www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اس وقت سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر پاکستان سے کیا چاھتے ہیں؟ پاکستانیوں نے ان کی آمد پر سعودیہ کے خلاف احتجاجی ریلیاں

 کیوں نکالیں … یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب کسی نہ کسی حد تک ھم سب کو معلوم ہے۔
لیکن ھم چاھتے ہیں کہ بات ٹھوس اور حقائق کی روشنی میں کی جائے۔ ھماری تحقیق کے مطابق حال ھی میں سعودی عرب نے شام، یمن اور عراق میں اپنی پروردہ داعش اور النصرہ تنظیموں کی مسلسل شکست سے اپنے اربوں ڈالر کو زمین برد ھوتے دیکھا تو کسی ملک سے مشورہ کئے بغیر 34 اسلامی ممالک کے اتحاد کا شوشہ چھوڑ دیا۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے دوسروں کو اعتماد میں لئے بغیر اس میں شمولیت کا اعلان بھی کر دیا۔ تب پاکستانی سفیر نے اس اھانت آمیز حرکت پر کافی احتجاج بھی کیا۔ اس کے بعد سے سکوت کی فضا حاکم تھی۔ اب جونھی سعودی وزیر خارجہ جنھوں نے پچھلے ھفتے پاکستان آنا تھا، آیت اللہ نمر کی شھادت کے باعث اسے ملتوی کرکے چار دن بعد پاکستان آئے، تب سے یہ بحث دوبارہ اپنے عروج کو پھنچی ہے۔
مختلف ملاقاتوں کے بعد یہ اعلان ھوا کہ "پاکستان دھشتگردی کے خلاف اس اتحاد میں شمولیت کا خیرمقدم کرتا ہے اور سعودی عرب کے لئے خطرہ ھونے کی صورت میں پاکستان ان کا بھرپور دفاع کرے گا۔ البتہ سعودی حکومت کو یہ یقین دھانی کرائی گئی ہے کہ کسی ملک پر چڑھائی کی صورت میں پاکستان اس کا حصہ نھیں بنے گا"﴿۱﴾
دوسری طرف سعودی نواز، نواز شریف صاحب کھہ رھے ہیں کہ "ھم سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کروانے کو تیار ہیں، لیکن جنگ کی صورت میں ھم سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دیں گے۔﴿۲﴾
ایک معمولی سی بھی عقل و خرد رکھنے والے شخص کے سامنے اگر آپ اس اعلان کو رکھ لیں تو وہ کیا سمجھے گا؟ وہ یھی سمجھے گا کہ پاکستان حکومت نے خادمین حرمین شریفین کے ھاتھوں اولی الامر کے عنوان سے بیعت کرلی ہے، وہ جو بھی حکم صادر فرمائے، بدون چون و چرا قابل عمل ھوگا، خواہ اس بیعت کے نتیجے میں کتنے مسلمانوں کے خون سے ھی اپنے ھاتھوں کو رنگین ھی کیوں نہ کرنا پڑے، کتنے ھی مظلوموں کا خون بھانا پڑے، کتنے بے گناھوں کی گردن کاٹنی پڑے۔۔۔۔
کیونکہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ سعودی اتحاد کسی دشمن اسلام کو سرکوب کرنے کے لئے نھیں، کسی سپر طاقت کو صفحہ ھستی سے مٹانے کے لئے نھیں، کسی غیر مسلم کو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے روکنے کے لئے نھیں، قلب اسلام پر گلے کا خار بنے اسرائیل کو نابود کرنے کے لئے نھیں، سارے مسلمانوں کے خون سے آلودہ امریکہ کا ھاتھ کاٹنے کے لئے نھیں، یمن میں بھوک و پیاس سے مرنے والوں کی مدد کی خاطر نھیں، شام سے بے گھر ھو کر جانے والوں کے لئے سایہ فراھم کرنے کے لئے نھیں، فلسطین میں روزانہ ھونے والے قتل عام کو محدود کرنے کے لئے نھیں، عراق میں داعش کے خلاف وھاں کے مسلمانوں کا ھاتھ مضبوط کرنے کے لئے نھیں، بحرین میں آل خلیفہ کے پنجے سے وھاں کے شھریوں کو آزادی دلانے کی خاطر نھیں، نائجیریا میں ھزار سے زیادہ بے گناہ قتل ھونے والوں کے خون کا بدلہ لینے کے لئے نھیں۔ تب یہ اتحاد کس مرض کی دوا ہے۔؟
