www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

۳۔ بعض اقدار کا مطلق اور ثابت ھونا
مطلب کی وضاحت کے لئے عرض کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ھر اقداری مفھوم ، حلال و حرام اور بدی اور خوبی مطلق ھے، تو اس کے دعویٰ کو باطل کرنے کے لئے یہ کھنا کافی ھے کہ یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ ایک چیز ایک معاشرہ میں اچھی ھو اور وھی چیز دوسرے معاشرہ میں بری ھو ایک جگہ اس کواقدار میں شمار کیا جاتا ھو اور دوسری جگہ ضد اقدار حساب کیا جاتا ھے دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ وہ گذشتہ دعویٰ جس کو ”موجبہ کلیھ“ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ھے یعنی تمام اچھائیاں اور برائیاں ؛ مطلق اور کلی ھیں، اسی چیز کو ”سالبہ جزئیھ“ کے عنوان سے بھی پیش کیا جاسکتا ھے، جس کی بنا پر وہ دعویٰ اور ”حکم کلی“ نقض ھوجاتا ھے یعنی جب ھم نے ان اقداری چیزوں کو دیکہ لیا جو مطلق نہ تھے، اور بعض معاشرہ میں وہ اچھی اور بعض دوسرے معاشرہ میں ناپسند اور بری سمجھی جاتی ھوں، تو ھم کھہ سکتے ھیں کہ ایسا نھیں ھے تمام اقدار اور قضایا مطلق ھوں، بلکہ بعض اقداری قضایا نسبی ھیں بے شک یہ فیصلہ صحیح اور درست ھے، اور ھم بھی یہ نھیں کھتے کہ تمام اقداری مسائل اور تمام بایدھا اور نبایدھا مطلق اور کلی ھیں اور ھر معاشرہ کے لئے ھمیشہ ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھیں ھم بھی اس بات کومانتے ھیں کہ بعض احکام متغیر اور موقع و محل کے لحاظ سے ھیں؛ لیکن اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ کوئی بھی اقدار مطلق نھیں ھے یعنی اقداری نسبیت کا اثبات ”سالبہ جزئیھ“ ھے نہ کہ ”سالبہ کلیھ“ لھٰذا اس بنیاد کی بنا پر ھم کم ھی اقداری مسائل کے بارے میں مطلق یا نسبی ھونے کو ثابت کرسکتے ھیں۔
ھمارا دعویٰ یہ ھے کہ ھمارے پاس مطلق اقداری چیزیں موجود ھیں اوربھت سے اقداری مسائل پر مطلق اعتقاد رکہ سکتے ھیں اور اگر یہ نظریہ ثابت ھوجائے، تو پھر ھم اس کی سیکڑوں مثال پیش کرسکتے ھیں، چونکہ عقلی بحث اورعقلی نظریات کا دار و مدار عدد اور اگنتی پر نھیں ھوتا کیا آپ حضرات کو کوئی ایسا شخص مل سکتا ھے جو یہ کھے کہ عدالت ایک معاشرہ میں پسندیدہ اور دوسرے معاشرہ میں ناپسند اور بری ھے؟ اور کیا کوئی ایسا عاقل انسان مل سکتا ھے جو کھے کہ ظلم بعض مقامات پر صحیح اور پسندیدہ ھے ؟ ھاں یہ ھوسکتا ھے کہ ظلم اور عدل کے مصداق میں غلطی ھوجائے اور الفاظ کا غلط استعمال کریں مثال کے طور پر کوئی یہ ھے کہ کسی بھی شخص کو مارنا ظلم ھے، جبکہ بعض لوگوں کو سزا کے عنوان سے مارا جاتا ھے اور اس کو قصاص کی بنا پر مارنا بُرا نھیں ھوتا، بلکہ حق و عدل کے عین مطابق ھے نکتہ یہ ھے کہ اگر واقعاً کوئی کام ظلم ھو ، تو پھر وہ دوسرے مقام پر اچھا نھیں کھلایا جاسکتا، یا اگر کوئی کام واقعاً عدل کے مطابق ھو تو وہ بعض مقامات پر بُرا نھیں ھوسکتا اور بعض مقامات پر عدل کو برا نھیں سمجھا جاسکتا اور یہ مسئلہ اس قدر واضح اور سبھی کو معلوم ھے کیونکہ جب قرآن مجید عوام الناس کو شرک سے پرھیز کرنے کے لئے کھتا ھے تو آوزا دیتا ھے:
( إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ ) (۱)
”بے شک کہ شرک بھت بڑا ظلم ھے۔“
