www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ترک صدر رجب طیب اردگان نے جعلی مقدمات میں آیت اللہ باقر النمر کو دی جانے والی بلاجواز سزائے موت کے بارے میں یہ کھہ کر مذمت 

کرنے سے انکار کیا ہے کہ یہ سعودی عرب کا اندرونی قانونی معاملہ ہے۔ یہ وہ نیریٹیو ہے جس کی بنیاد پر پاکستان سمیت بھت سے ممالک میں اس سزا کی مخالفت و مذمت کرنے والوں کو منع کیا جا رھا ہے۔ انھیں مشورہ دیا جا رھا ہے یا تنبیہ کی جا رھی ہے کہ سعودی عرب کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کریں بلکہ خاموشی اختیار کریں۔ کیا یہ نیریٹیو یا بیانیہ قابل قبول ہے۔؟
کیا واقعی یہ معاملہ سعودی عرب کے داخلی قانون کی بنیاد پر خاموشی سے برداشت کرلینا چاھئے یا جو ردعمل احتجاج کی صورت میں ظاھر کیا جا رھا ہے، اس کی حمایت کی جانی چاھئے۔؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہے تو بھت آسان اور سامنے کی سی بات ہے لیکن اسے شکوک و شبھات کی چادر میں لپیٹا جا رھا ہے۔
کیا میں پوچھ سکتا ھوں کہ نواز شریف حکومت کی جنرل پرویز مشرف کے ساتھی جرنیلوں کی جانب سے کی گئی برطرفی اور ان پر مقدمہ چلنا پاکستان کا داخلی معاملہ تھا یا نھیں؟ سعودی عرب نے پاکستان کے داخلی معاملے میں مداخلت کی، جس کے نتیجے میں نواز شریف کو ذلیل و رسوا اور سیاسی موت سے ھمکنار کرنے والی ڈیل کے ذریعے پاکستان سے سعودی عرب منتقل ھونا پڑا۔ سعودی عرب کی بادشاھت نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی حکومت کی ھر ممکن مدد کرکے اسے اقتدار میں رکھا اور اسے حرمین شریفین کے ایسے مقامات تک کی زیارت کروائی جھاں عام مسلمانوں کی پھنچ نھیں۔ کیا نواز حکومت کو گرانے والی آمرانہ حکومت کی مدد کرکے سعودی عرب نے پاکستانی جمھوریت پسندوں کی جدوجھد کو سبوتاژ نھیں کیا؟ سعودی بادشاھت یہ سب کچھ اس لئے کر رھی تھی، تاکہ پاکستان میں مستقل مداخلت کی راہ ھموار رکھی جاسکے۔
جنرل ضیاءالحق کی آئین شکن حکومت بھی امریکا کے ساتھ ساتھ سعودی مداخلت کی بدولت برسر اقتدار آئی تھی۔ درست یا غلط، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق کا تنازعہ بھی پاکستان کا داخلی معاملہ تھا۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا دینا بھی پاکستان کا داخلی معاملہ تھا، لیکن سعودی سفیر نے بھٹو کی پھانسی رکوانے کے لئے بظاھر کردار ادا کیا تھا۔ تھا تو وہ ڈرامہ اور اس سعودی مداخلت کے باوجود بھٹو صاحب پھانسی چڑھ گئے اور سعودی عرب نے جنرل ضیاء کے کاندھے استعمال کرکے افغانستان میں مداخلت کی۔ افغانستان میں اسلام پسندوں اور کمیونسٹ نواز سیاسی گروھوں کی چپقلش افغانستان کا داخلی معاملہ تھا، لیکن امریکا کے ساتھ مل کر سعودی حکومت نے وھاں بھی مداخلت کے ذریعے ماڈرن تکفیری دھشت گردی کو جنم دیا۔ پاکستان کے سعودی نواز حلقوں نے بھی افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی، اس کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس مداخلت کا عروج طالبان کے قیام کی صورت میں دیکھا گیا۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رھنماؤں کو پھانسی کی سزا دینا بھی وھاں کا داخلی معاملہ ھی تھا، لیکن اس پر پاکستان کے بھت سے مذھبی حلقوں نے احتجاج کیا۔ ابھی کل ھی جماعت اسلامی نے ایک اور رھنما کی سزائے موت کے خلاف احتجاجی مظاھرے کئے ہیں۔ کیا یہ بنگلہ دیش کے اندرونی قانونی معاملات میں دخل اندازی نھیں۔ کسی پر دھشت گردی یا غداری کا جھوٹا الزام لگانے سے کسی بے گناہ شخص کو مجرم نھیں بنایا جاسکتا۔ امریکا اور یورپی ممالک کے اسلام دشمن قوانین بھی ان ملکوں کے اندرونی قانونی معاملات ہیں، لیکن دنیا بھر میں اس کی مذمت اور مخالفت اور احتجاج کیا جاتا ہے تو کیا یہ بھی ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ھوئی؟
