www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

نسخے ، شرحیں اور ترجمے

موجود ہ دور میں جدید فن طباعت کی سہولت، کمپیوٹر اور فوٹو کاپی اور دیگر ذرائع کی موجودگی میں قلمی نسخوں کی تیاری کی مشکلات کا صحیح انداز ہ نہیں لگایاجاسکتا ۔ قدیم دور میں تمام اہم کتابوں کے نسخے لکھے جاتے تھے جن کی صحت پر علما سند اور اجازہ لکھتے تھے اور یہی نسخے حوزہ ہائے علمیہ میں علما اور طالبعلم کے زیر مطالعہ رہتے ۔ جیساکہ بیان کیا جا چکا صحیفہ کی تحریر و تدوین امام زین العابدین کی زندگی میں ہوچکی تھی۔ لیکن ناساز گار ماحول کی وجہ سے یہ علمی خزانہ عام نگاہوں سے مخفی ہو گیا۔ تاہم ارباب بصیرت نسل در نسل اس کی روایت کرتے اور بقا و تحفظ کی کوششیں عمل میں لاتے ( مرزا احمد حسن )۔ بحار الانوار کی بموجب گیار ھویں صدی میں حالات کی موافقت کے نتیجے میں ایران اور اصفہان میں کوئی گھر ایسانہ رہا کہ جہاں قرآن مجید اور صحیفہ کاملہ کے نسخے نہ ہوں۔ علامہ مجلسی کو بھی ایک قدیم نسخہ ٣٣٣ ھ کاملا تھا۔ لیکن علما اور محققین کے نزدیک سب سے قدیم نسخہ جو تمام نسخوں کی اصل تھا شیخ علی بن سکون ( متوفی ٦٠٦ھ) کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔

کتب خانہ رضویہ مشہد میں صحیفہ کے ٣٤ قلمی نسخے ہیں جن میں سب سے قدیم ١٠١٤ھ ہے۔ کتب خانہ ناصریہ میں چھٹی ،٩ ویں اور ١١ ویں صدی ہجری سے متعلق تین نسخے ہیں۔ شہید اول کا نسخہ ٧ ویں ہجری کا کتب خانہ ممتاز العلماء میں ہے۔ لاہور اور ملتان کے کتب خانوں میں ١٢ ویں صدی کے نسخے ہیں۔

نہج البلاغہ کی طرح صحیفہ کاملہ کی کئی شرحیں لکھی گئیں۔ آقائے بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب ''الذریعہ'' میں اس عظیم کتاب کی٤ شرحوں کی نشاندہی کی ہے جن کی تفصیلی مولانا سید علی مجتہد کے اردو ترجمہ کے ملحقات میں موجود ہے ان میں سے اکثر عربی اور چند فارسی میں ہیں۔ ان میں زیادہ معروف سید علی خان کبیر کی شرح'' ریاض السالکین'' سے موسوم ہے اس کو مختصر کر کے تلخیص الریاض کے نام سے تین جلدوں پر شائع کیاگیاہے۔ اکثر علماء اور مولفین کی تالیفات میں اس کا حوالہ موجود ہے۔ ( موسسہ در راہ حق) دیگر شارحین میں محمد باقر بن محمد داماد، ملا محمد تقی مجلسی اول، ملا محمد باقر مجلس ثانی، اور شیخ بہا جیسے جید علما شامل ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ان میں سے اکثر شرحیں ١١ ویں اور ١٢ ویں صدی ہجری میں لکھی گئی۔

صحیفہ کاملہ کو صحیفہ اولیٰ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ صحیفہ خود امام نے اپنی زندگی میں لکھوا دیاتھا۔ امام کے بعد اور دعاؤں کو سات صحیفوں میں جمع و تالیف کیا گیا اور ان کو صحیفہ ثانیہ ثالثہ تاثامنہ کہا گیا ۔ ان کے مولفین میں شیخ محمد بن حسن الحر عاملی (وسائل الشیعہ) مرزا عبداﷲ آفندی ( ریاض العلماء ) مرزا حسین نوری ( مستدرک) شامل ہیں ۔ اسلامی تصانیف میں صحیفہ کاملہ دعاؤں کی پہلی کتاب ہے اس لحاظ سے تمام قدیم اور معتبر کتابوں میں اس کو بہ حیثیت ماخذ قرار دیا گیا ۔ کتب و ظائف اور اعمال میں اس کا حوالہ ملتا ہے جس کی مثالیں شیخ الطائفہ ( مصباح المجتہد۔٨ دعائیں) قطب الدین راوندی ( دعوات ٣٠ دعائیں) رضی الدین بن طاؤس ( اقبال ٧ دعائیں) اور شیخ ابراہیم بن علی الکفعمی ( بلد الامین ١٠ دعائیں) ( مقدمہ علامہ محمد:مشکوٰۃ)

