www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

زندگی اور حقیقت کے پیش نظر دنیا پر ایک نظر

خدا کی ضرورت

انسانی ادراک اور شعور جو انسان کی پیدائش کے ساتھ ھی پیدا ھوتا ھے، بالکل شروع سے ھی انسان پر دونوں جھانوں کے خدا کی ھستی کو واضح کردیتا ھے، کیونکہ یہ ان لوگوں کے عقائد کے بالکل خلاف ہے

 جو زندگی میں ھر چیز پر شک و تردید کا اظھار کرتے ھیں اور جھان ھستی کو صرف ایک وھم و گمان اور خیال کے سوا کچھ نھیں سمجھتے۔ ھم جانتے ھیں کہ ایک انسان اپنی پیدائش کے ساتھ ھی عقل و شعورلیکر آتا ھے اور وہ اپنی دنیا اور اپنے آپ کو بخوبی سمجھتا ھے، یعنی اسے اس بات میں کوئی شک و شبہ نھیں ھوتا کہ وہ موجود ھے اور اس کے علاوہ دوسری چیزیں بھی موجود ھیں نیز جب تک یہ انسان، انسان ھے اس میں عقل و شعور و علم موجود رھتا ھے لھذا اس کے لئے کسی قسم کے شک و تردید کی گنجائش نھیں ھوتی اور علم و شعور اور عقل میں بھی ھر گز تبدیلی پیدا نھیں ھوتی۔

یہ حقیقت اور ھستی (کائنات )جس کو انسان ایک سوفسطائی یا شک کرنے والے کے سامنے پیش کرنا چاھتا ھے، پھلے ھی سے ثابت شدہ ھے اور اس میں ھرگز بطلان پیدا نھیں ھوتا یعنی سوفسطائی اور شک کرنے والے شخص کے اقوال جو در اصل واقعیت اور حقیقت کی نفی کرتے ھیں، ھرگز درست نھیں ھیں۔ پس جھان ھستی (کائنات) میں ایک ثابت اور پائدار حقیقت موجود ھے لیکن یہ تمام حقیقی مظاھر جن کا ھم اس دنیا میں مشاھدہ کرتے ھیں کچھ عرصے کے بعد ان کی حقیقت ختم ھوجاتی ھے اور یہ سب نابود ھو جاتا ھے۔ اس طرح واضح ھو جاتا ھے کہ یہ دنیا اور اس کے تمام اجزاء خود بخود عین حقیقت نھیں ھیں (کہ جو نابود اور فنا نہ ھونے پائیں) بلکہ یہ سب ایک پائدار اور مستقل حقیقت سے وابستہ ھیں۔اسی پائدار حقیقت کے ذریعہ ھی یہ حقیقت دار ھوتے ھیں اور اسی کے ذریعہ ان کو زندگی ملتی ھے، لھذا جب تک اس حقیقت کے ساتھ رابطہ اور تعلق رکھتے ھیں اس حقیقت کی موجودگی کے ساتھ زندہ رھتے ھیں لیکن جوں ھی اس سے ان کا تعلق ختم ھو جاتا ھے، فوراً نابود ھو جاتے ھیں۔ ھم اس پائدار اور مستقل (لازوال) حقیقت کو ”واجب الوجود“ یعنی خدا کھتے ھیں۔

انسان اور جھان کے رابطے سے ایک اور نظر

وہ طریقہ جو گزشتہ باب میں خدا کی ھستی کو ثابت کرنے کے لئے بتایا گیا ھے، وہ طریقہ بھت ھی سادہ اور واضح ھے کہ انسان اپنی خدا داد قابلیت اور سرشت کے ساتھ اسے اپنا سکتا ھے اور اس طریقے میں کوئی پیچ و خم بھی نھیں ھے لیکن اکثرلوگ مادیات کی طرف متوجہ ھونے اور محسوس لذائذ میں محو و مستغرق ھونے کے سبب اپنی خدا داد سادہ اور پاک فطرت کی طرف توجہ دینے سے قاصرھوتے ھیں، کیونکہ ایسی حالت میں معنویات کی طرف توجہ دینا بھت ھی مشکل اور سخت کام ھو جاتاھے۔

بنابر ایں اسلام جو کہ اپنے آپ کو ایک عمومی اور آفاقی دین کھتا ھے اورتمام انسانوں کو اپنے دینی مقاصد کے سامنے مساوی جانتا ھے، ایسےافراد کے لئۓ خدا کی ھستی کو ثابت کرنے کا دوسرا طریقہ اختیار کرتاھے۔

