www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انتالیسواں جلسہ
۱۔ دینی مسائل کو مطلق یا نسبی قرار دینا
قارئین کرام! ھم نے گذشتہ دو سال میں ”اسلامی سیاسی نظریات“ کے بارے میں گفتگو کی گذشتہ سال اسلامی نقطہ نظر سے ”قانون اور قانون گذاری“ کے سلسلہ میں بحث کی اور اس سال میں ”کشور داری“ (حکومت او راس کی ذمہ داریوں) کے بارے میں بحث کررھے ھیں اور ھم نے اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ھوئے کھا کہ بعض چیزوں کے لئے عقلی دلائل کا ھونا ضروری ھیں

 اور اکثر چیزیں آیات وروایات کی طرف مستند ھونا چاھئیں اسی وجہ سے ھماری بحث ایک ”تلفیقی“ بحث ھیں یعنی ھماری بحث میں نہ صرف عقلی دلائل ھیں اور نہ صرف شرعی اور تعبدی، بلکہ قارئین کرام کے لحاظ سے جو طریقہ بھی مناسب ھوتا ھے جس سے بات کو آسان طریقہ سے سمجھایا جاسکتا ھے؛ اسی لحاظ سے بیان کرتے ھیں، چاھے وہ عقلی دلائل ھوں یا شرعی۔
چاھے ھم عقلی دلائل کے ذریعہ کسی چیز کو ثابت کریں اور چاھے شرعی دلائل کے ذریعہ کسی چیز کے بارے میں بحث کریں، دونوں میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ جن چیزوں کو ھم اپنی بحث میں ثابت کرتے ھیں کیا وہ سب کے نزدیک معتبر اور حجت ھیں؟ یعنی مطلق طور پر اعتبار رکھتے ھیں، یا مطالب اور اقدار نسبی ھوتے ھیں اور صرف کھنے والے کے نظریہ کو بیان کرتے ھیں، اور ممکن ھے کہ اس سلسلہ میں دوسروں کا ایک الگ نظریہ ھو جو اس کے مطابق نہ ھو؟ دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ ایک مسلمان ، یا شیعہ اور مکتب اھل بیت علیھم السلام کا تابع شخص ھمارے دلائل کے ساتھ بیان پیش کردہ مطالب کو قبول کرتے ھیں اور ان کو مطلق طور پرمانتے ھیں یا نھیں؟ کیونکہ یہ صرف ایک خاص نظریہ کو بیان کرنے والے ھیں جس کے مقابلہ میں دوسرے بھی نظریات پائے جاتے ھیں جو اعتبار کے لحاظ سے ان کے برابر یا اس سے بالاتر ھوسکتے ھیں؟ بعض اخباروں اور تقریروں میں کھا جاتا ھے کہ ان مطالب اور نتائج کو مطلق طور پر بیان نھیں کرنا چاھئے اور یھاں تک بھی کھہ دیتے ھیں کہ ان مطالب کی نسبت اسلام کی طرف نھیں دینا چاھئے؛ اور صرف کھنے والے کا نظریہ ماننا چاھئے یعنی کھنے والا کھتا ھے کہ اسلام سے میرا حاصل کردہ نتیجہ یہ ھے ، نہ یہ کہ اپنے حاصل کردہ نظریہ کو اسلامی نظریہ کے عنوان سے بیان کریں اس طرح کی گفتگو خصوصاً گذشتہ ھفتہ میں آپ حضرات نے بھت سنی ھوگی کھ: کسی بھی شخص کو اپنی سمجھ کو مطلق قرار نھیں دینا چاھئے، کیونکہ بعض افراد ایسے بھی ھیں جو اس کے علاوہ بھی فھم اور نتیجہ رکھتے ھیں اور ان کا ایک الگ اعتبار اور اھمیت ھے۔
2۔ معرفت کے نسبی ھونے کے سلسلہ میں تین نظریات
یھاں پر چند مھم سوال پیدا ھوتے ھیں کہ ”مطلق“ اور ”نسبی“ الفاظ کے معنی کیا ھیں؟ مثلاً ”فلاںمطلب اعتبارِ مطلق نھیں رکھتا“ یعنی چھ؟ کیا اس کا مطلب یہ ھے کہ کوئی بھی معرفت اعتبارِ مطلق نھیں رکھتی؟ اور اس صورت میں مطلق اور نسبی معرفت میں کیا فرق ھے؟ اور کیا معرفت کا نسبی ھونا یا اعتبار معرفت کا نسبی ھونا صرف دینی مسائل سے متعلق ھے؟ یا کسی بھی علم کا کوئی بھی مطلب اور واقعہ نسبی ھوتا ھے؟
الف: معرفت کے نسبی ھونے پر پھلا نظریہ
معرفت کے مطلق یا نسبی ھونے کی تحقیق ایک فلسفی مسئلہ ھے جس کو اپیسٹمولوجی "Epistemology"(معرفت شناسی) کھا جاتا ھے قدیم زمانہ سے تقریباً 2۵ صدی پھلے دانشوروں کے درمیان یہ اختلاف تھا کہ انسانی معرفت، اس کے اعتقادات اور اس کی قضاوت (فیصلے) کیا ”اعتبار ِ مطلق“ رکھتے ھیں یا ”اعتبار ِ مطلق“ نھیںر کھتے یہ سوفسطائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے پھلے یونان میں زندگی بسر کرتے تھے اور لفظ ”سفسطھ“ (یعنی مغالطھ) انھیں کے نام سے لیا گیا ھے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو کسی بھی بات پر کوئی جزم ویقین حاصل ھو ھی نھیں سکتا، اور ھر چیز قابل شک وتردید ھے لھٰذا ان کے بعد سے تمام شکّاک فرقے اور آگنوسٹیسٹ "Agnostist" ، نسبی گرایان اور رلٹویسٹس "Relatists" اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں المتخصر: معرفت کے نسبی ھونے کا نظریہ کوئی نیا نظریہ نھیں ھے ، بلکہ قدیم زمانہ سے فلسفہ کی تاریخ میں موجود ھے اگرچہ آج کل جھان اسلام میں بھت ھی کم شکّاک افراد ھوں گے، لیکن امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں شکّاک اور نسبت گرا لوگوں کی بھر مار ھے بلکہ وھاں پر شکاک ھونا انسانی افتخار میں سمجھا جاتا ھے!
