www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

محمد و آل محمد علیھم السلام اور ان کے اصحاب باوفا پر طول تاریخ میں ھونے والے مظالم پر نسلوں سے گریہ کرنے والی قوم کیسے برداشت 

کرسکتی ہے کہ ان کے ھوتے ھوئے کوئی میثم تمار سولی پر جھول جائے اور وہ خاموش تماشائی ھوں، کسی مسلم بن عقیل کا سر قلم ھو اور وہ آواز بلند کرنے کی ھمت رکھنے کے باوجود خاموش رھیں۔ کوئی ابوذر شھر ربذہ کی جانب بے دخل کر دیا جائے اور وہ بے اعتنا رھیں۔ اس درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درد کسی ایک فرد کے قتل کا درد نھیں ہے، یہ کوئی فرقہ وارانہ درد نھیں ہے۔ اس درد کی جڑیں بھت گھری ہیں۔
تاریخی پس منظر کا حامل یہ درد کسی بھی انسان کو جھنجلا دینے کے لئے کافی ہے۔ اس درد پر ایک اضافی درد یہ ہے کہ کوئی اسے باغی کھتا ہے اور کوئی دھشت گرد، اپنے پرائے شیخ نمبر باقر النمر شھید کے قتل کو مختلف انداز سے بیان کر رھے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ شیخ نمر کون تھے، ان کا موقف کیا تھا، انھوں نے کیوں کر موت کو گلے لگایا، ھر شخص اپنی اپنی عینک لگائے ان کی شخصیت پر تبصرہ کر رھا ہے۔ صحافی برادری کبھی انھیں داعش کا رکن کھتی ہے تو کبھی شیعہ رافضی اور کبھی حکومت آل سعود کا باغی۔ حق و باطل کے معیارات ان لفظوں میں یوں دھندلا گئے ہیں کہ ھاتھ کو ھاتھ سجھائی نھیں دیتا۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور معتدل صحافی و دانشور اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے درپے ہیں۔
ان سب سے فقط اتنا کھوں گا کہ خدا کا خوف کریں۔ اگر خدا نے آپ کو بات کرنے کا ھنر دے ھی دیا ہے، آپ اس قابل ھوچکے ہیں کہ ٹی وی کے کیمروں کے سامنے آسکیں، قلم کو استعمال کرتے ھوئے اپنی رائے لوگوں تک پھنچا سکیں تو اس استحقاق کے ساتھ موجود اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھیں۔ حق و باطل کو خلط ملط مت کریں۔ ھاں اگر آپ اس مقصد کے لئے کسی دنیاوی فائدہ کے متمنی ہیں تو آپ سے بات کرنا بے معنی ضرور ہے، تاھم اتمام حجت بھرحال ضروری ہے، کیونکہ یھی منھج محمد و آل محمد علیھم السلام ہے۔
شیخ نمر شیعہ عالم دین ضرور تھے، لیکن وہ بھرحال ایک انسان پھلے تھے۔ دنیا میں لاکھوں شیعہ بستے ہیں، لیکن ھر شیعہ شیخ نمر نھیں ہے۔ اس شخص کو بھلا آل سعود سے ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی، سعودیہ کے مشرقی علاقوں قطیف و احصاء میں شیعہ صدیوں سے آباد ہیں، یہ شیعہ جب سے آل سعود کی حکومت قائم ھوئی ہے، ان حالات سے گذر رھے ہیں، جن کا تذکرہ شیخ نمر نے اپنی ایک تقریر میں کیا، لیکن کبھی کسی شیعہ نے اس خوف کی فضاء سے چھٹکارا نھیں پایا اور نہ ھی اس کی کوشش کی۔
شیخ نمر کا قصور فقط یھی ہے کہ وہ اس فضا میں زندہ نھیں رہ سکتے تھے، جس کا تذکرہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں اس انداز سے کیا: ’’ھم سو سال سے ڈر، خوف، ظلم اور بربریت کے تحت زندہ ہیں۔ میری عمر پچپن سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر آج تک میں نے اپنے آپ کو کبھی بھی اس مملکت (سعودیہ) میں محفوظ نھیں سمجھا۔ ھم پر کوئی نہ کوئی الزام لگا کر ھمیں پریشان کیا جاتا ہے۔ حتی کہ ھم دیواروں سے ڈرتے ہیں۔‘‘
انھوں نے کھا کہ ’’ملک کی سکیورٹی سروس کا سربراہ کھتا ہے کہ ھمارا بس چلے تو ھم تم سب کو قتل کر دیں۔ تمھیں زندہ رھنے کا حق نھیں ہے۔ یہ ان کی منطق ہے۔ آو ھمیں قتل کرو، ھمارا خون وہ کم سے کم قیمت ہے، جو ھم اپنی اقدار کے تحفظ کے لئے ادا کر سکتے ہیں۔ ھم موت سے نھیں ڈرتے۔ ھم شھادت کے متمنی ہیں۔‘‘ اس تقریر کا ایک ایک جملہ شیخ نمر کی تحریک کو بیان کرتا ہے۔
