www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

چھتّیسواں جلسہ
1۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
قارئین کرام! اس سے پھلے جلسہ میں ھم نے عرض کیا کہ انسانی عقل و وجدان ”باید ھا اور نباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے) انسان کے لئے معین کرتی ھے اور بھت کاموں کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ھیں کہ کیا کام نھیں کرنا چاھئے اور کیا کام نہ کرنا چاھئے جس کے نتیجہ میں انسان کی آزادی محدود ھوکر رہ جاتی ھے؛ لیکن چونکہ آزادی کی محدویت انسان کی اندرونی طاقت کے ذریعہ ھوتی ھے

 لھٰذا اس کی آزادی سلب ھونے کا سبب نھیں بنتا اور کسی نے یہ دعویٰ نھیں کیا ھے کہ انسانی عقل کی نصیحتوں سے اس کی آزادی سلب ھوجاتی ھے انسانی عقل اور وجدان کی اندرونی نصیحتوں کی طرح مسلمانوں کے لئے خداوندعالم کے اوامر اور احکام ھوتے ھیں جو خدا اور رسول کے ذریعہ صادر ھوتے ھیں جس طرح ھماری عقل کسی کام کو انجام دینے کا حکم کرتی ھے اسی طرح خداوندعالم نے بھی ھمارے لئے کچھ وظائف قرار دئے ھیں وہ وظائف جو واقعی مصالح (و فوائد)کی بنا پر صادر ھوتے ھیں چونکہ خداوندعالم ان کے بارے میں لامحدود علم رکھتا ھے اور ان کا سمجھنا ھماری عقل سے بالاتر ھے۔
گویا یھاں پر اندرونی عقل متصل کے علاوہ خداوندعالم عقل منفصل اور بے نھایت ؛ انسان کے کامل مصالح اور اس کے خطرات سے مکمل طور سے معین کرتا ھے اسی وجہ سے ھم سے یہ چاھتا ھے کہ فلاں کام کو انجام دیں کیونکہ یہ کام ھمارے حق میں ھے اور فلاں کام کو انجام نہ دیں چونکہ ھمارے لئے باعث ضرر ھے۔
انسانی آزادی کی یہ محدودیت جو خدا اور بندے کے درمیان موجود رابطہ کی بنا پر پیدا ھوتا ھے سیاسی یا حقوقی فلسفہ سے متعلق نھیں ھے اور سیاسی لحاظ سے بھی مشکل ساز نھیں ھے کیونکہ خدا پر ایمان رکھنے والے افراد اپنے عقیدہ کی بنا پر اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ کچھ کاموں کو انجام دیا جائے اور کچھ کاموں سے پرھیز کیا جائے، اور یہ لازمی عقیدہ اور کار کردگی معاشرہ سے متعلق نھیں ھے بلکہ انسان کے خدا سے رابطہ کی بنا پر ھے جیسا کہ انسان اپنی عقل سے رابطہ رکھتا ھے۔
2۔ حکومت کی ضرورت اور انسان کی اجتماعی زندگی کا عکس العمل
قارئین کرام ! یھاں پر بحث یہ ھے کہ بھت سے کام خود انسان کے ذات اور اس کی دنیا و آخرت سے متعلق نھیں ھوتے بلکہ دوسروں کے لئے بھی موٴثر ھوتے ھیں اور ان کا فائدہ یا نقصان عوام الناس اور معاشرہ تک بھی پھونچتا ھے چنانچہ اس موقع پر دنیا بھر کے دانشور حضرات معتقد ھوجاتے ھیں کہ ایک ایسے نظام کا ھونا ضروری ھے جو معاشرہ کے لئے نقصان دہ چیزوں کی روک تھام کرسکے اور جو لوگ خلاف ورزی کریں ان کو سزائے اعمال تک پھونچائے۔
لھٰذا حکومت کی ضرورت اور یہ کہ ھمیں ایک طاقت کی ضرورت ھے جو معاشرہ کے نقصان کو روک سکے ، سماج کا نقصان نہ ھو اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا مل سکے، اسی وجہ سے حکومت کی ضرورت ھوتی ھے اسی بنا پر ”انارشیسٹ“ "Anarchiste" (فساد طلب) کے علاوہ دنیا بھر کے تمام صاحب علم سیاست اور حقوق کے رکھوالے حکومت کو ضروری سمجھتے ھیں؛ لیکن اخلاقی اقدار اور وہ اچھائیاں اور برائیاں جن کو خود انسانی عقل اپنی ذاتی زندگی میں معین کرتی ھے ان کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نھیں ھے۔
یھاں پر ایک دوسری بحث یہ ھوتی ھے کہ عقل انسانی انفرادی ، ذاتی اور معنوی مسائل کے علاوہ آزادی کے ایک حصے کو محدود کرتی ھے توکیا حکومت بھی انسان کی آزادی کو محدود کرسکتی ھے؟
تو اس کا جواب یہ ھے کہ اجتماعی زندگی کے لحاظ سے حکومت کی خصوصیت اور اس کا تقاضا ھی آزادی کو محدود کرنا ھے، کیونکہ اگر کوئی حکومت کی ضرورت کو مانتا ھو لیکن آزادی کو محدود کرنے کو قبول نہ کرتا ھو تو اس کی بات تناقض گوئی پر مشتمل ھے حکومت قوانین اور مقررات مرتب کرتی ھے اور بعض کاموں کو جائز اور بعض کاموں کو ممنوع قرار دیتی ھے اور اگر کوئی ان کی خلاف ورزی کرے تو بعض کو مالی جرمانہ بعض کو زندان اور بعض کو دوسرے طریقوں سے سزائیں دیتی ھے۔
یھاں تک کہ بعض حکومتوں میں مثلاً اسلامی حکومت میں جسمانی سزائیں جیسے سزائے موت بھی قرار دی گئی ھے لھٰذا اس مقدمہ کو قبول کرنا ضروری ھے کہ بنیادی طور پر حکومت کا وجود اجتماعی آزادی کو محدود کرنے کے لئے ھی ھوتا ھے اور آزادی کے محدود نہ ھونے کا مطلب حکومت کا نہ ھونا ھے ھمیں یہ قبول کرنا چاھئے کہ اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت ھے یعنی یہ قبول کریں کہ انسان کی سیاسی اور اجتماعی آزادی محدود ھو، یا یہ قبول کریں کہ انسانی اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت نھیں ھے اور کسی کو دوسروں پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کا بھی حق نھیں ھے؛ جس کے نتیجہ میں عوام الناس سیاسی اور اجتماعی مسائل میں مطلق آزادی سے بھرہ مند ھوسکیں۔
قارئین کرام ! ھماری گذشتہ گفتگو کے پیش نظر یہ بات روشن ھوجاتی ھے کہ جو لوگ یہ نعرہ لگاتے ھیں کہ ”آزادی حکومت اور قانون سے بالاتر ھے“ صرف ایک مغالطہ ھے حکومت کو چاھئے کہ آزادی کو محدود کرے اور اگر کوئی اس بات کاقائل ھوجائے کہ کوئی بھی حکومت انسانوں کی سیاسی اور اجتماعی آزادی کو محدود نھیں کرسکتی۔؛ تو اس کا مطلب یہ ھے کہ حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے ، اور حکومت بے کار، نامشروع اور غیر قانونی اور طاقت کے بل بوتے پر ھے۔
3۔ حکومت کی مشروعیت کے منشاء کی طرف ایک اشارہاور ڈیموکریسی پر اشکالات
