www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آج کا ایران کرامات کی سرزمین لگتا ہے۔ معجز آسا ماحول، حیران کن حوصلہ، تازہ دم افکار اور زندگی کے تمام شعبوں میں پیش رفت۔ کن حالات میں؟

اس پر بات کرنے سے پھلے امام خمینی(رح) کی ایک بات یاد آئی، وہ سن لیں۔ 1979ء کے اوائل میں انقلاب آیا۔ آغاز ھی میں سازشوں کے جال بچھ گئے۔ عالمی استعمار کو اس انقلاب نے پچھاڑا تھا، وہ کھاں چین سے بیٹھتا تھا۔ داخل اور خارج میں طرح طرح کی شیطانی تدابیر اور مشکلات کے طوفان، کردستان میں علیحدگی کی تحریک کھڑی کر دی گئی۔ ھر طرح کی اقتصادی اور فوجی پابندیاں مسلط کر دی گئیں۔ مجاھدین خلق جسے ایرانی منافقیں خلق کھتے ہیں، کی دھشت گردانہ کارروائیاں اور پراپیگنڈا کے طومار، لیکن اس پر بھی استعماری قوتوں کو تسلی نہ ھوئی۔ یہ قوتیں جلد باز اور کم حوصلہ ہیں۔
1980ء میں انھیں قوتوں کے ایما پر کیل کانٹے سے لیس صدامی افواج نے ایران پر حملہ کر دیا۔ جھاں شاہ کی بنائی ھوئی فوج کے حوصلے کمزور پڑ چکے تھے اور وہ نو سازی کے عمل سے گزر رھی تھی۔ اس کے کئی قاتل اور وحشی جرنیل سزا بھگت چکے تھے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ابھی تشکیل و تخلیق کے مرحلے میں تھی۔ ادھر باھر سے جنگ مسلط ھوئی اور ادھر پارلیمینٹ کے بھتر اراکین کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ کچھ ھی عرصے کے بعد منتخب صدر اور وزیراعظم کو قتل کر دیا گیا۔
ایسے میں امام خمینی(رح) نے امریکا کو للکارتے ھوئے فرمایا: ’’تم ھمارے ارد گرد فولاد کی دیوار کھڑی کرلو ھم زندہ رہ کر بتائیں گے کہ ھمارا خدا ہے۔‘‘ یہ جذبے، یہ ایمان اور یہ ولولے آج بھی زندہ ہیں۔ کوئی قوم اتنا طویل، اتنا ھمہ گیر اور اتنا شدید امتحان دے کر اور امتحان دیتے ھوئے آگے بڑھ کر دکھادے، خارجی اور داخلی محاذوں پر پیش رفت کرتی ھوئی نظر آئے، ظلم و ستم کے مقابلے میں شوق شھادت اور جرأت و استقلال کے مظاھرے کرتی دکھائی دے اور ملک کے اندر ترقی و ارتقا کے حیرت انگیز منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کر رھی ھو تو اس ساری صورت حال کو اعجاز آفریں نہ کھا جائے تو پھر کیا کھا جائے۔
ایران اقتصادی پابندیوں کی ایسی ایسی شکلیں اختیار کی گئی ہیں کہ ماضی میں جن کی مثال نھیں ملتی۔ کتنے ھی ملک ہیں جو امریکا کی ناراضگی کے خوف سے ایران کے ساتھ تجارت اور مشترکہ اقتصادی منصوبوں سے گریزاں ہیں۔ بینکوں پر پابندیاں برقرار ہیں کہ وہ ایرانی بینکوں سے لین دین نھیں کرسکتے۔ ایران کی حمایت کرنے والوں کو بھی طرح طرح وحشت آفریں دھمکیاں ہیں۔ دوسری طرف ایران کے مخالفین نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ ان کا سرمایہ و ثروت اس قابل ہے کہ حکومتوں اور حکمرانوں کو خرید لے۔ ان کے ذرائع ابلاغ کی اتنی طاقت ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا لے۔ ان کی فوجی طاقت کے استعمال کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے تمام قوانین کو پامال کرتے ھوئے اور عالمی اداروں کا منہ چڑھاتے ھوئے کسی بھی ایسے ملک پر ٹوٹ پڑیں، جس کے ایران کے ساتھ کچھ اچھے مراسم ھوں۔ ایران کی حمایت ایسا جرم ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والی جماعتیں محفوظ ہیں اور نہ شخصیات۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں ایران کو تزویراتی اقدامات کرنے پڑ رھے ہیں۔ اس کے عسکری اداروں کو کئی مشکل محاذ درپیش ہیں۔ ایسے میں ایران اپنی خارجہ پالیسی پر قائم ھی نھیں بلکہ پیش رفت بھی کر رھا ہے۔
