www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انتالیسواں جلسہ
۱۔ دینی مسائل کو مطلق یا نسبی قرار دینا
قارئین کرام! ھم نے گذشتہ دو سال میں ”اسلامی سیاسی نظریات“ کے بارے میں گفتگو کی گذشتہ سال اسلامی نقطہ نظر سے ”قانون اور قانون گذاری“ کے سلسلہ میں بحث کی اور اس سال میں ”کشور داری“ (حکومت او راس کی ذمہ داریوں) کے بارے میں بحث کررھے ھیں اور ھم نے اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ھوئے کھا کہ بعض چیزوں کے لئے عقلی دلائل کا ھونا ضروری ھیں

 اور اکثر چیزیں آیات وروایات کی طرف مستند ھونا چاھئیں اسی وجہ سے ھماری بحث ایک ”تلفیقی“ بحث ھیں یعنی ھماری بحث میں نہ صرف عقلی دلائل ھیں اور نہ صرف شرعی اور تعبدی، بلکہ قارئین کرام کے لحاظ سے جو طریقہ بھی مناسب ھوتا ھے جس سے بات کو آسان طریقہ سے سمجھایا جاسکتا ھے؛ اسی لحاظ سے بیان کرتے ھیں، چاھے وہ عقلی دلائل ھوں یا شرعی۔
چاھے ھم عقلی دلائل کے ذریعہ کسی چیز کو ثابت کریں اور چاھے شرعی دلائل کے ذریعہ کسی چیز کے بارے میں بحث کریں، دونوں میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ جن چیزوں کو ھم اپنی بحث میں ثابت کرتے ھیں کیا وہ سب کے نزدیک معتبر اور حجت ھیں؟ یعنی مطلق طور پر اعتبار رکھتے ھیں، یا مطالب اور اقدار نسبی ھوتے ھیں اور صرف کھنے والے کے نظریہ کو بیان کرتے ھیں، اور ممکن ھے کہ اس سلسلہ میں دوسروں کا ایک الگ نظریہ ھو جو اس کے مطابق نہ ھو؟ دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ ایک مسلمان ، یا شیعہ اور مکتب اھل بیت علیھم السلام کا تابع شخص ھمارے دلائل کے ساتھ بیان پیش کردہ مطالب کو قبول کرتے ھیں اور ان کو مطلق طور پرمانتے ھیں یا نھیں؟ کیونکہ یہ صرف ایک خاص نظریہ کو بیان کرنے والے ھیں جس کے مقابلہ میں دوسرے بھی نظریات پائے جاتے ھیں جو اعتبار کے لحاظ سے ان کے برابر یا اس سے بالاتر ھوسکتے ھیں؟ بعض اخباروں اور تقریروں میں کھا جاتا ھے کہ ان مطالب اور نتائج کو مطلق طور پر بیان نھیں کرنا چاھئے اور یھاں تک بھی کھہ دیتے ھیں کہ ان مطالب کی نسبت اسلام کی طرف نھیں دینا چاھئے؛ اور صرف کھنے والے کا نظریہ ماننا چاھئے یعنی کھنے والا کھتا ھے کہ اسلام سے میرا حاصل کردہ نتیجہ یہ ھے ، نہ یہ کہ اپنے حاصل کردہ نظریہ کو اسلامی نظریہ کے عنوان سے بیان کریں اس طرح کی گفتگو خصوصاً گذشتہ ھفتہ میں آپ حضرات نے بھت سنی ھوگی کھ: کسی بھی شخص کو اپنی سمجھ کو مطلق قرار نھیں دینا چاھئے، کیونکہ بعض افراد ایسے بھی ھیں جو اس کے علاوہ بھی فھم اور نتیجہ رکھتے ھیں اور ان کا ایک الگ اعتبار اور اھمیت ھے۔
2۔ معرفت کے نسبی ھونے کے سلسلہ میں تین نظریات
یھاں پر چند مھم سوال پیدا ھوتے ھیں کہ ”مطلق“ اور ”نسبی“ الفاظ کے معنی کیا ھیں؟ مثلاً ”فلاںمطلب اعتبارِ مطلق نھیں رکھتا“ یعنی چھ؟ کیا اس کا مطلب یہ ھے کہ کوئی بھی معرفت اعتبارِ مطلق نھیں رکھتی؟ اور اس صورت میں مطلق اور نسبی معرفت میں کیا فرق ھے؟ اور کیا معرفت کا نسبی ھونا یا اعتبار معرفت کا نسبی ھونا صرف دینی مسائل سے متعلق ھے؟ یا کسی بھی علم کا کوئی بھی مطلب اور واقعہ نسبی ھوتا ھے؟