قارئین کرام ! اب جبکہ ھم نے یہ قبول کرلیا ھے کہ معاشرہ میں ایک قانونی اور مشروع حکومت کا وجود ضروری ھے جس سے سیاسی اور اجتماعی آزادی محدود ھوجائے، اس کے بعد ایک اساسی اور بنیادی مسئلہ ھمارے سامنے ھے: اول یہ کہ حکومت کس وجہ سے قانونی اور مشروعیت پیدا کرتی ھے اور حکومت کس حق کی بنا پر آزادی کو محدود کرتی ھے؟ دوسرے یہ کہ حکومت کس حد تک آزادی کو محدود کرسکتی ھے؟
گذشتہ بحث میں یہ بات واضح اور روشن ھوچکی ھے کہ ھمارے عقیدہ کی بنا پر اسلامی سیاسی نظریہ کے علاوہ حکومت کے لئے کوئی قابل قبول اور عقل پسند دلیل نھیں ھے کیونکہ اگر ھم یہ کھیں کہ حکومت کے زیر سایہ عوام الناس خود اپنی آزادی کو محدود کرتے ھیں البتہ اس چیز سے قطع نظر کہ اگر کوئی چاھے تو اپنی آزادی پر کنٹرول کرسکتا ھے اور پھر اس صورت میں حکومت کی کوئی ضرورت نھیں ھے تاکہ اس کی آزادی کنٹرول کی جاسکے،یہ نظریہ تناقض گوئی پر مشتمل ھے؛ کیونکہ جو شخص آزاد رھنا چاھتا ھے وہ کبھی بھی اپنی آزادی کو محدود کرنا نھیں چاھتا۔

سب سے آخری اور بھترین نظریہ جو دنیا بھر میںحکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے بارے میں بیان کیا جاتاھے اور دنیا بھر کے لوگ اس نظریہ کو قبول (بھی) کرتے ھیں یہ ھے کہ عوام الناس اپنے بعض حقوق حکومت کے حوالے کردیتے ھیں یعنی یہ انسان جو اپنی زندگی کا حاکم ھے اور اپنی زندگی کے لئے (مخصوص) قوانین بنا سکتا ھے اور اپنی آزادی کو محدود کرسکتا ھے، لیکن اپنے اس حق کو حکومت کے حوالے کردیتا ھے تاکہ اس کی اجتماعی زندگی کے لئے (بھترین) قوانین بنائے اور ان کو نافذ کرے یہ حکومت کو حاکمیت کا حق حوالے کرنا آج کل کی دنیا میں ڈیموکریسی کے نام سے مشھور و معروف ھے۔
قارئین کرام ! آج کل کی ڈیموکریسی تھیوری پر بھت سے اشکالات وارد ھوتے ھیں ، ھم ان میں سے صرف تین اشکالات پر اکتفاء کرتے ھیں:
پھلا اشکال:
کیا انسان کو اپنے اندر ھر طرح کا تصرف کرنے، اپنی آزادی کو محدود کرنے اور اپنے پر دباؤ ڈالنے کا حق ھے؟ یعنی کیا انسان کو حق ھے کہ خود اپنے کو سزا دے؟ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ دنیا بھر میں آج کل کی تمام حکومتیں خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا معین کرتی ھیں اور بعض جرائم کے لئے قید با مشقت قرار دیتی ھے اور بعض جرائم کے لئے جسمانی سزا، شکنجہ اور سزائے موت قرار دیتی ھے تو کیا انسان کو خود کُشی کا حق ھے کہ جس کے نتیجہ میںاپنے لئے سولی کا حکم حکومت کے حوالے کردے؟ اگر انسان خود کُشی کا حق رکھتا ھو تو وہ دوسرے کو اس طرح کے قانون بنانے کا حق دے سکتا ھے کہ اگراس نے بعض ایسے جرائم کو انجام دیا جن کی سزا سولی ھو اور حکومت اس کے حق میں جاری کرسکے بے شک انسان خود کُشی کا حق نھیں رکھتا کیونکہ انسان کو اپنی جان کا اختیار نھیں ھے تاکہ جب بھی چاھے ختم کردے، انسان کی جان خداوندعالم کی طرف سے ھے، اور کسی کو اپنی جان کو نقصان پھونچانے کا حق حاصل نھیں ھے حد تو یہ ھے کہ اسلامی نظریہ کے مطابق انسان اپنے بدن کو نقصان بھی نھیں پھونچا سکتا کسی شخص کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے بدن کو زخمی کرلے مثلاً اپنے ھاتہ یا انگلی کو کاٹ لے کیونکہ انسان کا بدن خداسے متعلق ھے اور انسان اس کا مالک اور صاحب اختیار نھیں ھے اس صورت میں کس طرح انسان حکومت کو سزائی اور فوجداری قوانین بنانے کا حق دے سکتا ھے اور حکومت کو مجرموں کو سزا دینے کی اجازت دے اور چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں اور بعض مجرموں کو سزائے موت دیدی جائے؟
دوسرا اشکال:
فرض کرلیں کہ انسان اپنی جان اور بدن میں ھر طرح کا تصرف کرسکتا ھے اور اپنے بدن کو نقصان اور ضرر پھونچاسکتا ھے اور اپنی زندگی کو ختم کرسکتا ھے اور اس صورت میں اپنا یہ حق حکومت کے حوالے کردیتا ھے در حقیقت جو شخص پارلیمنٹ کو ووٹ دیتا ھے گویا قانون گذاری کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کو اپنا وکیل بنادیتا ھے کہ اس کی اجتماعی زندگی کے لئے قوانین اور مقررات بنائے جن میں سے حقوقی اور سزائے قوانین (بھی) ھیں؛ اسی طرح حکومت کو بھی اپنا وکیل بناتا ھے کہ اس پر قوانین نافذ کرے لیکن اس صورت میں صرف حکومت کو اپنے اوپر تصرف کا حق دیتا ھے، لیکن یہ حق نھیں دیتا کہ حکومت دوسروں پر بھی تصرف کرے اور ان کے حقوق اور ان کی آزادی کو سلب کرے بالفرض اگر انسان اپنے کو سزا دینے کاحق رکھتا ھو اور یہ حق حکومت کو دیدے کہ اگر اس نے خلاف ورزی کی تو اس کو سزا دے، تو اس صورت میں (بھی) صرف اپنا وکیل بنا سکتا ھے کہ اس کی طرف سے تصمیم گیری کرے اور اس پر عمل کرے لیکن دوسرووں کو سزا دینے کا حق (اسے نھیں ھے تاکہ یہ حق) حکومت کے حوالے کردے۔
ڈیموکریسی نظریہ کی رائج اصطلاح کا مطلب یہ ھے کہ عوام الناس حکومت کو وکالت دیتے ھیں اور اس کو اپنا وکیل اور نمائندہ قرار دیتی ھیں تاکہ وہ مختلف قوانین بنائے اور ان کو جاری کرے آج دنیا بھر میں رائج ڈیموکریسی حکومت اگر اکثریت سے جیت جائے یعنی 51% یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کرلے تو پھر اسے حق حاصل ھوتا ھے کہ وہ پورے معاشرہ کے لئے منجملہ ان لوگوں کے لئے (بھی) جنھوں نے حکومت کو ووٹ نھیں دیا ھے؛ قوانین بنائے اور ان کو لاگو کرے در حقیقت جب آدھے لوگوں نے نہ کہ سب نے حکومت کو ووٹ دئے ھیں صرف وھی لوگ حکومتی قوانین کو قانونی مانیں گے اور معاشرہ کے وھی لوگ ان قوانین کے سامنے اپنا سر تسلیم کریں گے لیکن یھاں پر ایک اھم سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ تقریباً آدھے لوگوں نے حکومت کو ووٹ ھی نھیں دیا اور حکومت کو اپنا وکیل ھی قرار نھیں دیا کہ ان کی طرف سے قوانین بنائے اور ان کو جاری کرے، تو پھر اس صورت میں حکومت کو کیا حق حاصل ھے کہ وہ ان کی اجتماعی زندگی کے لئے قوانین بنائے ، اور کس وجہ سے وہ ان پر حکم چلائے؟ اور اگر انھوں نے خلاف ورزی کی ھو تو ان کو سزائے اعمالتک پھونچائے؟ لھٰذا طے یہ ھوا کہ حکومت کے لئے اپنے مخالفین اور جن لوگوں نے اس کو ووٹ نھیں دیا ھے ؛ ان پر حکومت کرنے، اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے کوئی (بھی) عقل پسند راستہ موجود نھیں ھے۔


