www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

سیتیسواں جلسہ
1۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
ھم نے عرض کیا کہ اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ھوتی ھے کہ معاشرہ میں اسلامی قوانین نافذ کرے اور امن وامان برقرار رکھے نیز ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے ظاھر سی بات ھے کہ اس سلسلہ میں پولیس ، طاقت اور تشدد سے کام لیا جائے گا اور جو لوگ اسلامی ملک سے دشمنی اور عناد کی بنا پر جنگ وجدال کرتے ھیں؛ ان سے پیار ومحبت اور نرمی کے ساتھ مقابلہ نھیں کیا جاسکتا، یا وہ لوگ جو اندرون ملک شیطانی حرکتوں کے تحت فساد کرتے ھیں ؛ ان سے پیار ومحبت کے ذریعہ ان سے مقابلہ نھیں کیا جاسکتا۔

ھم نے یہ بھی عرض کیا کہ جس طرح سے اسلامی قوانین رحمت ومحبت اور مھربانی پر مبنی ھوتے ھیں اور اسلام پیام دوستی ومحبت دیتا ھے؛ اسی طرح خاص مواقع پر طاقت، سخت رویّےاور خشونت (شدت پسندی)سے بھی کام لیا جاتا ھے، اور اسلام مجرموں اورفساد کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرنے اور سزا دینے کا بھی حکم دیتا ھے لیکن چونکہ یہ بحث ایک فرعی تھی اور اس بحث کا شمار ھماری اصلی بحث میں نھیں ھوتا، لھٰذا مختصر طور پر اس سلسلہ میں گفتگو ھوئی لیکن حق مطلب ادا نھیں ھوسکا لیکن اس سلسلہ میں اخباروں اور جرائد میں ھونے والے عکس العمل (ری ایکشن) سے اندازہ ھوتا ھے کہ محبت اور تشدد کے سلسلہ میں مزید تفصیلی بحث کی ضرورت ھے، لھٰذا اس جلسہ کے لحاظ سے اس موضوع پربعض چیزیں بیان کرتے ھیں۔
2۔ دشمنوں کی طرف اسلام کے خلاف پروپیگنڈا اور کارکردگی
ایک زمانہ سے اسلام کے دشمنوں نے دین اسلام کو تشدد اور شدت پسندی کا دین قرار دے رکھا ھے اور کھتے ھیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ھے، کیونکہ اسلام نے دشمنوں سے جھاد اور مقابلہ کو قابل ستائش قرار دیا ھے، چنانچہ قرآنی بھت سی آیات جھاد کے بارے میں موجود ھیں، اور جھاد کو فروع دین قرار دیا گیا ھے۔
چنانچہ بعض لوگ اس مسئلہ سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ھوئے کھتے ھیں کہ اسلام، تشدد اور شدت پسندی کا دین ھے ، اور اسلام پھیلانے کے لئے طاقت اور تلوار کا استعمال کیا گیا ھے، یعنی لوگوں نے ڈر کر اسلام کوقبول کیا ھے ان کے مقابلہ میں بعض لوگوں نے اس نظریہ سے متاثر ھوتے ھوئے دفاعی لھجہ اختیار رکرتے ھوئے کھا کہ اسلام میں تشدد نھیں ھے، اسلام ھمیشہ پیار ومحبت کی دعوت دیتا ھے، اور جھاد یا شدت پسندی کے مسائل ایک خاص زمانہ اور خاص مقام سے مخصوص تھے ، عصر حاضر میں ان مسائل سے کوئی سروکار نھیں ھے، اور ان کو (آج کل) بیان بھی نھیں کرنا چاھئے، آج کل صرف پیار محبت اور جھک کر باتیں کرنا چاھئے!
ھماری ملت جانتی ھے کہ دشمن کن اغراض ومقاصد کے تحت اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکررھا ھے لھٰذا ھماری ملت دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نھیں ھوتی لیکن توجہ رھے کہ مسئلہ یھی پر ختم نھیں ھوتا بلکہ اس سے آگے قدم رکھا جاتا ھے ، اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ آج اسلامی دشمن طاقتیں نئے نئے طریقوں سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکررھی ھیں اور ھر روز مختلف طریقوں؛ جیسے ادبی، ھنری اور دیگر طریقوں سے اسلامی معارف میں شبھات و اعتراضات وارد کررھی ھیں، تاکہ ھماری ثقافت میں خطرناک برے آثار پھیلادیں تاکہ عوام الناس دینی سلسلہ میں کمزور ھوجائیں یہ وہ چیز ھے جس کے بارے میں نفسیاتی اور ذاتی تجربات شھادت دیتے ھیں۔
ھم نے اپنی آنکھوں سے اپنے اسلامی معاشرہ اور دوسرے اسلامی ملکوں کو دیکھا ھے کہ جس وقت اسلام دشمن طاقتیں اپنے مختلف طریقوں سے مسلسل پروپیگنڈاکرتی ھیں اور کسی ایک معاشرہ کو تحت تاثیر قرار دیتی ھیں ، یھاں تک کہ آنے والی نسل (جودشمن کے مد نظر ھوتی ھے) دشمن کی تبلیغ سے متاثر ھوجاتی ھے، اور جوان طبقہ دشمن کے پروپیگنڈے کی زد میں آکر اپنی دینی اور قومی حیثیت بھول جاتا ھے اور جیسا کہ دشمن چاھتا ھے اپنی اصلی حیثیت کو بھول کر دشمن کی پیش کردہ صورت اپنالیتا ھے۔