الف: معرفت کے نسبی ھونے پر پھلا نظریہ
معرفت کے مطلق یا نسبی ھونے کی تحقیق ایک فلسفی مسئلہ ھے جس کو اپیسٹمولوجی "Epistemology"(معرفت شناسی) کھا جاتا ھے قدیم زمانہ سے تقریباً 2۵ صدی پھلے دانشوروں کے درمیان یہ اختلاف تھا کہ انسانی معرفت، اس کے اعتقادات اور اس کی قضاوت (فیصلے) کیا ”اعتبار ِ مطلق“ رکھتے ھیں یا ”اعتبار ِ مطلق“ نھیںر کھتے یہ سوفسطائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے پھلے یونان میں زندگی بسر کرتے تھے اور لفظ ”سفسطھ“ (یعنی مغالطھ) انھیں کے نام سے لیا گیا ھے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو کسی بھی بات پر کوئی جزم ویقین حاصل ھو ھی نھیں سکتا، اور ھر چیز قابل شک وتردید ھے لھٰذا ان کے بعد سے تمام شکّاک فرقے اور آگنوسٹیسٹ "Agnostist" ، نسبی گرایان اور رلٹویسٹس "Relatists" اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں المتخصر: معرفت کے نسبی ھونے کا نظریہ کوئی نیا نظریہ نھیں ھے ، بلکہ قدیم زمانہ سے فلسفہ کی تاریخ میں موجود ھے اگرچہ آج کل جھان اسلام میں بھت ھی کم شکّاک افراد ھوں گے، لیکن امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں شکّاک اور نسبت گرا لوگوں کی بھر مار ھے بلکہ وھاں پر شکاک ھونا انسانی افتخار میں سمجھا جاتا ھے!
اور اگر ھم معرفت کے نسبی ھونے (یعنی انسان کو کسی بھی چیز کے بارے میں یقین حاصل نھیں ھوسکتا) اور شکّاکیت کے بارے میں اکیڈمیک طریقہ پر تحقیق کریں تو اس وسیع بحث کی تحقیق کے لئے ایک طولانی زمانہ درکار ھے لیکن ھم یھاں پر مختصر طور پر ایک اشارہ کرتے ھیں۔
جو لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ اپنی سمجھ اور نظریہ کو مطلق تصور نہ کریں، تو کیا ان کا مطلب یہ ھے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں یقینی طور پر اعتقاد پیدا نھیں ھوسکتا، اور حقیقت میں انسان کے لئے معرفت حاصل کرنے کا دروازہ بند ھے ، اور ھمارے پاس کوئی ایسی چیز نھیں ھے کہ منطقی اور اصولی طور پر اس پر یقین حاصل ھوسکے، یا ان کا مطلب یہ ھے کہ بعض عقائد اور بعض چیزوں کی یقینی طور پر معرفت حاصل کرسکتے ھیں؟ ”منطقی“ کی قید لگانے کی وجہ یہ ھے کہ کبھی انسان کسی چیز کے بارے میں یقین رکھتا ھے اور کسی طرح کا کوئی شک ا س کے ذھن میں نھیں ھوتا، لیکن ایک مدت کے بعد متوجہ ھوتا ھے کہ اس نے غلطی کی ھے؛ ایسا یقین جس کی کوئی حقیقت نھیں ھوتی ”نفسیاتی یقین “ کھا جاتا ھے یعنی انسان یونھی کسی چیز پر یقین کرلیتا ھے اور اس میں کسی طرح کا کوئی شک نھیں ھوتا، اگرچہ اس کا یقین غلط ھو اور جھل مرکب (نہ جاننے کے بارے میں نہ جاننا) کا شکار ھو ، جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اس طرح کا اعتقاد و یقین باطل ختم ھوجاتا ھے مثال کے طور پر دو اور دو کا چار ھونا ایک صحیح منطق ھے کیونکہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں دو اور دو پانچ یا چہ نھیں ھوتے پس اس حساب کا اعتبار مطلق ھے اور منطقی طور پر صحیح ھے، یہ ایک ذاتی نظریہ نھیں ھے، بلکہ سبھی اس کو تسلیم کرتے ھیں۔