اور اگر ھم معرفت کے نسبی ھونے (یعنی انسان کو کسی بھی چیز کے بارے میں یقین حاصل نھیں ھوسکتا) اور شکّاکیت کے بارے میں اکیڈمیک طریقہ پر تحقیق کریں تو اس وسیع بحث کی تحقیق کے لئے ایک طولانی زمانہ درکار ھے لیکن ھم یھاں پر مختصر طور پر ایک اشارہ کرتے ھیں۔
جو لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ اپنی سمجھ اور نظریہ کو مطلق تصور نہ کریں، تو کیا ان کا مطلب یہ ھے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں یقینی طور پر اعتقاد پیدا نھیں ھوسکتا، اور حقیقت میں انسان کے لئے معرفت حاصل کرنے کا دروازہ بند ھے ، اور ھمارے پاس کوئی ایسی چیز نھیں ھے کہ منطقی اور اصولی طور پر اس پر یقین حاصل ھوسکے، یا ان کا مطلب یہ ھے کہ بعض عقائد اور بعض چیزوں کی یقینی طور پر معرفت حاصل کرسکتے ھیں؟ ”منطقی“ کی قید لگانے کی وجہ یہ ھے کہ کبھی انسان کسی چیز کے بارے میں یقین رکھتا ھے اور کسی طرح کا کوئی شک ا س کے ذھن میں نھیں ھوتا، لیکن ایک مدت کے بعد متوجہ ھوتا ھے کہ اس نے غلطی کی ھے؛ ایسا یقین جس کی کوئی حقیقت نھیں ھوتی ”نفسیاتی یقین “ کھا جاتا ھے یعنی انسان یونھی کسی چیز پر یقین کرلیتا ھے اور اس میں کسی طرح کا کوئی شک نھیں ھوتا، اگرچہ اس کا یقین غلط ھو اور جھل مرکب (نہ جاننے کے بارے میں نہ جاننا) کا شکار ھو ، جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اس طرح کا اعتقاد و یقین باطل ختم ھوجاتا ھے مثال کے طور پر دو اور دو کا چار ھونا ایک صحیح منطق ھے کیونکہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں دو اور دو پانچ یا چہ نھیں ھوتے پس اس حساب کا اعتبار مطلق ھے اور منطقی طور پر صحیح ھے، یہ ایک ذاتی نظریہ نھیں ھے، بلکہ سبھی اس کو تسلیم کرتے ھیں۔
اگر ان لوگوں کا مطلب یہ ھے کہ انسان کو کسی بھی چیز اور واقعہ میں یقینی اعتقاد حاصل نھیں ھوسکتا، اگرچہ اس فلسفی بحث میں بھت زیادہ نظریات پائے جاتے ھیں اور اس جلسہ کی وسعت سے باھر ھیں، بس مختصر طور پر عرض کرتے ھیں کہ ان کا نظریہ نہ صرف یہ کہ انسانی فطرت سے ھم آھنگ نھیں ھے اور نہ ھی دنیا کے کسی بھی مذھب میں اس کو قبول کیا جاتا ھے اصولی طور پر یہ بات قابل یقین نھیں ھے کہ دنیا بھر میں کوئی عاقل انسان کھے: میں نھیں جانتا کہ کرھٴ زمین موجود ھے یا نھیں؟ شاید اس کے بارے میں صرف خیال کے علاوہ کچھ نہ ھو! یا کھے کہ میں نھیں جانتا کہ کرہ زمین پر کوئی انسان زندگی بسر کرتا ھے یا نھیں؟ یا مجھے شک ھے کہ یورپ میںکوئی ملک فرانس بھی ھے یا نھیں، اور آیا میرا بھی کوئی وجود ھے یا نھیں، اور یہ تمام چیزیں کسی بھی طریقہ سے قابل اثبات نھیں ھیں! اور اگر ھماری ملاقات اس طرح کے آدمی سے ھو تو ھم اس کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے؟ یقینا اس سے کھیں گے کہ کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جاؤ ، کیونکہ ایسا شخص عقلی لحاظ سے صحیح و سالم دکھائی نھیں دیتا پس اگر ان لوگوں کا مطلب یہ ھے (جو کھتے ھیں: اپنی سمجھ اور اپنے نظریہ کو مطلق نہ سمجھیں) کہ کسی بھی عقیدہ اور یقین کو مطلق نھیں سمجھنا چاھئے اور کسی بھی واقعہ کے بارے میں دقیق قضاوت اور مطلق نظریہ قائم نھیں کیا جاسکتا تو ان کا مختصر جواب یہ ھے کہ ان کا اس طرح کا دعویٰ کرنا عقل اور تمام ادیان کے بالکل خلاف ھے اور ھمارے گمان کے مطابق ھمارے قارئین میں اندرون ملک یا بیرون ملک کوئی ایسا شخص نہ ھوگا جو اس طرح کا احتمال دے؛ لھٰذا اس سلسلہ میں بحث وگفتگو کرنا بے کار اوربے فائدہ ھے۔
ب۔معرفت کے نسبی ھونے پر دوسرا نظریہ
البتہ معرفت کے نسبی ھونے کے سلسلہ میں دوسرے نظریات بھی پائے جاتے ھیں جو مذکورہ بالا نظریہ کی طرح مضحکہ خیز نھیں ھے، انھی نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ھے : جو افراد اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں وہ یہ نھیں کھتے کہ کسی بھی علم میں یقینی اور مطلق چیزیں موجود نھیں ھیں؛ بلکہ ان کے عقیدہ کے لحاظ سے علوم تجربی، علوم عقلی اور ریاضیات میں ایک حد تک یقینی ، قطعی اور مطلق چیزیں موجود ھیں ، اور صرف علوم عملی (یعنی اقداری علوم، احکامات اور وظائف) نسبی ھیں یعنی جھاں پر خوب و بد اور ”باید ھا ونباید ھا“ (کرنا چاھئے اور نہ کرنا چاھئے)بیان ھوتے ھیں، تو یہ چیزیں نسبی ھوتی ھیں چنانچہ اقدار اور وظائف کو نسبی قرار دینے والوں نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے دل فریب اور گمراہ کن چیزیں بیان کیں ھیں مثال کے طور پر کھتے ھیں: ھم دیکھتے ھیں کہ کسی ایک ملک میں کسی کام کو اچھا سمجھا جاتا ھے جبکہ دوسرے ملک میں اسی کام کو ناپسند اور برا سمجھا جاتا ھے دنیا بھر کے ممالک میں کسی ایک ملک کے آداب و رسوم کو اسی ملک میں اچھا سمجھا جاتا ھے اور ھوسکتا ھے دوسرے ملک میں انھیں ناپسند اور برا سمجھا جائے، اور ان سے عوام الناس نفرت کرتے ھوں۔
