ہے ، جس قدر درخت ھمارے پاس زیادہ ھوں گے ھم اسی قدر زیادہ پیدا وار حاصل کر سکیں گے،اس کے پتے ،پھول، اور سایہ وغیرہ یعنی درخت مکمل طور پر فائدہ مند ہیں۔

انتھائی افسوس کا مقام ہے کہ ایران جیسا ملک جس کے پاس پانی جیسی دولت موجود ھو اور وہ اس سے بھرہ مند نہ ھو، میں بھت سے ایسے دیھاتوں میں گیا ھوں جھاں مجھے ایک درخت بھی دیکھنے کو نھیں ملا۔

 اگر ھر شخص ایک ایک درخت لگا لے تو نہ معلوم کتنی بڑی دولت ھاتھ لگ جائے نجانے ھم اتنی اھم عبادت کیوں انجام نھیں دیتے؟۔ھمیں چاھیے کہ ایک درخت ھی کاشت کر لیں ھر روز وہ جتنا بڑا ھو گا ھمارے معاشرے کے لئے اتنا خیر وبرکت کا موجب بنے گا،ھم ھوںیا نہ ھوں یہ اپنی برکتیں بانٹتا رھے گا ۔

 ھمارے پاس سولہ ملین ایکڑ جنگل موجود ہیں کہ جن میں سے تین چار ملین تجاری اور باقی آزاد ہیں،آزاد جنگل جتنی زیادہ لکڑی پیدا کریں گے، ھمارے لئے خیروبرکت ہے تجارتی جنگل بھی معاشرے کے لئے مفید ہیں۔

ایک ملین ایکڑ زمینوں کی بربادی

 شاہ کے آخری دور میں تقریبا ایک ملین ایکڑ جنگل کو ضائع کیا گیا، بھت سی زمینیں فوجی افسروں میں بانٹ دی گئی تھیں تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں،یہ ایک بھت بڑی غلطی تھی لھذا ان درختوں کو کاٹنے کی اجازت دینا کوئی عقل مندی بھی نھیں ہے کیونکہ ان درختوں کی ھر ھر چیز خیر وبرکت کا پیش خیمہ ہے ،اس کے پتے محیط زیست کو زندگی فراھم کرتے ہیں۔

  اگر ھم بامقصد زندگی بسرکریں،عبادت سمجھ کر اس کام کو آگے بڑھائیں تو ھم کسی کے محتاج نھیں رھیں گے ۔

 اگرھم اسلامی روایات پر ھی عمل کر لیتے تب بھی ھم اس کے محتاج نہ رھتے کہ غذائی مواد کسی اور ملک سے منگواتے،جبکہ ھمارے پاس ایسے علاقے موجود ہیں جھاں غربت ہے جیسے جیرفت ایک غریب علاقہ ہے کہ جسے چھوٹابھارت کھہ سکتے ہیں،اسی طرح کھنوج جیسی جگہ بھی موجود ہے جو تنھا پورے ملک کو غلہ فراھم کر سکتی ہے ۔

 میں نے جب صوبہ خوزستان کا دورہ کیا تو وھاں کے ماھرین نے بتایاکہ ھم اس علاقہ میں دس ملین ٹن چینی پیداکر سکتے ہیں یعنی ملکی ضرورت کے دس برابرچینی ھم صرف اسی علاقے سے حاصل کر سکتے ہیں۔

 یہ کتنی بڑی نعمت ہے اور کام کرنے کے بھت سے مواقع بھی اس سے فراھم ھوتے ہیں اسی طرح کاغذ کی صنعت ،حیوانات کی خوراک ،اور بھت سی لکڑیاں جنگل کی وجہ سے ھمیں میسر ھوتی ہیں ۔

اسلامی راستہ ھی بھترین زندگی ہے

اگر لوگ اسلامی روح کو مد نظر رکھ کر غورو فکر کریں ،عبادت سمجھ کراس راستے پرچل پڑیں اور آخرت کیلئے کام کریں تو یھی ان کے تمام مسائل کاحل ہے۔افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ ھماری اس طرح تربیت نھیں ھوئی۔

گذشتہ دور میں مسلمان صوفیانہ طرز تفکر سے زندگی گذارتے تھے ان کے خیال میں دنیا آخرت سے جدا تھی اور بعض لوگ دنیا دار تھے یہ لوگ دنیا کی طلب میں لگے ھوئے تھے۔ یہ لوگ اجنبی ، عیاش،اورغلط قسم کے لوگوں کیلئے بھت مفید تھے ان کے ذریعے تولید بھی ھو جایا کرتی تھی لیکن یہ معاشرہ کے لئے صحیح راستہ نہ تھا، اسلامی طرز تفکر کوان کی روش نے ھی صحیح راہ پرنہ چلنے دیا۔

  اگر ھماری زندگی میں اسلامی اعتقادات حاکم ھوںتوھم مفیدزندگی گذار سکتے ہیں اور ھماری وضع قطع بھی اچھی ھوسکتی ہے یہ انتھائی غلط روش ہے کہ ھم صرف ریاضت میں مصروف رہ جائیں اسلام کا اس سے کوئی تعلق نھیں ہے اور اسلام ایسی چیزوں کو پسند نھیں کرتا ۔جب شارع مسلمانوں کو حالت فقر میں اورغیر مسلموں کو خوش حالی میں دیکھتا ہےاس کادل خون ھو جاتا ہے۔اس خطبہ کے آغاز میں،سورہ فرقان کی جس آیت کی تلاوت کی گئی ہے وہ بھی مصرف میں اعتدال کو بیان کر رھی ہے ارشاد رب العزت ہے:

 "والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما"۔( سورہ فرقان،آیت٦٧)

اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں، تو وہ نہ فضول خرچ ہیں اور نہ بخیل۔بلکہ وہ اوسط درجے کا خرچ کرتے ہیں۔

Add comment


Security code
Refresh