اگر ان لوگوں کا مطلب یہ ھے کہ انسان کو کسی بھی چیز اور واقعہ میں یقینی اعتقاد حاصل نھیں ھوسکتا، اگرچہ اس فلسفی بحث میں بھت زیادہ نظریات پائے جاتے ھیں اور اس جلسہ کی وسعت سے باھر ھیں، بس مختصر طور پر عرض کرتے ھیں کہ ان کا نظریہ نہ صرف یہ کہ انسانی فطرت سے ھم آھنگ نھیں ھے اور نہ ھی دنیا کے کسی بھی مذھب میں اس کو قبول کیا جاتا ھے اصولی طور پر یہ بات قابل یقین نھیں ھے کہ دنیا بھر میں کوئی عاقل انسان کھے: میں نھیں جانتا کہ کرھٴ زمین موجود ھے یا نھیں؟ شاید اس کے بارے میں صرف خیال کے علاوہ کچھ نہ ھو! یا کھے کہ میں نھیں جانتا کہ کرہ زمین پر کوئی انسان زندگی بسر کرتا ھے یا نھیں؟ یا مجھے شک ھے کہ یورپ میںکوئی ملک فرانس بھی ھے یا نھیں، اور آیا میرا بھی کوئی وجود ھے یا نھیں، اور یہ تمام چیزیں کسی بھی طریقہ سے قابل اثبات نھیں ھیں! اور اگر ھماری ملاقات اس طرح کے آدمی سے ھو تو ھم اس کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے؟ یقینا اس سے کھیں گے کہ کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جاؤ ، کیونکہ ایسا شخص عقلی لحاظ سے صحیح و سالم دکھائی نھیں دیتا پس اگر ان لوگوں کا مطلب یہ ھے (جو کھتے ھیں: اپنی سمجھ اور اپنے نظریہ کو مطلق نہ سمجھیں) کہ کسی بھی عقیدہ اور یقین کو مطلق نھیں سمجھنا چاھئے اور کسی بھی واقعہ کے بارے میں دقیق قضاوت اور مطلق نظریہ قائم نھیں کیا جاسکتا تو ان کا مختصر جواب یہ ھے کہ ان کا اس طرح کا دعویٰ کرنا عقل اور تمام ادیان کے بالکل خلاف ھے اور ھمارے گمان کے مطابق ھمارے قارئین میں اندرون ملک یا بیرون ملک کوئی ایسا شخص نہ ھوگا جو اس طرح کا احتمال دے؛ لھٰذا اس سلسلہ میں بحث وگفتگو کرنا بے کار اوربے فائدہ ھے۔
ب۔معرفت کے نسبی ھونے پر دوسرا نظریہ
البتہ معرفت کے نسبی ھونے کے سلسلہ میں دوسرے نظریات بھی پائے جاتے ھیں جو مذکورہ بالا نظریہ کی طرح مضحکہ خیز نھیں ھے، انھی نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ھے : جو افراد اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں وہ یہ نھیں کھتے کہ کسی بھی علم میں یقینی اور مطلق چیزیں موجود نھیں ھیں؛ بلکہ ان کے عقیدہ کے لحاظ سے علوم تجربی، علوم عقلی اور ریاضیات میں ایک حد تک یقینی ، قطعی اور مطلق چیزیں موجود ھیں ، اور صرف علوم عملی (یعنی اقداری علوم، احکامات اور وظائف) نسبی ھیں یعنی جھاں پر خوب و بد اور ”باید ھا ونباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے)بیان ھوتے ھیں، تو یہ چیزیں نسبی ھوتی ھیں چنانچہ اقدار اور وظائف کو نسبی قرار دینے والوں نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے دل فریب اور گمراہ کن چیزیں بیان کیں ھیں مثال کے طور پر کھتے ھیں: ھم دیکھتے ھیں کہ کسی ایک ملک میں کسی کام کو اچھا سمجھا جاتا ھے جبکہ دوسرے ملک میں اسی کام کو ناپسند اور برا سمجھا جاتا ھے دنیا بھر کے ممالک میں کسی ایک ملک کے آداب و رسوم کو اسی ملک میں اچھا سمجھا جاتا ھے اور ھوسکتا ھے دوسرے ملک میں انھیں ناپسند اور برا سمجھا جائے، اور ان سے عوام الناس نفرت کرتے ھوں۔
