www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

صفات فعل

صفات (جیسا کہ پھلے بیان ھوچکا ھے) مختلف اقسام میں تقسیم ھوتی ھیں یعنی ”صفات ذات“ اور ”صفات فعل“۔

اس کی وضاحت یوں ھے کہ کبھی ایک صفت خود موصوف کے ساتھ قائم ھوتی ھے، مثلاً زندگی، علم اور طاقت جو ایک زندہ، دانا اور تواناانسان کے ساتھ قائم ھیں اور ھم صرف انسان کو ھی ان کے ساتھ متصف فرض کرسکتے ھیں، اگر چہ اس کے بغیر کسی اور چیز کو فرض بھی نہ کریں اور کبھی کبھی صرف موصوف کے ساتھ ھی قائم نھیں ھے، کیونکہ اگر موصوف کو ان صفات کے ساتھ متصف کریں تو اس وقت ھمیں پھلے بعض دوسری چیزوں کو ثابت کرنے کی ضرورت پیش آتی ھے مثلاً لکھنا، بولنا اور چاھنا وغیرہ، کیونکہ انسان اس وقت تک ادیب نھیں بن سکتا جب تک دوات، قلم اور کاغذ کو فرض نہ کر لیا جائے اور اسی وقت تقریر کر سکتا ھے جب اس کے لئے سننے والے کو فرض کر لیا جائے اور اس وقت کسی چیز کو چاھتا ھے جب چاھنے والی چیز موجود ھو اور صرف ان مقامات کو ثابت کرنے کے لئے انسان کا فرض ھی کافی نھیں ھے۔

یھاں واضح ھوجاتا ھے کہ خداوند تعالیٰ کی حقیقی صفات (جیسا کہ پھلے ذکر ھوا  ھے) عین ذات ھیں اور صرف پھلی قسم کی ھیں، لیکن دوسری قسم کی صفات جن کو ثابت کرنے کے لئے بعض دوسری چیزوں کا سھارا لینا ضروری ھے۔خدا کے سوا ھر چیز مخلوق ھے اور خدا کے سامنے  پیدا ھوئی ھیں لھذا ھر چیز اپنی پیدائش کے ساتھ جو صفات اپنے ساتھ لاتی ھے، ان کو ”صفت ذات“ اور خدائے تعالیٰ کی مانند ”عین ذات“ نھیں کھا جا سکتا۔

وہ صفات جو خدائے تعالیٰ کے لئے کائنات کی پیدائش کے بعد ثابت اور منسوب ھوتی ھیں مثلاً آفریدگار، کردگار، زندہ کرنے والا، مارنے والا اور روزی دینے والا وغیرہ عین ذات نھیں ھیں بلکہ ذات کے علاوہ ھیں اور ان کو ”صفت فعل“ کھا جاتا ھے۔

صفت فعل کا مطلب یہ ھے کہ فعل کے ثابت اور عملی ھونے کے بعد، صفت کے معنی فعل سے حاصل کئے جاتے ھیں نہ کہ ذات سے مثلاً آفریدگار جو کائنات اور مخلوقات کی پیدائش ثابت ھو جانے کے بعد خدا کے آفریدگار (پیدا کرنے والا) ھونے کے معنی اس سے ماخوذ ھوتے ھیں اور یہ معنی صرف مخلوقات کے ساتھ قائم ھیں نہ کہ خدا وند پاک کی مقدس ذات کے ساتھ کیونکہ اگر ایسا ھو تو ذات میں بھی صفت کے ساتھ ساتھ تبدیلی واقع ھوجائے گی۔

شیعہ، دو صفات یعنی ”ارادہ“ اور ”کلام“ اور ان سے حاصل ھونے والے معانی کو صفتِ فعل جانتے ھیں۔ کیونکہ ارادہ چاھنے کے معنی میں ھے اور کلام کا مطلب ھے ”الفاظ کا انکشاف“ اور علمائے اھل سنت ان صفات کو علم کے معنی میں لیتے ھیں اور ان کو ”صفت ذات“ کھتے ھیں۔

قضا و قدر

کائنات میں علت اور سبب کا قانون بغیر کسی استثناء کے حکم فرما اور جاری ھے۔ اس قانون کے مطابق اس جھان کا ھر مظھر یا مخلوق اپنی پیدائش میں ایک سبب یا علت پر منحصر ھے ۔ فرض کریں اگر یہ سبھی اسباب پورے ھو جائیں (جس کو علت تامہ کھتے ھیں) تو مخلوق کی پیدائش (معلول و مفروض) ضروری یا جبری ھوجاتی ھے اور اگر فرض کریں کہ یہ سب یا ان میں سے بعض اسباب موجود نہ ھوں تو مذکورہ مخلوق کی پیدائش محال ھوجاتی ھے۔

اس نظریہ میں تحقیق اور جستجو کے بعد ھمارے لئے مندرجہ ذیل دوامر واضح ھو تے ھیں:

۱۔اگر ھم ایک مخلوق (معلول) کو مجموعی علت تامہ اور اسی طرح علت تامہ کے اجزاء کے ساتھ پرکھیں تو علت تامہ کے ساتھ اس کی نسبت (رشتہ) ”نسبت ضرورت“ (جبر) پر ھوگی اور علت تامہ کے تمام اجزاء کو (جن کو علت ناقصہ کھا جاتا ھے) کے ساتھ اس کی نسبت ”نسبت امکان“ کی ھوگی کیونکہ ھر علت کا ایک جزء ، معلول کی نسبت صرف امکانی وجود رکھتا ھے نہ کہ ضرورت وجود (جبری پیدائش) ۔

بنابر ایں یہ کائنات جس کے اجزاء کا ھر مظھر اپنی پیدائش میں اپنی ”علت تامہ“ کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا ھے اور اس کی پیدائش میں ایک ضرورت کار فرما ھے ۔ اس کا جسم ایک قسم کے قطعی اور ضروری حوادث پر منحصر ھے لھذا اس کے اجزاء میں ”صفت امکان“ (وہ مظاھر جو اپنی علت کے علاوہ کسی اور علت کے ساتھ نسبت اور تعلق رکھتے ھیں) محفوظ رھتی ھے۔

قرآن کریم اپنی تعلیمات میں ضرورت (جبر) کے اس حکم کو قضائے الھی کھتا ھے کیونکہ یھی جبر اور ضرورت کائنات کے پیدا کرنے اور بنانے والے کی ذات سے سرچشمہ حاصل کرتی ھے۔ اسی وجہ سے حکم اور ”یقینی قضا“ ھے جس میں کسی قسم کی خلاف ورزی یا تبدیلی ممکن نھیں ھے اور یہ بالکل عادلانہ ھے اور اس میں کسی قسم کا امتیاز یا استثناء موجود نھیں ھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ھے:" اَ لَا لَہ الْخَلقُ وَ الاَمْرُ"(۶)

اور پھر فرماتا ھے: " وَ اِذَا قَضیٰٓ اَمْراً فَاِنَّمَا یَقُول لَہ کُنْ فَیَکُونُ۔"(۷)

اور پھر فرماتا ھے:" وَ اللهُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہ"(۸)

۲۔ علت کا ھر جزء اپنے معلول (نتیجے) کے مناسب اور مطابق ھوتا ھے اور معلول کی پیدائش بھی علت کے تمام نمونوں کے مطابق ھوتی ھے جو علت تامہ نے اس کے لئے معین کر رکھے ھیں مثلاً وہ وجوھات یا علل جو انسان کے لئے سانس لینے کا باعث ھوتے ھیں وہ مکمل تنفس کو پیدا نھیں کرتے بلکہ منہ اور ناک کے ارد گرد ھوا کا ایک معین اندازہ، معینہ مکان و زمان اور شکل و صورت میں سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں کے اندر بھیجتے ھیں اور وہ وجوھات اور علل جو دیکھنے کی قوت کو انسان کے لئے پیدا کرتے ھیں (اور انسان بھی انھی کا ایک جزء ھے) قوتِ دید کو بلا قید و شرط ثابت نھیں کرتے بلکہ اس نظر یا دید کو پیدا کرتے ھیں جو ان ذرائع کے سبب ھر طرح سے ایک خاص اندازے کے مطابق معین کی گئی ھے۔ یہ حقیقت، کائنات کے تمام مظھر اور ان حوادث و واقعات میں بغیر کسی خلاف ورزی کے جاری ھے جو اس کائنات میں رونما ھوتے ھیں۔

قرآن مجید نے اپنی تعلیمات میں اس حقیقت کو ”قدر“ کھا ھے اور خدائے تعالیٰ سے منسوب کیا ھے جو تمام کائنات کا سر چشمہ ھے جیسا کہ فرماتا ھے : انا کل شئی خلقنا ہ بقدر (۹) اور پھر فرماتا ھے : و ان من شئی الا عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم  (۱۰)اور چونکہ قضائے الٰھی کے مطابق اس نظام کا ئنات میں ظاھر ھونے والا ھر حادثہ، واقعہ یا مخلوق ضروری الوجود اور ناقابل اجتناب ھے، اسی طرح ”قدر“ کے مطابق ھر پیدا ھونے والا حادثہ یا مخلوق اپنے اس معینہ اندازے کی ھر گز خلاف ورزی نھیں کرتا جو خدائے تعالیٰ نے اس کے لئے معین کر رکھا ھے۔

انسان اور اختیار

انسان جو بھی کام کرتا ھے وہ اس کائنات کا مظھر ھے اور کائنات کے تمام مظاھر مخلوقات کی طرح اس کی پیدائش بھی ایک علت تامہ پر منحصر ھے لھذا اس امر کے پیش نظر کہ انسان بھی کائنات کا ایک جزء ھے اور دنیا کے تمام دوسرے اجزاء کے ساتھ جسمانی تعلق رکھتا ھے پس اس کے فعل اور کام میں دوسرے اجزاء کو بے اثر نھیں سمجھا جا سکتا۔

