www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

698311
افغانستان میں سکیورٹی بحران کی شدت میں اضافے سے جس ملک کو سب سے پھلے فائدہ حاصل ھو گا وہ امریکہ ہے۔ کیونکہ افغانستان میں بحران کی شدت میں اضافہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ملک میں اپنی فوجیں زیادہ مدت کیلئے باقی رکھنے کا مناسب بھانہ ھاتھ میں آنے کا باعث بنے گا۔
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان میں امریکی فوج کو باقی رکھنا چاھتے ہیں تاکہ اس مد میں خرچ ھونے والے اربوں ڈالر کیلئے مناسب جواز فراھم کر سکیں۔ اگرچہ امریکہ کی صدارتی مھم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجی باقی رکھنے پر مبنی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اب وہ بھی اسی پالیسی پر گامزن نظر آتے ہیں۔ اس وقت امریکی حکومت کے پاس افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے اور براک اوباما کی جانب سے ان پر محض مشاورتی امور کے دائرے میں رھنے کیلئے لگائی گئی محدودیت ختم کر کے براہ راست ملٹری آپریشنز کی اجازت دینے کا زیادہ بھتر بھانہ میسر ھو چکا ہے۔
دوسری طرف آئے روز تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کی طرف سے انجام پانے والے خودکش دھماکوں کے تناظر میں افغانستان کے مظلوم عوام کی امن و امان قائم ھونے کی امیدیں بھی ختم ھوتی جا رھی ہیں۔ دارالحکومت کابل میں داعش کی دھشت گردانہ کاروائیوں کے سبب سکیورٹی کمزوریوں اور خلا کے بارے میں شدید پریشانیاں پیدا ھو چکی ہیں۔ حال ھی میں داعش کے خودکش بمباروں نے کابل میں افغان سکیورٹی فورسز کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کرنے میں مصروف تھیں۔ خودکش بمبار کسی رکاوٹ کے بغیر ایلیٹ فورس کے قریب پھنچ کر خود کو دھماکے سے اڑانے میں کامیاب ھو گیا۔ اس واقعے سے کابل میں چھپے داعش کے خودکش بمباروں سے درپیش خطرات کی شدت کا اظھار ھوتا ہے۔ اسی طرح یہ واقعات افغانستان کے سکیورٹی نظام میں موجود نقائص اور کمزوریوں کو بھی ظاھر کرتے ہیں۔

تکفیری دھشت گرد گروہ داعش نے اب تک کابل میں انجام پانے والے تمام دھشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ عراق اور شام میں عبرتناک شکست کھانے کے بعد تکفیری دھشت گروہ داعش افغانستان میں سر اٹھانے میں کیسے کامیاب ھوا؟
حقیقت یہ ہے کہ اس کے جواب میں کئی متضاد دعوے کئے گئے ہیں جن کے بارے میں پورے وثوق سے کچھ کھنا ممکن نھیں۔ لیکن بعض ایسے شواھد موجود ہیں جس سے اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ ان کے پیچھے امریکہ کا ھاتھ ہے۔ افغانستان میں داعش کی موجودگی اس ملک میں سکیورٹی بحران اور بدامنی جاری رکھنے پر مبنی اھداف سے مکمل ھم آھنگی اور مناسبت کی حامل ہے۔ لھذا اسی نقطہ نظر سے داعش کی حامی اور اسے افغانستان منتقل کرنے والی قوتوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے اور افغانستان میں داعش کی موجودگی کے نتیجے میں پیدا ھونے والے سکیورٹی اثرات کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کی جانب سے انجام پانے والے خودکش بم حملے کابل میں اندرونی اختلافات جنم لینے کا بھی باعث بن رھے ہیں جبکہ موجودہ حالات کے تناظر میں افغانستان میں برسراقتدار نیشنل یونٹی حکومت ھر دور سے زیادہ اس وقت باھمی اتحاد اور قومی وحدت کو محفوظ بنانے کی محتاج ہے۔
اگر بعض اعتدال پسند طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کیلئے آمادگی کا اظھار کرتے ہیں اور سیاسی عمل کے ذریعے اختلافات حل کرنے کا عزم ظاھر کرتے ہیں تو اس بات کا خطرہ پایا جاتا ہے کہ طالبان کے دیگر دھڑے ان سے علیحدہ ھو کر تکفیری دھشت گرد گروہ داعش میں شمولیت اختیار کر لیں۔ لھذا اس وقت افغانستان میں داعش کا ایسا پرچم بلند کیا گیا ہے جس نے ملک کے تمام امن مخالف عناصر کو اپنے زیر سایہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایک انتھائی خطرناک صورتحال ہے جس کا نتیجہ نہ صرف افغانستان میں بدامنی کی صورت میں ظاھر ھو گا بلکہ داعش کی طرف سے "خلافت خراسان" نامی نئے پراجیکٹ کا آغاز ثابت ھو گا جس کا دائرہ مرکزی ایشیا کے تمام علاقوں، جنوبی قفقاز، چین کے صوبے سنکیانگ سے لے کر افغانستان، پاکستان، ایران، بھارت، بنگلہ دیش اور مشرقی ایشیا تک پھیلا ھو گا۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ داعش جیسے تکفیری دھشت گرد گروہ میں علاقائی اور عالمی سطح پر سرگرم سکیورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیز کیلئے ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار کے ھتھکنڈے کے طور پر استعمال ھونے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔
ایسی صورت میں خطے میں سرگرم ھر انٹیلی جنس ایجنسی دوسرے پر افغانستان میں داعش کی موجودگی اور اسے اپنے ھتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کر سکتی ہے۔ اس بات کی کوئی اھمیت نھیں کہ خود تکفیری دھشت گرد گروہ داعش ان حقائق سے کس قدر آگاہ ھوتا ہے یا بالکل آگاہ نھیں ھوتا۔ بلکہ اسے چلانے والی قوتوں کیلئے یھی بھتر ہے کہ وہ ان حقائق سے آگاہ نہ ھو کیونکہ اس طرح اس کی جانب سے باغیانہ رویوں کا امکان بھی ختم ھو جاتا ہے۔
نتیجہ:
افغانستان میں داعش کی موجودگی سے متعلق تمام پوشیدہ حقائق سے ھٹ کر یہ بات یقینی ہے کہ تکفیری دھشت گرد گروہ داعش افغانستان اور خطے میں جنگ اور بدامنی کے تسلسل پر مبنی ھدف کا حامل ایک جدید پراجیکٹ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان اپنی اھمیت کھو دیں گے اور ان کی جگہ داعش لے لے گی۔ تکفیری دھشت گرد گروہ داعش افغانستان میں دھشت گردانہ سرگرمیاں بڑھانے کے ساتھ ساتھ دیگر ھمسایہ ممالک میں بھی اپنی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کر دے گا اور اس طرح "خلافت خراسان" نامی نیا شوشا اٹھ کھڑا ھو گا۔
تحریر: پیر محمد ملا زھی

Add comment


Security code
Refresh