اگر ھم عصرِ حاضر کی ثقافت خصوصاً روشن خیال رکھنے والوں کے یھاں رائج ثقافت کو دیکھیں تو دشمن کے پروپیگنڈے کے آثار واضح طور پر دکھائی دیں گے، اور ان چیزوں کا بھی مشاھدہ کرلیں گے جو دشمن نے ھماری یھاں رائج کی ھیں ھماری ثقافت میں دشمن کی رائج کردہ چیزوں میں سے آزادی اور ڈیموکریسی ھیںجس کو مطلق اقدار کی صورت میں ھمارے معاشرہ میں رائج کردیا گیا ھے، اور ان چیزوں کے بارے میں اس قدر پروپیگنڈا کیا جاتا ھے کہ گویا ایک بت ھے کہ کوئی اس ڈیموکریسی کے خلاف بولنے کی جرائت نھیں کرتا اور نہ ھی اس کے نقائص کو بیان کرسکتا ھے حالانکہ خود مغربی دانشور وں نے ڈیموکریسی کے سلسلہ بھت زیادہ اور سخت تنقید کی ھے، اور آج بھی بھت سے سیاسی فلاسفہ اور سماج ماھرین مختلف مواقع پر ڈیموکریسی کے برخلاف گفتگو کیا کرتے ھیں نیز اس سلسلہ میں کتابیں بھی لکھی جاتی رھی ھیں، اور یھی نھیں بلکہ ان میں سے بعض (بھترین) کتابوں کا دنیا کی مختلف مشھور زبانوں میں ترجمہ ھوتا ھے منجملہ فارسی (و اردو) ، ان کو عوام الناس پڑھتے ھیں؛ لیکن اس زمانہ میں دشمنوں کی طرف سے ڈیموکریسی کے اس طرح مقدس جلوہ دکھائے جاتے ھیں کہ جھان سوم میں کوئی اس کے خلاف بولنے کی جرائت نھیں کرتا اور اس سلسلہ میں تنقید نھیں کرسکتا، اگر کوئی مغربی ممالک میں رائج ڈیموکریسی اور آزادی کے بارے میں زبان کھولے تو اس کو بیک ورڈ اور ظلم واستبداد جیسی تھمتوں سے نوازا جاتا ھے۔
3۔ مغربی ممالک میں حقوق بشر کا جھوٹا دعویٰ
بے شک مغربی باشندے اپنے پروپیگنڈوں کے پیچھے ایک خاص مقصد چھپائے ھوئے ھیں، اور اپنے منافع کے خاطر نیز انقلابی ممالک کو اپنے تحت لانے کے لئے ھمیشہ ڈیموکریسی، آزادی اور حقوق بشر کا دم بھرتے ھیں، اور اگر کوئی ان کی مخالفت کرتا ھے تو اس پر ڈیموکریسی کی مخالفت اور حقوق بشر کی پامالی کی تھمت لگاتے ھیں حالانکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ظالم ترین اور ڈکٹیٹر"Dictaor" حکومتوںکے ظلم وستم کے مقابلہ میں کوئی عکس العمل ( ری ایکشن) نھیں دکھایا جاتا، کیونکہ اس حکومت کے ذریعہ ان کے مقاصد پورے ھوتے ھیں بلکہ خود وہ حکومتیں انھیں کی پٹھو ھوتی ھیں۔
قارئین کرام ! ان کے جھوٹے دعوں کا پول تو اس وقت کھلتا ھے جب کسی ملک میں ڈیموکریسی اصول وضوابط کے تحت انتخابات ھوتے ھیںلیکن اسلام پسند پارٹی اکثریت میں آجاتی ھے اور وہ پارٹی کامیاب ھوجاتی ھے تو اس وقت ان انتخابات کو باطل قرار دیدیا جاتا ھے؛ اور فوجی بغاوت کے ذریعہ فوجی حکومت قائم کردی جاتی ھے اور ھر روز ھزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بھایا جاتا ھے، اور آزادی خواہ مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ھے اور حقوق بشر کے یہ جھوٹے نعرے لگانے والے نہ صرف یہ کہ اس حکومت کو حقوق بشر پامال کرنے اور آزادی کی رعایت نہ کرنے کا الزام نھیں لگاتے بلکہ جلد ھی اس حکومت کو تسلیم بھی کرلیتے ھیں اور ان کے کارناموں کی تائید کرتے ھیں اور بھت ھی وسیع پیمانے پر ان کی حمایت کرتے ھیں۔
یا جس وقت صھیونیزم ”سر زمین فلسطین“ پر قبضہ کرتے ھیں اور لوگوں کو اپنے گھروں سے باھر نکال دیتے ھیں اور ھزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بھاتے ھیں اور لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک سے باھر نکال دیتے ھیں،اس وقت کوئی نھیں کھتا کہ ان کا یہ کام حقوق بشر کے خلاف ھے بلکہ طاقتور ممالک اور سوپر پاور ممالک اس غاصب اور قابض حکومت کو تسلیم کرلیتے ھیں، جبکہ یہ ظالم اور غاصب حکومت اس سر زمین کے اصلی مالکوں کا قتل عام کرتی ھے اور ان کے گھروں کو مسمار کر رھی ھے، لیکن ان سب کو دیکہ حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے کوئی اعتراض نھیں کرتے صرف کبھی کبھار اقوام متحدہ اپنی سیاست کے تحت کوئی بے معنی اور غیر موثر حکم صادر کرتی ھے اور عملی طور پر اس غاصب وظالم حکومت کو گرین لائٹ دکھاتی ھے کہ اگر اس حکم نامہ پر عمل نہ بھی کیا تو کوئی بات نھیں کوئی مشکل پیش آنے والی نھیں ھے اور کسی طرح کا کوئی ایکشن نھیں لیا جائے گا۔

Add comment


Security code
Refresh