کسی کے احترام واکرام کے بارے میں (جیسا کہ ھم نے سنا ھے کھ) مشرقی ایشیاء کے بعض ممالک میں جب کسی کا بھت زیادہ احترام واکرام کرتے ھیں تو ایک دوسرے کو بُو کرتے ھیں، جبکہ یھی کام دوسرے ملکوں میں ناپسند اور برا سمجھا جاتا ھے، اسی طرح مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں جب کسی کی تقریر یا باتیں سننے کے بعد اس کا احترام کرتے ھیں تو اس کے چھرے کے بوسے لئے جاتے ھیں اوراس میں فرق نھیں ھے کہ چاھے وہ عورت ھو یا مرد جبکہ ھمارے اسلامی معاشرہ میں کسی نامحرم عورت کے بوسے لینا بھت بُرا سمجھا جاتا ھے پس ممکن ھے کہ بعض معاشرہ میں کسی ایک کام کو اچھا سمجھاجاتا ھو لیکن دوسرے معاشرہ میں اسی کام کو ناپسند اور بُرا سمجھا جاتا ھو، یھاں سے معلوم ھوجاتا ھے کہ خوب وبد اور بایدھا و نبایدھانسبی ھیں ، اوران کے بارے میں مختلف ممالک اور معاشروں میں الگ الگ حکم لگایا جاتا ھے، یھاں تک کہ یہ بھی ممکن ھے کہ ایک ھی معاشرہ میں بعض چیزیں ایک زمانہ میں اچھی مانی جاتی ھو ں اور ایک زمانہ میں ناپسند اور بُری سمجھی جاتی ھوں۔
بعض مغربی ممالک میں ثقافتی اور اخلاقی برائیاں روز بروز بڑھتی جارھی ھیں ، حالانکہ تقریباً تیس یا چالیس سال پھلے اگر کوئی شخص ٹی شرٹ میں باھر نکلتا تھا تو پولیس اس کو روکتی تھی ھم سے ایک صاحب نے نقل کیا کہ کناڈا کے ایک شھر میں تقریباً ۴۰ سال پھلے ایک شخص گرمی کی وجہ سے اپنا کوٹ اتاکر ٹی شرٹ میں چھل قدمی کرنے لگا ، تو فوراً گھوڑ سوار پولیس نے اس پر اعتراض کیا کہ تم اپنا کوٹ اتار کر کیوں گھوم رھے ھو، عام مقامات پر ٹی شرٹ میں آنا ” شرم وحیا“ کے خلاف ھے! لیکن آج اسی کناڈا میں اگر عورت مرد نیم عریاں بھی سڑکوں پر دکھائی دینے لگیں تو کوئی کچھ نھیں کھتا اور اس کام کو برا نھیں سمجھا جاتا لھٰذا خوب و بد اور اچھائی برائی؛ زمانہ کے لحاظ سے بھی مختلف اور نسبی ھیں لھٰذا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ وہ علوم جن میں خوب وبد اور بایدھا اور نبایدھا کو بیان کیا جاتا ھے؛ جیسے علم اخلاق، علم حقوق یا اجتماعی اور انفرادی زندگی سے متعلق دوسرے علوم سب نسبی ھیں اور ان کے درمیان کوئی مطلق معیار موجود نھیں ھے، اور یہ نھیں کھا جا سکتا کہ فلاں چیز ھر جگہ مطلقاً اچھی ھے یا فلاں چیز ھر موقع پر مطلقاً بُری ھے۔
قارئین کرام! ان لوگوں کی پیش کی جانی والی دلیل یھی ھے جس کو ھم نے بیان کیا، البتہ بعض دوسری دلیلیں بھی بیان کرتے ھیں جن کو یھاں پر بیان کرنے کی فرصت نھیں ھے۔


۳۔ بعض اقدار کا مطلق اور ثابت ھونا
مطلب کی وضاحت کے لئے عرض کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ھر اقداری مفھوم ، حلال و حرام اور بدی اور خوبی مطلق ھے، تو اس کے دعویٰ کو باطل کرنے کے لئے یہ کھنا کافی ھے کہ یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ ایک چیز ایک معاشرہ میں اچھی ھو اور وھی چیز دوسرے معاشرہ میں بری ھو ایک جگہ اس کواقدار میں شمار کیا جاتا ھو اور دوسری جگہ ضد اقدار حساب کیا جاتا ھے دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ وہ گذشتہ دعویٰ جس کو ”موجبہ کلیھ“ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ھے یعنی تمام اچھائیاں اور برائیاں ؛ مطلق اور کلی ھیں، اسی چیز کو ”سالبہ جزئیھ“ کے عنوان سے بھی پیش کیا جاسکتا ھے، جس کی بنا پر وہ دعویٰ اور ”حکم کلی“ نقض ھوجاتا ھے یعنی جب ھم نے ان اقداری چیزوں کو دیکہ لیا جو مطلق نہ تھے، اور بعض معاشرہ میں وہ اچھی اور بعض دوسرے معاشرہ میں ناپسند اور بری سمجھی جاتی ھوں، تو ھم کھہ سکتے ھیں کہ ایسا نھیں ھے تمام اقدار اور قضایا مطلق ھوں، بلکہ بعض اقداری قضایا نسبی ھیں بے شک یہ فیصلہ صحیح اور درست ھے، اور ھم بھی یہ نھیں کھتے کہ تمام اقداری مسائل اور تمام بایدھا اور نبایدھا مطلق اور کلی ھیں اور ھر معاشرہ کے لئے ھمیشہ ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھیں ھم بھی اس بات کومانتے ھیں کہ بعض احکام متغیر اور موقع و محل کے لحاظ سے ھیں؛ لیکن اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ کوئی بھی اقدار مطلق نھیں ھے یعنی اقداری نسبیت کا اثبات ”سالبہ جزئیھ“ ھے نہ کہ ”سالبہ کلیھ“ لھٰذا اس بنیاد کی بنا پر ھم کم ھی اقداری مسائل کے بارے میں مطلق یا نسبی ھونے کو ثابت کرسکتے ھیں۔
