www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

حضرت فاطمہ معصومہ بنت موسی کاظم علیھما السلام کی وفات کے موقع پر

 تمام عزادارن اھلبیت (ع) کی خدمت میں تعزیت و تسلیت عرض کرتے ہیں.

 

امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شھر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ھمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عھد کے قصد سے عازم سفر ھوئیں راستہ میں ساوہ پھنچیں لیکن چونکہ وھاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت (ع) کے مخالف تھے لہٰذا حکومتی کارندوں سے مل کر انھوں نے حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ھمراھیوں میں سے بھت سارے افراد شھید ھوگئے حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ھوگئیں اور شھر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شھر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ھمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔

اس طرح حضرت وھاں سے قم روانہ ھوگئیں ۔

بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ھوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، موسیٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ھاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ (ص) اھل قم کے عشق اھلبیت سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ھوئیں ۔ موسیٰ بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا ۔

بی بی مکرمہ نے ۱۷دنوں تک اس شھر امامت و ولایت میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ھمیشہ مشغول عبادت رھیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رھیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام خضوع و خشوع الٰھی کے ساتھ بسر فرمائے ۔

غروب ماھتاب

آخر کار وہ تمام جوش و خروش ، ذوق و شوق نیز وہ تمام خوشیاں جو کوکب ولایت کے آنے سے اور دختر فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھا کی زیارت سے اھل قم کو میسر ھوئی تھیں یکایک نجمہ عصمت و طھارت کے غروب سے حزن و اندوہ کے سمندر میں ڈوب گئیں اور عاشقان امامت و ولایت عزادار ھوگئے ۔

آپ کی اس نا بھنگام وفات اور مرض ، کے سلسلے میں کھا جاتا ہے کہ ساوہ میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کردیا تھا ۔  دشمنان اھل بیت کا اس قافلے سے نبرد آزما ھونا اور اسی میں بعض حضرات کا جام شھادت نوش فرمانا اور وہ دیگر نامساعد حالات ایسے میں حضرت کا حالت مرض میں وھاں سے سفر کرنا ، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے اس بات کو قبول کرنا بعید نھیں ہے ۔

ھاں بی بی معصومہ(س) نے حضرت زینب علیا مقام سلام اللہ علیھا کی طرح اپنے پر برکت سفر میں حقانیت رھبران واقعی کی امامت کی سند گویا پیش کردی اور ماموں کے چھرہ سے مکر و فریب کی نقاب نوچ لی قھرمان کربلا کی طرح اپنے بھائی کے قاتل کی حقیقت کو طشت ازبام کردیا ۔ فقط فرق یہ تھا کہ اس دور کے حسین علیہ السلام کو مکر و فریب کے ساتھ قتلگاہ بنی عباس میں لے جایا گیا تھا ۔ اسی درمیان تقدیر الٰھی اس پر قائم ھوئی کہ اس حامی ولایت و امامت کی قبر مطھر ھمیشہ کے لئے تاریخ میں ظلم و ستم اور بے عدالتی کے خلاف قیام کرنے کا بھترین نمونہ قرار پا جائے اور ہر زمانے میں پیروان علی علیہ السلام کے لئے ایک الھام الٰھی قرار پائے ۔

مراسم دفن

شفیعہ روز جزاء کی وفات حسرت آیات کے بعد ان کو غسل دیا گیا ۔ کفن پھنایا گیا پھر قبرستان بابلان کی طرف آپ کی تشییع کی گئی ۔ لیکن دفن کے وقت محرم نہ ھونے کی وجہ سے آل سعد مشکل میں پھنس گئے آخر کار ارادہ کیا کہ ایک ضعیف العمر بزرگ بنام ” قادر “ اس عظیم کام کو انجام دیں ، لیکن قادر حتی دیگر بزرگان اور صلحائے شیعہ اس امر عظیم کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہ تھے کیونکہ معصومہ اھل بیت کے جنازے کو ھر کس و ناکس سپرد خاک نھیں کرسکتا ہے لوگ اسی مشکل میں اس ضعیف العمر بزرگ کی آمد کے منتظر تھے کہ ناگھاں لوگوں نے دو سواروں کو دیکھا کہ ریگزاروں کی طرف سے آرھے ہیں۔ جب وہ لوگ جنازے کے نزدیک پھنچے تو نیچے اتر گئے پھر نماز جنازہ پڑھی اور اس ریحانہ رسول خدا کے جسد اطھر کو داخل سرداب ( جو پھلے سے آمادہ تھا ) دفن کردیا ۔ اور قبل اس کے کہ کسی سے گفتگو کریں سوار ھوئے اور روانہ ھوگئے اور کسی نے بھی ان لوگوں کو نہ پہچانا ۔

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی مد ظلہ العالی فرماتے ہیں کہ بعید نہیں ہے کہ یہ دو بزرگوار دو امام معصوم رھے ھوں کہ جو اس امر عظیم کی انجام دھی کے لئے قم تشریف لائے ھوں ۔

حضرت کو دفن کرنے کے بعد موسیٰ بن الخزرج نے حصیر و بوریا کا ایک سائبان قبر مطھر پر ڈال دیا وہ ایک مدت تک باقی رھا ۔ مگر جب حضرت زینب دخترامام محمد تقی علیہ السلام قم تشریف لائیں تو مقبرے پر اینٹوں کا قبہ تعمیر کرایا ۔

تب سے آج تک یہ روضہ مقدسہ عاشقان اھلبیت (ع) کے لیے پناہ گاہ ان کی حاجتوں کو پورا کرنے کا وسیلہ اور گرفتاروں اور پریشان حال رکھنے والوں کے لیے حلال مشکلات بنا ھوا ہے۔

Add comment


Security code
Refresh