یعنی اس کبریٰ (کہ ”ھر وہ چیز جو ظلم ھے اس سے دوری اور اجتناب کیا جائے“) ؛ میں کوئی شک وتردید نھیں ھے، اور یہ قضیھ؛ مطلق، کلی، ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھے، کیونکہ شرک ظلم کا ایک مصداق ھے، جو ھمیشہ برا ھے اور اس سے پرھیز کیا جائے۔
ھمارا دعویٰ یہ نھیں ھے کہ تمام اقداری مسائل بطور مطلق ھیں بلکہ ھم تو یہ کھتے ھیں کہ بعض اقدار مطلق ھیں اسی طرح معرفت کے باب میں؛ ھم ھر معرفت کو مطلق نھیں مانتے، اور یہ بھی نھیں مانتے کہ ھر شخص کو حاصل ھونے والی معرفت اور شناخت صحیح اور مطلق ھے کیونکہ بعض لوگوں کو حاصل ھونے والی شناخت اور معرفت نادرست ھے پس معلوم یہ ھوا کہ بعض معرفت اور شناخت نسبی ھیں اور بعض چیزوں میں نسبیت پائی جاتی ھے: مثال کے طور پر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ تھران یونیورسٹی بڑی ھے یا چھوٹی؟ تو چونکہ اگر آپ اس کواپنے گھر سے مقابلہ کریں گے تو آپ کا جواب ”بڑی“ ھوگا اور کھیں گے کہ تھران یونیورسٹی بھت بڑی ھے لیکن اگر اسی یونیورسٹی کو کرہ زمین سے مقابلہ کریں گے تو اس وقت آپ کا جواب یہ ھوگا کہ تھران یونیورسٹی بھت چھوٹی ھے؛ یھاں تک کہ دریا کے ایک قطرہ کی مانند شمار کی جائے گی۔
پس معلوم یہ ھوا کہ چھوٹا یا بڑا ھونا نسبی چیزوں میں سے ھے اور اسی طرح کے معنی ومفاھیم پر نسبی اطلاق کیا جائے گا لیکن کسی چیز کے چھوٹے یا بڑے ھونے سے یہ نتیجہ نھیں لیا جاسکتا ھے کہ تمام چیزیں نسبی ھیں، یھاں تک کہ خدا بھی نسبی ھے انسانی وجود، کرہ زمین اور عالم ھستی بھی نسبی ھیں چھوٹائی اور بڑائی؛ نسبی اور اضافی ھوتی ھیں اور ”مقولہ اضافھ“ سے تعلق رکھتی ھیں؛ لیکن بعض ایسے معنی اور مفاھیم ھیں جو نسبی نھیں ھیں اور ان کے ذریعہ تشکیل پانے والے قضایا مطلق ھوسکتے ھیں۔

اس بنا پر ھمارا کھنا یہ نھیں ھے کہ ھر اقدار چاھے کسی بھی جگہ ھو یا کسی بھی زمانہ میں ھو اس پر اعتقاد رکھنا مطلق ھے بلکہ ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ ”موجبہ جزئیھ“ کے حد تک ھمارے پاس ”مطلق اقدار“ موجود ھیں، یعنی ھمارے پاس ایسے چیزیں موجود ھیں جو مطلق اقدار کھی جاسکتی ھیں اور موقع ومحل اور زمان و مکان کے لحاظ سے تبدیل نھیں ھوتی ، اور نہ ھی ان چیزوں میں کسی استثناء کا قائل ھوا جاسکتا بے شک ھمارے سامنے دو طرح کے اقدار موجود ھیں ایک مطلق ھوتے ھیں اور دوسرے وہ جو مطلق نھیں ھوتے ھمارے عقیدہ کے لحاظ سے ظلم ھمیشہ اور ھر جگہ اور ھر ایک کے لئے بُرا ھے اور عدل ھمیشہ اور ھر جگہ اور ایک کے لئے حَسن، اچھا اور پسندیدہ ھے ھمارے پاس واقعی قضایا اور علوم توصیفی سے متعلق قضایا مطلق اور یقینی ھیں مثال کے طور پر ھم یقین اور جزم کے ساتھ یہ کھہ سکتے ھیں کہ آسمان و زمین اور انسان موجود ھیں، خداوندعالم موجود ھے، وحی اور قیامت کا وجود ھے؛ بے شک یہ تمام چیزیں مطلق ھیں، نسبی نھیں ۔
بعض اقدار کے مطلق ھونے کا معیار
قارئین کرام! یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ ھمیں یہ کیسے معلوم ھو کہ یہ چیز مطلق ھے یا نسبی؟ تو اس کا مختصر جواب یہ ھے کہ ھر وہ واضح اور روشن قضیہ یا وہ قضیہ جو صحیح طور پر واضح چیزوں سے حاصل ھو وہ مطلق ھے لیکن وہ قضایا جو واضح نھیں ھیں یا صحیح طریقہ پر واضح و روشن چیزوںسے حاصل نہ ھو وہ نسبی ھے، جس کا نتیجہ بھی واضح اورروشن نھیں ھوگا اور بالکل یھی تقسیم اقدار کے سلسلہ میں بھی ھے: احساسات، محبت، خیالات اور عادات کی بنیاد پر حاصل شدہ اقدار، نسبی ھیں؛ لیکن جن اقدار کی بنیاد عقل پر ھوتی ھے اور جن پر عقلی دلائل قائم کئے جاسکتے ھیں اور ان کے اقداری ھونے پر دلیل پیش کی جاسکتی ھے؛ وہ مطلق ھیں مثال کے طور پر ھم عبادت خدا کوایک اقدار کے عنوان سے مانتے ھیں جو ھمیشہ بطور مطلق مقصود اور پسندیدہ ھے، اور کبھی بھی اس میں استثناء نھیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس کی بنیاد یہ ھے کہ انسان کے لئے واقعی اور حقیقی راہ تکامل (ترقی) عبادت خدا ھے اسی طرح اجتماعی اقدار میں عدالت ھمیشہ اچھی ھے ، جس کے بارے میں کبھی بھی کوئی استثناء نھیں کیا جاسکتا، اس کے مقابلہ میں ظلم ھمیشہ اور ھر جگہ ناپسند اور بُرا ھے لھٰذا معلوم یہ ھوا کہ مطلق اقدار بھی موجود ھیں۔
۴۔ مغربی تمدن میں تمام دینی عقائد نسبی ھیں
آج کل مغربی ممالک میں بھت سے فلسفی مکاتب پیدا ھوگئے ھیں جن میں کھا جاتا ھے کہ اقدار کے سلسلہ میں عقلی اور واقعی پشت پناھی نھیں ھے، ان کا عقیدہ ھے کہ تمام اقداری مسائل نسبی اور قرار دادی(باھمی مفاھمت) ھیں ، یعنی جس کو عوام الناس اچھا کھیں وہ اچھا ھے اور جس کو بُرا طے کرلیں وہ برا ھے انھیں فلسفی مکاتب میں سے ایک مھم اخلاقی مکتب بنام ”پوزیٹیزم“ "Positivism" ھے، جس میں معاشرہ کی پسند کو اقدار کا ملاک قرار دیا جاتا ھے اسی بنا پر اس مکتب کے ماننے والے کھتے ھیں کہ خوب و بد اور اقدار و ضد اقدار طے کئے جانے والے معاملات میں سے ھیں اگر آج عوام الناس کسی چیز کو اقدار اور اچھی مانتے ھیں تو وہ اچھی اور قابل قدر دانی ھے، لیکن اگر لوگوں کا نظریہ بدل جائے تو پھر وھی چیز جس کو اچھا سمجھا جارھا ھے اس کو بُرا کھا جانے لگے گا،اور وہ ضد اقدار شمار ھونے لگی گی۔
لیکن ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ تمام اقداری مسائل نسبی نھیں ھے اور تمام اقداری مسائل قرار داد کے تحت نھیں ھیں ٹھیک ھے کہ کسی بھی معاشرہ کے آداب و رسوم قرار دادی اور موقع ومحل کے لحاظ سے قابل تبدیلی ھوتے ھیں، لیکن بھت سے ایسے اقدار ھیں جو انسان کی فطرت میں پائے جاتے ھیں، وہ فطرت جو ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھے:
جیسا کہ قرآن مجید میں خداوندعالم کا ارشاد ھوتا ھے:
( فَاٴَقِمْ وَجْھکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَةَ اللهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھا لاَتَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللهِ ) (2)
”آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رھیں کہ یہ دین وہ فطرت الٰھی ھے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ھے، اور خلقت الٰھی میں کوئی تبدیلی نھیں ھوسکتی “
چونکہ فطرت الٰھی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نھیں ھو سکتی، لھٰذا وہ اقدار جو فطرت پر مبنی ھوں گے وہ بھی غیر قابل تبدیلی ھوں گے لھٰذا ھمارے پاس مطلق اقدار ھوسکتے ھیں جو لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ اپنے نظریہ کو مطلق نہ سمجھے، اگر ان کا مطلب یہ ھے کہ اپنے اقداری افکار کو مطلق نہ کھیں کیونکہ ھم ایسے عقائد اور اقدار پر یقین رکھتے ھیں جن پر دوسرے لوگ اعتقاد نھیں رکھتے، اور ھمارے مقابلہ میں دوسری چیزوں کا اعتقاد رکھتے ھیں؛ لھٰذا ھمیں اپنے عقائد ان لوگوں پرتحمیل نھیں کرنا چاھئے، کیونکہ ھمارا اقداری نظریہ ھمارے سلیقہ کے تحت ھے اور دوسروں کی اقداری نظر ان کے اپنے سلیقوں کے تحت ھے، اور کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ دوسروں کے سلیقے کو غلط کھے بے شک اگر کوئی شخص اس طرح کا نتیجہ پیش کرتا ھے تو یہ اسی اخلاقی مکتب ” پوزیٹیزم "Positivism" “کی بنیاد پر ھے جس کی بنیاد عوام الناس کا سلیقہ اور ان کی مرضی ھے، جبکہ یہ نظریہ فاسد اور باطل ھے، اور اسلام اور فلسفہ اخلاق کے صحیح مکتب سے ھم آھنگ نھیں ھے۔