ھمارا دعویٰ یہ ھے کہ ھمارے پاس مطلق اقداری چیزیں موجود ھیں اوربھت سے اقداری مسائل پر مطلق اعتقاد رکہ سکتے ھیں اور اگر یہ نظریہ ثابت ھوجائے، تو پھر ھم اس کی سیکڑوں مثال پیش کرسکتے ھیں، چونکہ عقلی بحث اورعقلی نظریات کا دار و مدار عدد اور اگنتی پر نھیں ھوتا کیا آپ حضرات کو کوئی ایسا شخص مل سکتا ھے جو یہ کھے کہ عدالت ایک معاشرہ میں پسندیدہ اور دوسرے معاشرہ میں ناپسند اور بری ھے؟ اور کیا کوئی ایسا عاقل انسان مل سکتا ھے جو کھے کہ ظلم بعض مقامات پر صحیح اور پسندیدہ ھے ؟ ھاں یہ ھوسکتا ھے کہ ظلم اور عدل کے مصداق میں غلطی ھوجائے اور الفاظ کا غلط استعمال کریں مثال کے طور پر کوئی یہ ھے کہ کسی بھی شخص کو مارنا ظلم ھے، جبکہ بعض لوگوں کو سزا کے عنوان سے مارا جاتا ھے اور اس کو قصاص کی بنا پر مارنا بُرا نھیں ھوتا، بلکہ حق و عدل کے عین مطابق ھے نکتہ یہ ھے کہ اگر واقعاً کوئی کام ظلم ھو ، تو پھر وہ دوسرے مقام پر اچھا نھیں کھلایا جاسکتا، یا اگر کوئی کام واقعاً عدل کے مطابق ھو تو وہ بعض مقامات پر بُرا نھیں ھوسکتا اور بعض مقامات پر عدل کو برا نھیں سمجھا جاسکتا اور یہ مسئلہ اس قدر واضح اور سبھی کو معلوم ھے کیونکہ جب قرآن مجید عوام الناس کو شرک سے پرھیز کرنے کے لئے کھتا ھے تو آوزا دیتا ھے:
( إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ ) (۱)
”بے شک کہ شرک بھت بڑا ظلم ھے۔“
یعنی اس کبریٰ (کہ ”ھر وہ چیز جو ظلم ھے اس سے دوری اور اجتناب کیا جائے“) ؛ میں کوئی شک وتردید نھیں ھے، اور یہ قضیھ؛ مطلق، کلی، ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھے، کیونکہ شرک ظلم کا ایک مصداق ھے، جو ھمیشہ برا ھے اور اس سے پرھیز کیا جائے۔
ھمارا دعویٰ یہ نھیں ھے کہ تمام اقداری مسائل بطور مطلق ھیں بلکہ ھم تو یہ کھتے ھیں کہ بعض اقدار مطلق ھیں اسی طرح معرفت کے باب میں؛ ھم ھر معرفت کو مطلق نھیں مانتے، اور یہ بھی نھیں مانتے کہ ھر شخص کو حاصل ھونے والی معرفت اور شناخت صحیح اور مطلق ھے کیونکہ بعض لوگوں کو حاصل ھونے والی شناخت اور معرفت نادرست ھے پس معلوم یہ ھوا کہ بعض معرفت اور شناخت نسبی ھیں اور بعض چیزوں میں نسبیت پائی جاتی ھے: مثال کے طور پر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ تھران یونیورسٹی بڑی ھے یا چھوٹی؟ تو چونکہ اگر آپ اس کواپنے گھر سے مقابلہ کریں گے تو آپ کا جواب ”بڑی“ ھوگا اور کھیں گے کہ تھران یونیورسٹی بھت بڑی ھے لیکن اگر اسی یونیورسٹی کو کرہ زمین سے مقابلہ کریں گے تو اس وقت آپ کا جواب یہ ھوگا کہ تھران یونیورسٹی بھت چھوٹی ھے؛ یھاں تک کہ دریا کے ایک قطرہ کی مانند شمار کی جائے گی۔
پس معلوم یہ ھوا کہ چھوٹا یا بڑا ھونا نسبی چیزوں میں سے ھے اور اسی طرح کے معنی ومفاھیم پر نسبی اطلاق کیا جائے گا لیکن کسی چیز کے چھوٹے یا بڑے ھونے سے یہ نتیجہ نھیں لیا جاسکتا ھے کہ تمام چیزیں نسبی ھیں، یھاں تک کہ خدا بھی نسبی ھے انسانی وجود، کرہ زمین اور عالم ھستی بھی نسبی ھیں چھوٹائی اور بڑائی؛ نسبی اور اضافی ھوتی ھیں اور ”مقولہ اضافھ“ سے تعلق رکھتی ھیں؛ لیکن بعض ایسے معنی اور مفاھیم ھیں جو نسبی نھیں ھیں اور ان کے ذریعہ تشکیل پانے والے قضایا مطلق ھوسکتے ھیں۔

اس بنا پر ھمارا کھنا یہ نھیں ھے کہ ھر اقدار چاھے کسی بھی جگہ ھو یا کسی بھی زمانہ میں ھو اس پر اعتقاد رکھنا مطلق ھے بلکہ ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ ”موجبہ جزئیھ“ کے حد تک ھمارے پاس ”مطلق اقدار“ موجود ھیں، یعنی ھمارے پاس ایسے چیزیں موجود ھیں جو مطلق اقدار کھی جاسکتی ھیں اور موقع ومحل اور زمان و مکان کے لحاظ سے تبدیل نھیں ھوتی ، اور نہ ھی ان چیزوں میں کسی استثناء کا قائل ھوا جاسکتا بے شک ھمارے سامنے دو طرح کے اقدار موجود ھیں ایک مطلق ھوتے ھیں اور دوسرے وہ جو مطلق نھیں ھوتے ھمارے عقیدہ کے لحاظ سے ظلم ھمیشہ اور ھر جگہ اور ھر ایک کے لئے بُرا ھے اور عدل ھمیشہ اور ھر جگہ اور ایک کے لئے حَسن، اچھا اور پسندیدہ ھے ھمارے پاس واقعی قضایا اور علوم توصیفی سے متعلق قضایا مطلق اور یقینی ھیں مثال کے طور پر ھم یقین اور جزم کے ساتھ یہ کھہ سکتے ھیں کہ آسمان و زمین اور انسان موجود ھیں، خداوندعالم موجود ھے، وحی اور قیامت کا وجود ھے؛ بے شک یہ تمام چیزیں مطلق ھیں، نسبی نھیں ۔
بعض اقدار کے مطلق ھونے کا معیار
قارئین کرام! یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ ھمیں یہ کیسے معلوم ھو کہ یہ چیز مطلق ھے یا نسبی؟ تو اس کا مختصر جواب یہ ھے کہ ھر وہ واضح اور روشن قضیہ یا وہ قضیہ جو صحیح طور پر واضح چیزوں سے حاصل ھو وہ مطلق ھے لیکن وہ قضایا جو واضح نھیں ھیں یا صحیح طریقہ پر واضح و روشن چیزوںسے حاصل نہ ھو وہ نسبی ھے، جس کا نتیجہ بھی واضح اورروشن نھیں ھوگا اور بالکل یھی تقسیم اقدار کے سلسلہ میں بھی ھے: احساسات، محبت، خیالات اور عادات کی بنیاد پر حاصل شدہ اقدار، نسبی ھیں؛ لیکن جن اقدار کی بنیاد عقل پر ھوتی ھے اور جن پر عقلی دلائل قائم کئے جاسکتے ھیں اور ان کے اقداری ھونے پر دلیل پیش کی جاسکتی ھے؛ وہ مطلق ھیں مثال کے طور پر ھم عبادت خدا کوایک اقدار کے عنوان سے مانتے ھیں جو ھمیشہ بطور مطلق مقصود اور پسندیدہ ھے، اور کبھی بھی اس میں استثناء نھیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس کی بنیاد یہ ھے کہ انسان کے لئے واقعی اور حقیقی راہ تکامل (ترقی) عبادت خدا ھے اسی طرح اجتماعی اقدار میں عدالت ھمیشہ اچھی ھے ، جس کے بارے میں کبھی بھی کوئی استثناء نھیں کیا جاسکتا، اس کے مقابلہ میں ظلم ھمیشہ اور ھر جگہ ناپسند اور بُرا ھے لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ مطلق اقدار بھی موجود ھیں۔
