www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تجزیاتی مطالعہ

بہ حیثیت کتاب صحیفہ کاملہ کے تجزیہ کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں۔ اپنی دانست کے مطابق میں اس صحیفہ کو تین زاویوں سے دیکھنا پسند کرونگا۔

الف: صحیفہ بطور دعاؤں کا مجموعہ

ب۔ صحیفہ کی دعاؤں اور قرآن میں ہم آہنگی اور

ج: صحیفہ کے علمی اور تبلیغی پہلو

الف: دعاؤں کی ایک کتاب کی حیثیت سے اس کے مضامین کا تناظر(Spectrum) بہت وسیع ہے۔ اس کی٥٤دعاؤںاور مناجاتوں کی مقاصد کے اعتبار سے حسب ذیل تقسیم ہو سکتی ہے۔

١۔ عبادات اور تقویٰ سے متعلق دعائیں۔ حمد و ثناء ، انبیائ، محمد و آل محمد (ص) اور فرشتوں کا ذکر ، طلب مغفرت، طلبرحمت، موت کا ذکر، مکارم الاخلاق، توبہ اور ادائے شکر کی دعائیں۔

٢۔ حقوق العباد سے متعلق دعائیں:ان میں والدین ، اولاد ، دوست، ہمسایہ اور حدود مملکت کی نگرانی کرنےوالوں کے لئے دعائیں۔

٣۔ انسانی ضروریات کی تکمیل کی دعائیں: حاجت براری، داد خواہی، بیماری سے نجات، ادائے قرض، وسعت،رزق اور دشمنوں سے بچاؤ کی دعائیں۔

٤۔ خاص مواقع کی دعائیں: صبح و شام نماز شب ، ایام ہفتہ ، رویت ہلال، عیدیں، جمعہ ، عرفہ ، ماہ صیام اور ختمقرآن کی دعائیں۔

محققین کا خیال ہے کہ بعض دعائیں بالکل فی البدیہہ ہو سکتی ہیں اور بعض طویل دعائیں مقاصد کو پیش نظر رکھ کر مدون کی گئیں بظاہر تو یہ دعائیں ہیں لیکن ان میں علم طب ، نفسیات، فلکیات، معاشرت اور اخلاقیات کے سمندر کو زہ میں بند ہیں۔

ب: صحیفہ اور قرآن مجید کے تعلق کے سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ صحیفہ کی دعاؤن میں حمد و ثنائ، صفات الہی ، اوصاف محمد و آلِ محمد کے ذکر کے ساتھ خاص مقاصد کے حصول کے لئے خدا سے امداد کی طلب ہے۔ ان دعاؤں میں قرآنی آیات کا نفوذ(Fusion) ایک اہم اور خصوصی عمل (Process) ہے جو باری تعالیٰ کے سامنے اپنے مقاصد کو پیش کرنے استعمال کیا گیا ہے۔

اس عمل کو سمجھنے کے لئے یہ سوچین کہ ہم جب کسی حاکم کے سامنے درخواست پیش کرتے ہیں تو رائج الوقت قانون کے حوالوں کے ذریعہ اپنے مطلب اور مدعا کو مستحکم کرتے ہیں بالکل اسی طرح امام نے دعاؤں میں حسب موقع قرآن سے ایسے آیات اور الفاظ کا انتخاب کیا ہے جو دعاؤں کے مقصد سے ہم آہنگ ہیں۔ ولیم چٹک نے اپنے ترجمہ میں جس کا ذکر آچکا ہے صحیفہ کی دعاؤں میں ان مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں قرآنی حوالے ہیں یہ ایک قابل تحسین کام ہے۔ رقم الحروف نے اس فہرست پر مزید تحقیق کی جس کے مطابق صحیفہ میں قرآنی آیات کے نفوذ(Fusion) کے تین انداز پائے جاتے ہیں۔

١۔ دعا کے تسلسل میں قرآنی آیات کلی یا جزوی طور پر اپنی اصلی شکل میں ہیں(Original Form) ایسے ٩٠حوالے ہیں۔

دعا گناہوں سے معافی (٨): انت الذی وسعت کل شیئ رحمۃ و علماتو وہ ہے جو اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز پر چھایا ہوا ہے۔

قرآن سورۃ مومن (٧) ربنا وسعت کل شیئ رحمۃ وعلما فاعفر للذین تابواے ہمارے پرور دگار تو اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز پر چھایا ہے جو لوگ تو بہ کئےانہیں بخش دے۔

