www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

خدا کی وحدانیت

فرض کریں کائنات کی حقیقتوں میں سے ھر حقیقت محدود ھے یعنی فرض اور تقدیر (سبب اور شرط) کے ساتھ ھر چیز زندہ ھے اور فرض و تقدیر (سبب و شرط) کے نہ ھونے کی بناء پر منفی ھے یعنی زندہ نھیں ھے۔ در اصل ھر چیز کا وجود ایک حد کے اندر ھے اور اس حد کے باھر کچھ بھی نھیں ھے۔ صرف خدا کی ذات ھی ھے جس کے لئے کوئی حد فرض نھیں کی جاسکتی، کیونکہ اس کی حقیقت مطلق ھے اور ھمیشہ اور ھر جگہ موجود ھے لھذا کسی سبب اور شرط کے ساتھ اس کو مرتبط نھیں کیا جاسکتا اور نہ ھی اس کی ذات کسی علت اور شرط کی محتاج ھے۔

واضح ھے کہ لامتناھی اور لا محدود چیز کے لئے کوئی عدد معین نھیں کیا جا سکتاکیونکہ ھر دوسری چیز جو پھلی چیز کے لئے فرض کے طور پر لائی جا ئے گی اس پھلی چیز کے علاوہ ھوگی۔ پس نتیجہ یہ ھوگا کہ دونوں چیزیں محدود اور لامتناھی ھوں گی اور ایک دوسرے کی حدود اور حقیقت کے برابر ھو جائیں گی۔ مثال کے طور پر اگر ایک حجم کو لا محدود و لا متناھی فرض کریں تو اس کے برابر کسی دوسرے حجم کو فرض نھیں کرسکتے اور اگر فرض کریں گے تو دوسرا حجم پھلے حجم کے برابر اور مانند ھو جائے گا۔ پس خدائے تعالیٰ یکتا، یگانہ اور بے مثال ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے۔

ذات اور صفات

اگر ایک انسان کا عقلی لحاظ سے تجزیہ کریں تو معلوم ھوگا کہ اس کی ایک ذات ھوتی ھے اور یہ ذات اس کی ذاتی انسانیت یا شخصیت ھی ھے۔ اس کے ساتھ وہ صفات بھی رکھتا ھے جس سے اس کی ذات (شخصیت) کو پھچانا جاتا ھے۔ مثلاً وہ فلاں کا بیٹا ھے اور اس کا باپ فلاں شخص ھے۔ وہ دانا ھے، طاقتور ھے، اس کا قد اونچا ھے، وہ خوبصورت ھے یا ان صفات کے برعکس ھے۔

اگر چہ ان صفات میں سے بعض صفات مثلاً صفت اول اور دوم ھر گز ذات سے جدا نھیں ھیں اور بعض دوسری صفات مثلاً دانائی اور طاقت میں تبدیلی کا امکان موجود ھے، لیکن بھر حال سب کی سب صفات اس کی ذات کے علاوہ ھیں اور ھر صفت میں فرق ھے۔ ذات اور صفت یا تمام صفات میں فرق بھترین ثبوت اور دلیل ھے کہ وہ ذات جس کی صفت موجود ھو اور وہ صفت جو ذات کا تعارف کراتی ھو، دونوں محدود اور متناھی ھیں کیونکہ اگر ذات لا محدود اور لامتناھی ھو تو صفات بھی ویسی ھی ھوں گی اور تمام صفات ایک دوسرے کے برابر ھوں گی اور آخر کار سب کی سب ایک ھو جائیں گی، جیسا کہ فرض کیا تھا کہ انسان کی ذات طاقت تھی اور اسی طرح طاقت، عقلمندی ،دانائی بلندی اور خوبصورتی تمام کی تمام ایک دوسرے کے مانند تھیں۔ لھذا مجموعی طور پر ان سب کا صرف ایک ھی مطلب تھا یعنی انسان۔

گزشتہ بیان سے واضح ھوجاتا ھے کہ ذات باری تعالیٰ عزّ و جلّ کے لئے صفت کا وہ مفھوم ھر گز نھیں ھے جس کا ھم نے پھلے تجزیہ کیا ھے کیونکہ خدا کے لئے کوئی صفت ثابت نھیں کی جاسکتی۔ اس لئے کہ صفت حدود کے بغیر نھیں ھوتی اور خدا کی ذات پاک تمام  حدود سے بالاتر ھے حتی کہ یھی پاکی در اصل خدا کی صفت کو ثابت کرتی ھے۔

 خدائی صفات کے معنی

جھان آفرینش (فطرت اور کائنات) میں بے انتھاکمالات پائے جاتےھیں جو صفات کی شکل میں ظاھر ھوئے ھیں۔ یہ مثبت صفات ھیں جو ھر جگہ ظاھر ھوتے ھیں اور اپنے وجود کو کامل اور مکمل کرتے ھوئے اس کو زیادہ سے زیادہ وجودی اھمیت کے قابل بناتی ھیں جیسا کہ ایک زندہ چیز مثلاً انسان کا مقابلہ ایک بے جان اور بے روح چیز مثلاً پتھر کے ساتھ کریں تو واضح ھوجاتا ھے۔

