www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

۵۔ قرائت نسبی اور قرائت مطلق دونوں جدا جدا ھیں
بے شک ”معرفت دینی میں نسبیت“ کے نظریہ (جو کافی مدت سے ھمارے ملک میں جاری ھے اور اس کے بارے میں بھت سی کتابیں اور مقالات بھی چھپ چکے ھیں)؛ کی تحقیق و بررسی کے لئے کافی مدت درکار ھے ، لیکن ھم اس وقت مختصر طور پر عرض کرتے ھیں: ھم یھاں پر سب سے پھلے یہ سوال کرتے ھیں کہ کیا ”قبض وبسط شریعت“ کے ماننے والوں کے نزدیک ھر دینی مسائل کی چند تفسیر اور چند قرائت ھوسکتی ھیں؟ یا صرف بعض دینی مسائل کی مختلف تفسیر اور معنی ھوسکتے ھیں؟ اس سلسلہ میں ان کی پیش کردہ دلائل کے پیش نظر صرف بعض دینی مسائل میں مختلف تفسیر اور قرائت کا ھونا ثابت ھوتا ھے؛ لیکن وہ لوگ اس دلیل کو عام قرار دیتے ھوئے یہ نتیجہ نکالتے ھیں کہ تمام دینی مسائل میں مختلف تفسیر اور نتائج ھوسکتے ھیں منجملہ ان کے بعض مجتھدین اور فقھاء کے اختلافی مسائل ھیں۔
ان کا دعویٰ یہ ھے کہ اسلامی فقہ میں (بعض) مجتھدوں کا فتویٰ مختلف ھے چنانچہ ایک کھتا ھے کہ نماز جمعہ واجب ھے اور دوسرا کھتا ھے کہ نماز جمعہ واجب نھیں ھے، ایک کھتا ھے کہ ”شطرنج“ کھیلنا حرام ھے لیکن دوسرا اس کو حلال قرار دیتا ھے پس معلوم یہ ھوا مجتھدین کا فتویٰ اور اسلام سے ان کا حاصل کردہ نظریہ نسبی اور متغیر ھے، ثابت نھیں، یھاں تک کہ بعض مجتھدین میں خود ان کا فتویٰ مختلف ھے ، جیسا کہ بعض مجتھدین کا ایک زمانہ میں کچھ فتویٰ تھا لیکن بعد میں اپنا فتویٰ بدل دیا اور ایک نیا فتویٰ صادر کردیا لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ یہ فتاویٰ اور نتائج کا اختلاف اس بات کی دلیل ھے کہ دینی معرفت اور قرائت نسبی اور قابل تغیر ھے، اور ممکن نھیں ھے کہ دینی معرفت اور شناخت ثابت اورمطلق ھو۔
قارئین کرام ! مذکورہ مسئلہ کے جواب میں ھم عرض کرتے ھیں کہ اس بات کو تو ایک دور دراز کے علاقے میں رھنے والا جاھل انسان بھی جانتا ھے کہ فروع دین کے بعض مسائل میں مجتھدین کا فتویٰ مختلف ھے لیکن فتووں کا یہ اختلاف دلیل نھیں ھے کہ آپ لوگ یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ وحی کے ذریعہ پیغمبر اسلام (ص) کی معرفت تک مطلق نھیں ھے؛ چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی معرفت بھی انسانی معرفت کی طرح ھے جس میں خطا کا امکان پایا جاتا ھے! یعنی جس وقت خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:(قُلْ ھوَ اللهُ اَحَدٌ ) (۳) یا (وَإِلَھکُمْ إِلَہ وَاحِدٌ لاَإِلَہ إِلاَّ ھوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ ) (۴)کھتا ھے تو ھمیں یہ نہ معلوم ھو کہ خدا کی وحی کیا ھے ھم پیغمبر اکرم کے فرمان کے مطابق جس میں آپ نے فرمایا کہ خداوندعالم مجھ پر وحی نازل کرتا ھے؛ آگاہ ھوجاتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص) پر وحی نازل ھوتی ھے، لیکن وحی الٰھی کی حقیقت کے بارے میں نھیں جانتے اور پیغمبر اکرم (ص) نے وحی کے سلسلہ میں جو کچھ چیزیںھمیں بتائی ھیں وہ وحی خدا نھیں ھے بلکہ وحی سے اپنی معرفت اور فھم کو پیش کیا ھے؛ اور چونکہ آپ کی فھم و سمجھ بھی انسانی اور قابل خطا ھے،تو ھوسکتا ھے کہ انھوں نے وحی حاصل کرنے میں غلطی کی ھو خداوندعالم بیان کچھ کرنا چاھتا تھا لیکن آپ نےاس کے سمجھنے میں غلطی کردی اور اپنی معرفت اور سمجھ کو وحی خدا کے عنوان سے بیان کردیا چنانچہ اس نظریہ کا نتیجہ یہ ھوا کہ قرآن مجید کی کسی بھی آیت کے بارے میں کسی کی فھم اور سمجھ معتبر نھیں ھے اور ان سب میں خطا اور غلطی کا احتمال پایا جاتا ھے!