٢۔ دعا کے الفاظ اور قرآنی آیات میں مماثلت پائی جاتی ہے(Comparability) ٤٠حوالے ۔

دعا: ختم قرآن (٤٤) وبیض و جوھنا یوم تسود وجوہ الظلمۃ فی یوم الحسرۃروز قیامت کا ذکر: ہمارے چہروں کو نورانی کرنا جبکہ حسرت و ندامت کے دن ظالموںکے چہرے سیاہ ہونگے۔

قرآن سورہ آل عمران (١٠٦) یوم بیض و جوہ و تسود وجوہایمان لاکر کفر کرنے والوں کا ذکر جس دن بہت سے منہ نورانی اور بہت سے سیاہ ہونگے۔

٣۔ دعا کے الفاظ میں قرآنی آیت کا بالواسطہ اشارہ موجود ہے(Allusion) ٦٦حوالے۔

دعا: کسی بات پر غمگین ہونا: واجعل تقواک من الدنیا زادی والیٰ رحمتک رحلتیاور پرہیز گاری کو دنیا سے تیری رحمت کی طرف سفر کا تو شہ بنادےقرآن سورہ بقرہ (١٩٧) و تزو دفان خیر الزاد التقوےحج اور عمرہ کا ذکر: ( جب حج کرنے جاؤ) تو پرہیز گاری کا زادور اہ اپنے ساتھ لے جاؤ۔

یہ علم معصوم کا ادنیٰ کرشمہ ہے کہ قرآن کے ١١٤ سوروں اور ٦٦٦٦ آیات میں سے امام نے جہاں سے چاہا دعا کے مفہوم کے مطابق آیت کو پسند کرلیا اور دعا کے تسلسل میں اس طرح پیوست کردیا کہ عام قاری کو قرآن اور امام کے الفاظ میں کوئی فرق نظر نہیں آسکتا صحیفہ کی دعاؤں میں تقریباً ٢٢٥ قرآنی حوالے موجود ہیں جو قرآن کے ایک دو نہیں ٧٠ سوروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان زندہ شہادتوں کے بعد کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ وارث علم قرآن کو ن ہے۔ ؟کیا حدیث ثقلین کی اور کوئی تفسیر باقی ہے؟

ج: علمی اور تبلیغی پہلو:

صحیفہ کاملہ کی دعائیں نور کا ایک منارہ اور معارف کا سمندر ہیں اس کی معنوی حیثیت کے سلسلہ میں ریاض السالکین (سید علی خان) اس کو کتب سماویہ اور صحف عرشیہ کے قائم مقام سمجھتے ہیں، ان دعاؤں میں قرآن، حدیث ، تاریخ، فلسفہ اور کائنات کے سربستہ رازوں کے حوالے بھی ہیں جوغور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اس مقالہ میں مختصر چند خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے۔

١۔ توحید اور تعلق باﷲ:

صحیفہ کاملہ کی دعاؤں میں توحید اور تعلق باﷲ کے مسائل پر بہت زور دیا گیا ہے موجودہ ماحول میں تویہ مذہب کے بنیادی اصول شما رکئے جاتے ہیں لیکن اموی دور میں ان بنیادی اصول پر کاری صرف لگائی جارہی تھی۔ جب علی الاعلان یہ کہا گیا کہ محمد نے ایک کھیل کھیلا تھا۔ نہ کوئی وحی آئی نہ فرشتہ ، توحید الہیٰ کے ذکر کی ایک مثال دعائے اول میں ہے جہاں امام فرماتے ہیں۔

''الحمدللّٰلہ الا ول بلا اول و الآخر بلا آخر یکون بعدہ '' ( تعریف اس خدا کی جو ایسا اول ہے جس کے پہلے کوئی اول نہ تھااور ایسا آخر جس کے بعد کوئی آخر نہ ہوگا۔)

٢۔صفات باری تعالیٰ:

صفات باری تعالیٰ میں عدل ایک ایسا وصف ہے کہ اگر انسان اس کی ماہیت سمجھ لے تواس کے تمام اعمال میں ایک توازن اور تنازسب قائم رہ سکتا ہے بنی امیہ نے اپنے اعمال اور ظلم کی پردہ پوشی کے لئے یہ عقیدہ پھیلا نا شروع کیا تھا کہ خدا کے لئے عدل ضروری نہیں۔ امام کی دعاؤں میں جابجا خدا کی صفات کا موثر الفاظ میں بیان موجود ہے۔ بالخصوص یوم عرفہ کی دعا اس ضمن میں ایک شاہکار ہے۔

٣۔رسالت اور امام کا رتبہ:

بقول نسیم امروہوی بنی امیہ نے اپنے ابتدائی دور میں رسول (ص) اور عترت رسول (ع) کے خلاف تیغ زبان ( سب و ششم) کی جو مذموم تحریک شروع کی تھی یزید نے اس کو زبان تیغ ( جنگ) میں بدل دیا اور سانحہ کربلا و اقع ہوا۔ امام نے اپنی دعاؤں میں ان ذوات مقدسہ کی منزلت سے روشناس کرایا، ایک دعا میں ان الفاظ میں محمد اور آل محمد (ص) کی فضیلت کا تذکرہ کیا ہے۔ وجعلتھم و رثتہ الانبیاء وختم بھم الاوصیا والا ئمہ وعلمتھم علم ما کان وما بقی ( اور آل محمد (ص) کو انبیاء کا وارث بنایا، ان پر اولیا اور اماموں کا سلسلہ ختم کیا اور انہیں ماضی حال ، اور مستقبل کا علم عطا کیا۔)

٤۔ کائنات میں تفکر:

قرآن میں جا بجا قدرت کی تخلیقات کی طرف اشارہ ہے، عام آدمی کو منطق اور فلسفہ سے دلچسپی نہیں ہوتی وہ ٹھوس ثبوت چاہتا ہے اسی مناسبت سے امام نے دعا ؤں میں کائنات کے مظہر ، رات اور دن کے وجود ، چاند کی مخصوص مدار میں گردش ، اس کا بڑھنا، گھٹنا، گرہن لگنا، آندھی اور بجلی کا قدرت کا نشانیوں کے طور پر اپنی دعاؤں میں ذکر کیاہے۔ سائنسی ترقی کے نتیجہ میں ان سر بستہ رازوں پر سے پردہ اٹھ رہا ہے اور ان کی صداقت عیاں ہو رہی ہے لیکن ١٤ سو سال پہلے ان امور پر بحث کرنا اسی کا کام ہے جو علم کائنات جانتا ہو۔ مفتی جعفر حسین نے سائنسی انکشافات بالخصوص اجرامِ فلکی کے وزن کے متعلق ایک تفصیلی نوٹ دیاہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔

٥۔ انابت و استغفار:

اس دور میں فسق و فجور عام تھا اور گناہوں کے ارتکاب میں نہ صرف بے شرمی تھی بلکہ دلیری بھی تھی۔ ضروری تھا کہ نوجوانوں کو انابت و استغفار سوزوگداز، خضوع و خشوع کے راستے دکھائیں جو دعا کی بنیاد اور تقویٰ کی ر وح ہے ۔دعائے مکارم الاخلاق اور توبہ میں انکساری کی بے شمار مثالیں ہیں۔ ایک جگہ کہتے ہیں ''لا آئیس منک و قد فتحت لی باب التوبہ الیک'' ( میں تجھ سے مایوس نہیں ہو سکتا جبکہ تو نے توبہ کا درازہ کھلا رکھا ہے) دعائے مکارم الاخلاق کا تجزیہ کرتے ہوئے سید العلماء نقن صاحب نے انسان کے عقیدہ ، قول اور عمل کو اس کے کمالات کی بنیاد قرار دیا ہے جو بلا آخر دل ، زبان اور جوارح کے ذریعہ نیکیوں اور برائیوں کی شکل میں رونما ہوتے ہیں ۔ ان فضائل اور رزائل کی ایک طویل فہرست بھی دی گئی ہے ایک مثال حسب ذیل ہے۔

دل : فضائل : ایمان ، یقین ، حسن نیتعیوب: غرور ، شک ، حسد، خوشامدزبان: فضائل: شکر نعمت، عیب پوشی، حق گوئی، حمد پرور دگارعیوب : غیبت کرنا، فحش کلامی ، احسان جتاناجوارح: فضائل : حسن عملی ، صلہ رحم ، اطلاعت خدا ، رزق حلال کا حصول ، ادائی حقوقعیوب: شیطان کی اطاعت، قطع رحم ، حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ، فضول خرچی۔

تتمہ:

ان مطالب کے علاوہ صحیفہ میں اقتصادیات ، سیاست اور اتحاد بین المسلمین سے متعلق امور کے حوالے میں موجود ہیں۔

صحیفہ کاملہ کے اس تجزیاتی مطالعہ کے اختتام پر خلاصتاً عرض ہے کہ یہ صحیفہ علوم اور معارف کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، ایک یہ قدسی صفات بندہ کی اپنی پوری عبودیت سے مناجات الہیٰ ہے جو تاریک دلوں کو روشنی اور زنگ آلود ضمیر میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ اسلام میں مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روح کی ارتقاء کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ عبدو معبود کے درمیان ایک سچا تعلق قائم رہ سکے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ د رس قرآن کی طرح نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ کے مطالعہ کا ایک با قاعدہ پروگرام ترتیب دیا جائے، خدا ہمیں نیک توفیقات سے سر فراز کرے۔

Add comment


Security code
Refresh