www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جس طرح سے دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا دو حصوں میں تقسیم ھوچکی تھی (1945_1991)، دنیا کی موجودہ صورتحال لگ بھگ 

اسی طرح ھوچکی ہے۔ امریکہ اور سعودیہ اپنے تمام اتحادی ممالک اور دھشت گردوں سمیت ایک طرف اور ایران دنیا بھر کے مظلومین سمیت دوسری طرف۔ 1945 _ 1991ءکا زمانہ جس کو سرد جنگ کھا جاتا ہے۔ ایک بلاک کی سرپرستی امریکہ کر رھا تھا اور ایک کی سرپرستی سوویت یونین کر رھا تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد سرد جنگ ختم ھوگئی۔ امریکہ کو تنھا world power کے طور پر پوری دنیا کے ممالک نے تسلیم کر لیا سوائے ایران کے۔ 1991_2001ء تک کا زمانہ عالمی سطح پر پرامن رھا، لیکن 9/11 کے بعد عالمی حالات خراب ھونا شروع ھوگئے۔ افسانوی کردار، عالمی دھشت گرد اسامہ بن لادن کی تلاش کا بھانہ بناکر امریکہ نے 2001ء ایک میں افغانستان پر حملہ کر دیا، اس جنگ کو دھشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا، War against Terrorism۔ پاکستان مارشل لاء کے دور سے گذر رھا تھا۔
امریکی صدر جارج بش کے حکم پر مشرف نے جنگ میں امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کی سزا ابھی تک پوری پاکستانی قوم بھگت رھی ہے۔ 2003ء میں عالمی دھشت گرد امریکہ نے کیمیائی ھتھیاروں کا بھانہ بناکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
اس کے بعد شام کی باری آئی تو اس میں امریکہ اور اسرائیل نے پرانی جنگی حکمت عملی تبدیل کر دی، بجائے اس کے کہ direct attack کرتے، ترکی، قطر اور سعودیہ کو بشار الاسد کی حکومت کو تھس نھس کرنے کی ذمہ داری دے دی اور بشار الاسد کے خلاف داخلی فوج free army کی شکل میں سامنے آگئی اور 2011ء کے اوائل میں فری آرمی نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا۔ یوں دیکھتے ھی دیکھتے کئی اور دھشت گرد تنظیمیں سامنے آگئیں، جن میں سرفھرست داعش، جبھۃ النصرہ، احرارالشام، جیش الاسلام اور القاعدہ وغیرہ ہیں۔
اس جنگ کو تقریباً پانچ سال گذر گئے لیکن امریکہ، اسرائیل، ترکی، سعودیہ، قطر اور اس کے اتحادی ممالک اپنے شیطانی مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح سے ناکام ھوگئے۔ شام، عراق، افغانستان اور پاکستان میں ھزاروں بےگناہ افراد کا خون ناحق گرانے کے بعد بھی آرام نہ ملا تو یمن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اس جنگ کو کئی ماہ گذر چکے، ھزاروں بےگناہ افراد کا قتل عام کیا گیا جو اب بھی جاری ہے۔
اس کے بعد بھی قرار نہ آ یا تو اس سال دسمبر میں تحریک اسلامی نائیجیریا کے بےگناہ افراد کا نائیجیریا کے آرمی کے ذریعے قتل عام کروا دیا اور تحریک اسلامی نائیجیریا کے سربراہ کو پابند سلاسل کر دیا گیا، اس پہ بھی سکوں نہ آیا تو مرد حر، مرد مجاھد آیت اللہ شیخ باقر النمر کو حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں تختۂ دار پہ لٹکا دیا۔
امریکہ شیطان بزرگ ہے، اس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نھیں، لیکن آل سعود بھی امریکہ سے پیچھے نھیں۔ امریکہ نے جب بھی کسی مسلمان ملک پر حملہ کرنا ھو یا کروانا ھو تو ھمیشہ عرب دنیا کے شیطان بزرگ کی خدمات لیتا رھا ہے اور سعودیہ بھی باکمال میل اپنے حواریوں اور جواریوں کے ساتھ لبیک یا پدر کرکے اسرائیل اور امریکہ کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پھناتا رھا ہے۔