مثلاًانسان جوروٹی کھاتا ھے اس کام کو کرنے کے لئے جیساکہ ھاتھ ،منہ،علم،طاقت اور ارادے کا ھونا ضروری ھے اسی طرح روٹی کا وجود اور اس کے دسترس میں ھونا، رکاوٹ کا نہ ھونااور ایسے ھی دوسرے مکانی اور زمانی شرائط بھی اس عمل کے لئے ضروری ھیں اور اگر ان تمام شرائط میں سے ایک بھی شرط اور ذریعہ موجود نہ ھوتو فعل یاعمل کا ھونا محال ھو جائے گا اور ان تمام شرائط اور ذرائع کی تکمیل (علت تامہ کے اثبات کے لئے ) اس فعل اور عمل کے لئے ضروری ھیں۔

 جیسا کہ پھلے گزر چکا ھے کہ علت تامہ کے مجموعی اجزاء کی نسبت، فعل کا ضروری ھونا، انسان کے ساتھ فعل کے منسوب ھونے کے منافی نھیں ھے کیونکہ خود انسان علت تامہ کے اجزاء میں سے ایک ھے لھذا ”علت امکان“ ھے۔

انسان، فعل کا امکان یا اختیار رکھتا ھے اور تمام اجزائے علت کی نسبت فعل کا ضروری ھونا، اس کے بعض اجزاء کی نسبت، جو انسان ھے، فعل کے ضروری ھونے کا باعث نھیں ھوگا۔ انسان کا سادہ اور بے آلائش و پاک ادراک بھی اس نظرئے کی تائید کرتا ھے، کیونکہ ھم دیکھتے ھیں کہ انسان اپنی خدا داد فطرت اور قابلیت کے ساتھ، کھانے، پینے، آنے، جانے ، صحت ، بیماری ،بڑائی، چھوٹائی اور بلندی و پستی کے درمیان فرق کو جانتا ھے، اور پھلی قسم جو انسان کے ارادے اور خواھش کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ھے، انسان کے اختیار میں سمجھی جاتی ھے اور اس کی تعریف یا برائی بھی کی جاسکتی ھے بر خلاف دوسری قسم کے کہ اس میں انسان پر کسی قسم کا کوئی فرض عائد نھیں ھوتا۔

اسلام کے آغاز سے ھی اھل سنت مذھب میں انسانی افعال کے بارے میں دو مذاھب یا نظریے مشھور تھے۔ ایک یہ کہ انسان کے افعال خدا کی مرضی کے بغیر انجام نھیں پاتے اور ان کی خلاف ورزی ممکن نھیں ھے۔ لھذاانسان اپنے افعال یا اعمال میں مجبور ھے اور انسانی اختیار و ارادے کی کوئی اھمیت نھیں ھے ۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ انسان اپنے افعال اور اعمال میں خود مختارھے اور انسانی افعال کو خدائی ارادے سے متعلق نہ ھوتے ھوئے ”قدر“ کے دائرے سے خارج سمجھتے ھیں لیکن اھل سنت کی تعلیم کے مطابق جو قرآن کی ظاھری تعلیم کے ساتھ پوری مطابقت رکھتی ھے، انسان اپنے افعال میں خود مختار ھے، لیکن آزاد نھیں ھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اختیار کے ذریعے انسانی فعل کو جاری کیا ھے اور ھماری پچھلی تعبیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے علت تامہ کے تمام اجزاء کے ذریعے جن میں سے ایک انسان کا ارادہ اور اختیار ھے، فعل کو جاری کیا ھے اور اس کو لازمی قرار دیا ھے جس کے نتیجے میں خدا کی یہ خواھش فعل کو ضروری اور انسان کو اس میں خود مختار بنا دیتی ھے یعنی فعل اپنی علت کے تمام اجزاء کی نسبت ضروری ھو جاتا ھے اور اجزاء میں سے ایک کی نسبت، جو انسان ھے، اختیاری اور ممکن ھو جاتا ھے۔

امام ششم (ع) فرماتے ھیں:”نہ جبر ھے اور نہ ھی قدربلکہ ان دونوں کے درمیان میں ایک امر ھے“ (لا جبر و لا تفویض بل الامر بین الامرین )۔(۱۱)

حوالے

۱۔۔سورہٴ توحید /۳۔

۲۔ سورہ ٴ روم /۵۴۔

۳۔ سورہ ٴ بقرہ /۲۲۵۔

۴۔ سورہٴ توبہ / ۲۔

۵۔سورہ ٴ شوریٰ/۱۱۔

۶۔سورہٴ اعراف /۵۴۔

۷۔ سورہٴ بقرہ / ۱۷۷۔

۸۔ سورہٴ رعد / ۴۱۔

۹۔ سورہٴ قمر / ۴۹۔

۱۰۔ سورہٴ حجر /۲۱۔

۱۱۔ بحار الانوار ج/ ۳ ص/۵۔

Add comment


Security code
Refresh