www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلوب بیان

ائمہ علیہ السلام کے لبوں سے نکلا ہوا کلام امام الکلام بن جاتا ہے چاہے وہ نہج البلاغہ ہو یا صحیفہ کاملہ۔نہج البلاغہ اپنے اسلوب میں علی(ع) کی شجاعت اور فصاحت کی عکاسی کرتی ہے۔ شارع نہج البلاغہ استاد محمد عبدہ ( مصری) کے بموجب نہج البلاغہ میں ''بلاغت کا زور ہے فصاحت پوری قوت سے حملہ آور ہے لڑائیاں چھڑی ہوئی ہیں خطابت کے لشکر صف بستہ ہیں طلاقت کی فوجیں شمشیر زنی میں مصروف ہیں۔ علی علیہ السلام کا طرز خطاب وہی ہے جو ایک امام کا ماموم سے بر سر منبر ہونا چاہئے اور جو سلونی کے مبارزہ سے ایک امتیازی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس کے بر خلاف صحیفہ کاملہ کا اسلوب موعظہ، انکساری ، دعائیہ اور مناجاتی ہے کیونکہ انسان کو مانگنے کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔ یہ ایک ادبی معجزہ ہے جس میں دعا بھی ہے اور نیکی کے راستے پر چلنے کی دعوت بھی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے اس کی تدوین و ترتیب مین کس قدر احتیاط کی ضرورت تھی۔ صحیفہ کے مطالعہ سے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی الحاح و زاری اور مناجات کا فطری احساس ہوتا ہے جو خلوص کی علامت ہے۔

صحیفہ کاملہ کی طرز نگارش کے ضمن میں مفتی جعفر حسین لکھتے ہیں '' دور جاہلیت اور اوائل اسلام میں بھاری اور دقیق الفاظ کی طرز تحریر کا رواج عام تھا جو قبائلی عصبیت کی آئینہ دار تھی اس کا مقصد مد مقابل پر رعب جمانا تھا۔ اس کے برعکس صحیفہ کاملہ میں سلاست و روانی اور سادہ طرز نگار ش ہے جو اصل فصاحت ہے اس سہل اور دلنشین طرز تحریر کا اصل محرک دعا و مناجات ہے جو کسی مرصع اور مسجع عبارت کے تضح کی محتاج نہیں ۔ درد و غم کی آہوں اور کرب و اضطراب کی صداؤں پرمشتمل دعاؤں اور مناجات میں نہ فلسفیانہ الجھاؤ ہیں نہ مظقیانہ پیچ و خم ہیں۔''

مصر کے عظیم عالم اور تفسیر الجواہر کے مصنف علامہ طظاوی صحیفہ کا ملہ کے متعلق رقم طراز ہیں۔ '' علوم و معارف اسلامی کو اس کتاب میں جس انداز سے پیش کیا گیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، میں جس قدر بھی اس کا مطالعہ کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کلام خالق اکبر کے کلام سے کم تر اور مخلوق کے کالم سے بالاتر ہے۔ ''( تفسیر الجواہر)۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تیرہ سو برس سے یہ جلیل القدر کتاب دنیائے اسلام میں موجود ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس صحیفہ کو اسلامی دنیا کے سب سے بڑے مرکز مصر میں یہ متعارف کرانے کا سہرا ڈاکٹرمجتبیٰ حسن کامو نپوری کے سر ہے۔ مصر میں یہ ایک نئی چیز سمجھی گئی اور وہاں کے علما اور پروفیسر وں نے اس صحیفہ پربسیط مقالے لکھے جو ہندو ستان کے عربی رسالہ '' الرضوان'' میں شائع ہوئے۔ سید العلماء علی نقی نقن صاحب نے ان مضامین کا اردو ترجمہ کیا جس کو امامیہ مشن '' صحیفہ سجادیہ کی عظمت'' کے عنوان سے شائع کیاہے۔ یہ ایک قابل تحسین خدمت ہے اس مختصر کتاب میں علامہ طظاوی، استاد محمد کامل حسین جامعہ مصر اور استاد احمد جمعہ ابیوتی کلیہ شریعت اسلامی مصر کے تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں صحیفہ کاملہ کی دعاؤں کا عالمانہ تجزیہ ان کے تعلیمی اور تبلیغی پہلو اور امت مسلمہ کے لئے ان کی افادیت پر بحث کی گئی ہے۔ علامہ طنطاوی کے قلم سے اس کتاب کے اسلوب اور قرآن سے مطابقت کا اندازہ لگائیے کے وہ لکھتے ہیں بار الہا یہ تیری کتاب قرآن مجید ہے اور یہ اہلبیت کی ایک بزرگ ہستی کے ارشادات ہیں ان میں ایک وہ ہے جو آسمان سے نازل ہوئی ہے اور دوسرا اہلبیت صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام ہے یہ دونوں آپس میں بالکل متحدہ اور متفق ہیں'' پھر تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں '' اے فرزند ان اسلام، اے اہلسنت ، اے اہل تشیع کیا اب بھی وہ وقت نہیں یا کہ تم قرآن اور اہلبیت کے زریں مواعظ وحکم سے سبق حاصل کرو یہ دونوں تمہیں ان علوم و معارف کی تحصیل کی طرف بلا رہے ہیں۔''

Add comment


Security code
Refresh