سعودی عرب جو خود امریکہ اور اسرائیل کی پراکسی وار لڑ رھا ہے، مسلمانوں کے سرمائے سے ھی مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رھا ہے، سب سے زیادہ مسلمانوں کے حق کا دفاع کرنے، امریکہ اور اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی ھوئی دیوار بن کر کھڑے رھنے والے، فلسطینی مسلمانوں کی سب سے زیادہ مدد کرنے والے، داعش اور القاعدہ کو سب سے زیادہ سرکوب کرنے والے اور مسلمانوں کے اتحاد کو سب سے زیادہ فروغ دینے والے جمھوری اسلامی ایران کو کمزور کرنا چاھتا ہے۔
کیا آج تک ایران نے کسی مسلمان ملک پر حملہ کیا ہے (عراق کی جنگ صدام نے ان پر مسلط کی تھی)؟ کیا آج تک ایران نے کسی دشمن اسلام کا ایجنٹ بن کر مسلمانوں کو کوئی نقصان پھنچایا ہے؟ کیا آج تک ایران نے مسلمانوں کے درمیان خلل پیدا کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔؟ کیا ایران سے کسی اسلامی ملک کو کوئی خطرہ لاحق ہے؟ ۔۔۔۔۔ نھیں، نھیں، ایران سے کسی کو کوئی خطرہ نھیں۔ اگر خطرہ ہے تو امریکہ اور اسرائیل کو ہے اور ان دونوں کے حواریوں کو ہے۔ یہ دونوں ممالک بے وقوف سعودی حکمرانوں کو اپنے اعتماد میں لیکر ان کو مسلمانوں کے خلاف ھی استعمال کر رھے ہیں، تاکہ سرمایہ بھی مسلمانوں کا خرچ ھو اور جان بھی انھی کی چلی جائے اور پاکستان تو ان سے بھی زیادہ کم عقل ھونے کا ثبوت پیش کرکے اپنے کو بھی اس قتل و غارت میں ملوث کرنے جا رھا ہے۔
آل سعود کو معلوم ہے کہ پاکستان ھی عالم اسلام میں بڑی فوجی طاقت اور اٹامک اسلحے سے لیس ملک ہے، سعودی عرب جتنے بھی عرب ملکوں کو جمع کرتا جائے، پاکستان کے بغیر ان کی حیثیت کسی عدد کے بغیر صرف اور صرف زیرو بڑھانے کے مترادف ہے، کیونکہ نہ ان کے پاس منظم فوج ہے اور نہ ھی جدید ٹیکنالوجی۔
لھذا سعودی عرب نے نواز شریف سے اپنی رشتے داری کے ذریعے حکومت میں اپنے اثر و رسوخ اور فوجی اسٹبلشمنٹ کو بار بار اپنے پاس بلاکر ان کو اپنے اعتماد میں لے لیا ہے۔ کل﴿ان فیصلوں کو حتمی شکل دینے کیلئے﴾ سعودی وزیر دفاع بھی پاکستان آرھے ہیں۔﴿۳﴾
ھم حکومت پاکستان اور فوجی اسٹبلشمنٹ سے گزارش کرتے ہیں کہ خدارا اسلام کے نام پر تشکیل پانے والی اس مملکت کو اسلام کے خلاف استعمال ھونے کی اجازت ھرگز نہ دیں، نام نھاد داعش اور القاعدہ کو سرکوب کرنے کے بھانے سارے مسلمانوں کے قتل عام اور عالمی طور پر اسلام کی خوبصورت تصویر کو مسخ ھونے سے بچائیں۔
دو اسلامی ممالک کے درمیان صلح کرانے کی بجائے ان میں کشیدگی بڑھانے کا سامان فراھم نہ کریں۔ کیونکہ پاکستان کسی کی ذاتی ملکیت نھیں کہ جب چاھے کسی کا ساتھ دے اور جب چاھے کسی کو سرکوب کرے بلکہ یہ بیس کروڑ عوام کا ملک ہے، ھم اسی مملکت خداداد کے شھری ہیں، اس پر ھمیں فخر بھی ہے اور اس کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے کو بھی تیار ہیں۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ ابھی تک جو بیانات آپ لوگوں کی طرف سے سامنے آئے ہیں، وہ بعینہ یک بام دو ھوا کے مصداق تام ہیں۔ ان تمام مشکلات کا واحد حل صرف اور صرف یہ ہے کہ اس نام نھاد اتحاد سے اپنے عزیز ملک پاکستان کو بچائے رکھیں۔ ورنہ یک طرفہ فیصلہ ھونے کی صورت میں پاکستان پھر ایک بار فرقہ واریت اور تعصب کی فضا سے آلودہ ھو جائے گا، جس کے بعد ان تمام حالات سے نمٹنا بھت ھی مشکل مرحلہ ھوگا۔ لھذا ھزاروں کلومیٹر دور برپا اس جنگ کو کھینچ کر اپنے ملک میں لانا کسی طور بھی عقلمندی نھیں۔
حوالہ جات:
ڈیلی ایکسپریس، ۸ جنوری، ۲۰۱۶
ڈیلی ایکپریس، ۷ جنوری،۲۰۱۶
ڈیلی ایکسپریس، ۹ جنوری۲۰۱۶
تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی
 

Add comment


Security code
Refresh