قارئین کرام! کیا یہ بھی دین اسلام کی ایک نئی قرائت ھے؟ کیا قرائت کا میدان اس قدر لا محدود اور وسیع ھے؟ ھم یہ ماننے ھیں کہ مجتھدین کے فتووں میں اختلاف پایا جاتا ھے لیکن کیا خداوندعالم کے وجود میں بھی شک و تردیدپیدا ھوسکتا ھے ؟ اور کیا اس بات کو قبول کیا جاسکتا ھے کہ اسلامی نقطہ نظر اور قرآنی آیات کے تحت کوئی شخص خدا کے وجود کو ثابت کرے اور دوسرا (انھیں قرآنی آیات کے ذریعھ) وجود خدا کی نفی کرے، اور دونوں کو دو دینی معرفت کے نام سے معتبر سمجھا جائے؟ اور کیا ۱۴۰۰ سال سے تمام شیعہ سنی اسلامی فرقوں کے علماء کے بیان کے مقابلہ میںکوئی یہ دعویٰ کرسکتا ھے کہ ان سبھی نے غلطی کی ھے اور غلط سمجھا ھے ، انھوں نے اپنے نتائج کو بیان کیا ھے اور ھم بھی اپنا نتیجہ بیان کرتے ھیں؟
دین میں کس حد تک مختلف قرائت ھوسکتی ھیں؛اس سوال کا جواب یہ ھے کہ مختلف قرائت کا وجود صرف فروع دین میں قابل تصور ھیں، نہ کہ اصول دین میں اور وہ بھی ان ظنی مسائل میں جن میں اختلاف کا امکان موجود ھے، نہ کہ قطعی، اجماعی اور اتفاقی مسائل میں اس کے علاوہ فروع دین میں صرف دینی صاحب نظر اور متخصص (ماھرین علماء ) کی نظر معتبر ھیں، نہ یہ کہ ھر کس و ناکس کے نظریہ کا کوئی اعتبار ھے ان لوگوں کی نظر معتبر ھے جنھوں نے تقریباً پچاس سال تک بڑے بڑے اساتیذ جیسے مرحوم آیت اللہ بروجردی، مرحوم آیت اللہ امام خمینی اور علامہ طباطبائی (رحمة اللہ علیھم)سے درس پڑھا ھے اور اس راستہ میں آنے والی تمام تر سختیوں کو برداشت کیا ھے نیز اپنی رفتار، فھم، تحقیق اور استنباط میں تقویٰ الٰھی سے مزین ھوں، نیز ھوا پرستی کا شکار نہ ھوں دینی معاملات میں مغربی تمدن سے متاثر چند بول پڑھنے والے ( خود کو دینی ماھر کھلانے والے)؛ کی نظر معتبر نھیں ھے۔
نتیجہ یہ ھوا کہ اختلاف نظر اور مختلف قرائت صرف دین کے ظنّی اور متشابہ مسائل میں قابل قبول ھے، اور اسلام کے قعطی مسائل، محکمات، ضروریات اور بینات میں صرف ایک ھی قرائت موجود ھے اور وہ بھی خدا وپیغمبر کی قرائت ھے، لھٰذا اس سلسلہ میں کسی طرح کے اختلاف نظر، شک وتردید اور مختلف قرائت کی کوئی گنجائش نھیں ھے، جیسا کہ اسلام کو ۱۴۰۰ سال گذر چکے ھیں ان کے بارے میں کسی طرح کا کوئی اختلاف نھیں ھوا ھے ھم نے دیکھا کہ حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے مرتد سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تو اس وقت تمام علماء اسلام نے تائید کی اوراس حکم کے بارے میں کسی طرح کی کوئی مخالفت سنائی نہ دی، اور سب نے یہ اتفاقی طور پر کھا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کا بیان کردہ فتویٰ حکم اسلام ھے اگرچہ بعض مغرب پرست نو وارد جنھوں نے اسلام کی بو بھی نھیں سونگھی ھے اس فتویٰ کی مخالفت کی اور کھا: اسلام سے ھماری قرائت یہ نھیں ھے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ھے کہ دنیا بھر کے صاحب عقل صرف اسی شخص کے نظریہ کو اھمیت دیتے ھیں اور صرف اسی کے نظریہ کو معتبر جانتے ھیں جو متعلق علم میں صاحب نظر اور محقق ھو اور صحیح طریقہ اور اس علم سے مناسب تحقیق کے بعد اپنی رائے کا اظھار کرے۔
حوالے:
(۱) سورہ لقمان آیت13
(2) سورہ روم آیت 30
(3) سورہ اخلاص (توحید) آیت 1، ترجمہ :” اے رسول کھہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ھے “
(4) سورہ بقرہ آیت 163 ترجمھ: ”اور تمھارا خدا بس ایک ھے ، اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے وھی رحمن بھی ھے اور وھی رحیم بھی ھے “
 

Add comment


Security code
Refresh