www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

الله تبارك و تعاليٰ ايك ھے اور اس كا كوئي شريك نھيں ھے اس نے دنيا اور دنيا كي تمام چيزوں كو پيدا كيا ھے، اس كے علاوہ كوئي خالق اور پيدا كرنے والا نھيں اور نہ ھي اس نے كسي كي مدد سے خلق كيا ھے اسي سلسلہ ميں چند دليلوں كو قارئين كي خدمت ميں پيش كيا جا رھاھے ۔

 پھلي دليل

 اگر دو خدا (يا اس سے زيادہ) ھوتے تو چند حالتيں ممكن ھيں ۔

پھلي حالت يہ كہ دونوں نے (دنيا) موجودات كو مستقل عليحدہ عليحدہ خلق كيا ھے، دوسري حالت يہ كہ ايك دوسرے كي مدد سے دنيا كو خلق كيا ھے، تيسري حالت يہ كہ دونوں نے دنيا كو دو حصوں ميں خلق كيا ھے ليكن ايك دوسرے كي خدائي ميں دخالت كرتے ھيں ۔

 پھلي حالت

 دونوں نے دنيا كو مستقل عليحدہ عليحدہ خلق كيا ھے (يعني ھر چيز دو دفعہ خلق ھوئي ھے) اس كا باطل ھونا واضح ھے ۔

الف) چونكہ ھر ايك شخص ميں ايك وجود سے زيادہ وجود نھيں پايا جاتا ھے اس لئے ايك سے زيادہ خدا كا تصور نھيں ھے ۔

ب) ايك خدا نے كسي چيز كو پيدا كيا اور پھر دوسرا خدا اگر دو بارہ اس كو خلق كرے اس كو علماء كي اصطلاح ميں تحصيل حاصل كھتے ھيں، (كہ ايك چيز موجود ھو پھر اس كو حاصل كيا جائے) ۔

ج) يا حكماء اور فلاسفر كي اصطلاح ميں ايك معلول (موجود) ميں دو علت تامہ اثر گذاري كريں محال ھے يعني ايك موجود كو خلق كرنے ميں دو علت ايك وقت ميں كار فرما ھو محال و باطل ھے۔

 دوسري حالت

 ان دونوں خدا نے ايك دوسرے كي مدد (شركت) سے موجودات كو خلق كيا ھے، يعني ھر موجود دو خدا كي مخلوق ھو اور دونوں آدھے آدھے برابر كے شريك ھوں يہ احتمال بھي باطل ھے ۔

الف: دونوںخدا ايك دوسرے كے محتاج تھے يعني تنھاموجودات كو خلق كرنے سے عاجز و مجبور تھے تو يہ بحث پھلے گذرچكي ھے كہ خدا عاجز و محتاج نھيں ھے ۔

ھو سكتا ھے كوئي كھے دونوں خلق پر قادر ھيں ليكن پھر بھي دونوں شريك ھو كر موجودات كو وجود ميں لاتے ھيں يہ بھي باطل ھے كيونكہ دو فاعل كسي كام پر قادر ھوتے ھوئے پھر بھي تنھاكسي كام كو انجام نہ ديں اس ميں چند صورتيں ممكن ھيں:

الف) يا دونوں بخل كر رھے ھيں جو كہ نصف نصف پر كام كرتے ھيں يعني چاھتے ھيں كہ زيادہ خرچ نہ ھو ۔

ب) يا دونوں آپس ميں ڈرتے ھيں اور اس ڈر كي بنا پر كم خرچ كر رھے ھيں۔

ج) يا دونوں مجبوراً آپس ميں شريك ھيں ۔

جواب يہ ھے:

الف) خداوند عالم محتاج و نياز مند نھيں ھے ۔

ب) دونوں دنيا كے خلق كرنے كي مصلحت اور اس كا علم ركھتے ھيں اور اس كي پيدائش پر قدرت بھي ركھتے ھيں اور ان كي قدرت و علم عين ذات بھي ھے، اور اسي كے ساتھ بخل و كنجوسي بھي پائي جاتي ھے جو خدا كي ذات كے لئے اور مناسب نھيں ھے۔

ج) كوئي كام ايك دوسرے كے تحت خوف سے كرتے ھيں تو يہ، شانِ خدا كے بر خلاف ھے كيونكہ جو خدا ھوتا ھے وہ متاٴثر و عاجز نھيں ھو سكتا ھے ۔

د) دونوں عالم و قادر اور بخيل و عاجز نھيں ھيں تو چاھے موجود ميں فقط ايك علت ھو اپني مرضي كے مطابق كوئي ايك دنيا اور بنائيں ۔

ان باتوں سے سمجھ ميں آتا ھے دونوں كو چاھيے اپني قدرت و علم كے تحت دو دنيا بنائيں اور اس سے پھلے ثابت ھوچكا ھے كہ ايك معلول ميں دو علت كااثر اندازھونا باطل و محال ھے ۔

