www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 بے شک ان لوگوں کا یہ نظریہ صحیح نھیں ھے، کیونکہ اگر مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے مقابلہ میں سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور ضروری مواقع پر تشدد اور پولیس کا سھارا نہ لیا جائے تو اس طرح کے فتنہ وفساد دوبارہ بھی ھوسکتا ھے یھاں تک کہ ممکن ھے اس طرح کے برتاؤ سے دوسرے بھی ناجائز فائدہ اٹھائیں، کیونکہ اگر اس طرح کا فتنہ وفساد بپا کرنے والوں، مساجد میں آگ لگانے والوں، عورتوں کے سروں سے چادر چھینے والوں اور مختلف مقامات پر آگ لگانے والوں نیزدھشت گردی پھلانے والوں کے مقابلہ میں اگر بیٹھے مسکراتے رھیں اور نرمی کے ساتھ برتاؤ کرتے رھیں تو گویا یہ فتنہ وفساد پھلانے والوں کے لئے ایک سبز چراغ ھوگا اور وہ یہ سوچ سکتے ھیں کہ اس طرح کا کام دوبارہ بھی کیا جاسکتا ھے!! لھٰذا یہ نظریہ بالکل نا درست اور اسلام کے مخالف ھے کیونکہ اسلام کا حکم یہ ھے کہ محارب (لڑائی جھگڑا کرنے والا) اور مفسدفی الارض کے لئے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔
عام طور پر حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کرنا اور تشدد کا استعمال کرنا دو طریقہ پر ھوسکتا ھے: کبھی تو انفرادی طور پر ھوتا ھے اور کبھی اجتماعی طور پر اجتماعی طور پر اس طرح سے کہ ایک گروہ منصوبہ بندی کے ساتھ حکومت کے خلاف مسلحانہ حملہ کرتا ھے اسلامی فقہ میں اس گروہ کو ”بُغاة“ اور ”اھل بَغی“ (بغاوت کرنے والا) کھا جاتا ھے اسلامی جھاد کی ایک قسم اسی طرح کے لوگوں سے جھاد کرنا ھے اگر کچھ لوگ کسی گروہ کے تحت اسلامی حکومت کے خلاف مسلحانہ قیام کریں توان سے جنگ کرنا ضروری ھے، یھاں تک کہ اسلامی حکومت کے سامنے تسلیم ھوجائیں اور ان سے کسی طرح کی کوئی سازش نھیںکرنا چاھئے لیکن کبھی حکومت کے خلاف اس طرح کا قیام کسی خاص گروہ کے تحت نھیں ھوتا بلکہ ایک یا دو آدمی مسلحانہ حملوں کے ذریعہ معاشرہ میں بد امنی پھیلاتے ھیں اور عوام الناس کی جان ومال او رناموس پر حملہ ور ھوتے ھیں اور دھشت گردی پھیلاتے ھیں شریعت اسلام میں ایسے افراد کو ”محارب“ کھا گیا ھے ایسے افراد کے مقابلہ میں لشکر کشی کی ضرورت نھیں ھوتی، بلکہ ان لوگوں کو اسلامی عدالت کے حوالہ کیا جاتا ھے تاکہ قاضی شرع ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔
اور قاضی شرع بھی محارب اور مفسد فی الارض کے سلسلہ میں چار احکام میں سے کوئی ایک حکم لگا سکتا ھے، اور وہ چار حکم درج ذیل ھیں:
۱۔ پھانسی دینا۔
۲۔ تلوار یا بندوق کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دینا۔
۳۔ مختلف سمت سے ھاتہ پیر کاٹ دینا ،(یعنی داھنا ھاتہ اور بایاں پیر ،یا بایاں ھاتہ اور داھنا پیر)۔
۴۔ اسلامی ملک سے نکال دینا۔
چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَہ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا اٴَنْ یُقَتَّلُوا اٴَوْ یُصَلَّبُوا اٴَوْ تُقَطَّعَ اٴَیْدِیھمْ وَاٴَرْجُلُھمْ مِنْ خِلاَفٍ اٴَوْ یُنفَوْا مِنْ الْاٴَرْضِ ذَلِکَ لَھمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَلَھمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ (۳)