ترکی اور سعودیہ مسلمانوں کے تاریخی غدار ہیں۔ اس میں بھی کسی کو ذرہ برابر شک نھیں ھونا چاھیئے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ اس پہ بحث کی ضرورت ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ھمیں 1979ء سے تاریخ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
1979ء میں ایران میں جب خمینی بت شکن رحمت اللہ علیہ کی سربراھی اور سرپرستی میں اسلامی انقلاب آیا تو اس زمانے میں پوری world دو blocks میں تقسیم ھوچکی تھی، (communism) اور (capitalism)۔ کیمونسٹ بلاک کی رھبری سوویت یونین کر رھا تھا اور کیپٹلسٹ بلاک کی رھبری امریکہ کے ھاتھ میں تھی۔ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ ان دونوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا بننا تقریباً ناممکن تھا۔ جو بھی نیا ملک معرض وجود میں آتا تھا، اپنی بقا اور survival کے لئے ان دو بلاکس میں سے کسی ایک کو join کرنا ضروری تھا۔ یھی وجہ تھی جب پاکستان بنا تو اس کو بھی کسی ایک کو join کرنا پڑا اور اس نے امریکی بلاک کو join کر لیا، جس کا بدلہ سوویت یونین نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان سے لے لیا۔
اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے دونوں بلاکس کو no بول دیا اور "لاشرقية ولا غربيه" کا شعار بلند کیا، جس سے امریکی ایوانوں میں زلزلہ آگیا اور American policy makers نے اسلامی انقلاب کو اپنے لئے خطرہ سمجھا اور اس نئے انقلاب کو شروعات میں ھی دبانے اور ختم کرنے کا plan بنا لیا، جس کو عملی جامہ پھنانے کے لئے انھوں نے منحوس ڈکٹیٹر صدام حسین کا انتخاب کیا اور یوں دیکھتے دیکھتے عراق نے ایران پر حملہ کر دیا۔
فرنٹ پر عراق اور پشت پر امریکہ سمیت اس کے پجاریوں نے آٹھ سالوں تک اپنی پوری قوت لگا دی، لیکن ذلت او رسوائی کے سوا انھیں کچھ نھیں ملا۔ سعودیہ کا کردار ایران عراق جنگ میں قابل فراموش نھیں۔ سعودیہ نے بڑھ چڑھ ک عراق کی مدد کی، اس کی دو اھم وجوھات تھیں، ایک تو یہ کہ خطے میں اس کی monopoly خطرے میں تھی اور دوسری وجہ اھل بیت علیھم السلام سے دشمنی، جو کہ آل سعود کو اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی تھی۔
جنگ میں ناکامی کے بعد امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے انقلابی ساتھیوں کو صفحہ ھستی سے مٹا کر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو کمزور کرنے کی سازش کی اور ایران کی پوری پارلیمنٹ کو بمب سے اڑا دیا، لیکن اس سے بھی انقلاب کو کوئی فرق نھیں پڑا اور دشمن ھمیشہ کی طرح ذلیل و خوار ھوگیا۔
امام رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد دشمن کو لگا کہ اب انقلاب کا The end ہے، لیکن ان کا یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ھوسکا۔ انقلاب اسلامی کو مقام معظم رھبری سید علی خامنہ ای ارواحنا لہ الفدا جیسا لیڈر ملا اور یوں انقلاب اسلامی ایران سے نکل کر آھستہ آھستہ دنیا کے گوشہ و کنار میں جا پھنچا۔ اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ جیسی تنظیم بنی، فلسطین کی اسرائیل کے خلاف مقاومت طاقتور ھوگی اور کچھ ھی سالوں میں ایران تمام اعتدال پسند، انقلابی، مظلومین، محرومین اور مستضعفین جھاں کی آواز بن گیا۔