۴۔ مغربی تمدن میں تمام دینی عقائد نسبی ھیں
آج کل مغربی ممالک میں بھت سے فلسفی مکاتب پیدا ھوگئے ھیں جن میں کھا جاتا ھے کہ اقدار کے سلسلہ میں عقلی اور واقعی پشت پناھی نھیں ھے، ان کا عقیدہ ھے کہ تمام اقداری مسائل نسبی اور قرار دادی(باھمی مفاھمت) ھیں ، یعنی جس کو عوام الناس اچھا کھیں وہ اچھا ھے اور جس کو بُرا طے کرلیں وہ برا ھے انھیں فلسفی مکاتب میں سے ایک مھم اخلاقی مکتب بنام ”پوزیٹیزم“ "Positivism" ھے، جس میں معاشرہ کی پسند کو اقدار کا ملاک قرار دیا جاتا ھے اسی بنا پر اس مکتب کے ماننے والے کھتے ھیں کہ خوب و بد اور اقدار و ضد اقدار طے کئے جانے والے معاملات میں سے ھیں اگر آج عوام الناس کسی چیز کو اقدار اور اچھی مانتے ھیں تو وہ اچھی اور قابل قدر دانی ھے، لیکن اگر لوگوں کا نظریہ بدل جائے تو پھر وھی چیز جس کو اچھا سمجھا جارھا ھے اس کو بُرا کھا جانے لگے گا،اور وہ ضد اقدار شمار ھونے لگی گی۔
لیکن ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ تمام اقداری مسائل نسبی نھیں ھے اور تمام اقداری مسائل قرار داد کے تحت نھیں ھیں ٹھیک ھے کہ کسی بھی معاشرہ کے آداب و رسوم قرار دادی اور موقع ومحل کے لحاظ سے قابل تبدیلی ھوتے ھیں، لیکن بھت سے ایسے اقدار ھیں جو انسان کی فطرت میں پائے جاتے ھیں، وہ فطرت جو ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھے:
جیسا کہ قرآن مجید میں خداوندعالم کا ارشاد ھوتا ھے:
( فَاٴَقِمْ وَجْھکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَةَ اللهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھا لاَتَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللهِ ) (2)
”آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رھیں کہ یہ دین وہ فطرت الٰھی ھے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ھے، اور خلقت الٰھی میں کوئی تبدیلی نھیں ھوسکتی “
چونکہ فطرت الٰھی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نھیں ھو سکتی، لھٰذا وہ اقدار جو فطرت پر مبنی ھوں گے وہ بھی غیر قابل تبدیلی ھوں گے لھٰذا ھمارے پاس مطلق اقدار ھوسکتے ھیں جو لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ اپنے نظریہ کو مطلق نہ سمجھے، اگر ان کا مطلب یہ ھے کہ اپنے اقداری افکار کو مطلق نہ کھیں کیونکہ ھم ایسے عقائد اور اقدار پر یقین رکھتے ھیں جن پر دوسرے لوگ اعتقاد نھیں رکھتے، اور ھمارے مقابلہ میں دوسری چیزوں کا اعتقاد رکھتے ھیں؛ لھٰذا ھمیں اپنے عقائد ان لوگوں پرتحمیل نھیں کرنا چاھئے، کیونکہ ھمارا اقداری نظریہ ھمارے سلیقہ کے تحت ھے اور دوسروں کی اقداری نظر ان کے اپنے سلیقوں کے تحت ھے، اور کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ دوسروں کے سلیقے کو غلط کھے بے شک اگر کوئی شخص اس طرح کا نتیجہ پیش کرتا ھے تو یہ اسی اخلاقی مکتب ” پوزیٹیزم "Positivism" “کی بنیاد پر ھے جس کی بنیاد عوام الناس کا سلیقہ اور ان کی مرضی ھے، جبکہ یہ نظریہ فاسد اور باطل ھے، اور اسلام اور فلسفہ اخلاق کے صحیح مکتب سے ھم آھنگ نھیں ھے۔
 اسی پوزیٹیزم اخلاقی مکتب کے طرفدار ھم سے کھتے ھیں کہ ”اپنے نظریات کو مطلق قرار نہ دیں“؛ وہ لوگ واقعاً بھت بڑے دھوکے میں ھیں ھم مطلق اقدار کی حفاظت کی خاطر اپنی جگہ پر اٹل ھیں اور کوشش کرتے رھیں گے تا کہ اسلامی ثابت اقدار معاشرہ میں زندہ رھیں اور ان کی تبلیغ ھوتی رھے ، اور ان کے بارے میں کسی طرح کا کوئی اشکال اور اعتراض باقی نہ رھے۔
مغربی افراد ”رنسانس“ کے زمانہ کے بعد سے دینی معنی و مفاھیم کو اقدار کے دائرہ میں قرار دیتے ھیں خصوصاً وہ دینی مسائل جو دینی مناسک اور احکام سے متعلق ھیں اور چونکہ دوسری طرف سے یہ لوگ اقدار کو نسبی قرار دیتے ھیں، اسی وجہ سے دینی اقدار کو بھی نسبی شمار کرتے ھیں،اور ان کے لئے مطلق اقدار کے قائل نھیں ھیں چنانچہ اسی بنیاد پر کھتے ھیں کہ تمام ادیان اور مذاھب اچھے اور برحق ھوسکتے ھیں: اور یہ دین اپنے ماننے والوں کے لئے اچھا اور برحق ، اور وہ دین اس کے ماننے والوں کے لئے اچھا اور برحق ھے، اور کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے دینی نظریہ کو مطلق قرار دے ، اسی طرح یہ بھی کھنے کا حق نھیں ھے کہ صرف اور صرف دین اسلام صحیح اور برحق ھے اور دوسرے ادیان عالم باطل اور بے بنیاد ھیں چاھے دین اسلام ایک طرح کے اقداری احکام سے تشکیل ھوا ھے مثلاً دینی حلال و حرام چیزیں جیسے نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، یا جھوٹ نہ بولیں، یا نامحرم کو نہ دیکھیں اور لوگوں کے مال اور ناموس پر تجاوز نہ کریں جب کہ یہ بات ظاھر ھے کہ اگر اقدار مسائل نسبی اور قرار دادی (باھمی مفاھمت) ھوں تو دینی مسائل بھی نسبی ھوں گے ، جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ دین اسلام اعتبارات اور قرارداد کادین بن جائے گا۔