”بس خدا و رسول سے جنگ کرنے والے اور زمین میں فساد کرنے والوں کی سزا یھی ھے کہ انھیں قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ھاتہ پیر مختلف سمت سے قطع کردئے جائیں یا انھیں ارض وطن سے نکال باھر کیا جائے، یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ھے اور ان کے لئے آخرت میں عذاب عظیم ھے۔ “
لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ جو لوگ اسلامی حکومت اور نظام اسلام کے خلاف فتنہ وفساد برپا کریں وہ محارب اور مفسد فی الارض ھیں اور ان کو اسلام کے مطابق سزا دی جائے، کسی بھی صورت میں اسلامی سزا اٹھائی نھیں گئی ھیں اسلامی تمدن کے مخالف افراد کھا کرتے ھیں کہ اسلامی سزائیں اور اسلام کے احکام تشدد آمیز ھیں اور عام طور پر کسی بھی طرح کی تشدد مذموم ھے اور جیسا کہ ھم نے تشدد کی بحث میں بیان کیا کہ جس طرح مطلق آزادی صحیح نھیں ھے اسی طرح مطلق تشدد بھی محکوم اور مذموم نھیں ھے بلکہ بعض موقع پر تشدد اور غیظ وغضب کا مظاھرہ کرنا جائز اور لازم ھے، اور جو لوگ تشدد اور غیظ وغضب کے ساتھ آگے بڑھتے ھیں ان کے ساتھ میں ویسے ھی تشدد اور قھر و غضب کے ساتھ جواب دیا جائے، ورنہ اگر ان کے ساتھ پیار و محبت کا برتاؤ کیا جائے تو واقعاً یہ ان کے لئے ایک سبز چراغ دکھانے کی طرح ھوگا اور وہ پھر دوبارہ بھی اس طرح کا آشوب برپا کرسکتے ھیں، اور اس طرح دوبارہ فساد پھیلانے کا راستہ ھموار ھوجائے گا۔
۴۔ سخت رویہ نہ اپنانے کا نتیجہ
گذشتہ سال ملک کے بعض مقامات پر مختصر طور پر بدامنی پھیلی ، اور بعض دلائل کی بنا پر حکومتی عھدہ داروں نے یہ مصلحت دیکھی کہ بد امنی پھیلانے والوں کے ساتھ تھوڑی نرمی کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، اور سخت رویہ نہ اپنایا جائے؛ چنانچہ آپ حضرات نے دیکھا کہ اسی نرم رویہ اپنانے کا نتیجہ تھا کہ ایک بار پھر بد امنی پھیل گئی، جس کے درد ناک نتائج ناقابل برداشت تھے لھٰذا اگر بد امنی پھیلانے والوں اور مفسد فی الارض کے ساتھ سخت برتاؤ نہ کیا جائے اور اسلامی سزائیں ان کے حق میں جاری نہ کی جائیں تو پھر دوبارہ بدامنی نہ پھیلنے کی کوئی ضمانت نھیں ھے اور یہ بھی ضمانت نھیں ھے کہ ایک بار پھر یونیورسٹی کے ماحول سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے گا بے شک ھمارے یونیورسٹی کے طلباء مسلمان، ھوشیار اور موقع شناس ھیں اور بدامنی اور آشوب پھیلانے سے بری ھیں لیکن بعض افراد ایسے بھی موجود ھیں جو انھیں طلباء کے پاکیزہ احساسات سے ناجائز فائدہ اٹھاکر پھر دوبارہ بد امنی پھیلانا چاھتے ھیں۔
لھٰذا گر بد امنی پھیلانے والوں کے ساتھ سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور بعض لوگوں کے مطابق؛ ان کے ساتھ تشدد اور شدت پسندی کا برتاؤ نہ کیا جائے تو پھر دوبارہ اس طرح کی بد امنی نہ پھیلانے کی کیا ضمانت ھے؟ لھٰذا توجہ رھے کہ اگر اسلامی سزائیں سخت ھیں جیسا کہ چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم ھے یا دوسرے جرائم؛ خصوصاً محارب اور مفسد فی الارض کے لئے سخت سے سخت سزائیں معین کی ھیں، تو وہ اس وجہ سے ھیں تاکہ پھر کوئی بد امنی پھیلانے کی جرائت نہ کرسکے ، اور اس طرح کے مجرم سخت سزا سے خوف زدہ رھیں کیونکہ دشمن اور مجرم کو ڈرانے کا مسئلہ اسلام کی ایک بھت بڑی حکمت ھے جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ھے، مسلمانوں اور سیاسی مسلمانوںکو اس آیت پر توجہ کرنا چاھئے، ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