تیسرا اشکال:
قارئین کرام ! موکل کو اپنے وکیل کو معزول کرنے کا حق ھوتا ھے، یا اس کے بنائے ھوئے منصوبوں کو لغو اور بے اثر کرنے کا حق ھوتا ھے لھٰذا اگر کوئی شخص ممبر آف پارلیمنٹ کو ووٹ دے کر انتخاب کرلے لیکن اس کے بعد اپنی رائے سے پلٹ جائے تو وہ اپنے نمائندہ کو اس مقام سے معزول کرسکتا ھے اس کے علاوہ وکیل کو صرف موکل کی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا حق ھوتا ھے اور یہ حق نھیں ھوتا کہ اپنے موکلوں کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے اب اگر تمام عوام الناس یا ان میں آدھے افراد کسی قانون کے مخالف ھوں ، تو حکومت اس قانون کو کس حق کے تحت جاری کر سکتی ھے؟
خلاصہ یہ ھے کہ ڈیموکریسی حکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے لئے کوئی عقل پسند راستہ موجود نھیں ھے! اور اس سلسلہ میں ڈیموکریسی نظریہ کے طرفدار لوگ یہ کھتے ھیں کہ ملک اور معاشرہ کوچلانے کے لئے ڈیموکریسی نظریہ سب سے بھترین نظریہ ھے کیونکہ اگر اقلیت کی مرضی کے مطابق حکومت بنے اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے تو پھر اکثر عوام الناس کا حق ضایع ھوجائے گا جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ عوام الناس کی اکثریت مظاھرہ کرنے لگیں گے اور اس صورت میں ان کی شورش اور انقلاب کو روکنا مشکل ھوجائے گا یھی وجہ ھے کہ حکومت عوام الناس کی اکثریت سے انتخاب ھو اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے؛ نہ یہ کہ حکومت عقل پسند مشروعیت رکھتی ھے۔
4۔ اسلام میں حکومت کی مشروعیت اور اس کا قانونی ھونا
اسلامی نظریہ کے مطابق، وہ عقل جو انسان سے کھتی ھے کہ فلاں کام اچھا ھے اور فلاں کام بُرا ھے، وھی عقل جو انسان سے کھتی ھے کہ ماں باپ، استاد اور عوام الناس تم پر حق رکھتے ھیں لھٰذا ان کے حقوق کو ادا کرنا چاھئے، وھی عقل انسان سے کھتی ھے کہ وہ خدا جس نے تمام دنیا، تجھے او ر تمام مخلوقات کو پیدا کیا ھے اس کے حقوق دوسروں سے بھت زیادہ اور عظیم ھیں اور انسان کو چاھئے کہ ان کو ادا کرنا چاھتے اب چونکہ خداوندعالم نے ھمیں پیدا کیا ھے اور ھمارے وجود بلکہ تمام کائنات کا مالک ھے اور تمام چیزیں اس کے ارادہ سے وجود میں آتی ھیں، اور اگر وہ ارادہ کرلے تو تمام چیزیں نابود ھوجائیں گی، اس نے اگر کسی کو قوانین نافذ کرنے کے لئے معین کیا ھے تو اس کا حکومت کرنا قانونی اور مشروعیت رکھتا ھے اور پھر عوام الناس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت نھیں ھے جس وقت وہ خدا جو ھم پر سب سے زیادہ حقوق رکھتا ھے(بلکہ تمام ھی حقوق اسی کی طرف سے ھیں) اس نے حکومت اور ولایت کا حق پیغمبر، ائمہ معصومین علیھم السلام یا امام معصوم (ع) کے جانشین کو دیا ھے ، اس کو حق ھے کہ معاشرہ میں خدائی احکام نافذ کرے، کیونکہ یہ شخص اس ذات کی طرف سے منصوب ھوا ھے کہ کل ھستی، تمام اچھائیاں اور تمام حقوق وخوبصورتی اسی کی طرف سے ھے۔
اس بنا پر اسلامی حکومتی نظریہ میں جس میں حاکم اسلامی خداوندعالم کی طرف سے قوانین اور احکام الٰھی جاری کرنے کاحق حاصل ھوتا ھے،لھٰذا وھی مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائے اعمال تک پھونچا سکتا ھے، اور اس میں کسی بھی طرح کا کوئی تعارض نھیں ھے اور یہ نظریہ عقلی اصول پر (بھی) منطبق ھے البتہ یہ نظریہ ان لوگوں کے نزدیک قابل قبول ھے جو خداوندعالم پر ایمان رکھتے ھیں ورنہ اگر کوئی شخص خدا کو قبول نہ رکھتا ھو تو پھر وہ شخص اس نظریہ کو بھی قبول نھیں کرے گا، اور ھم پھلے اس کے لئے خداوندعالم کے وجودکا اثبات کریں اور اگر وہ خدا پر ایمان لے آتا ھے تو پھر اس موقع پر اس سے بیٹہ کر حکومت کے سلسلے میں اسلامی سیاسی نظریہ کے بارے میں بحث کریں لھٰذا جو افراد جو خدا ، رسول اور دین کو مانتے ھیں ان کے لئے بھترین راہ حکومت کی مشروعیت اور قانونی ھونے کے لئے یھی ھے کہ کل کائنات کا مالک خدا؛ معاشرہ کے مصالح کی رعایت کے لئے حق حکومت اپنے کسی (خاص) بندے کو عنایت کرتا ھے (تاکہ ا نسان معاشرہ کی خیر وبھلائی کے ساتھ آخرت کی سعادت بھی حاصل ھوجائے (
اسلامی معرفت کے پیش نظر اسی طرح اسلامی سیاسی نظریہ کی شناخت کی بنا پر معلوم یہ ھوتا ھے کہ انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق سے بالاتر خدا وند عالم حق ھے خداوندعالم کا، اس بنا پر اگر خداوندعالم اپنے کسی بندے کو کوئی کام کرنے کا حکم دے چاھے اس کے نقصان میں ھی کیوں نہ ھو تو اس کو انجام دینا چاھئے؛ البتہ خداوندعالم اپنے بے انتھا لطف وکرم اور مھربانی کی وجہ سے اپنی مخلوقات کے ضرر اور نقصان میں امر ونھی صادر نھیں کرتا، وہ کسی کا نقصان نھیں چاھتااور اس کے اوامر ونواھی انسان کی دنیا وآخرت کی مصلحت اور اس کی بھلائی میں ھوتے ھیں اور اگر خداوندعالم کے احکام کی تعمیل کی بنا پر انسان کو اس دینا میں کچھ نقصان بھی ھوتا ھے مثال کے طور پر اگر چند روزہ دنیا میں بعض لذتوں اور نعمتوں سے محروم رھتا ھے تو خداوندعالم اس کو آخرت میں جبران کردے گا اوردنیا میں ھوئے اس کے نقصان کے ھزاروں برابر اس کو ثواب اور اجر عنایت فرمائے گا۔
5۔ انبیاء علیھم السلام اور عوام الناس کی ھدایت کا طریقه