قرآن کریم مختلف طریقوں سے عام لوگوں کو خدا شناسی کی تعلیم دیتا ھے اوراس سے بڑھ کر ان کے افکار کو دنیا کی آفرینش اور اس نظام کی طرف متوجہ کراتا ھے جو اس دنیا میں جاری و ساری ھے اور پھر انفس و آفاق کے مطالعہ کی دعوت دیتا ھے کیونکہ انسان اپنی چند روزہ زندگی میں جو راستہ یا طریقہ اختیار کرے یا جس حالت میں زندگی گزارے، دنیائے فطرت اور اس میں موجودہ نظام کی حکومت سے ھرگز باھر نھیں نکل سکتا اوراس کا شعور و ادراک، زمین و آسمان کے عجیب و غریب مناظر کو ھرگز نظر انداز نھیں کرسکتا۔ یہ وسیع نظام کائنات جو ھماری آنکھوں کے سامنے ھے ، اس کا ھر ایک جزء اور ذرہ کلی طور پر ھمیشہ تغیر و تبدل کا شکار ھے اور ھر لحظہ اس کی شکل و صورت دگر گوں ھو کر ایک نیا روپ دھار لیتی ھے جو پھلے سے بالکل مختلف ھوتی ھے اور پھر قوانین کے زیر اثر جس میں استثنیٰ نھیں ھے، حقیقت اور اثبات کا لباس پھن لیتی ھے اور اسی طرح بھت بلند اور دور کھکشانوں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ذرے تک جن سے اس جھان کی تشکیل و تکمیل ھوئی ھے، ھر چیز ایک خاص اور واضح نظام میں حرکت کرتی ھے اور اپنے قوانین کے ذریعے جس میں کسی قسم کا استثناء موجود نھیں ھے، بڑے حیرت انگیز طریقے سے یہ ساری چیزیں اپنے اپنے کام میں لگی ھوئی ھیں۔ لھذا یہ سب اشیاء اپنے دائرۂ عمل کو بھت ھی پست اور نچلی سطح سے مکمل ترین حالت کی طرف بڑھاتی چلی جاتی ھیں، یھاں تک کہ تکمیل کے آخری مرحلے تک پھنچ جاتی ھیں۔

اگر فطرت کا نظام انسان کو زمین میں جگہ دیتا ھے تو اس زمین کے وجودی ڈھانچے کو اس طرح ترکیب (مختلف اجزاء کا مجموعہ) دیتا ھے کہ اس کی زندگی اور ماحول کے ساتھ ساز گار ھو اور پھر اس زندگی اور ماحول کو اس طرح بناتا ھے کہ ایک مھربان دایہ کی طرح مھر و محبت کے ساتھ اس کی پرورش کرتے ھوئے کائنات کی ھر چیز مثلاً سورج، چاند، ستارے، پانی، مٹی، دن، رات، سال کے موسموں، بادل، ھوا، بارش، زمین کے نیچے اور زمین کے اوپر موجود ذخائر خزانے اور آخر کار اپنی قدرت و طاقت کے تمام وسائل اور سرمایہ کو اس کے آرام و آسائش کی خاطر کام پر لگائے رکھتا ھے۔ ھم ایسے رابطے اور تعلق کو دنیا کے ھر مظھر اور اس کے ارد گرد اور ھمسایہ چیزوں کے درمیان مشاھدہ کرتے ھیں یعنی دنیا کے تمام مظاھر، جن میں انسان زندگی گزارتا ھے، آپس میں مربوط ھیں۔

کائنات کے ھر مظھر کے داخلی نظام میں بھی اس قسم کا تعلق اور رابطہ موجود اور ظاھر ھے۔ اگر فطرت نے انسان کے لئے روٹی مھیا کی ھے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے ھاتھ اور کھانے کے لئے منہ اور چبانے کے لئے دانت بھی دئے ھیں اور ان تمام چیزوں کو زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک قسم کے منظم ذرائع کے ساتھ آپس میں مرتبط کر رکھا ھے یعنی ھر چیز اپنے کمال کی طرف گامزن ھے۔

دنیا کے ماھرین اور دانشور اس امر میں کوئی شک و شبہ نھیں رکھتے کہ وہ بے شمار تجربے، جو انھوں نے اپنی چند ھزار سالہ علمی کاوشوں کے ذریعے حاصل کئۓ ھیں، فطرت اور کائنات کے اسرار میں سے ایک بھت ھی معمولی جلوہ ھیں، جس کے پیچھے ایک بھت ھی طویل اور بے انتھا سلسلہ موجود ھے جو کبھی ختم ھونے والا نھیں ھے۔ ھر تازہ انکشاف انسان کے سامنے بے شمار مجھولات (جن چیزوں کا علم نہ ھو) لے کرآتا ھے جن میں انسان گم ھوکر رہ جاتا ھے ۔کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ اس وسیع جھان ھستی (کائنات) جس کے تمام اجزاء الگ الگ ھوتے ھوئے بھی آپس میں ایک مضبوط اتحاد ، وحدت و اتصال اور حیرت انگیز اتفاق رکھتے ھیں نیز یہ سب ایک لامتناھی طاقت اور علم کو بیان کرتے ھیں، ان کا کوئی پیدا کرنے والا نھیں ھے؟ اور یہ سب کچھ اپنے آپ، عبث اور فضول پیدا ھوگیا ھے؟

