www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

فلسفہ دعا:

بنیادی طور پر صحیفہ کاملہ دعا و مناجات کی کتاب ہے اس کی قد رو منزلت کو جاننے کے لئے دعا کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔ لفظ دعا کا مادہ '' دعو'' ہے جس کے لفظی معنی پکار نے یامانگنے کے ہیں۔ لیکن اسلامی اصطلاح میں دعا ان مخصوص کلمات کا نام ہو گیا جس کے ذریعہ انسان اپنی نفسیاتی کیفیت کا اظہار کرتا ہے اور مدد طلب کرتا ہے دعا کے عنوان پر علامہ ترابی اعلیٰ اﷲ مقامہ' شام غریبان کی ایک تقریر کی ابتدا کچھ اس طرح کرتے ہیں۔ '' زندگی بجز بند گی کچھ نہیں اور روح بندگی ، سرمایہ بندگی، عزت بندگی ، دعا ہے۔ دعا شرافت انسان کی علامت ہے دعا تجدید ہستی مومن ہے۔'' مشکلات کے وقت خدا وند عالم کی بارگاہ میں دست سوال پھیلا نا فطری امر ہے جب امید کے تمام در یچے بند ہو جاتے ہیں تو انسان خود بخود ایک ایسی ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس سے روح انسان کو ایک خاص قسم کی تازگی ملتی ہے اور سکون محسوس ہوتا ہے۔( موسسہ درراہ حق) قرآنی آیات '' ادعونی استجب لکم''( یعنی دعا کرو میں قبول کروں گا) اور '' اجیب الدعوۃ الداع اذا دعا نی فلیستجبولی'' ( میں پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں) کی روشنی میں ہم پر فرض ہے کہ ہم ہر ضرورت پر باری تعالیٰ کو آواز دیں اور مدد طلب کریں ( مفتی جعفر حسین ) دعا کی اہمیت اور لزوم کے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ عام انسان تو کیا انبیا نے بھی وقت ضرورت دعا ئیں کی ہیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے ۔ جناب آدم(ع)، نوح(ع) ، ابراہیم(ع)، یوسف(ع‏) ، ذکریا(ع)، یونس(ع) ، ایوب(ع) ، موسیٰ (ع)، عیسیٰ(ع)، اور آنحضرت(ص) کی دعائیں قابل ذکر ہیں بطور مثال'' ربنا ظلمنا انفسنا، لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ، رب شرح لی صدری ویسرلی عملی ، رب زدنی علما و غیرہ وغیرہ۔

دعا سنت پیغمبران ہے رسول(ص) مقبول نے فرمایا دعا مومن کا ھتھیار ہے ( الدعا سلاح المومن) امام العارفین حضرت علی نے فرمایا کہ خدائے عزو جل کے نزدیک اہل زمین کے تمام اعمال میں محبوب ترین دعا ہے '' احب العمال الی اﷲ عزو جل فی الرض الدعا'' صادق آل محمد (ص) نے فرمایاالدعا یرد القصا ( دعا مصیبت کو ٹالتی ہے)۔

حضرت علی(ع) بن الحسین (ع) کی مناجاتیں اور دعائیں اپنے گہرے معافی خلوص تڑپ ، ہدایت ، روشنی اور مضامین عالیہ کے لحاظ سے عجیب و غریب کیفتیں رکھتی ہیں۔ ان دعاؤں میں عبدومعبود کے راز و نیاز اور بندے اور خدا کے صحیح تعلق کی تصویر ایسے انداز میں کھینچی گئی ہے کہ انسان ایک روحانی سرور محسوس کرتا ہے۔ ( نسیم امروہوی )۔ یہ دعائیں حقیقت میں ایک عظیم درسگاہ ہیں جس میں توحید، نبوت، قیامت اور دوسرے موضوعات پر تفصیلی بحث موجود ہے جو فکر انسان کو پرواز کا طریقہ سکھاتی ہیں اور عقل انسانی کو شعور و ادراک کی دولت عطا کرتی ہے۔ یہ دعائیں موعظہ وہدایت کی خاطر بند گانِ خدا کے لئے لکھی گئی ہیں جبکہ یہ مقدس ذاتیں ہر طرح کے گناہوں سے دور تھیں۔ چونکہ بارگاہ الہیٰ میں انکا تقرب زیادہ تھا اس لئے انہیں خدا کا خوف بھی سخت تھا ۔ بطور پیشوا انہوں نے یہ مثال پیش کی جو ہدایت کا بہترین طریقہ تھا۔ دعا کے انداز کا ذکر کرتے ہوئے استاد مرتضیٰ حسین لکھتے ہیں کہ ہم بڑوں کو درخواست لکھتے وقت اپنے سے بہترلکھنے والے کو تلاش کرتے ہیں کہ حکام کے شایان شان الفاظ میں اپنے جذبات اور مدعا کا اظہار کر سکیں۔ آداب و اوصاف خدا وندی کو انبیاء اور ائمہ علیہ السلام سے بہتر جاننے والا کون ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ نکتہ شناس عرفان اور ادب آموز بصیرت ہیں۔ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا'' احفظِ آدابِ الدعا، وائنظر من تدعوا، و کیف تدعوا'' یعنی دعا کے آداب کا خیال رکھو، اور دیکھو کہ کس سے مانگ رہے ہو، کیونکر طلب کر رہے ہو اور کس مقصد کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہو۔

فلسفہ دعا کے ضمن میں مفتی جعفر حسین نے اپنے ترجمہ کے مقدمہ میں دعا کے مفہوم ، دعا کی قبولیت، اور دعا کی فطری اہمیت جیسے امور پر بحث کی ہے۔ دعاؤں کے ان پہلوں کے جائزہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان دعاؤں نے تعلیمات اسلام کی نشونما اور احیا میں ایک اہم کردار ادا کیاہے۔

Add comment


Security code
Refresh