انقلاب اسلامی سے پھلے دنیا میں ظلم اور ظالم کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے والا کوئی نہ تھا، ظلم سے ِٹکرانے اور ظالم کے خلاف ڈٹ جانے والا کوئی نہ تھا۔ لیکن انقلاب اسلامی کے بعد دنیا میں کھیں بھی ظلم ھوا، ایران نے اس کے خلاف صدائے حق بلند کی، ظالم سے لڑا اور مظلوم کی حمایت کی۔ یوں پوری دنیا میں ایران ظلم کے خلاف جنگ اور ٹکر کا symbol بن گیا۔ بس ایران کا یھی style دنیا کے ظالم اور جابر حکمرانوں کو پسند نہ آیا۔
اب جبکہ انقلاب اسلامی پوری دنیا میں پھنچ چکا ہے، ظالموں کے خلاف تحریکیں مضبوط ھوتی جا رھی ہیں، ایسے حالات میں دشمن نگران و پریشان الٹی سیدھی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ عراق اور شام میں ناکامی کے بعد دشمن نے اب نئی حکمت عملی تیار کی ہے اور حکمت عملی بھت خطرناک ہے اور وہ ہے مسلمان کو مسلمان سے لڑانا اور اس کى ذمہ داری استعمار اپنے پرانے وفادار سعودیہ کو سونپی ہے اور یہ وھی برطانیہ کی پرانی پالیسی،(divide and rule), لڑاو اور حکومت کرو والى پالیسی ہے، جس کو سعودیہ کے ذریعے پوری دنیا میں implement کر رھا ہے۔
نائیجیریا کے بےگناہ افراد کا قتل عام، شیخ زکزکی کی گرفتاری، شیخ النمر کی پھانسی، یمن پر جنگ مسلط کرنا، بحرین کے مسلمانوں پر ظلم، سعودیہ میں اھل تشیع پر ظلم، یہ سب اسی منحوس پالیسی کا نتیجہ ہے۔
شیخ زکزکی کی گرفتاری اور شیخ النمر کی پھانسی کے بعد دشمن یقیناً خوش ھوگا کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے والى پالیسی میں کامیاب ھوگیا ہے اور ظاھراً ایسا ھی لگ رھا ہے، لیکن انشاءاللہ اس میں بھی دشمن ذلیل و خوار ھوگا۔ چونکہ آل سعود کا ھزار پردوں کے پیچھے چھپا ھوا اصلی چھرہ آھستہ آھستہ پوری دنیا کے سامنے آرھا ہے اور اس ناپاک اور مکروہ چھرے کو بےنقاب کرنے میں منٰی کے آٹھ ھزار شھیدوں، نائیجیریا کے ھزار بےگناہ شھیدوں، یمن کے لاکھوں بےگناہ شھیدوں، شھید مقاومت شھید شیخ النمر، شام اور عراق، افغانستان اور پاکستان میں بے شمار بےگناہ افراد کا خون شامل ہے، چونکہ اب دنیا کو پتہ چل چکا ہے کہ دنیا میں جھاں پر بھی دھشت گرد اور دھشت گرد تنظیمیں ہیں، ان سب کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور سعودیہ ہیں، انھوں نے ھی ان دھشت گرد تنظیموں کو بنایا ہے، یھی ان کو جنگی جرائم کے لئے جنگی وسائل فراھم کر رھے ہیں، یھی ان کی سرپرستی کر رھے ہیں اور پوری دنیا سے دھشت گردوں کو جمع کرکے شیعیان حیدر کرار سے لڑنے کا task انھیں دیا ہے۔ یہ ایک عالمی جنگ ہے، جس کا آغاز سعودیہ کی سرپرستی میں ھوچکا ہے اور جسکی پشت پر امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ شیعہ اور سنی کو آپس میں لڑانے کا منصوبہ عملی ھوچکا ہے۔
ایسے حالات میں اصلی دشمن اور اس کے عزائم کو پھچاننے کی اشد ضرورت ہے۔ سعودیہ کی قیادت میں 34 سنی ممالک کا اتحاد اسی سازش کا حصہ ہے، لیکن دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ شیعہ اور سنی بھائی بھائی ہیں، یہ ایک دوسرے سے جدا نھیں، یہ اسلام کے دو بازو ہیں، ان دونوں کے بیچ کبهى جنگ نھیں ھوگی، بلکہ یہ دونوں مل کر کل کفر، آل سعود سعود اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے عالمی دھشت گردوں کا مقابلہ کرینگے اور اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکال کر باھر کرینگے۔
تحریر: عاشق حسین آئی آر
 

Add comment


Security code
Refresh