انھوں نے کھا کہ ’’جب سے بحرین میں تحریک کا آغاز ھوا ہے، سعودی افواج وھاں موجود ہیں اور قطیف و احصاء میں بھی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، یہ ھمیشہ کھتے ہیں کہ کوئی بیرونی ملک مداخلت کر رھا ہے۔ ان میں اتنی جرات نھیں کہ یہ اس ملک کا نام لیں۔ ان کی عموماً اس سے مراد ایران ھوتا ہے۔‘‘
شیخ نمر نے کھا کہ ’’دس دسمبر 1978ء کو عوامیہ کے عوام نے اپنی حرمت کے تحفظ کے لئے قیام کیا، جب پولیس اس قصبے پر حملہ آور ھوئی، یہ وہ وقت ہے جب شاہ ایران ابھی اقتدار میں تھا، ایران میں انقلاب اسلامی برپا نھیں ھوا تھا۔ انقلاب اسلامی ایران کے برپا ھونے سے چار ماہ قبل۔ عوامیہ کے عوام کے کوئی سیاسی مفادات نھیں تھے، کوئی امن و امان کا مسئلہ نھیں تھا۔ فقط عزاداری کا حق مانگ رھے تھے۔ فقط یاحسین کی صدا بلند کر رھے تھے۔ اپنی حرمت اور اپنے عقیدے کا دفاع کر رھے تھے اور پولیس ان پر ٹوٹ پڑی۔ اس رات انھوں نے سو افراد کو گرفتار کیا۔ انقلاب ایران سے قبل 1978ء میں۔ یہ کیسے بیرونی مداخلت کی بات کرتے ہیں۔‘‘
شیخ نمبر کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے کھا ’’سعودی حکومت کھتی ہے کہ ھم آھنی ھاتھوں سے نمٹیں گے، کیا تم ان مساکین سے آھنی ھاتھوں سے نمٹو گے، جو تمھارے تحت زندگی کر رھے ہیں، جاؤ ایران پر حملہ کرو۔ وھاں اپنا آھنی ھاتھ استعمال کرو۔‘‘
انھوں نے کھا ’’ھمارا ایران و غیر ایران کسی ملک سے کوئی تعلق نھیں ہے۔ ھم اپنی اقدار سے پیوست ہیں اور ان کا ھر حال میں تحفظ کریں گے، چاھے تمھارا میڈیا چیزوں کو بگاڑ کر جو کچھ بھی بیان کرتا رھے۔ ھم تمہارے ظلم، بربریت کے خلاف اپنے صبر اور ایمان کے ساتھ مقاومت کریں گے۔ تم زیادہ سے زیادہ ھمیں قتل کرسکتے ھو، ھم شھادت فی سبیل اللہ کا استقبال کرتے ہیں۔ زندگی انسان کی موت کے ساتھ ختم نھیں ھوتی بلکہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ھوتی ہے۔ ھم اس سرزمین پر آزاد لوگوں کی مانند زندہ رھیں گے یا اس میں نیکوکاروں کی مانند دفن ھوجائیں گے۔ ھمارے پاس اس کے سوا کوئی اور راہ نھیں ہے۔ ھم خدا اس کے رسول اور ان کے اھلبیت علیھم السلام کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ حاکمیت کا حق خدا کو ہے اور کوئی ظالم اس حق کا مالک نھیں بن سکتا۔‘‘
شیخ نمر نے اپنے آئمہ اور ان کے باوفا اصحاب کی مانند اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ ان کا قیام حق کے لئے تھا، اپنی پچپن سالہ زندگی جس میں انھوں نے سعودی ظلم و بربریت کے تحت زندگی گزاری، سے آخر کار برات کا اظھار کیا اور ظلم و خوف کی تمام پرتوں کو چیر کر اپنے رب کے حضور پیش ھوئے۔ یھی ان کا جرم ہے۔
یہ جرم حریت پسند انسان صدیوں سے کرتے آرھے ہیں اور آنے والی صدیوں میں بھی کرتے رھیں گے۔ ان حریت پسندوں کا خون کبھی دب نھیں سکتا۔ کربلا میرے اس دعوے پر گواہ ہے۔ یہ خون بھت جلد ظالم کو اپنے انجام تک پھنچائے گا، بالکل اسی طرح جیسے کل کا باطل اپنے انجام کو پھنچا، جیسے صدام ، قذافی، شاہ ایران اور دنیا کے تمام مستکبر اپنے انجام کو پھنچے۔ یہ سنت الھی ہے، جو روز اول سے دنیا میں رائج ہے۔
خداوند کریم شھید نمر باقر النمر کو روز قیامت شافع محشر کے پرچم تلے محشور فرمائے اور ھم کو حق کی شناخت کی توفیق دے۔ آمین
تحریر: سید اسد عباس
 

Add comment


Security code
Refresh