آیا یہ جزئی اور کلی نظامات اور آخر کار دنیا کا عمومی نظام، جس نے دنیا کے لا متناھی اجزاء کو آپس میں مربوط اور متصل کرکے ایک بڑا متحدہ کائناتی نظام(ONE UNIT UNIVERSAL SYSTEM) بنا دیا ھے، اپنے منظم قوانین کے ساتھ جس میں کوئی استثناء موجود نھیں ھے، ھر چیز میں جاری و ساری ھے، بغیر کسی نقشے کے اتفاقیہ طور پر بن گیا ھے؟ یا ان میں سے ھر ایک مظھر نے اپنی پیدائش سے پھلے ھی اپنے لئے ایک خاص نظام اور طریقہ انتخاب کرلیا ھے؟ اور اپنی پیدائش کے بعد اس نظام کو خاص موقع و محل کے مطابق نافذ اور جاری کرتا ھے۔

البتہ وہ انسان جو ھر حادثے، واقعے اور مظھر کو ایک علت اور سبب یا حادثے سے منسوب کرتا ھے اور کبھی کبھی ایک مجھول سبب اور علت کو پیدا کرنے کے لئے مدتوں بحث، کوشش اور جستجو میں گزار دیتا ھے اور کبھی کبھی علمی کامیابیوں کے پیچھے چکر لگاتا رھتا ھے، وہ انسان جو ان چند اینٹوں کو دیکہ کر جو بڑی ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے اوپر نیچے رکھی گئی ھوں، اس کو ایک طاقت اور علم کے ساتھ منسوب کرتا ھے اور اس میں ھر قسم کے اتفاق اور حادثہ کی نفی کرتے ھوئے اس کو ایک نقشے اور مقصد کا نتیجہ سمجھتا ھے، ھرگز اس بات پر تیار نھیں ھوگا کہ اس کائنات اور جھان ھستی کی پیدائش کو بے سبب اور بے علت سمجھے یا دنیا کے نظام کو ایک اتفاقیہ حادثہ خیال کرے۔

پس یہ جھان اور کائنات ایک خاص نظام کے ساتھ پیدا کیۓ گئے ھیں اور وھی نظام اس میں حکومت کرتا ھے اور اس کا پیدا کرنے والا بھت ھی عظیم ھے، جس نے اپنے بیکراں اور ختم نہ ھونے والے علم اور طاقت کے ساتھ اس کو پیدا کیا ھے اور اس کو ایک خاص نھج اور طریقے یا ھدف کی طرف چلا رھا ھے اور وہ وقتی اور چھوٹے چھوٹے حوادث اور بعض دوسرے اتفاقات جو اس جھان میں پیدا ھوتے ھیں اور یہ سب حالات اور واقعات اسی نکتے تک پھونچ کر ختم ھوجاتے ھیں۔ لھذا یہ تمام چیزیں ھر طرف سے اسی (خدا) کی تسخیر اور احاطے میں واقع ھیں۔ ھر چیز اپنی زندگی میں اسی (پروردگار) کی محتاج ھے اور وہ کسی چیز کا محتاج یا نیاز مند نھیں ھے اور اس کا کوئی منبع یا سرچشمہ نھیں ھے (نہ کسی کو اس نے پیدا کیا اورنہ ھی وہ کسی سے پیدا ھوا ھے (لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُولَدْ)(۱)


خدا کی وحدانیت

فرض کریں کائنات کی حقیقتوں میں سے ھر حقیقت محدود ھے یعنی فرض اور تقدیر (سبب اور شرط) کے ساتھ ھر چیز زندہ ھے اور فرض و تقدیر (سبب و شرط) کے نہ ھونے کی بناء پر منفی ھے یعنی زندہ نھیں ھے۔ در اصل ھر چیز کا وجود ایک حد کے اندر ھے اور اس حد کے باھر کچھ بھی نھیں ھے۔ صرف خدا کی ذات ھی ھے جس کے لئے کوئی حد فرض نھیں کی جاسکتی، کیونکہ اس کی حقیقت مطلق ھے اور ھمیشہ اور ھر جگہ موجود ھے لھذا کسی سبب اور شرط کے ساتھ اس کو مرتبط نھیں کیا جاسکتا اور نہ ھی اس کی ذات کسی علت اور شرط کی محتاج ھے۔

