www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

468541
عراق اور شام میں تکفیری دھشت گروہ داعش کا خاتمہ درحقیقت گذشتہ 6 برس سے جاری تمام سعودی پالیسیوں کی حتمی شکست ہے۔
خطے کے عرب ممالک میں رونما ھونے والی اسلامی بیداری کی تحریک جسے مغربی طاقتوں نے عرب اسپرنگ کا نام دیا، کو کچلنے کیلئے سعودی حکام نے تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کو تشکیل دیا جس کے شدت پسندانہ اور دھشت گردانہ اقدامات کے ذریعے اپنے سیاسی اھداف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن داعش کی بانی حکومتوں اور قوتوں کا اصل ھدف ایران تھا۔
روس کے شھر سوچی میں ایران، روس اور ترکی کے سربراھان مملکت کے درمیان انتھائی اھم سہ فریقی اجلاس سے پھلے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور شام کے صدر بشار اسد کے درمیان غیر متوقع ملاقات سے ظاھر ھوتا ہے کہ شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اھم منصوبہ بندی عمل میں لائی گئی ہے۔
دوسری طرف روسی حکام غیر سرکاری اور غیر اعلانیہ طور پر سعودی اور امریکی حکام سے بھی رابطے میں ہیں۔ بعض ماھرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں آل سعود رژیم کی حکومت روز بروز کمزور ھوتی جا رھی ہے اور یہ ملک سعودی خاندان کی ڈکٹیٹرشپ سے محمد بن سلمان کی ڈکٹیٹرشپ کی جانب گامزن ہے۔
سعودی سلطنتی خاندان کی تمام طاقت اور ثروت کا ولیعھد محمد بن سلمان کے ھاتھوں میں جمع ھو جانا اس امر کی نشاندھی کرتا ہے کہ سعودی عرب کا آئندہ فرمانروا ایسا لارڈ آف رینگز ھو گا جو سیاسی کھیل کھیلنے کی بھت زیادہ طاقت کا حامل ھو گا۔ سعودی خاندان کا یہ جوان اور اقتدار طلب شھزادہ اپنے 2030ء وژن کے تحت مغربی ایشیا سے مشرقی افریقہ تک گریٹر عرب اسٹیٹس تشکیل دینے کے درپے ہے۔
سعودی ولیعھد شھزادہ محمد بن سلمان درحقیقت اسی ھدف کے درپے ہیں جو اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا تھا اور جسے حاصل کرنے میں داعش (دولت اسلامی) ایک حد تک کامیابی سے ھمکنار ھوئی لیکن آخرکار اسے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ محمد بن سلمان نے عملی طور پر اپنے آبا و اجداد کی سیرت کو ترک کرتے ھوئے وھابی مذھبی رھنماوں کو کچلنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
سعودی عرب کا اگلا فرمانروا دنیا والوں کو اپنے ملک کا ایسا چھرہ روشناس کروانا چاھتا ہے جو مذھب سے بالاتر ھو کر مھربانی پر استوار ھو۔ لیکن اس کے باوجود سعودی رژیم کی تکفیری نیچر برقرار رھے گی۔ سعودی ولیعھد نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے انتھائی قریبی تعلقات ھونے کے ناطے اب تک اپنے مقاصد کیلئے امریکی پالیسیوں سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔
بعض ماھرین سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب میں سطحی حد تک سماجی آزادیاں عطا کرنے کا نتیجہ عرب اسپرنگ دوبارہ شروع ھونے اور انقلاب کی صورت میں ظاھر ھو گا لیکن محمد بن سلمان نے 250 شھزادوں کی گردن پر اپنی تیز تلوار قرار دے رکھی ہے اور ھر تنقید کرنے والے شخص کی گردن اڑا دی جاتی ہے۔