خدا وندعالم نے اپنی طرف سے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا تاکہ عوام الناس کو دین اور دنیا کے خیر وبھلائی کی ھدایت کریں خدا کی طرف سے بھیجا ھوا نبی پھلے تو حق (خدا) کی طرف دعوت دیتا ھے اور خدا کی آیات کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتا ھے اور جب ان کو خدا کی شناخت اور معرفت ھوجاتی ھے اور وظائف اور تکالیف قبول کرنے کا زمینہ فراھم کرتا ھے در حقیقت اس مرحلہ میں نبی یا پیغمبر عقل منفصل کا کردار ادا کرتا ھے ، اور اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کا کوئی زور اور دباؤ نھیں دیا جاتا اور ان کی آزادی سلب کئے بغیر ان کی عقل وفھم کو بلند کرتا ھے تاکہ ان میں آزادانہ طور پر انتخاب کا زمینہ فراھم ھوجائے اور آزادانہ طور پر اسلام اور اس کے عظیم احکام کو قبول کرنے کا مادہ پیدا ھوجائے۔
پیغمبر اس لئے مبعوث ھوتا ھے تاکہ لوگوں کو حق و باطل کی شناخت کرائے اور ان کو حق و باطل کے راستہ پر لاکر کھڑا کردے تاکہ اپنی مرضی اور آزادی سے یا راہ حق وحقیقت کا انتخاب کرلے یا باطل کا راستہ اپنالے اس کے لئے وہ اپنی طاقت کے ذریعہ رسالت کو قبول نھیں کراتا یا دباؤ ڈال کر اپنے نظریات لوگوں سے قبول نھیںکراتا،(کیونکھ) یہ ارادہ الٰھی کے برخلاف ھے، خداوندعالم کا ارادہ یہ ھے کہ عوام الناس حق وباطل کے راستہ کو پھچان کر آزادانہ طور پر کسی ایک کا انتخاب کریں لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ خدا کا بھیجا نبی پھلے مرحلہ میں عوام الناس سے رابطہ برقرار کرتا ھے اور ان کو اپنے سے مانوس کرتا ھے ان سے گفتگو کرتا ھے نیز عقل دلائل ، معجزات اور آیات الٰھی کے ذریعہ اپنا پیغام ان تک پھونچاتا ھے، اور حق (وحقیقت) کی پھچان کراتا ھے۔
انبیاء علیھم السلام خداوندعالم ، اس کی آیات اور الٰھی نظام کو مستقر ھونے کے سلسلہ میں عوام الناس پر کسی طرح کا کوئی سختی اور دباؤ نھیں ڈالتے تھے، ان کے اھداف میں لوگوں کی آزادی اور آگاھانہ انتخاب پر خاص توجہ رکھی جاتی تھی ، در حقیقت عوام الناس کی آزادی کا خیال دوسرے نظاموں سے زیادہ رکھا جاتا تھا، ان کی کوشش یہ ھوتی تھی کہ عوام الناس دعوت خدا اور نظام کو قبول کرنے میں مکمل طور پر آزاد ھوں اس کی وجہ بھی یہ ھے کہ انسان کو خلق کرنے سے خداوندعالم کا ھدف اور مقصد یہ ھے کہ انسان آزاد اور خود انتخاب کرنے والا ھو اور اپنے مکمل اختیار اور آزادانہ طریقہ سے راہ حق کا انتخاب کرے اور اسی کی ھدایت حاصل کرے، انبیاء علیھم السلام کا دعوت خدا اور نظام الٰھی کا قیام کے لئے اپنی طاقت اور زور کا استعمال کرنا؛ خداوندعالم کے ھدف اور مقصد سے ھم آھنگ نھیں ھے اگر طے یہ ھو کہ انسان کسی راستہ کو مجبوری کی حالت میں یا طاقت کے زور پر قبول کرے تو ھوسکتا ھے کہ وہ اس راستہ کی حقانیت کو نہ پھچانے، یھاں تک کہ شاید اس راستہ کے صحیح (بھی) نہ مانتا ھو؛ کسی بھی راستہ کی حقانیت اور اس کے صحیح ھونے کومعین کرنے کے لئے پھلے اس کے بارے میں شناخت اور معرفت ضروری ھے اور آزاد طور پر اس راستہ کو انتخاب کرنے کا زمینہ ھموار کیا جائے اور پھر خداوند عالم کے اس ھدف کے تحت کہ انسان علم و آگاھی کے ساتھ آزادانہ طور پر حق و حقیقت کا راستہ انتخاب کرے، خداوندعالم نے معجزہ کے ذریعہ راہ حق کو عوام الناس پر نھیں تھونپا ھے اور اس کی مرضی بھی یہ نھیں ھے کہ معجزہ کے ذریعہ لوگوں کو آزادنہ انتخاب سے روک دے اور ان کی مرضی میں تصرف کرے تاکہ غیر اختیاری طور پر راہ حق کوقبول کرلیں، اوراس کے مقابلہ میں سست پڑجائے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ھے:
( لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اٴَلاَّ یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ إِنْ نَشَاٴْ نُنَزِّلْ عَلَیْھمْ مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ اٴَعْنَاقُھمْ لَھا خَاضِعِینَ ) (1)
”(اے رسول)شاید تم (اس فکرمیں) اپنی جان ھلاک کر ڈالوگے کہ یہ (کفار)مو من کیوں نھیں ھو جاتے اگر ھم چاھیں تو ان لوگوں پر آسمان سے کوئی ایسا معجزہ نازل کر یں کہ ان لوگوں کی گر دنیں اس کے سامنے جھک جائیں “
6۔ عوام الناس کی ھدایت میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت
قارئین کرام ! اس بات پر توجہ رھے کہ خداوندعالم نے عوام الناس کی ھدایت کے لئے اپنی طرف سے انبیاء بھیجے تاکہ راہ حق و باطل میں شناخت کرائیں ، تاکہ وہ صحیح راہ کی شناخت اور معرفت کے بعد آزادانہ طور پر اس صحیح راستہ کا انتخاب کریں؛ بعض مستکبر اور منفعت طلب لوگ جو لوگوں کی جھل و نادانی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر بھت زیادہ مال و دولت اکھٹا کرلیتے ھیں وہ لوگ انبیاء علیھم السلام کی دعوت حق اورلوگوں کی ھدایت میں اپنے شیطانی اھداف کی بنا پر مانع ھوتے ھیں، اور انبیاء علیھم السلام سے مقابلہ کے لئے کھڑے ھوجاتے ھیں، اور انبیاء علیھم السلام کو عوام الناس سے گفتگو بھی نھیں کرنے دیتے یا ان کو آیات الٰھی بھی نھیں سنانے دیتے تاکہ کھیں ایسا نہ ھوں کہ یہ لوگ ھدایت پاجائیں یہ لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پر عوام الناس کو بھت زیادہ آزار واذیت پھونچاتے ھیں اور ان کے لئے بھت سی مشکلیں پیدا کردیتے ھیں تاکہ عوام الناس ھدایت سے فیضیاب نہ ھوسکیں یہ لوگ جو عوام الناس کی ھدایت میں مانع ھوتے ھیں خداوندعالم نے ان کوقرآن مجید میں ”ائمہ کفر“ اور فتنہ وفساد کی جڑ کھا ھے ، اور حکم دیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھی ان سے مقابلہ کریں اور ان کو اپنے راستہ سے ھٹا دیں؛ کیونکہ ان کا وجود اور ان کی شیطانی اور باطل حرکتیں خدائی اھداف میں مانع ھوتی ھیں کیونکہ خداوندعالم تو یہ چاھتا ھے کہ تمام انسان ھدایت سے سرفراز ھوجائیں اور راہ حق و باطل کو پھچان لیں، لیکن یہ لوگ مانع ھوتے ھیں:
ارشاد رب العزت ھوتا ھے :
( فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّھمْ لاٰ اٴَیْمَانَ لَھمْ لَعَلَّھمْ یَنتَھونَ ) (2)
”تو تم کفر کے سربر آ وردہ لوگوں سے خوب لڑائی کرو ان کی چار قسموں کا ھرگز کوئی اعتبار نھیں ھے تاکہ یہ لوگ اپنی شرارت سے باز آجائیں“
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سڑک پر گاڑی چلارھا ھے اور اس کے راستہ میں ایک بڑا سا پتھر موجود ھو تو اس کو اپنا راستہ طے کرنے کے لئے اس پتھر کو سڑک سے اٹھاکر دور پھیکنا پڑے گا، اور اس سلسلہ میں اپنی تمام تر کوششوں کو اس میں لگادے گا تاکہ اس پتھر کو اپنے راستہ سے ھٹا دے اصولی طور پر ھر صاحب عقل انسان اپنے راستہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرتا ھے خداوندعالم بھی اپنے اس ھدف کے تحت کہ انسان ھدایت یافتہ ھوجائے؛ حکم دیا ھے کہ پیغمبر اور ان کے اصحاب ، بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ھے کہ ھدایت کے سلسلہ میں موجود دنیا بھر کے استکبار ، بادشاہ، ستمگر، دولت پرست اور تمام شیطانی قدرتوں کے ساتھ جنگ کریں اور ان کو نابود کردیں۔
خلاصہ یہ کہ : خداوندعالم کا فرمان یہ ھے کہ انسانوں کی ھدایت میں جو لوگ مانع ھوں (اھل کفر وباطل)ان کے ساتھ طاقت کے ذریعہ مقابلہ کیا جائے اور شدت پسندی کو ان کے حق جائز قرار دیا گیا ھے خداوندعالم نھیں فرماتا کہ ان کے ساتھ بیٹہ کر مسکرائیں اور خوش لھجہ، تبسم ، التماس اور التجا کریں کہ آپ حضرات اجازت دیں تاکہ ھم عوام الناس کی ھدایت کریں! اگر وہ اس درخواست کو قبول کرنے والے ھوتے اور اپنی خوش لھجہ زبان سے اپنی برے چال چلن سے رکنے والے ھوتے تو پھر وہ مستکبر ھی کیوں ھوتے ان میں بنیادی طور پر استکبار ، حیوانیت اور سرکشی ان کے اندر شامل ھے، وہ تو یہ چاھتے ھیں کہ دوسرے انسانوں کو اپناغلام بنا نا چاھتے ھیں اور ان کاخون پی لینا چاھتے ھیں ، وہ اس چیز کی اجازت نھیں دیتے کہ ان کے منافع خطرہ میں پڑجائیں،اسی وجہ سے یہ لوگ نھیں چاھتے کہ عوام الناس ھدایت یافتہ ھوجائیں اور انبیاء (علیھم السلام) کے فرمانبردار بن جائیں مومنین اور ھدایت کے طلبگاروں کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نھیں ھے کہ ان لوگوں سے شدت اور تشدد کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، اسی وجہ سے خداوندعالم اپنے پیغمبر اکرم (ص) کو قرآن مجید میں حکم دیتا ھے کہ ان لوگوں سے جنگ کریں اور تشدد اور غصہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں وھی پیغمبرجس کی صفت خداوندعالم یوں بیان فرماتا ھے:
( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنْ اللهِ لِنْتَ لَھمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ) (3)
”(تو اے رسولیہ بھی)خدا کی ٍٍ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍایک مھربانی ھے کہ تم (سا) نرم دل )سردار) ان کو ملا اور تم اگر بد مزاج اور سخت دل ھوتے تب تو یہ لوگ(خدا جانے کب کے )تمھارے گروہ سے تتر بتر ھو گئے ھوتے “


دوسری جگہ پیغمبر اکرم (ص) کو حکم ھوتا ھے کہ کفار (مشرکین اور منافقین) سے شدت کے ساتھ مقابلہ کریں اور ان سے جنگ کریں، اور شدت پسندی کو ان کے حق میں جائز جانتا ھے، ارشاد ھوتا ھے:
( یَااٴَیُّھا النَّبِیُّ جَاھدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْھمْ وَمَاٴْوَاھمْ جَھنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ )(4)
”اے رسول کفار کے ساتھ (تلوار سے)اور منافقوں کے ساتھ (زبان سے) جھاد کرواور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکا نا تو جھنم ھی ھے اور وھ( کیا)جگہ ھے “
ایک دوسری جگہ خداوندعالم اپنے پیغمبر (ص) کوحکم دیتا ھے کہ جو لوگ مسلمانوں کی جان اور مال کے لئے خطرہ بنے ھوئے ھیں ان کے سات شدت پسندی سے برتاؤ کریں، اور جیسے وہ کریں ان کو ویسا ھی جواب دیں، اور بھت زیادہ شدت کے ساتھ جنگ کریں، ارشاد ھوتا ھے:
( وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَاقْتُلُوھمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوھمْ وَاٴَخْرِجُوھمْ مِنْ حَیْثُ اٴَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ اٴَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ وَلاَتُقَاتِلُوھمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوھمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ ) (5)
”اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ھرگز دوست نھیں رکھتا ۔اور تم ان مشرکوں ) کو جھاں پاوٴ مار ھی ڈالو اور ان لوگوں نے جھاں (مکہ سے)سے تمھیں شھر بدر کیا ھے تم بھی انھیں باھر نکال دو۔اور فتنہ پر دازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑہ کے ھے اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد حرام (کعبھ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس اگر وہ تم سے لڑیں تو (بے کھٹک) تم بھی ان کو قتل کرو۔کافروں کی یھی سزا ھے۔“
7۔ الٰھی اقدار کی حفاظت اور مغربی کلچر سے روک تھام ضروری ھے
دشمنوں سے مقابلہ اور جھاد، شجاعت، غیرت، حمیت، دینی تعصب، دین سے رغبت، فداکاری اور ایثار وغیرہ بھترین اور عظیم ترین اسلامی اقدار ھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں میں دینی پھچان، حیات، استقلال اور آزادی وجود میں آتے ھیں لیکن اس کے مقابلہ میں مغربی کلچر (والے) یہ چاھتے ھیں کہ کچھ جھوٹے اور خود ساختہ اقدار جیسے مطلق طور پر شدت پسندی کو منع کرنا (وغیرھ) کے ذریعہ ھماری سلامی اقدار کو ھم سے چھینا چاھتے ھیں؛ اسی وجہ یہ کھتے ھیں کہ شدت پسندی مطلق طورپر مذموم اور محکوم ھے!!