( وَاٴَعِدُّوا لَھمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھبُونَ بِہ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِھمْ لاَتَعْلَمُونَھمْ اللهُ یَعْلَمُھمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَاٴَنْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ ) (۴)
” اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نھیں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے سب کو خوفزدہ کردو، اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گا۔“
جن مواقع پر عوام الناس کی طرف سے تشدد جائز ھے وہ اس وقت ھے جب عوام الناس کو یہ احساس ھوجائے کہ اسلامی عھدہ داران خطرہ میں ھیں ، اور اسلامی نظام کے خلاف سازش ھورھی ھے ، اور صرف اسلامی حکومت اسلامی نظام کا دفاع کرنے پر قادر نھیں ھے کیونکہ جب اسلامی حکومت کو نظام کے سلسلہ میں کسی سازش کا پتہ چل جاتا ھے تو وہ خود اپنی ذمہ داری پر عمل کرتی ھے، لیکن اگر اسلامی حکومت تنھا کافی نہ ھو تو عوام الناس کا وظیفہ بنتا ھے کہ اسلامی حکومت کی مدد کریں اور اسلامی حکومت کے عھدہ داروں کا دفاع کریں جیسا کہ آپ حضرات نے دیکھا کہ اس سال (تیر ماہ ۱۳۷۸ئہ شمسی ) کے درد ناک حادثہ میں کس طرح کا ماحول پیدا ھوگیا، اس وقت واقعاً اسلامی نظام خطرہ میں تھا، اس وقت حکومتی قدرت اس فساد کی آگ کو بجھانے کے لئے کافی نہ تھی، لھٰذا عوام الناس اور بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) اس آگ کو بجھانے کے لئے آگے بڑھے اور اس کو خاموش کردیا؛ جیسا کہ بعض حکومتی بڑے عھدہ داروں نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ اس شعلہ ور آگ کو ھمارے بسیجیوں نے بجھایا ھے۔
لھٰذا اگر اسلامی نظام کے خلاف کوئی سازش ھو (جبکہ بعض لوگ اس سازش سے بے خبر رھتے ھیں) اور ھم واضح اور قطعی طور پر اس سازش کا احساس کرلیں اور اس سازش کو ختم کرنے کے لئے تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ھو،تو اس صورت میں تشدد او رشدت پسندی کا اظھار کرنا واجب اور ضروری ھے جیسا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ ”اس موقع پر تقیہ کرنا حرام ھے، اور قیام کرنا چاھئے، ھرچہ بادا باد “(چاھے کچھ بھی ھو) جس وقت خود اسلام خطرہ میں ھو اس موقع پر کسی طرح کا کوئی تقیہ جائز نھیں ھے، اور اسلام کے دفاع کے لئے اٹہ کھڑا ھونا چاھئے، یھاں تک کہ اگر ھزاروں لوگ بھی قتل ھوجائیں، اگرچہ دوسرے افراد کسی وجہ سے اس خطرہ کی طرف متوجہ نہ ھوں یا وہ اس کام میں مصلحت نہ سمجھتے ھوں، لیکن جب یقینی دلائل کے ساتھ واضح ھوجائے کہ واقعاً اسلامی نظام اور اسلامی عھدہ داروں کے لئے خطرہ ھے تو پھر عوام الناس کو ان کا دفاع کرنا واجب ھے؛ لھٰذا یھاں پر تشدد اور غیظ وغضب کا ظاھر کرنا واجب ھے۔
ھماری باتوں کا مطلب یہ نھیں ھے کہ ھر موقع پر تشدد سے کام لیا جائے ، ھم تشدد کے طرفدار نھیں ھیں بلکہ ھمارا اعتقاد تو یہ ھے کہ پیار و محبت اور مھربانی اصل ھے ، اور صرف ضروری مواقع پر تشدد سے کام لیا جائے ھماری عرض تو اتنی ھے کہ جب اسلامی حکومت موجود ھو تو پھر حکومتی متعلق اداروں اور عدلیہ کے فیصلہ کے مطابق کام ھو؛ لیکن اگر کوئی مسئلہ حکومت کے ھاتھوں سے نکل جائے اور اسلام اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ بچے تو اس وقت تشدد کا مظاھرہ کرنا واجب ھے۔

Add comment


Security code
Refresh