www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

755368
ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے منگل کو اپنے روسی ھم منصب ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی، خطے اور اھم عالمی امور پر گفتگو کی۔ ملاقات کے بعد سینٹ پیٹرس برگ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ھوئے طیب اردوگان نے کھا کہ ترکی اور روس کے تعلقات مثبت دور میں داخل ھوگئے ہیں۔ دونوں ممالک بھترین باھمی مقاصد کے لئے کام کر رھے ہیں، ھمارے اقدامات سے باھمی تعاون کی فضا ھموار ھوگی۔
ادھر روسی صدر پیوٹن نے کھا کہ اردوگان کا دورہ اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ممالک تعلقات کی بحالی چاھتے ہیں۔ ذرائع کا کھنا ہے کہ ترک صدر طیب اردوگان اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات میں دونوں سربراھان نے باھمی تعلقات کی تجدید کا عزم کیا ہے۔
سینٹ پیٹرسبرگ میں ھونے والی ملاقات میں صدر پیوٹن کا کھنا تھا کہ ترکی کے کشیدہ حالات کے باوجود ترک صدر کا روس آنا اس بات کا مظھر ہے کہ دونوں ممالک اچھے تعلقات کی بحالی چاھتے ہیں اور دونوں ملکوں کے وسیع تر مفاد میں اچھے تعلقات کے حامی ہیں۔
یاد رھے کہ ترکی اور روس کے تعلقات گذشتہ برس ترک فضائی حدود میں روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد خراب ھوگئے تھے، تاھم اب روس اور ترکی کے تعلقات پر جمی برف مکمل طور پر پگھل گئی ہے۔
دیگر ذرائع کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوگان پھلی ناکام فوجی بغاوت کے بعد اور امریکہ و یورپی یونین سے خراب تعلقات کے باوجود روس پھنچ گئے۔
تفصیلات کے مطابق ترک صدر رجب اردوگان ناکام فوجی بغاوت کے بعد پھلے غیر ملکی دورے پر روس پھنچے ہیں۔ اس دورے سے عالمی سیاسی منظر نامے میں ھلچل مچ گئی ہے۔
سینٹ پیٹرز برگ پھنچنے پر روسی صدر ولادی میر پوٹن نے ترک صدر کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور دونوں رھنماؤں کے درمیان طویل ملاقات ھوئی۔ بعدازاں پیوٹن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ھوئے ترکی پر عائد سیاحتی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا۔
انھوں نے مزید کھا کہ وہ ترکی کے ساتھ معاشی تعلقات اور رابطوں کی بحالی کے لئے تیار ہیں۔ مغربی رھنماؤں کی جانب سے ترک صدر کے اس دورے پر تحفظات کا اظھار کیا گیا۔ دوسری جانب ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں پر یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے طیب اردوگان کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس تنقید کے باعث طیب اردوگان مغربی ممالک سے نالاں ہیں اور انھوں نے امریکہ سے ترک نژاد مذھبی رھنما فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور ملک میں ھونے والی فوجی بغاوت پر انھیں ذمہ دار ٹھرایا تھا۔
واضح رھے کہ ترکی کی حکومت کی جانب سے روسی طیارے کو نشانہ بنانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ تھے اور دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

Add comment


Security code
Refresh