اس پوزیٹیزم نظریہ اور دینی مسائل کواقدار کے دائرہ میں قرار دینے کی بنا پر بعض لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ اپنے دین کو دوسروں پر تحمیل کریں،اور ان کو مسلمان کرنا چاھیں دین اسلام تمام مسلمان کے لئے محبوب اور پسندیدہ ھے، اسی طرح دین یھودیت یھودیوں کے لئے پسندیدہ ھے، چونکہ یہ ادیان نسبی ھیں اور ان میں سے کوئی بھی مطلق نھیں ھے اور چونکہ یہ ادیان اور اقدار نسبی اور قراردی ھیں اسی لحاظ سے مختلف معاشروں میںان کا حکم بھی مختلف ھے: چودہ سو سال پھلے اسلام؛ سعودی عرب کے لئے مناسب اور اچھا تھا لیکن عصر حاضر میں ماڈرن دنیاکے لئے ایک دوسرا دین مناسب اور مطلوب ھے! لھٰذا اسلام کو مطلق قرار نھیں دینا چاھئے اور مسلمانوں کو بھی اپنے دینی نظریات کو دوسروں پر نھیں تھونپنا چاھئے اسلام ان لوگوں کے اچھا ھے جن کے سلیقے ان سے میل کھاتے ھیںلیکن دوسروں کے لئے یہ دین اچھا نھیں ھے کیونکہ وہ اس دین کو پسند نھیں کرتے اور اپنے سلیقہ کے لحاظ سے دوسرا دین اختیار کئے ھوئے ھیں لھٰذا ھمیں اپنے اسلامی سلیقہ کو دوسروں پر تحمیل نھیں کرنا چاھئے اور دوسروںکے سلیقوں کونظر انداز نھیں کرنا چاھئے۔
قارئین کرام! گذشتہ نظریہ کا جواب یہ ھے کہ ھم مان لیتے ھیں کہ اسلام کے بعض احکام (جیسے احکام ثانوی) نسبی اور متغیر ھیں اور بعض احکام موقع و محل کے لحاظ سے ھوتے ھیں، لیکن اسلامی تمام احکام متغیر نھیں ھیں؛ بلکہ بھت سے اسلامی احکام ثابت، مطلق اور غیر قابل تبدیلی ھیں اس کے علاوہ یہ بھی عرض کردیا جائے کہ اسلام کا کوئی بھی حکم عوام الناس کے سلیقہ کے تابع نھیں ھے ، اور متغیر احکام کے لئے بھی خاص دلائل ھوتے ھیں پس اولاً: ھم اس نظریہ کو نھیں مانتے کہ تمام اقدار عوام الناس کے سلیقہ اور ان کی پسند کے تابع ھیں بلکہ ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ بعض اقدار اور بعض ضد اقدار مطلق چیزیں؛ مصالح ومفاسد کے تابع اور نفس الامری ھیں، لھٰذا وہ ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھیں دوسرے: اسلام کے ثابت اقدار اسی قسم کے ھیں (یعنی مصالح و مفاسد کے تابع اور نفس الامری ھیں) لھٰذا وہ مطلق ھیں اور ھم ان کو ھمیشہ اور ھر جگہ کے لئے معتبر جانتے ھیں اور اس بات پر زور دیتے ھیں کہ ھمارے اسلامی نظریات مطلق ھیں ، اور صرف یھی اسلامی نظریات مطلق ، صحیح اور بر حق ھیں پس نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی ممالک میں نسبی گرایی نظریہ اسلامی نظریات کے مطابق نھیں ھے۔
ج۔ معرفت کے نسبی ھونے پر تیسرا نظریھ(معرفت دینی میں نسبیت کا وجود)
نسبی نظریات میں سے ”معرفت دینی میں نسبیت“کا نظریہ بھی ھے، چنانچہ اسی نظریہ کے تحت بعض لوگ کھتے ھیں کہ ھم بھی یہ مانتے ھیں کہ دین ثابت اور مطلق ھے، اور دینی اقدار بھی مصالح ومفاسد کے تابع، واقعی اور نفس الامری ھیں، ھم بھی حقیقت دین کو مطلق اور ثابت مانتے ھیں لیکن ھمارے پاس کوئی واقعی اور مطلق دین نھیں ھے، جس سے ھم رابطہ برقرار کریں صرف ھمارے اختیار میں دین کی معرفت اور اس کی شناخت ھے اور جو کچھ بھی ھم دوسروں کو دین کے عنوان سے بتاتے ھیں، درحقیقت وہ دین سے حاصل کردہ ھمارا ایک نتیجہ اور شناخت ھوتی ھے جبکہ دوسرے افراد دین سے ایک دوسرا نتیجہ حاصل کرتے ھیں اگرچہ ھم اصلِ دین کو ثابت اور مطلق مانتے ھیں لیکن دینی معرفت اور دینی شناخت کو قابل تغیر اور نسبی مانتے ھیں ، ھمارے نظریہ کے مطابق کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے نتیجہ اور شناخت کو مطلق مانے، اور اپنے اس نظریہ کو دوسروں پر تھونپے۔
یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا ایسا ممکن ھے کہ ھماری بعض دینی شناخت مطلق ھو، اور سبھی لوگ دین سے یھی نتیجہ اخذ کریں اور سبھی اسی کو قبول کریں یا نہ ، دینی کوئی بھی معرفت مطلق نھیں ھے بلکہ دینی ھر موضوع کی ھر شناخت نسبی ھے؟ جس کے نتیجہ میں دو دینی شناختوں میں سو فی صد اختلاف ھوسکتا ھے کہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف ھو؛ یعنی کوئی شخص کسی چیز کو دینی مسائل میں شمار کرے جبکہ کوئی دوسرا شخص اس کا انکار کرے، حالانکہ دین سے حاصل کردہ دونوں شناخت مقبول اور معتبر ھوں ؟!