اردو ترجموں میں علامہ سید محمد ہارون ، سید علی مجتہد، مفتی جعفر حسین، سید مرتضیٰ حسین اور نسیم امروہوی کے نام قابل ذکر ہیں۔ علامہ سید علی کے ترجمہ میں دیگر علما کے مقدمات شامل ہیں۔ مفتی جعفر حسین کے ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہر دعا کے اختتام پر اس کے مضمرات کی تشریح کی گئی ہے ۔ جو دعا کے عرفانی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ نسیم امرہوی کے ترجمہ میں الفاظی تشریح سے انکا عربی لغت پر عبور اور استعداد عیاں ہے۔ صحیفہ کے بے شمارو فارسی ترجمے ہیں۔ ترکی اور گجراتی میں بھی ترجمے کئے گئے ہیں۔

انگریزی میں ایک ترجمہ مولانا احمد علی موہانی کا ہے جو مدرسۃ الواعظین لکھنو سے شائع ہوا۔ اس ترجمہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہندو فلسفہ کے استاد ڈاکٹر رانا ڈے نے اس ترجمہ کو دیکھ کر الہ آباد یونیورسٹی میں '' اسلامک فلسفہ '' کو بھی د رس میں شامل کیا۔ اس کے علاوہ چیدہ چیدہ دعاؤں کے انگریزی ترجمے بھی کئے گئے ہیں۔

انگریزی میں ایک ترجمہ ولیم چٹک کا بھی ہے اس کو(The Psalms of Islam) الصحیفہ الکاملہ السجادیہ '' کے نام سے محمدی ٹرسٹ برطانیہ /آئر لینڈ نے ١٩٨٧ء میں شائع کیا ہے۔ مترجم نے مقدمہ میں صحیفہ کی تاریخ ، اسلام میں نماز و دعا کی اہمیت، توحید عفو در گزر، اسما الحسنیٰ اور صحیفہ کی روحانیت پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ آخر میں امام کے رسالہ حقوق کا بھی ترجمہ شامل ہے۔ انگریزی ترجمہ ایک طرح کی آزاد نظم کے پیرایہ میں ہے جو پڑھنے میں مناجات کا اثر پیدا کرتا ہے۔ یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ اس انگریزی ترجمہ میں عربی کے متن کی تصیح اور ترتیب جناب عطا محمد عابدی مرحوم نے محنت اور لگن سے کی ہے جس کا مترجم نے اعتراف کیا ہے۔ اوپر بیان کردہ شرحوں اور ترجموں کی تفصیل حتمی نہیں بلکہ بطور نمونہ ہے تاکہ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ ہوسکے ۔ ان کے علاوہ اور بھی شرحیںاور تراجم موجود ہوسکتے ہیں۔

علمائے فریقین نے بھی اپنی تالیفات میں اس صحیفہ کا ذکر کیا ہے۔ شیخ الاسلام قسطنطنیہ شیخ سلیمان قندوزی نے ''ینابیع المودۃ فی القربی'' میں اس صحیفہ سے اکثر دعائیں نقل کی ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اخبار اثنا عشری دہلی ( مطبوعہ ٩ مئی ١٩٠٨ء ) کے بموجب جرمنی کے فاضل ہامر برگ اشتال نے اپنی تالیف ''میقات الصلوٰۃ فی سبعہ اوقات'' میں اچھے مضامین اور زور اثر دعاؤں کے ضمن میں امام کی تعلیم کردہ دعائے ابو حمزہ ثمالی کا ذکر کیا ہے۔ ( اولاد حیدر فوق)

Add comment


Security code
Refresh