جی ھاں ھم بھی مانتے ھیں کہ ابتداء میں کسی کے ساتھ شدت پسندی مذموم اور محکوم ھے ، لیکن کیا شدت پسندی کے مقابلہ میں شدت پسندی یا ظلم وستم، قتل وغارت، جان و مال اورناموس پر تجاوز ، اور ان سب سے مھم اسلام (جس کے لئے مسلمانوں کی جان بھی قربان ھے) ؛ سے خیانت کرنے والوں کے مقابلہ میں بھی شدت پسندی بری اور محکوم ھے؟ مسلّم طور پر اس طرح کی شدت پسندی نہ صرف یہ کہ مذموم اور محکوم نھیں ھے بلکہ ضروری اور ھر مسلمان کی خواھش ھے۔
تو پھر کیوں ھم سے یہ چاھتے ھیں کہ ھم اپنے دینی اقدار کو پامال ھوتے ھوئے دیکھیں جو کہ ھمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ھے ان کو تمھارے ھاتھوں برباد ھوتا ھوا دیکھیں اور اپنے منہ پر ھاتہ رکہ لیں اور کچھ نہ کریںاور ان کے ساتھ بیٹہ کر مسکرائیں؛ پس خداوندعالم نے انسان میں غضب کو کس لئے پیدا کیا ھے؟ کس لئے ھمارے اندر قھر وغضب کے احساس کو پیدا کیا؟ آیا کچھ شدت پسند، خائن اور زر خرید غلاموں کے مقابلہ میں کچھ بھی اقدام نہ کریں یھاں تک کہ اگر ھمارا دین بھی خطرہ میں پڑ جائے کچھ بھی نہ بولیں اور شدت پسندی کو نہ اپنائیں؛ بلکہ آرام سے بیٹھے ھوئے مسکراتے رھیں، پس یہ آیت کریمہ کس کے لئے ھے:
( وَاقْتُلُوھمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوھمْ )
کس لئے خداوندعالم نے یہ ارشاد فرمایا ھے:
(مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَہ اٴَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھمْ )(6)
”محمد (ص) اللہ کے رسول ھیں اور جو لوگ انکے ساتھ ھیںوہ کفار کے لئےسخت ترین اور آپس میں انتھائی رحم دِل ھیں “
کھتے ھیں کہ اسلام تشدد اور شدت پسندی کا مخالف ھے، توآپ حضرات کھیں کہ اسلام کس شدت پسندی کا مخالف ھے؟ بعض مبھم چیزوں کو مطلق اقدار کے عنوان سے پیش کرتے ھیںتاکہ حقیقت کو چھپاسکیں، تاکہ شھادت طلبی، ایثار اور شجاعت وغیرہ کو لوگوں سے چھین لیں، اور ان کی جگہ بے توجھی، دین سے لاابالی اور دینی اور ملّی غیرت وغیرہ جیسے چیزوں کو عوام الناس میں رائج کریں۔
ھمیشہ تساھل(سستی) اور تسامح (ذو معنیٰ باتیں کرنا)کی باتیں کرتے ھیں ، کیا جو شخص ھماری جان کے لئے خطرہ ھو اس کے مقابلہ میں تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟! کیا وہ شخص جو انسانی ناموس میں خیانت کرے اس کے ساتھ تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟ کیا وہ شخص جو ھمارے دین کو جو ھماری جان سے بھی زیادہ عزیز ھے ؛ ھم سے چھین لینا چاھتا ھو اس کے مقابلہ میں تساھل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ھے؟!
اس بنا پر ، اسلامی حکومت کی تشکیل سے پھلے عوام الناس کی ھدایت کرنا ضروری ھے ، اور اس مرحلہ میں عوام الناس سے سخت لھجہ میں گفتگو نھیں ھونا چاھئے، اور سختی اور طاقت کے بل بوتے پر اسلامی حکومت کے تحقق کے لئے قدم نہ اٹھایا جائے اسی طرح اس مرحلہ میں لوگوں سے جھوٹے وعدے، فریب کاری اور گمراہ کنندہ وسائل کے ذریعہ عوام الناس کی صحیح ھدایت میں مانع ھونا صحیح نھیں ھے اس مرحلہ میں بھر پور سنجیدگی، بردباری، حوصلہ، صبر اور بھرپور وضاحت ، صداقت اور منطق اور عقل کی بنیاد پر عوام الناس سے گفتگو کی جائے تاکہ وہ حقیقت تک پھونچ جائیں اور غفلت وجھالت سے نجات پیدا کرلیں البتہ اس سلسلہ میں پیش آنے والی تمام تر رکاوٹوں کو راستہ سے ھٹایا جائے، اور جو لوگ عوام الناس کی ھدایت میں مانع ھوتے ھوں ان سے مقابلہ کیا جائے تاکہ عوام الناس کے لئے حق وحقیقت کے راستے کو انتخاب کرنے کا راستہ فراھم ھوجائے۔
جس وقت عوام الناس کا ایک گروہ حق کی طرف ھدایت پاجائے تو پھر اس حق کے پیروکاروں میں اضافہ کرنے کے لئے اور ااسلامی اور الٰھی معاشرہ کی وسعت کے لئے عوام الناس میںثقافتی کارکردگی اور راھنمائی صبر وتحمل کے ساتھ ھوتی رھیں؛ جیسا کہ خداوندعالم بھی اپنے پیغمبر کو قرآن کریم میں اپنی رسالت کے پھونچانے میں صبر وتحمل کی طرف دعوت دیتا ھے اور آپ سے یہ چاھتا ھے کہ سختیوں، بری بھلی باتوں، گالیوں، سخت برتاؤ اور اذیتوں کے مقابلہ میں صبر وتحمل سے کام لیں تاکہ عوام الناس ھدایت یافتہ ھوجائیں:
( فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اٴُوْلُوا الْعَزْمِ مِنْ الرُّسُلِ ) (7)
” اے رسول )پیغمبروں میں سے جس طرح اولوالعزم (عالی ھمت)صبر کرتے رھے تم بھی صبر کر۔
8۔ قوانین کو جاری کرنے اور دشمن نظام سے بھر پور مقابله
قارئین کرام ! جس وقت خداوندعالم کی مرضی کے مطابق اسلامی حکومت تشکیل پائے، تو معاشرہ میں اسلامی احکام اور قوانین جاری ھوں اور دوسری حکومتوں کی طرح اس میں قوہ قھریہ (پولیس یا فوج) سے استفادہ کیا جائے، نیز حکومت کے پاس خلاف ورزی کرنے والوں سے مقابلہ کے لئے کافی اسباب و وسائل موجود ھوں، اور مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے زندان، جرمانہ اور دوسری سزائیں معین کی جائیں، اور بیرونی دشمنوں نیز اندرونی فتنہ وفساد سے روک تھا م کے لئے پولیس اور فوج کا انتظام کیا جائے؛ کیونکہ حکومت صرف اخلاقی طور پر وعظ ونصیحت سے اپنا کام نھیں چلا سکتی وہ حاکم جس کے پاس طاقت اور قدرت نہ ھو اور فقط وعظ ونصیحت اور تذکر پر اکتفاء کرے وہ اخلاقی معلم تو ھوسکتا ھے حاکم نھیں ھو سکتا!!