واضح ھے کہ لامتناھی اور لا محدود چیز کے لئے کوئی عدد معین نھیں کیا جا سکتاکیونکہ ھر دوسری چیز جو پھلی چیز کے لئے فرض کے طور پر لائی جا ئے گی اس پھلی چیز کے علاوہ ھوگی۔ پس نتیجہ یہ ھوگا کہ دونوں چیزیں محدود اور لامتناھی ھوں گی اور ایک دوسرے کی حدود اور حقیقت کے برابر ھو جائیں گی۔ مثال کے طور پر اگر ایک حجم کو لا محدود و لا متناھی فرض کریں تو اس کے برابر کسی دوسرے حجم کو فرض نھیں کرسکتے اور اگر فرض کریں گے تو دوسرا حجم پھلے حجم کے برابر اور مانند ھو جائے گا۔ پس خدائے تعالیٰ یکتا، یگانہ اور بے مثال ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے۔

ذات اور صفات

اگر ایک انسان کا عقلی لحاظ سے تجزیہ کریں تو معلوم ھوگا کہ اس کی ایک ذات ھوتی ھے اور یہ ذات اس کی ذاتی انسانیت یا شخصیت ھی ھے۔ اس کے ساتھ وہ صفات بھی رکھتا ھے جس سے اس کی ذات (شخصیت) کو پھچانا جاتا ھے۔ مثلاً وہ فلاں کا بیٹا ھے اور اس کا باپ فلاں شخص ھے۔ وہ دانا ھے، طاقتور ھے، اس کا قد اونچا ھے، وہ خوبصورت ھے یا ان صفات کے برعکس ھے۔

اگر چہ ان صفات میں سے بعض صفات مثلاً صفت اول اور دوم ھر گز ذات سے جدا نھیں ھیں اور بعض دوسری صفات مثلاً دانائی اور طاقت میں تبدیلی کا امکان موجود ھے، لیکن بھر حال سب کی سب صفات اس کی ذات کے علاوہ ھیں اور ھر صفت میں فرق ھے۔ ذات اور صفت یا تمام صفات میں فرق بھترین ثبوت اور دلیل ھے کہ وہ ذات جس کی صفت موجود ھو اور وہ صفت جو ذات کا تعارف کراتی ھو، دونوں محدود اور متناھی ھیں کیونکہ اگر ذات لا محدود اور لامتناھی ھو تو صفات بھی ویسی ھی ھوں گی اور تمام صفات ایک دوسرے کے برابر ھوں گی اور آخر کار سب کی سب ایک ھو جائیں گی، جیسا کہ فرض کیا تھا کہ انسان کی ذات طاقت تھی اور اسی طرح طاقت، عقلمندی ،دانائی بلندی اور خوبصورتی تمام کی تمام ایک دوسرے کے مانند تھیں۔ لھذا مجموعی طور پر ان سب کا صرف ایک ھی مطلب تھا یعنی انسان۔

گزشتہ بیان سے واضح ھوجاتا ھے کہ ذات باری تعالیٰ عزّ و جلّ کے لئے صفت کا وہ مفھوم ھر گز نھیں ھے جس کا ھم نے پھلے تجزیہ کیا ھے کیونکہ خدا کے لئے کوئی صفت ثابت نھیں کی جاسکتی۔ اس لئے کہ صفت حدود کے بغیر نھیں ھوتی اور خدا کی ذات پاک تمام  حدود سے بالاتر ھے حتی کہ یھی پاکی در اصل خدا کی صفت کو ثابت کرتی ھے۔

 خدائی صفات کے معنی

جھان آفرینش (فطرت اور کائنات) میں بے انتھاکمالات پائے جاتےھیں جو صفات کی شکل میں ظاھر ھوئے ھیں۔ یہ مثبت صفات ھیں جو ھر جگہ ظاھر ھوتے ھیں اور اپنے وجود کو کامل اور مکمل کرتے ھوئے اس کو زیادہ سے زیادہ وجودی اھمیت کے قابل بناتی ھیں جیسا کہ ایک زندہ چیز مثلاً انسان کا مقابلہ ایک بے جان اور بے روح چیز مثلاً پتھر کے ساتھ کریں تو واضح ھوجاتا ھے۔

اس میں شک نھیں کہ ان تمام کمالات و صفات کو خدائے تعالیٰ نے پیدا کیا ھے اور اسی نے یہ صفات دوسری چیزوں کو دئے ھیں ۔ اگر خود خدا میں یہ صفات و کمالات موجود نہ ھوتے تو وہ دوسروں کو ھرگز نہ دیتا یا نھیں دے سکتا تھا اور نہ ھی ان کی تکمیل کرتا۔ لھذا عقل سلیم کے مطابق یوں کھنا چاھئے کہ خدائے تعالیٰ علم و قدرت رکھتا ھے اور ھر حقیقی کمال اسی کے پاس ھے۔