ایران میں اگر دھشت گردوں کے خلاف کارروائی ھوتی ہے تو اس کی مخالفت کس کس بھانے سے کون کون کرتا ہے، سبھی کو معلوم ہے۔ ایران عراق جنگ ان دو ملکوں کا مسئلہ تھا، لیکن آل سعود کی خائن عرب بادشاھت نے اس میں بھی صدام کے حق میں ایران کے خلاف مداخلت کرتے ھوئے جنگ کو طول دلوایا۔
براعظم افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک میں امریکی سی آئی اے کے کھنے پر وھاں کے بھت سے ملکوں کی سوویت یونین نواز حکومتوں اور تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لئے مدد فراھم کرکے سعودی حکومت نے وھاں بھی مداخلت کی۔ کیا یہ وھاں کے داخلی معاملات نھیں تھے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی فاسد جڑوں کو ترو تازہ رکھنے کے لئے سعودی بادشاھت نے یہ مداخلت جائز سمجھی۔ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس جیسے خونخوار امریکی ایجنٹ کو سزائے موت سے بچاکر باعزت امریکا کے حوالے کرنے کے لئے بھی سعودی حکومت نے پاکستان کی ریاست پر دباؤ ڈالا۔ کیا ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانی شھریوں کو قتل نھیں کیا تھا اور کیا یہ سب کچھ پاکستان کا داخلی معاملہ نھیں تھا؟
جتنی مداخلت سعودی عرب نے دنیا بھر کے آزاد و خود مختار ممالک اور غیرت مند مسلمانوں کے داخلی معاملات میں کی، اس کی مثال دنیا بھر کے کسی اور ملک میں نھیں ملے گی، سوائے سرمایہ دارانہ نظام کے پیروکار سامراجی ممالک بالخصوص امریکا اور ان ممالک کی ناجائز اولاد اسرائیل کے۔ یمن اور شام میں حکومت کس نے کرنا ہے، یہ فیصلہ کرنا ان کے عوام کا کام ہے، لیکن وھاں کے اس داخلی معاملے میں مداخلت کی انتھا یہ ہے کہ سعودی ریاستی سرپرستی میں شام میں دھشت گرد بھیج کر وھاں کے اندرونی معاملات میں مداخلت اب بھی جاری ہے۔
یمن کے داخلی سیاسی اختلافات ان کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن وھاں تو سعودی عرب نے باقاعدہ اتحاد بناکر فوجی مداخلت کی ہے اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کر رھا ہے۔
مصر میں جمال عبدالناصر جیسے دبنگ عرب حکمران کی حکومت کے خلاف سازشیں کرکے اسے عدم استحکام سے دو چار کرنا، یہ بھی سعودی مداخلت تھی، عراق میں جنگ کے بعد کی حکومت کے خلاف دھشت گردی کروانا بھی سعودی مداخلت ہے۔
غرضیکہ، انگولا، چاڈ جیسے افریقی ملکوں سے لے کر یورپ سے اٹلی تک اور وھاں سے نکاراگوار جیسے براعظم امریکا کے ملک تک سعودی مداخلت کے وہ نشانات موجود ہیں، جو مٹائے نھیں مٹتے اور چھپائے نھیں چھپتے۔ عراق اور شام میں ترکی بھی دیگر ممالک کے اندرونی قانونی معاملات میں مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
سعودی عرب میں 1956ء میں آئل ورکرز نے احتجا ج کیا تھا۔ مسئلہ حقوق کا نہ ملنا تھا اور تیل تھا شیعہ نشین علاقوں میں۔ آئل ورکرز نے ظھران میں امریکی فوجی اڈے کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ جب برطانوی سامراج نے عراق میں مداخلت کی تھی تو 1920ء کے عشرے سے قبل اور اس کے بعد بھی شیعہ مسلمانوں نے مزاحمت کی تھی۔ جائز سیاسی، ثقافتی، مذھبی و انسانی حقوق کا مطالبہ لے کر پرامن سیاسی جدوجھد کرنے والوں کو سزائے موت دینا، ایسے مخالفین کے بنیادی حق کی پامالی ہے اور انسانیت کے معاملات میں وہ مداخلت ہے کہ جس کی مخالفت کرنا ھر باضمیر انسان پر فرض ہے۔
طول تاریخ میں سعودی عرب نے دنیا بھر کے اندرونی معاملات میں جو مداخلت کی، اس کی بنیاد پر عادلانہ ردعمل کو سعودی معاملات میں مداخلت قرار نھیں دیا جاسکتا۔ کیا ھماری اس بات کے خلاف کسی کے پاس کوئی دلیل ہے؟ ہے تو پیش کرے۔
تحریر: عرفان علی
 

Add comment


Security code
Refresh