آج محمد بن سلمان کی سب سے بڑی پریشانی ملک کی اندرونی سیاسی صورتحال نھیں بلکہ وہ پھلے ایران اور اس کے بعد ترکی کو اپنے راستے سے ھٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شھزادہ محمد بن سلمان نے کردستان کے ذریعے ترکی کے خلاف ایسے منصوبے تیار کر رکھے ہیں جنھوں نے ترک صدر رجب طیب اردگان کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں۔
عرب لیگ کا رویہ ظاھر کرتا ہے کہ محمد بن سلمان نے متعدد عرب حکمرانوں کو سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کی مانند ایران کے خلاف اکٹھا کر رکھا ہے لیکن اب تک وہ عراق، لبنان اور حتی مصر کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رھے ہیں۔ اسی طرح قطر کا مسئلہ ایک ایسے بحران میں تبدیل ھو گیا ہے جس نے سعودی عرب کی روایتی چوھدراھٹ کو چیلنج کر رکھا ہے۔
آل سعود رژیم انتھائی بحرانی صورتحال کا شکار ہے اور سعودی حکام اس صورتحال سے نکلنے کیلئے ھاتھ پاوں مار رھے ہیں۔ سعودی رژیم خیال کرتی ہے کہ اسے درپیش تمام مسائل کی اصل وجہ ایران کا اسلامی انقلاب ہے لھذا اس نے ایران کے حقیقی دشمن اسرائیل سے سازباز کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خطے میں ایران کو اپنا دشمن تصور کرنا آل سعود رژیم کی پھلی غلطی ہے جبکہ اس فرضی دشمن سے مقابلے کیلئے اسلامی دنیا کے پھلے نمبر کے دشمن اسرائیل کی گود میں پناہ لینا دوسری بڑی غلطی ہے۔
اب جبکہ تکفیری دھشت گرد گروہ داعش کا تقریباً خاتمہ ھو چکا ہے آل سعود رژیم کی جانب سے ایران سے ٹکراو کی نوعیت انتھائی مختلف قسم کی ھو گی۔ سعودی حکام ایران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ دیگر ممالک میں مداخلت پسندانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور خطے میں مذھبی جنگ شروع کرنا چاھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی میں موجود بدامنی اور عدم استحکام کا ذمہ دار وہ خود ہیں۔
آل سعود رژیم اور اسرائیل کی غاصب صھیونی رژیم لبنان کے خلاف جنگ کی پیاسی ہیں اور وہ اس مقصد کیلئے داعش کے بچے کھچے عناصر اور دیگر تکفیری عناصر کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رھی ہیں۔
اسرائیلی حکام واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ ایک عرصے سے بعض عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب سے خفیہ تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے فوجی حکام بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ خطے میں ایران کے خلاف سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک سے متحد ھونے کو تیار ہیں۔ آج تمام مسلمانان عالم اور امت مسلمہ کی بابصیرت سیاسی و مذھبی شخصیات کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ دنیا اور عالم اسلام انتھائی حساس اور فیصلہ کن مرحلے سے گزر رھا ہے۔
امت مسلمہ کی سیاسی و مذھبی شخصیات کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی دشمن قوتوں کو پھچانیں اور اسلامی دنیا میں گھسے ان کی ایجنٹس کا بھی چھرہ فاش کریں۔
آج حقیقی اسلام کا چھرہ روز بروز مزید واضح ھوتا جا رھا ہے جبکہ جعلی اسلام کے چھرے سے بھی پردہ اٹھتا جا رھا ہے اور اب ھم سب مسلمانوں کیلئے بڑا الھی امتحان یہ ہے کہ ھم حقیقی اسلام کے حامی عناصر اور قوتوں کو پھچانتے ھوئے کس طرح ان کا ساتھ دیتے ہیں تاکہ حق اور باطل کے اس فیصلہ کن معرکے میں حق کے ساتھ کھڑے ھوں نہ کہ ھمارا نام باطل کے حامیوں میں لکھا جائے۔
تحریر: علی ودائع

Add comment


Security code
Refresh