اس کے علاوہ جیسا کہ پھلے گزر چکا ھے علم اور طاقت کے آثار، اور ان کے آثار کے نتیجے میں کائنات کے نظام کی زندگی بھی ظاھر ھے لیکن اس مطلب کے پیش نظر کہ ذات خداوندی لا محدود اور لامتناھی ھے، یہ کمالات جو اس کے لئے صفات کی شکل و صورت میں ثابت ھوتے ھیں، حقیقت میں عین ذات اور اس طرح ایک دوسرے کے بالکل برابر اور مانند ھیں اور وہ فرق جو ذات و صفات یا خود صفات کے درمیان نظر آتا ھے صرف مفھوم کے طور پر ھے لیکن حقیقت میں ایک ناقابل تقسیم یکتائی کے سوا اور کچھ بھی نھیں ھے۔

اسلام اس غلطی کے سدّ باب کے لئے (یعنی صفات کے ذریعے وحدانیت یا اصل کمال کی نفی) اپنے پیروکاروں کے عقیدے اور ایمان کو نفی و اثبات کے درمیان ھی رکھتا ھے اور اس سے متجاوز نھیں ھونے دیتا اور حکم دیتا ھے کہ اس قسم کے عقائد رکھے جائیں یعنی خدا علم رکھتا ھے لیکن اس کا یہ علم دوسروں کے علم کی طرح نھیں ھے۔ وہ طاقت رکھتا ھے لیکن اس کی یہ طاقت انسانوں کی طاقت کی طرح نھیں ھے۔ وہ سنتا ھے لیکن کانوں کے ذریعے نھیں (اس کے کان نھیں ھیں) وہ دیکھتا ھے لیکن آنکھوں سے نھیں (اس کی آنکھیں نھیں ھیں) اور اسی طرح دوسری صفات۔

صفات دو قسم کی ھیں: ”مکمل صفات اور ناقص صفات“ مکمل صفات جیسا کہ پھلے اشارہ کیا گیا ھے، اثباتی معنی رکھتی ھیں جو اپنے وجود کی زیادہ اھمیت کا باعث بنتی ھیں اور اپنے موصوف کے وجودی اعتبار کو زیادہ کرتی ھیں، جیسا کہ ایک زندہ، جاندار، طاقتور اور عقلمند چیز یا وجود کو ایک مردہ، بے علم، بے طاقت چیز یا وجود کے ساتھ مقابلہ کرنے سے واضح ھو جاتا ھے اور ناقص صفات اس کے برعکس ھیں۔

جب ھم ناقص صفات کے معانی پر غور کرتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ معنی کے لحاظ سے یہ صفات منفی ھیں اور ان میں کمال موجود نھیں ھے اور ایسے ھی وجودی اھمیت کے نہ ھونے کی بھی خبر دیتی ھیں مثلاً جھالت، عجز، بے عقلی، بد صورتی، بیماری اور بدی وغیرہ۔

لھذا گزشتہ موضوع کے مطابق صفات کی نفی، مکمل صفات کے نہ ھونے کے معنی دیتی ھے مثلاً نادانی کی نفی دانائی کے معنوں میں ھے اور نا توانی کی نفی توانائی کی معنی دیتی ھے۔

قرآن کریم ھر مکمل صفت کو براہ راست خدائے تعالیٰ کے بارے میں ثابت کرتا ھے اور ھر ناقص صفت کی نفی کرتے ھوئے اس کی نفی کو خدا وند تعالیٰ کے بارے میں ثابت کرتا ھے۔ جیسا کہ فرماتا ھے:

"وَھوَ العَلیمُ القَدیر" (۲)

 "ھو الحیُّ القیّوم، لَا تَاخُذُہ سِنَةٌ وَ لَا نَومٌ "(۳)

 "وَ اعْلَمُوا اَنَّکُم غَیرُ مُعْجِزِی اللهِ "(۴)

ایک مطلب کو ھر گز فراموش نھیں کرنا چاھیے اور وہ یہ کہ خدائے تعالیٰ ایک مطلق حقیقت ھے جس کی کوئی حد نھیں ھے اور اسی طرح ھر کامل صفت بھی جو اس کے بارے میں ثابت ھوتی ھے وہ بھی محدود معنوں میں نھیں ھوتی۔خدا مادی، جسمانی قیود یا مکان و زمان کی حدود میں محدود نھیں ھے اور ھر صفت سے منزہ اور پاک ھے کیونکہ ھر وہ صفت جو حادث ھو خدا اس صفت سے پاک ھے اور ھر وہ صفت جو حقیقت میں خدا سے منسوب کی جاتی ھے وہ محدودیت کے معنی سے بالکل دور ھوتی ھے جیسا کہ خدا فرماتا ھے:" لیسَ کَمِثلہ شَئیٌ "(۵)


صفات فعل

صفات (جیسا کہ پھلے بیان ھوچکا ھے) مختلف اقسام میں تقسیم ھوتی ھیں یعنی ”صفات ذات“ اور ”صفات فعل“۔