 تيسري حالت

 دونوں (مفروض) خدا دنيا كو نصف نصف تقسيم كر كے اپنے اپنے حصہ ميں مستقلا موجودات كو خلق كرے (اورمثل بادشاھوں كے اپنے حصہ ميں حاكم بنے رھيں، ايسا فرض ھي باطل ھے اس لئے كہ دو خدا نھيں ھو سكتے اور نہ دنيا كے دو حصے ھوسكتے ھيں) اور ايك دوسرے كے حصے ميں دخالت كرے يہ احتمال بھي باطل ھے، اس لئے كہ ھر وہ فرضي خدا آپس ميں مستقلاً ايك دوسرے كے حصہ ميں دخالت (خلق) كي صلاحيت ركھتے ھيں تو چاھيے كہ جدا اور اسے الگ خلق كرے ورنہ اس كا لازمہ يہ ھوگا كہ دو علت ايك معلول ميں موثرھوگى، جب كہ اس كا بطلان پھلے گذر گيا ھے يا اگرصلاحيت و استعداد نھيں ركھتا يا خلق پر قادر نھيں ھے يا كنجوسي كر رھاھے تو وہ ناقص ھے اور ناقص، خدائي كي صلاحيت نھيں ركھتا ھے ۔

 دوسري دليل

 اگر خدا كسي موجود كو پيدا كرے اور دوسرا اس موجود كو تباہ كرنے كا ارادہ كرے تو كيا پھلا خدا اپني خلق كي ھوئي چيز كا دفاع كر سكتا ھے؟ اور دوسرے كے شر سے اس كو محفوظ ركھ سكتا ھے؟ اگر پھلا اپني موجودہ چيز كي حفاظت نھيں كر سكتا تو عاجز ھے اور عاجز خدا نھيں ھو سكتا، اور اگر يہ دفاع كر سكتا ھے تو دوسرا خدا نھيں ھو سكتا اس لئے كہ عاجز ھے اور عاجز خدا نھيں ھو سكتا ھے ۔

 نتيجہ

 ھم خدا كو ايك اور لا شريك موجودات كو خلق كرنے والا جانتے ھيں اور اس كے علاوہ جو بھي ھو اس كو ناتوان، مجبور و عاجز اور مخلوق شمار كرتے ھيں، ھم فقط اللہ تبارك و تعاليٰ كو لائق عبادت جانتے ھيں كسي دوسرے كے لئے سجدہ نھيں كرتے اور نہ ھي كسي اور كے لئے جھكتے ھيں ھم آزاد ھيں اپني آزادي كو كسي كے حوالے نھيں كرتے اور كسي كي بے حد و انتھاتعريف نھيں كرتے اور چاپلوسي كو عيب جانتے ھيں ۔

ھم انبياء اور ائمہ (ع) كا احترام اور ان كے بيان كئے گئے احكام كي پيروي اس لئے كرتے ھيں كہ خدا نے ان كو واجب الاحترام اور واجب الاطاعت قرار ديا ھے، يعني ان كے احترام و اتباع كو واجب قرار ديا ھے، ان كے احكام و قوانين ھميشہ خدا كے احكام كي روشني ميں رھے ھيں اور ان لوگوں نے كبھي بھي زيادتي اور اپنے حدود سے تجاوز نھيں كيا ھے، ھم انبياء و ائمہ (ع) كے مرقد پر جاتے ھيں اور ان كے مزار و روضہ كا احترام كرتے ھيں، ليكن يہ پرستش اور ان كي بندگي كے عنوان سے نھيں بلكہ خدا كي بارگاہ ميں بلند مقام اور پاكيزگي و بزرگي كا خيال ركھكران كي تكريم كرتے ھيں اور ان كے روضہ كي تعمير اور ان كي فداكاري و جانثاري و قربانيوں كي قدر داني كرتے ھيں، اور دنيا كو بتانا چاھتے ھيں كہ جو شخص بھي اللہ كے راستے ميں زحمت و مشقت كو برداشت كرے اور اس كے احكام و پيغام و ارشاد كو لوگوں تك پھنچائے، تو نہ اس دنيا ميں بھلايا جائے گا اور نہ آخرت ميں، ھم ان مقدس اللہ كے بندوں،پاك سيرت نمائندوں اور اس كے خاص چاھنے والوں كے حرم ميں خداوند ذوالجلال كي بارگاہ ميں اپنے گناھوں كي بخشش اور اپني حاجت كي قبوليت اور رازونياز كرتے ھيں، اور اپني دعا و مناجات ميں ان مقدس بزرگوں كي ارواح طيباہ كو خدا كے حضور ميں واسطہ و وسيلہ قرار ديتے ھيں ۔

(ماخوذ از کتاب سبھی کے جاننے کی باتیں،آیت اللہ ابراہیم امینی)

Add comment


Security code
Refresh