پس جس قوت اسلامی حکومت اور قانونی حکومت تشکیل ھوجائے اور عوام الناس اس حکومت کو قبول کرلیں اور اس کی بیعت کرلیں، نیزحکومت بھی اسلامی قوانین اور احکام کو جاری کرنے اورملکی مسائل میں رسیدگی کرنے میںمشغول ھوجائے، تو اگر کوئی گروہ فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرے تو اس سے مقابلہ ضروری ھے جیسا کہ ھماری اسلامی فقھی کتابوں میں وارد ھواھے کہ فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرنے والوں (جن کو اصطلاحاً ”اھل بغی“ (بغاوت کرنے والے) کھا جاتا ھے) سے جھاد واجب ھے جس طرح حضرت علی علیہ السلام نے فتنہ وفساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کیا ھے اور ان کو اپنی جگہ بٹھا دیا ھے۔
حضرت رسول اکرم (ص) کی وفات غم ناک کے بعد عوام الناس حضرت علی علیہ السلام کی بیعت پر آمادہ نھیں ھوئی جس کے نتیجہ میں حکومت دوسروں کے ھاتھوں میں چلی گئی، (اس وقت بھی) حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کی ھدایت فرمائی اور ان کی راھنمائی کی ھے ، اور حضرت نے 25/ سال سے اپنے اس وظیفہ کو انجام دیا اور حکومت (وقت) سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن جس وقت اسلامی ممالک مثل مصر، عراق اور مدینہ منورہ کے ایک بڑے مجمع نے آپ کی خدمت میں حاضری دی اور آپ کی بیعت کی ، اور آپ کو اپنا امام اور مقتدا تسلیم کرلیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اوپر حجت تمام دیکھی اور عوام الناس پر حکومت کرنے کا اپنا فریضہ سمجھا کیونکہ اس عظیم مجمع کی بیعت کے پیش نظر جس کا وجود تاریخ میں بے نظیر ھے ؛ حکومت سے دور رھنے کی کوئی دلیل باقی نھیں رھی ، لھٰذا آپ حکومت قبول کرنے پر مجبور ھوگئے؛ حالانکہ آپ کو حکومت سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی ، اور صرف عوا م الناس کی بیعت کے ذریعہ الٰھی وظیفہ کا احساس کرتے ھوئے حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں سنبھالی، جیسا کہ آپ نھج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ھیں:
”اَمَا وَ الَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاٴ الْنَسَمَةِ لَولٰا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قَیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ، وَمَا اَخَذَ اللّٰہ عَلَی الْعُلَمَاءُ اَنْ لٰا یُقَارُّوْا عَلٰی کَظَّةِ ظَالِمٍ وَلاٰ سَغَبِ مَظْلُوْمٍ لَاَلْقَیْتُ حَبْلَھا عَلَی غَارِبِھا وَلَسَقِیْتُ آخِرَھا بِکَاْسِ اَوَّلِھا وَلَاَلْفَیْتُمْ
دُنْیَاکُمْ ھٰذِہ اَزْھدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفَطَةِ عَنْز “ (8)
دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں ،اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ھو گئی ھوتی ، اور خدا وندعالم نے علماء سے یہ عھد و پیمان نہ لیتا کہ وہ ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی گرسنگی پر سکون وقرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو پھلے والے کے کاسہ سے سیراب کرتا اور میری نظر میںتمھاری دنیا کی قیمت بکری کی ناک سے بھتے پانی کی طرح ھے۔
لیکن ابھی حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کو صرف چند ھی دن گذرے تھے کہ دنیا پرست اور تبعیض اور بے عدالتی چاھنے والوں نیز اپنے کو دوسروں سے بھتر جاننے والے حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کو برداشت نہ کرسکے اسی طرح وہ لوگ جو حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں اپنی شیطانی تمناؤں اور غاصب اور غیر قانونی حکومت کو خطرہ میں دیکہ رھے تھے ، اسی طرح وہ سادہ لوح مسلمان جو صحیح اسلامی نظریہ کو سمجھنے سے قاصر تھے نیز ان کی فکر پست اور ھٹ دھرمی کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام کی عظیم حکمت عملی کو نھیں سمجھ رھے تھے، یہ تمام لوگ ایک کے بعد ایک فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرنے لگے ، چنانچہ جنگ جمل، جنگ صفین اور آخر کار جنگ نھروان رونما ھوئیں اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام ایک اسلامی حاکم کے عنوان سے ؛ جب آپ نے الٰھی اور اسلامی قوانین و احکام کو خطرہ میں دیکھا تو آپ کا کیا وظیفہ تھا؟ کیا آپ ھاتہ پر ھاتہ رکھے تماشا دیکھتے رھتے!! اور فتنہ وفساد اور آشوب کی روک تھام نہ کرتے؟! کیونکہ تشدد اور شدت پسندی محکوم اور مذموم ھے؟!!
لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت اسلامی حکومت اور اس کے ارکان کی حفاظت کے خاطر تلوار اٹھالی اور باغی اور سرکش لوگوں کے ساتھ جنگ کی ، جنگ جمل میں بھت سے صحابی رسول یھاں تک کہ طلحہ و زبیر جو مدتوں تک رسول اکرم (ص) کے ساتھ مل جھاد کرتے تھے؛ کو قتل کیا حالانکہ زبیر آپ کا پھوپھی زاد بھائی تھا اور اس کی جانفشانی اور آنحضرت (ص) کے بزم میں اپنے صلاحیت کی وجہ سے آنحضرت (ص) نے اس کے لئے دعا فرمائی ھے، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے نھیں فرمایا: کہ اے زبیر ! تو میرا پھوپھی زاد بھائی ھے اور دونوں دوستی کرلیں، اور میں تجھ سے نرم رویہ اختیار کروں گا اور تیری چاھتوں کو پورا کردو ں گا بلکہ آپ نے اس عقیدہ کے ساتھ کہ چونکہ میری حکومت حق ھے لھٰذا جو لوگ اس کے مقابلہ میں سرکشی کریں گے ان کو پسپا کردیا جائے لھٰذا آپ نے پھلے ان کو وعظ اور نصیحت فرمائی لیکن جب انھوں نے نہ مانا تو پھر تلوار کا سھارا لیا اور ان کو پسپا کردیا اور بھت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا کیونکہ آپ کی نظر میں خدا اور مسلمانوں کا حق ذاتی مفاد سے کھیں بالاتر تھا اور اسلامی نظام کو باقی رکھنے کے لئے تشدد اور شدت پسندی کو ضروری سمجھا؛ کیونکہ اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے تشدد اور شدت عمل کو واجب سمجھتے تھے۔
9۔ سازش کرنے والوں اور زر خرید غلاموں کے مقابلہ میں عوام الناس کی ھوشیاری
قارئین کرام ! اسلامی انقلاب سے پھلے جب اسلامی حکومت تشکیل نھیں ھوئی تھی حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ اپنی تقاریر اور مکاتبات کے ذریعہ عوام الناس کی ھدایت اورراھنمائی کرتے تھے اور حکومت کو نصیحت فرمایا کرتے تھے؛ لیکن جس وقت لوگوں نے امام خمینی (رہ) کی بیعت کی اور اسلام پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ھوگئے اور اسلام دشمن طاقتوں کو ملک سے باھر نکالنا چاھتے تھے اور اس ملک میں اسلامی و الٰھی حکومت کے خوھاں تھے، اس وقت حضرت امام خمینی (رہ) نے حکومت کی ذمہ داری قبول کی اور فرمایا:
”میں اس ولایت کی مشروعیت کی بنا پر جس کو خداوندعالم نے مجھے عطا فرمائی ھے نیز آپ حضرات کی مدد اور کمک کے ذریعہ اس حکومت کا جنازہ نکال دونگا اور خود حکومت بناؤں گا۔“
یعنی امام خمینی (رہ)ولی فقیہ کے عنوان سے عوام الناس پر حکومت کا حق رکھتے تھے اور آپ کی ولایت الٰھی مشروعیت اور قانونیت رکھتی تھی، لیکن جب تک عوام الناس میدان میں نہ آئی اور آپ کی بیعت نہ کی ، اس وقت تک اس ولایت نے عینی تحقق پیدا نہ کیا؛ لیکن عوام الناس کے میدان میں آنے اور انقلابی صحنوں کم نظیر حاضر ھونے اور راہ اسلام و رھبری کی اتباع کرنے میں وفاداری اور جانفشانی کے اعلان کے بعد ، وہ الٰھی ولایت عینی تحقق موجود ھوگئی اور اسلامی حکومت تشکیل ھوگئی۔
بے شک کہ اس اسلامی حکومت کو لاکھوں شھیدوں کا خون دینا پڑا ھے جس کی وجہ سے آج بھی باقی ھے اور بھت عظیم فدارکار اور انقلاب کے فداکاروں کے ذریعہ اس ملک کی سر حد اور انقلابی اقدار کی حفاظت میں مشغول ھیں لھٰذا چند زر خرید غلاموں کے ذریعہ اس کو کوئی نقصان نھیں پھونچنا چاھئے ھمارے عوام الناس اس چیز کی کبھی اجازت نھیں دیں گے کہ چند خود فروش مزدوروں کے ذریعہ ؛ اسلامی مصالح، لوگوں کی جان ومال اور ناموس خطرہ میں پڑ جائیں جو لوگ اس مرحلہ میں (18 تیر ماہ 1378ھجری شمسی کے بعد سے(9) کچھ آشوب بپا کرنے والے مزدوروں اور دوسروں کی روٹیوں پر پلنے والے سڑکوں پر نکل کر آشوب بپا کرنے لگے اور لوگوں کے گھروں، دکانوں وغیرہ کو آگ لگائیں اور بھت زیادہ لوٹ مار کریں، لوگوں کی ناموس اور عزت کو پامال کریں ، تو کیا ان تمام لوگوں کا سختی کے ساتھ مقابلہ نہ کیا جائے؟!! اور کیا اسلام تشدد کی اجازت نھیں دیتا؟! یا یہ کہ ان لوگوں نے اسلام کو نھیں پھچانا ، یا پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنا چاھتے ھیں!!
ھنسی اور لوریاں دے کر تو آشوب گری سے روک تھام نھیں کی جاسکتی، ان کے مقابلہ میں پولیس، تشدد اور شدت عمل کے ذریعہ برتاؤ کیا جائے اور طاقت کے بل بوتے پر ان کی روک تھام ھوسکتی ھے، جس کے بعد پھر کبھی ملک میں اس طرح کے درد ناک حوادث رونما نہ ھونے پائیں کیونکہ ھمارے برادران ان لوگوں کے فریب میں نھیں آئیں گے جو کھتے ھیں کہ تشدد اور شدت پسندی ھمیشہ اور مطلقاً ممنوع ھے، ان کی باتوں کو نھیں مانیں گے اور اگر آج تک صبر کیا اور خون جگر پیا ھے تو وہ مقام معظم رھبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مد ظلہ کی طاعت اور فرمانبر داری کی وجہ سے ھے، ورنہ تو جب ھمارے فداکار لوگوں کو یہ احساس ھوجائے کہ مقام معظم رھبری فلاں کام پر دل سے راضی نھیں ھیں تو پھر ان کی مرضی کے لئے اپنی جان کی بازی بھی لگاسکتے ھیں چنانچہ پوری دنیا نے دیکھا کہ جب مقام معظم رھبری نے ساکت رھنے اور آرام سے رھنے کے لئے کھا تو سبھی لوگ آپ کی اطاعت اور عمومی مصالح کی بنا پر سب بیٹھے دیکھتے رھے اور خون جگر پیتے رھے اور جب تک آپ کا اشارہ نہ ھوا سڑکوں پر نہ آئے اور مظاھرے نہ کئے، لیکن جیسے ھی انقلاب سے وفاداری کے اعلان کا وقت آپھنچا تو دشمنوںکو دکھادیا کہ ھم ھمیشہ اسلام اور انقلاب سے دفاع کرنے کے لئے حاضر ھیں، پورے ملک میں وہ عظیم مظاھرے ھوئے جن پردنیا بھر کے لوگوں اور خود دشمنوں نے تعجب کیا۔
حوالے:
(1)سورہ شعراء آیت 3 تا 4 .
(2) سورہ توبہ آیت 12 .
(3)سورہ آل عمران آیت 159 .
(4) سورہ توبہ آیت 73
(5) سورہ بقرہ آیت 1950 تا 191 .
(6) سورہ فتح آیت 29 .
(7)سورہ احقاف آیت 35 .
(8( نھج البلاغہ خطبہ نمبر 3 .
(9)یہ تھران یونیورسٹی میں ھونے والے حادثہ کی طرف اشارہ ھے جس کی آگ وھاں سے شروع ھوکر شھر کے مختلف مقامات تک پھنچی اور جس میں امریکہ غلاموں نے قتل وغارت اور بربریت کا وہ کھیل کھیلا جس سے انسانیت لرز اٹھی یھاں تک کہ عبادت گاھوں اور مساجد میں آگ لگادی گئی (مترجم( .

Add comment


Security code
Refresh