کسی کے احترام واکرام کے بارے میں (جیسا کہ ھم نے سنا ھے کھ) مشرقی ایشیاء کے بعض ممالک میں جب کسی کا بھت زیادہ احترام واکرام کرتے ھیں تو ایک دوسرے کو بُو کرتے ھیں، جبکہ یھی کام دوسرے ملکوں میں ناپسند اور برا سمجھا جاتا ھے، اسی طرح مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں جب کسی کی تقریر یا باتیں سننے کے بعد اس کا احترام کرتے ھیں تو اس کے چھرے کے بوسے لئے جاتے ھیں اوراس میں فرق نھیں ھے کہ چاھے وہ عورت ھو یا مرد جبکہ ھمارے اسلامی معاشرہ میں کسی نامحرم عورت کے بوسے لینا بھت بُرا سمجھا جاتا ھے پس ممکن ھے کہ بعض معاشرہ میں کسی ایک کام کو اچھا سمجھاجاتا ھو لیکن دوسرے معاشرہ میں اسی کام کو ناپسند اور بُرا سمجھا جاتا ھو، یھاں سے معلوم ھوجاتا ھے کہ خوب وبد اور بایدھا و نبایدھانسبی ھیں ، اوران کے بارے میں مختلف ممالک اور معاشروں میں الگ الگ حکم لگایا جاتا ھے، یھاں تک کہ یہ بھی ممکن ھے کہ ایک ھی معاشرہ میں بعض چیزیں ایک زمانہ میں اچھی مانی جاتی ھو ں اور ایک زمانہ میں ناپسند اور بُری سمجھی جاتی ھوں۔
بعض مغربی ممالک میں ثقافتی اور اخلاقی برائیاں روز بروز بڑھتی جارھی ھیں ، حالانکہ تقریباً تیس یا چالیس سال پھلے اگر کوئی شخص ٹی شرٹ میں باھر نکلتا تھا تو پولیس اس کو روکتی تھی ھم سے ایک صاحب نے نقل کیا کہ کناڈا کے ایک شھر میں تقریباً ۴۰ سال پھلے ایک شخص گرمی کی وجہ سے اپنا کوٹ اتاکر ٹی شرٹ میں چھل قدمی کرنے لگا ، تو فوراً گھوڑ سوار پولیس نے اس پر اعتراض کیا کہ تم اپنا کوٹ اتار کر کیوں گھوم رھے ھو، عام مقامات پر ٹی شرٹ میں آنا ” شرم وحیا“ کے خلاف ھے! لیکن آج اسی کناڈا میں اگر عورت مرد نیم عریاں بھی سڑکوں پر دکھائی دینے لگیں تو کوئی کچھ نھیں کھتا اور اس کام کو برا نھیں سمجھا جاتا لھٰذا خوب و بد اور اچھائی برائی؛ زمانہ کے لحاظ سے بھی مختلف اور نسبی ھیں لھٰذا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ وہ علوم جن میں خوب وبد اور بایدھا اور نبایدھا کو بیان کیا جاتا ھے؛ جیسے علم اخلاق، علم حقوق یا اجتماعی اور انفرادی زندگی سے متعلق دوسرے علوم سب نسبی ھیں اور ان کے درمیان کوئی مطلق معیار موجود نھیں ھے، اور یہ نھیں کھا جا سکتا کہ فلاں چیز ھر جگہ مطلقاً اچھی ھے یا فلاں چیز ھر موقع پر مطلقاً بُری ھے۔
قارئین کرام! ان لوگوں کی پیش کی جانی والی دلیل یھی ھے جس کو ھم نے بیان کیا، البتہ بعض دوسری دلیلیں بھی بیان کرتے ھیں جن کو یھاں پر بیان کرنے کی فرصت نھیں ھے۔

Add comment


Security code
Refresh