اس کی وضاحت یوں ھے کہ کبھی ایک صفت خود موصوف کے ساتھ قائم ھوتی ھے، مثلاً زندگی، علم اور طاقت جو ایک زندہ، دانا اور تواناانسان کے ساتھ قائم ھیں اور ھم صرف انسان کو ھی ان کے ساتھ متصف فرض کرسکتے ھیں، اگر چہ اس کے بغیر کسی اور چیز کو فرض بھی نہ کریں اور کبھی کبھی صرف موصوف کے ساتھ ھی قائم نھیں ھے، کیونکہ اگر موصوف کو ان صفات کے ساتھ متصف کریں تو اس وقت ھمیں پھلے بعض دوسری چیزوں کو ثابت کرنے کی ضرورت پیش آتی ھے مثلاً لکھنا، بولنا اور چاھنا وغیرہ، کیونکہ انسان اس وقت تک ادیب نھیں بن سکتا جب تک دوات، قلم اور کاغذ کو فرض نہ کر لیا جائے اور اسی وقت تقریر کر سکتا ھے جب اس کے لئے سننے والے کو فرض کر لیا جائے اور اس وقت کسی چیز کو چاھتا ھے جب چاھنے والی چیز موجود ھو اور صرف ان مقامات کو ثابت کرنے کے لئے انسان کا فرض ھی کافی نھیں ھے۔

یھاں واضح ھوجاتا ھے کہ خداوند تعالیٰ کی حقیقی صفات (جیسا کہ پھلے ذکر ھوا  ھے) عین ذات ھیں اور صرف پھلی قسم کی ھیں، لیکن دوسری قسم کی صفات جن کو ثابت کرنے کے لئے بعض دوسری چیزوں کا سھارا لینا ضروری ھے۔خدا کے سوا ھر چیز مخلوق ھے اور خدا کے سامنے  پیدا ھوئی ھیں لھذا ھر چیز اپنی پیدائش کے ساتھ جو صفات اپنے ساتھ لاتی ھے، ان کو ”صفت ذات“ اور خدائے تعالیٰ کی مانند ”عین ذات“ نھیں کھا جا سکتا۔

وہ صفات جو خدائے تعالیٰ کے لئے کائنات کی پیدائش کے بعد ثابت اور منسوب ھوتی ھیں مثلاً آفریدگار، کردگار، زندہ کرنے والا، مارنے والا اور روزی دینے والا وغیرہ عین ذات نھیں ھیں بلکہ ذات کے علاوہ ھیں اور ان کو ”صفت فعل“ کھا جاتا ھے۔

صفت فعل کا مطلب یہ ھے کہ فعل کے ثابت اور عملی ھونے کے بعد، صفت کے معنی فعل سے حاصل کئے جاتے ھیں نہ کہ ذات سے مثلاً آفریدگار جو کائنات اور مخلوقات کی پیدائش ثابت ھو جانے کے بعد خدا کے آفریدگار (پیدا کرنے والا) ھونے کے معنی اس سے ماخوذ ھوتے ھیں اور یہ معنی صرف مخلوقات کے ساتھ قائم ھیں نہ کہ خدا وند پاک کی مقدس ذات کے ساتھ کیونکہ اگر ایسا ھو تو ذات میں بھی صفت کے ساتھ ساتھ تبدیلی واقع ھوجائے گی۔

شیعہ، دو صفات یعنی ”ارادہ“ اور ”کلام“ اور ان سے حاصل ھونے والے معانی کو صفتِ فعل جانتے ھیں۔ کیونکہ ارادہ چاھنے کے معنی میں ھے اور کلام کا مطلب ھے ”الفاظ کا انکشاف“ اور علمائے اھل سنت ان صفات کو علم کے معنی میں لیتے ھیں اور ان کو ”صفت ذات“ کھتے ھیں۔

قضا و قدر

کائنات میں علت اور سبب کا قانون بغیر کسی استثناء کے حکم فرما اور جاری ھے۔ اس قانون کے مطابق اس جھان کا ھر مظھر یا مخلوق اپنی پیدائش میں ایک سبب یا علت پر منحصر ھے ۔ فرض کریں اگر یہ سبھی اسباب پورے ھو جائیں (جس کو علت تامہ کھتے ھیں) تو مخلوق کی پیدائش (معلول و مفروض) ضروری یا جبری ھوجاتی ھے اور اگر فرض کریں کہ یہ سب یا ان میں سے بعض اسباب موجود نہ ھوں تو مذکورہ مخلوق کی پیدائش محال ھوجاتی ھے۔

اس نظریہ میں تحقیق اور جستجو کے بعد ھمارے لئے مندرجہ ذیل دوامر واضح ھو تے ھیں:

۱۔اگر ھم ایک مخلوق (معلول) کو مجموعی علت تامہ اور اسی طرح علت تامہ کے اجزاء کے ساتھ پرکھیں تو علت تامہ کے ساتھ اس کی نسبت (رشتہ) ”نسبت ضرورت“ (جبر) پر ھوگی اور علت تامہ کے تمام اجزاء کو (جن کو علت ناقصہ کھا جاتا ھے) کے ساتھ اس کی نسبت ”نسبت امکان“ کی ھوگی کیونکہ ھر علت کا ایک جزء ، معلول کی نسبت صرف امکانی وجود رکھتا ھے نہ کہ ضرورت وجود (جبری پیدائش) ۔