قارئین کرام! نسبت کے سلسلہ میں یہ تیسرا نظریہ جو ”معرفت دینی میں نسبیت“ کے نام سے شھرت پیدا کرتا جارھا ھے اور اس نظریہ کے طرفدار اس کو ”قبض وبسط شریعت“ (شرعی مسائل میں کمی وزیادتی) کے عنوان مانتے ھیں، اور یہ نظریہ تقریباً بیس سال سے رائج ھوتا جارھا ھے اور ھر روز مزید پھیلتا جارھا ھے نیز اخباروں اور جرائد میں بیان ھوتا ھے،اس کی بنا پر ایسا ظاھر کیا جاتا ھے کہ دین کے متعلق تمام لوگوں کی شناخت برابر نھیں ھے: ممکن ھے کہ کوئی شخص اپنے اعتقاد کی بنا پر کھے کہ نماز صبح دو رکعت ھے، لیکن کوئی اپنے نظریہ کی بنا پر یہ بھی کھہ سکتا ھے کہ نماز صبح تین رکعت ھے؛ حالانکہ دونوں نظریات معتبر او رمقبول ھیں! اور اگر ھم اپنے عقیدہ کی بنا پر نماز صبح کو دو رکعت سمجھیں تو ھمیں یہ حق نھیں ھے کہ دوسرے افراد کو بھی نماز صبح دو رکعت پڑھنے کے لئے کھیں اس بنیاد پر ھمارے عقیدہ کی بنا پر نماز صبح دو رکعت ھے، ھوسکتا ھے کہ کوئی دوسرا شخص دین سے یہ نتیجہ حاصل کرے کہ نماز صبح تین رکعت ھے اور وہ بھی دین کی شناخت اور ایک قرائت کھلائے گی، اور اقداری لحاظ سے دو قرائت کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے اور ھر شخص کا حاصل کردہ نتیجہ اس کے لئے محترم ھے، نیز کسی کویہ حق نھیں ھے کہ دین سے حاصل کردہ اپنے نتیجہ کو مطلق قرار دے،چونکہ شناخت اور معرفت قبض وبسط رکھتی ھیںیعنی ان میں کمی یا زیادتی ھوسکتی ھے، یھاں تک کہ ایک شناخت اور قرائت ایک طرف ھو او ردوسری شناخت اور قرائت اس کے بالکل مخالف ھو،اور یہ بھی ممکن ھے کہ کسی ایک دینی عقیدہ کو آج ثابت کریں اور کل اسی عقیدہ کی ردّ کریں اس کی وجہ یہ ھے کہ واقعی دین ھمارے پاس نھیں ھے، بلکہ صرف دینی معرفت ھمارے پاس ھے، جبکہ یہ دینی معرفت قابل تبدیلی ھے اور بعض افراد کے لحاظ سے مختلف ھو جاتی ھے۔


۵۔ قرائت نسبی اور قرائت مطلق دونوں جدا جدا ھیں
بے شک ”معرفت دینی میں نسبیت“ کے نظریہ (جو کافی مدت سے ھمارے ملک میں جاری ھے اور اس کے بارے میں بھت سی کتابیں اور مقالات بھی چھپ چکے ھیں)؛ کی تحقیق و بررسی کے لئے کافی مدت درکار ھے ، لیکن ھم اس وقت مختصر طور پر عرض کرتے ھیں: ھم یھاں پر سب سے پھلے یہ سوال کرتے ھیں کہ کیا ”قبض وبسط شریعت“ کے ماننے والوں کے نزدیک ھر دینی مسائل کی چند تفسیر اور چند قرائت ھوسکتی ھیں؟ یا صرف بعض دینی مسائل کی مختلف تفسیر اور معنی ھوسکتے ھیں؟ اس سلسلہ میں ان کی پیش کردہ دلائل کے پیش نظر صرف بعض دینی مسائل میں مختلف تفسیر اور قرائت کا ھونا ثابت ھوتا ھے؛ لیکن وہ لوگ اس دلیل کو عام قرار دیتے ھوئے یہ نتیجہ نکالتے ھیں کہ تمام دینی مسائل میں مختلف تفسیر اور نتائج ھوسکتے ھیں منجملہ ان کے بعض مجتھدین اور فقھاء کے اختلافی مسائل ھیں۔
ان کا دعویٰ یہ ھے کہ اسلامی فقہ میں (بعض) مجتھدوں کا فتویٰ مختلف ھے چنانچہ ایک کھتا ھے کہ نماز جمعہ واجب ھے اور دوسرا کھتا ھے کہ نماز جمعہ واجب نھیں ھے، ایک کھتا ھے کہ ”شطرنج“ کھیلنا حرام ھے لیکن دوسرا اس کو حلال قرار دیتا ھے پس معلوم یہ ھوا مجتھدین کا فتویٰ اور اسلام سے ان کا حاصل کردہ نظریہ نسبی اور متغیر ھے، ثابت نھیں، یھاں تک کہ بعض مجتھدین میں خود ان کا فتویٰ مختلف ھے ، جیسا کہ بعض مجتھدین کا ایک زمانہ میں کچھ فتویٰ تھا لیکن بعد میں اپنا فتویٰ بدل دیا اور ایک نیا فتویٰ صادر کردیا لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ یہ فتاویٰ اور نتائج کا اختلاف اس بات کی دلیل ھے کہ دینی معرفت اور قرائت نسبی اور قابل تغیر ھے، اور ممکن نھیں ھے کہ دینی معرفت اور شناخت ثابت اورمطلق ھو۔
قارئین کرام ! مذکورہ مسئلہ کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں کہ اس بات کو تو ایک دور دراز کے علاقے میں رھنے والا جاھل انسان بھی جانتا ھے کہ فروع دین کے بعض مسائل میں مجتھدین کا فتویٰ مختلف ھے لیکن فتووں کا یہ اختلاف دلیل نھیں ھے کہ آپ لوگ یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ وحی کے ذریعہ پیغمبر اسلام (ص) کی معرفت تک مطلق نھیں ھے؛ چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی معرفت بھی انسانی معرفت کی طرح ھے جس میں خطا کا امکان پایا جاتا ھے! یعنی جس وقت خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:(قُلْ ھوَ اللهُ اَحَدٌ ) (۳) یا (وَإِلَھکُمْ إِلَہ وَاحِدٌ لاَإِلَہ إِلاَّ ھوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ ) (۴)کھتا ھے تو ھمیں یہ نہ معلوم ھو کہ خدا کی وحی کیا ھے ھم پیغمبر اکرم کے فرمان کے مطابق جس میں آپ نے فرمایا کہ خداوندعالم مجھ پر وحی نازل کرتا ھے؛ آگاہ ھوجاتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص) پر وحی نازل ھوتی ھے، لیکن وحی الٰھی کی حقیقت کے بارے میں نھیں جانتے اور پیغمبر اکرم (ص) نے وحی کے سلسلہ میں جو کچھ چیزیںھمیں بتائی ھیں وہ وحی خدا نھیں ھے بلکہ وحی سے اپنی معرفت اور فھم کو پیش کیا ھے؛ اور چونکہ آپ کی فھم و سمجھ بھی انسانی اور قابل خطا ھے،تو ھوسکتا ھے کہ انھوں نے وحی حاصل کرنے میں غلطی کی ھو خداوندعالم بیان کچھ کرنا چاھتا تھا لیکن آپ نےاس کے سمجھنے میں غلطی کردی اور اپنی معرفت اور سمجھ کو وحی خدا کے عنوان سے بیان کردیا چنانچہ اس نظریہ کا نتیجہ یہ ھوا کہ قرآن مجید کی کسی بھی آیت کے بارے میں کسی کی فھم اور سمجھ معتبر نھیں ھے اور ان سب میں خطا اور غلطی کا احتمال پایا جاتا ھے!