اسرائیل کے خلاف اس کے اقدامات جاری ہیں۔ دو برس قبل تھران میں ھونے والی ایک عالمی کانفرنس میں سابق ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے اپنی چند یادداشتیں بیان کرتے ھوئے کھا تھا کہ جب وہ وزیر خارجہ تھے تو امریکا نے پیغام دیا کہ اگر آپ اسرائیل کی مخالفت ترک کر دیں تو ھم آپ کے خلاف عائد تمام پابندیاں اٹھا لیں گے اور ایران کے ضبط شدہ اثاثے واگزار کر دیں گے۔ ڈاکٹر ولایتی نے کھا کہ ھمیں علم ہے کہ فلسطین کی حمایت کی ھم کیا قیمت ادا کر رھے ہیں۔ ایسے میں گذشتہ برس ایران کے روحانی رھبر نے اعلان کیا کہ حماس نے اسرائیل کے خلاف جو راکٹ استعمال کئے ہیں، وہ ایران نے فراھم کئے ہیں۔ انھوں نے کھا کہ اگر الفتح یا کوئی اور فلسطینی تنظیم اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے چاھے تو ھم اسلحہ فراھم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انھوں نے مزید کھا کہ ھم صھیونی حکومت کے خلاف ھر اقدام کی حمایت کریں گے اور ھم فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی کے لئے جدوجھد کرتے رھیں گے۔ کون نھیں جانتا کہ ایسے اقدامات اور بیانات کس کس کا اور کس قدر غصہ ابھارنے کے لئے کافی ہیں۔
بحرین میں عوام پر ھونے والا تشدد، یمن پر سعودی بمباری، شام میں فتنہ پروری، حزب اللہ پر پابندیاں اور اس کے راھنماؤں کا قتل، بیروت میں دھماکے، نائیجریا میں اسلامی تحریک کے راھنماؤں اور کارکنوں کا قتل عام، عراق میں داعش کی پرورش اور ایسے دیگر کئی اقدامات کا اصلی ھدف کون ہے، یہ سوال کچھ ایسا مشکل نھیں۔ چونتیس ممالک کا نیا فوجی اتحاد کس کے خلاف ہے، یہ کوئی بھجارت اور پھیلی نھیں لیکن ایران کے عزم کا کیا عالم ہے، اس کے لئے انتیس دسمبر 2015ء صبح ایران کے روحانی پیشوا کا خطاب پڑھنے اور سننے کی ضرورت ہے۔ اس خطاب میں وہ ایسے پرامید دکھائی دیئے کہ ان کی پرامیدی کو کرامت کھے بغیر چارہ نھیں۔ وہ دنیا میں نئے ورلڈ آرڈر کا مژدہ سنا رھے تھے۔ کھہ رھے تھے کہ اب مستقبل ھمارا ہے، دنیا میں نئی اسلامی تھذیب ظھور پذیر ھو کر رھے گی۔ وہ امید آفریں آیات قرآنی سنا رھے تھے۔ ایمان اور اطمینان ان کے چھرے سے جھلک رھا تھا۔ وہ دنیا بھر سے آنے والے نمائندہ مسلمان راھنماؤں کو ایک نئے حوصلے سے سرشار کر رھے تھے۔ ان کے انداز اور لھجے میں کھیں اس امر کی جھلک نہ تھی کہ ایران آج بھی سو جنجالوں میں گھرا ھوا ہے، اس لئے کہ ان کا بھروسہ اللہ پر ہے۔ وہ قرآن و حدیث میں بیان کی گئی پیش گوئیوں پر پوری گھرائی کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہ ھو تو پتہ نھیں چلتا کہ ان کا ایک ھاتھ دھشتگردی کے واقع میں ضائع ھوچکا ہے۔
وہ مصیبت زدہ قوموں کو حوصلہ دیتے ھوئے علمائے اسلام اور حقیقی روشن فکر افراد کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کر رھے تھے۔ انھوں نے کھا کہ مجھے سیاستدانوں سے اب کوئی امید نھیں، میری امید علماء اور حقیقی روشن فکر افراد سے ہے، انھیں کے ذریعے موجودہ حالات تبدیل ھوں گے اور انھی کی قیادت میں تبدیلی آئے گی۔
انھوں نے کھا کہ مجھے یقین ہے کہ بیدارئ اسلامی کی تحریک کو نھیں دبایا جاسکے گا۔ انھیں کوئی شک نہ تھا کہ یہ تحریک اپنے ھدف تک پھنچ کر دم لے گی۔ جب ان کا خطاب سن کر ھم باھر نکلے تو دل اس امید سے سرشار تھا کہ ظلمت کی رات چھٹ جائے گی۔ منافق رسوا ھوں گے۔ امریکی اسلام نابود ھو جائے گا۔ مظلوم قومیں آزادی اور نجات کی روشن صبح کا نظارہ کریں گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے قائم کیا گیا ورلڈ آرڈر زمین بوس ھو جائے گا۔ دھشت گرد تکفیری اپنے عبرت ناک انجام کو پھنچیں گے۔ صھیونیت کے ستمگر پنجے ٹوٹ جائیں گے۔ قبلہ اول میں نماز وحدت ادا کی جائے گی۔ حرمین شریفین سے امن و سلامتی کا سندیسہ عالم بشریت تک پھنچے گا۔ اللہ کا وعدہ پورا ھوگا۔ اللہ کا نور تمام ھوگا۔ ستم رسیدہ مستضعفین کے ھاتھ نظام عالم ھوگا اور زمین اللہ کی عبادت کے لئے آزاد اور ھموار ھو جائے گی۔ دنیا جیسے ظلم و جور سے بھری ھوئی ہے، عدل و انصاف بھر جائے گی۔ یہ وعدہ الٰھی ہے، یہ اللہ کے سچے رسول کا وعدہ ہے۔
تحریر: ثاقب اکبر
 

Add comment


Security code
Refresh