بنابر ایں یہ کائنات جس کے اجزاء کا ھر مظھر اپنی پیدائش میں اپنی ”علت تامہ“ کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا ھے اور اس کی پیدائش میں ایک ضرورت کار فرما ھے ۔ اس کا جسم ایک قسم کے قطعی اور ضروری حوادث پر منحصر ھے لھذا اس کے اجزاء میں ”صفت امکان“ (وہ مظاھر جو اپنی علت کے علاوہ کسی اور علت کے ساتھ نسبت اور تعلق رکھتے ھیں) محفوظ رھتی ھے۔

قرآن کریم اپنی تعلیمات میں ضرورت (جبر) کے اس حکم کو قضائے الھی کھتا ھے کیونکہ یھی جبر اور ضرورت کائنات کے پیدا کرنے اور بنانے والے کی ذات سے سرچشمہ حاصل کرتی ھے۔ اسی وجہ سے حکم اور ”یقینی قضا“ ھے جس میں کسی قسم کی خلاف ورزی یا تبدیلی ممکن نھیں ھے اور یہ بالکل عادلانہ ھے اور اس میں کسی قسم کا امتیاز یا استثناء موجود نھیں ھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ھے:" اَ لَا لَہ الْخَلقُ وَ الاَمْرُ"(۶)

اور پھر فرماتا ھے: " وَ اِذَا قَضیٰٓ اَمْراً فَاِنَّمَا یَقُول لَہ کُنْ فَیَکُونُ۔"(۷)

اور پھر فرماتا ھے:" وَ اللهُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہ"(۸)

۲۔ علت کا ھر جزء اپنے معلول (نتیجے) کے مناسب اور مطابق ھوتا ھے اور معلول کی پیدائش بھی علت کے تمام نمونوں کے مطابق ھوتی ھے جو علت تامہ نے اس کے لئے معین کر رکھے ھیں مثلاً وہ وجوھات یا علل جو انسان کے لئے سانس لینے کا باعث ھوتے ھیں وہ مکمل تنفس کو پیدا نھیں کرتے بلکہ منہ اور ناک کے ارد گرد ھوا کا ایک معین اندازہ، معینہ مکان و زمان اور شکل و صورت میں سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں کے اندر بھیجتے ھیں اور وہ وجوھات اور علل جو دیکھنے کی قوت کو انسان کے لئے پیدا کرتے ھیں (اور انسان بھی انھی کا ایک جزء ھے) قوتِ دید کو بلا قید و شرط ثابت نھیں کرتے بلکہ اس نظر یا دید کو پیدا کرتے ھیں جو ان ذرائع کے سبب ھر طرح سے ایک خاص اندازے کے مطابق معین کی گئی ھے۔ یہ حقیقت، کائنات کے تمام مظھر اور ان حوادث و واقعات میں بغیر کسی خلاف ورزی کے جاری ھے جو اس کائنات میں رونما ھوتے ھیں۔

قرآن مجید نے اپنی تعلیمات میں اس حقیقت کو ”قدر“ کھا ھے اور خدائے تعالیٰ سے منسوب کیا ھے جو تمام کائنات کا سر چشمہ ھے جیسا کہ فرماتا ھے : انا کل شئی خلقنا ہ بقدر (۹) اور پھر فرماتا ھے : و ان من شئی الا عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم  (۱۰)اور چونکہ قضائے الٰھی کے مطابق اس نظام کا ئنات میں ظاھر ھونے والا ھر حادثہ، واقعہ یا مخلوق ضروری الوجود اور ناقابل اجتناب ھے، اسی طرح ”قدر“ کے مطابق ھر پیدا ھونے والا حادثہ یا مخلوق اپنے اس معینہ اندازے کی ھر گز خلاف ورزی نھیں کرتا جو خدائے تعالیٰ نے اس کے لئے معین کر رکھا ھے۔

انسان اور اختیار

انسان جو بھی کام کرتا ھے وہ اس کائنات کا مظھر ھے اور کائنات کے تمام مظاھر مخلوقات کی طرح اس کی پیدائش بھی ایک علت تامہ پر منحصر ھے لھذا اس امر کے پیش نظر کہ انسان بھی کائنات کا ایک جزء ھے اور دنیا کے تمام دوسرے اجزاء کے ساتھ جسمانی تعلق رکھتا ھے پس اس کے فعل اور کام میں دوسرے اجزاء کو بے اثر نھیں سمجھا جا سکتا۔