قارئین کرام! کیا یہ بھی دین اسلام کی ایک نئی قرائت ھے؟ کیا قرائت کا میدان اس قدر لا محدود اور وسیع ھے؟ ھم یہ ماننے ھیں کہ مجتھدین کے فتووں میں اختلاف پایا جاتا ھے لیکن کیا خداوندعالم کے وجود میں بھی شک و تردیدپیدا ھوسکتا ھے ؟ اور کیا اس بات کو قبول کیا جاسکتا ھے کہ اسلامی نقطہ نظر اور قرآنی آیات کے تحت کوئی شخص خدا کے وجود کو ثابت کرے اور دوسرا (انھیں قرآنی آیات کے ذریعھ) وجود خدا کی نفی کرے، اور دونوں کو دو دینی معرفت کے نام سے معتبر سمجھا جائے؟ اور کیا ۱۴۰۰ سال سے تمام شیعہ سنی اسلامی فرقوں کے علماء کے بیان کے مقابلہ میںکوئی یہ دعویٰ کرسکتا ھے کہ ان سبھی نے غلطی کی ھے اور غلط سمجھا ھے ، انھوں نے اپنے نتائج کو بیان کیا ھے اور ھم بھی اپنا نتیجہ بیان کرتے ھیں؟
دین میں کس حد تک مختلف قرائت ھوسکتی ھیں؛اس سوال کا جواب یہ ھے کہ مختلف قرائت کا وجود صرف فروع دین میں قابل تصور ھیں، نہ کہ اصول دین میں اور وہ بھی ان ظنی مسائل میں جن میں اختلاف کا امکان موجود ھے، نہ کہ قطعی، اجماعی اور اتفاقی مسائل میں اس کے علاوہ فروع دین میں صرف دینی صاحب نظر اور متخصص (ماھرین علماء ) کی نظر معتبر ھیں، نہ یہ کہ ھر کس و ناکس کے نظریہ کا کوئی اعتبار ھے ان لوگوں کی نظر معتبر ھے جنھوں نے تقریباً پچاس سال تک بڑے بڑے اساتیذ جیسے مرحوم آیت اللہ بروجردی، مرحوم آیت اللہ امام خمینی اور علامہ طباطبائی (رحمة اللہ علیھم)سے درس پڑھا ھے اور اس راستہ میں آنے والی تمام تر سختیوں کو برداشت کیا ھے نیز اپنی رفتار، فھم، تحقیق اور استنباط میں تقویٰ الٰھی سے مزین ھوں، نیز ھوا پرستی کا شکار نہ ھوں دینی معاملات میں مغربی تمدن سے متاثر چند بول پڑھنے والے ( خود کو دینی ماھر کھلانے والے)؛ کی نظر معتبر نھیں ھے۔
نتیجہ یہ ھوا کہ اختلاف نظر اور مختلف قرائت صرف دین کے ظنّی اور متشابہ مسائل میں قابل قبول ھے، اور اسلام کے قعطی مسائل، محکمات، ضروریات اور بینات میں صرف ایک ھی قرائت موجود ھے اور وہ بھی خدا وپیغمبر کی قرائت ھے، لھٰذا اس سلسلہ میں کسی طرح کے اختلاف نظر، شک وتردید اور مختلف قرائت کی کوئی گنجائش نھیں ھے، جیسا کہ اسلام کو ۱۴۰۰ سال گذر چکے ھیں ان کے بارے میں کسی طرح کا کوئی اختلاف نھیں ھوا ھے ھم نے دیکھا کہ حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے مرتد سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تو اس وقت تمام علماء اسلام نے تائید کی اوراس حکم کے بارے میں کسی طرح کی کوئی مخالفت سنائی نہ دی، اور سب نے یہ اتفاقی طور پر کھا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کا بیان کردہ فتویٰ حکم اسلام ھے اگرچہ بعض مغرب پرست نو وارد جنھوں نے اسلام کی بو بھی نھیں سونگھی ھے اس فتویٰ کی مخالفت کی اور کھا: اسلام سے ھماری قرائت یہ نھیں ھے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ھے کہ دنیا بھر کے صاحب عقل صرف اسی شخص کے نظریہ کو اھمیت دیتے ھیں اور صرف اسی کے نظریہ کو معتبر جانتے ھیں جو متعلق علم میں صاحب نظر اور محقق ھو اور صحیح طریقہ اور اس علم سے مناسب تحقیق کے بعد اپنی رائے کا اظھار کرے۔
حوالے:
(۱) سورہ لقمان آیت13
(2) سورہ روم آیت 30
(3) سورہ اخلاص (توحید) آیت 1، ترجمہ :” اے رسول کھہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ھے “
(4) سورہ بقرہ آیت 163 ترجمھ: ”اور تمھارا خدا بس ایک ھے ، اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے وھی رحمن بھی ھے اور وھی رحیم بھی ھے “
 

Add comment


Security code
Refresh