اس میں شک نھیں کہ ان تمام کمالات و صفات کو خدائے تعالیٰ نے پیدا کیا ھے اور اسی نے یہ صفات دوسری چیزوں کو دئے ھیں ۔ اگر خود خدا میں یہ صفات و کمالات موجود نہ ھوتے تو وہ دوسروں کو ھرگز نہ دیتا یا نھیں دے سکتا تھا اور نہ ھی ان کی تکمیل کرتا۔ لھذا عقل سلیم کے مطابق یوں کھنا چاھئے کہ خدائے تعالیٰ علم و قدرت رکھتا ھے اور ھر حقیقی کمال اسی کے پاس ھے۔

اس کے علاوہ جیسا کہ پھلے گزر چکا ھے علم اور طاقت کے آثار، اور ان کے آثار کے نتیجے میں کائنات کے نظام کی زندگی بھی ظاھر ھے لیکن اس مطلب کے پیش نظر کہ ذات خداوندی لا محدود اور لامتناھی ھے، یہ کمالات جو اس کے لئے صفات کی شکل و صورت میں ثابت ھوتے ھیں، حقیقت میں عین ذات اور اس طرح ایک دوسرے کے بالکل برابر اور مانند ھیں اور وہ فرق جو ذات و صفات یا خود صفات کے درمیان نظر آتا ھے صرف مفھوم کے طور پر ھے لیکن حقیقت میں ایک ناقابل تقسیم یکتائی کے سوا اور کچھ بھی نھیں ھے۔

اسلام اس غلطی کے سدّ باب کے لئے (یعنی صفات کے ذریعے وحدانیت یا اصل کمال کی نفی) اپنے پیروکاروں کے عقیدے اور ایمان کو نفی و اثبات کے درمیان ھی رکھتا ھے اور اس سے متجاوز نھیں ھونے دیتا اور حکم دیتا ھے کہ اس قسم کے عقائد رکھے جائیں یعنی خدا علم رکھتا ھے لیکن اس کا یہ علم دوسروں کے علم کی طرح نھیں ھے۔ وہ طاقت رکھتا ھے لیکن اس کی یہ طاقت انسانوں کی طاقت کی طرح نھیں ھے۔ وہ سنتا ھے لیکن کانوں کے ذریعے نھیں (اس کے کان نھیں ھیں) وہ دیکھتا ھے لیکن آنکھوں سے نھیں (اس کی آنکھیں نھیں ھیں) اور اسی طرح دوسری صفات۔

صفات دو قسم کی ھیں: ”مکمل صفات اور ناقص صفات“ مکمل صفات جیسا کہ پھلے اشارہ کیا گیا ھے، اثباتی معنی رکھتی ھیں جو اپنے وجود کی زیادہ اھمیت کا باعث بنتی ھیں اور اپنے موصوف کے وجودی اعتبار کو زیادہ کرتی ھیں، جیسا کہ ایک زندہ، جاندار، طاقتور اور عقلمند چیز یا وجود کو ایک مردہ، بے علم، بے طاقت چیز یا وجود کے ساتھ مقابلہ کرنے سے واضح ھو جاتا ھے اور ناقص صفات اس کے برعکس ھیں۔

جب ھم ناقص صفات کے معانی پر غور کرتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ معنی کے لحاظ سے یہ صفات منفی ھیں اور ان میں کمال موجود نھیں ھے اور ایسے ھی وجودی اھمیت کے نہ ھونے کی بھی خبر دیتی ھیں مثلاً جھالت، عجز، بے عقلی، بد صورتی، بیماری اور بدی وغیرہ۔

لھذا گزشتہ موضوع کے مطابق صفات کی نفی، مکمل صفات کے نہ ھونے کے معنی دیتی ھے مثلاً نادانی کی نفی دانائی کے معنوں میں ھے اور نا توانی کی نفی توانائی کی معنی دیتی ھے۔

قرآن کریم ھر مکمل صفت کو براہ راست خدائے تعالیٰ کے بارے میں ثابت کرتا ھے اور ھر ناقص صفت کی نفی کرتے ھوئے اس کی نفی کو خدا وند تعالیٰ کے بارے میں ثابت کرتا ھے۔ جیسا کہ فرماتا ھے:

"وَھوَ العَلیمُ القَدیر" (۲)

 "ھو الحیُّ القیّوم، لَا تَاخُذُہ سِنَةٌ وَ لَا نَومٌ "(۳)

 "وَ اعْلَمُوا اَنَّکُم غَیرُ مُعْجِزِی اللهِ "(۴)

ایک مطلب کو ھر گز فراموش نھیں کرنا چاھیے اور وہ یہ کہ خدائے تعالیٰ ایک مطلق حقیقت ھے جس کی کوئی حد نھیں ھے اور اسی طرح ھر کامل صفت بھی جو اس کے بارے میں ثابت ھوتی ھے وہ بھی محدود معنوں میں نھیں ھوتی۔خدا مادی، جسمانی قیود یا مکان و زمان کی حدود میں محدود نھیں ھے اور ھر صفت سے منزہ اور پاک ھے کیونکہ ھر وہ صفت جو حادث ھو خدا اس صفت سے پاک ھے اور ھر وہ صفت جو حقیقت میں خدا سے منسوب کی جاتی ھے وہ محدودیت کے معنی سے بالکل دور ھوتی ھے جیسا کہ خدا فرماتا ھے:" لیسَ کَمِثلہ شَئیٌ "(۵)

Add comment


Security code
Refresh