مثلاًانسان جوروٹی کھاتا ھے اس کام کو کرنے کے لئے جیساکہ ھاتھ ،منہ،علم،طاقت اور ارادے کا ھونا ضروری ھے اسی طرح روٹی کا وجود اور اس کے دسترس میں ھونا، رکاوٹ کا نہ ھونااور ایسے ھی دوسرے مکانی اور زمانی شرائط بھی اس عمل کے لئے ضروری ھیں اور اگر ان تمام شرائط میں سے ایک بھی شرط اور ذریعہ موجود نہ ھوتو فعل یاعمل کا ھونا محال ھو جائے گا اور ان تمام شرائط اور ذرائع کی تکمیل (علت تامہ کے اثبات کے لئے ) اس فعل اور عمل کے لئے ضروری ھیں۔

 جیسا کہ پھلے گزر چکا ھے کہ علت تامہ کے مجموعی اجزاء کی نسبت، فعل کا ضروری ھونا، انسان کے ساتھ فعل کے منسوب ھونے کے منافی نھیں ھے کیونکہ خود انسان علت تامہ کے اجزاء میں سے ایک ھے لھذا ”علت امکان“ ھے۔

انسان، فعل کا امکان یا اختیار رکھتا ھے اور تمام اجزائے علت کی نسبت فعل کا ضروری ھونا، اس کے بعض اجزاء کی نسبت، جو انسان ھے، فعل کے ضروری ھونے کا باعث نھیں ھوگا۔ انسان کا سادہ اور بے آلائش و پاک ادراک بھی اس نظرئے کی تائید کرتا ھے، کیونکہ ھم دیکھتے ھیں کہ انسان اپنی خدا داد فطرت اور قابلیت کے ساتھ، کھانے، پینے، آنے، جانے ، صحت ، بیماری ،بڑائی، چھوٹائی اور بلندی و پستی کے درمیان فرق کو جانتا ھے، اور پھلی قسم جو انسان کے ارادے اور خواھش کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ھے، انسان کے اختیار میں سمجھی جاتی ھے اور اس کی تعریف یا برائی بھی کی جاسکتی ھے بر خلاف دوسری قسم کے کہ اس میں انسان پر کسی قسم کا کوئی فرض عائد نھیں ھوتا۔

اسلام کے آغاز سے ھی اھل سنت مذھب میں انسانی افعال کے بارے میں دو مذاھب یا نظریے مشھور تھے۔ ایک یہ کہ انسان کے افعال خدا کی مرضی کے بغیر انجام نھیں پاتے اور ان کی خلاف ورزی ممکن نھیں ھے۔ لھذاانسان اپنے افعال یا اعمال میں مجبور ھے اور انسانی اختیار و ارادے کی کوئی اھمیت نھیں ھے ۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ انسان اپنے افعال اور اعمال میں خود مختارھے اور انسانی افعال کو خدائی ارادے سے متعلق نہ ھوتے ھوئے ”قدر“ کے دائرے سے خارج سمجھتے ھیں لیکن اھل سنت کی تعلیم کے مطابق جو قرآن کی ظاھری تعلیم کے ساتھ پوری مطابقت رکھتی ھے، انسان اپنے افعال میں خود مختار ھے، لیکن آزاد نھیں ھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اختیار کے ذریعے انسانی فعل کو جاری کیا ھے اور ھماری پچھلی تعبیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے علت تامہ کے تمام اجزاء کے ذریعے جن میں سے ایک انسان کا ارادہ اور اختیار ھے، فعل کو جاری کیا ھے اور اس کو لازمی قرار دیا ھے جس کے نتیجے میں خدا کی یہ خواھش فعل کو ضروری اور انسان کو اس میں خود مختار بنا دیتی ھے یعنی فعل اپنی علت کے تمام اجزاء کی نسبت ضروری ھو جاتا ھے اور اجزاء میں سے ایک کی نسبت، جو انسان ھے، اختیاری اور ممکن ھو جاتا ھے۔

امام ششم (ع) فرماتے ھیں:”نہ جبر ھے اور نہ ھی قدربلکہ ان دونوں کے درمیان میں ایک امر ھے“ (لا جبر و لا تفویض بل الامر بین الامرین )۔(۱۱)

حوالے

۱۔۔سورہٴ توحید /۳۔

۲۔ سورہ ٴ روم /۵۴۔

۳۔ سورہ ٴ بقرہ /۲۲۵۔

۴۔ سورہٴ توبہ / ۲۔

۵۔سورہ ٴ شوریٰ/۱۱۔

۶۔سورہٴ اعراف /۵۴۔

۷۔ سورہٴ بقرہ / ۱۷۷۔

۸۔ سورہٴ رعد / ۴۱۔

۹۔ سورہٴ قمر / ۴۹۔

۱۰۔ سورہٴ حجر /۲۱۔

۱۱۔ بحار الانوار ج/ ۳ ص/۵۔

Add comment


Security code
Refresh