www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آیت اللہ شیخ باقر النمر جنھیں آل سعود کی ظالم حکومت نے عوام کے حقوق اور ان کے برحق مطالبات کی حمایت کی پاداش میں سنیچر کی صبح پھانسی دے کے شھید کر دیا، 

ممتاز عالم دین اور علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
آیت اللہ نمر باقر نمر تیرہ سو اناسی ھجری قمری میں مشرقی سعودی عرب کے صوبے قطیف کے شھر العوامیہ میں پیدا ھوئے۔ ان کے والد علی بن ناصر آل نمر بھی اپنے علاقے کے معروف عالم اور خطیب تھے۔ ان کے خاندان سے دیگر علما میں آیت اللہ محمد بن ناصر آل نمر کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔
آیت اللہ نمر نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم اپنے آبائی شھر عوامیہ میں حاصل کی اس کے بعد وہ دینی علوم کے حصول کی خاطر سن چودہ سو ھجری مطابق انیس اناسی میں ایران تشریف لائے۔ دس سال تک یھاں مقیم رھنے کے بعد دمشق کے نواح میں واقع دینی مرکز زینبیہ تشریف لے گئے۔
آیت اللہ نمر باقر نمر ایران اور شام میں حصول علم اور تدریس کے بعد سعودی عرب واپس پھنچے اور اپنے آبائی شھر العوامیہ میں دینی علوم کی تدریس اور مذھبی سرگرمیوں میں مصروف ھوگئے ۔
انھوں نے سن دو ھزار تین میں العوامیہ میں مرکزی نماز جمعہ قائم کی اور اس کے بعد الامام القائم مرکز کی بنیاد ڈالی۔ یہ مرکز آگے چل کر سن دو ھزار گیارہ میں مرکز الاسلامیہ میں تبدیل ھو گیا۔
آیت اللہ نمر باقر نمر نے العوامیہ میں مساجد کے کردار کو اجاگر کر نے، نماز جمعہ کے قیام، شادی بیاہ کے معاملات میں آسانیاں پیدا کرنے، معاشرے میں خواتین کے کردار کو بڑھانے، نوجوانوں کو دینی مسائل اور معاملات سے آشنا کرنے اور سماجی برائیوں سے مقابلہ کرنے کا مشن شروع کیا اور آخری دم تک اس پر قائم رھے۔
آیت اللہ نمرباقر نمر نے جنت البقیع کی تعمیر نو کے لیے بھی جدوجھد کی اور سن دو ھزار چار سے ھر سال آٹھ شوال کو یوم انھدام جنت البقیع پر مظاھروں اور مجالس کا اھتمام کرتے رھے۔
 سعودی حکومت کی شدید پابندیوں اور سختیوں کے باوجود یوم انھدام جنت البقیع پر مظاھروں اور احتجاج کا سلسلہ سن دو ھزار سات تک جاری رھا۔
آیت اللہ نمر باقر نمر نے فروری دو ھزار نو میں سعودی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے ملک کی شیعہ آبادی کو اس کے حقوق نہ دیئے اور ملک میں آزادانہ انتخابات نہ کرائے تو وہ عوام کو احتجاج اور مظاھروں کی کال دے دیں گے۔
 آیت اللہ نمر باقر نمر اپنی تقریروں میں مذھبی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو ترک کرنے اور عوام کو ان کے جمھوری اور مذھبی حقوق دیئے جانے پر زور دیتے رھے۔
سعودی حکومت نے سن دو ھزار آٹھ میں حکم زباں بندی جاری کرتے ھوئے ان کے خطبات اور تقریروں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
سن دو ھزار گیارہ میں تیونس اور مصر میں آمریتوں کے خاتمے کی تحریک شروع ھوئی تو آیت اللہ نمر باقر نمر نے بھی ایک بار پھر اپنے خطبات کا سلسلہ شروع کر دیا اور ملک میں سیاسی اور جمھوری اصلاحات کا مطالبہ کیا۔
سن دو ھزار تین میں انھیں پھلی بار گرفتار کیا گیا، انھیں نماز جمعہ پڑھانے سے منع کیا گیا اور اس مسجد کو مسمار کر دیا کیا جھاں وہ نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے لیکن آیت اللہ نمر باقر نمر اسی تباہ شدہ مقام پر نماز جمعہ پڑھاتے رھے۔ انھیں سن دو ھزار چار، دو ھزار پانچ، دو ھزار چھے اور دو ھزار آٹھ میں گرفتارکیا گیا اور مھینوں تک جیل میں رکھا گیا۔
آیت اللہ نمبر باقر نمر کو چھٹی اور آخری بار آٹھ جولائی سن دو ھزار بارہ میں، باقاعدہ منصوبے کے تحت ان کی گاڑی پر فائرنگ کے بعد سعودی سیکورٹی اھلکاروں نے گرفتار کیا۔ اس حملے میں وہ شدید طور پر زخمی ھو گئے تھے اور ان کے پیر میں چار گولیاں لگی تھیں۔
سعودی حکومت کی ایک نمائشی عدالت نے پندرہ اکتوبر سن دو ھزار چودہ کو اس مجاھدعالم دین اور آمریت مخالف رھنما کو بے بنیاد الزامات کے تحت موت کی سزا سنائی تھی۔ ان کے خلا ف مقدمہ کی سماعت کو خفیہ رکھا گیا اور میڈیا کے لوگوں کو اس میں شرکت کی اجازت نھیں تھی۔ انھیں پھانسی کی سزا سنائے جانے کے خلاف عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور دنیا بھر میں اس کے خلاف مظاھرے بھی ھوتے رھیں۔
 اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ان کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روکنے کامطالبہ کیا تھا لیکن سعودی حکام نے ایک بار پھر تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ھوئے ،دو جنوری دو ھزار سولہ کو اس عالم ربانی کو شھید کر دیا۔
 

Add comment


Security code
Refresh