 اسی پوزیٹیزم اخلاقی مکتب کے طرفدار ھم سے کھتے ھیں کہ ”اپنے نظریات کو مطلق قرار نہ دیں“؛ وہ لوگ واقعاً بھت بڑے دھوکے میں ھیں ھم مطلق اقدار کی حفاظت کی خاطر اپنی جگہ پر اٹل ھیں اور کوشش کرتے رھیں گے تا کہ اسلامی ثابت اقدار معاشرہ میں زندہ رھیں اور ان کی تبلیغ ھوتی رھے ، اور ان کے بارے میں کسی طرح کا کوئی اشکال اور اعتراض باقی نہ رھے۔
مغربی افراد ”رنسانس“ کے زمانہ کے بعد سے دینی معنی و مفاھیم کو اقدار کے دائرہ میں قرار دیتے ھیں خصوصاً وہ دینی مسائل جو دینی مناسک اور احکام سے متعلق ھیں اور چونکہ دوسری طرف سے یہ لوگ اقدار کو نسبی قرار دیتے ھیں، اسی وجہ سے دینی اقدار کو بھی نسبی شمار کرتے ھیں،اور ان کے لئے مطلق اقدار کے قائل نھیں ھیں چنانچہ اسی بنیاد پر کھتے ھیں کہ تمام ادیان اور مذاھب اچھے اور برحق ھوسکتے ھیں: اور یہ دین اپنے ماننے والوں کے لئے اچھا اور برحق ، اور وہ دین اس کے ماننے والوں کے لئے اچھا اور برحق ھے، اور کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے دینی نظریہ کو مطلق قرار دے ، اسی طرح یہ بھی کھنے کا حق نھیں ھے کہ صرف اور صرف دین اسلام صحیح اور برحق ھے اور دوسرے ادیان عالم باطل اور بے بنیاد ھیں چاھے دین اسلام ایک طرح کے اقداری احکام سے تشکیل ھوا ھے مثلاً دینی حلال و حرام چیزیں جیسے نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، یا جھوٹ نہ بولیں، یا نامحرم کو نہ دیکھیں اور لوگوں کے مال اور ناموس پر تجاوز نہ کریں جب کہ یہ بات ظاھر ھے کہ اگر اقدار مسائل نسبی اور قرار دادی (باھمی مفاھمت) ھوں تو دینی مسائل بھی نسبی ھوں گے ، جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ دین اسلام اعتبارات اور قرارداد کادین بن جائے گا۔
اس پوزیٹیزم نظریہ اور دینی مسائل کواقدار کے دائرہ میں قرار دینے کی بنا پر بعض لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ آپ کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ اپنے دین کو دوسروں پر تحمیل کریں،اور ان کو مسلمان کرنا چاھیں دین اسلام تمام مسلمان کے لئے محبوب اور پسندیدہ ھے، اسی طرح دین یھودیت یھودیوں کے لئے پسندیدہ ھے، چونکہ یہ ادیان نسبی ھیں اور ان میں سے کوئی بھی مطلق نھیں ھے اور چونکہ یہ ادیان اور اقدار نسبی اور قراردی ھیں اسی لحاظ سے مختلف معاشروں میںان کا حکم بھی مختلف ھے: چودہ سو سال پھلے اسلام؛ سعودی عرب کے لئے مناسب اور اچھا تھا لیکن عصر حاضر میں ماڈرن دنیاکے لئے ایک دوسرا دین مناسب اور مطلوب ھے! لھٰذا اسلام کو مطلق قرار نھیں دینا چاھئے اور مسلمانوں کو بھی اپنے دینی نظریات کو دوسروں پر نھیں تھونپنا چاھئے اسلام ان لوگوں کے اچھا ھے جن کے سلیقے ان سے میل کھاتے ھیںلیکن دوسروں کے لئے یہ دین اچھا نھیں ھے کیونکہ وہ اس دین کو پسند نھیں کرتے اور اپنے سلیقہ کے لحاظ سے دوسرا دین اختیار کئے ھوئے ھیں لھٰذا ھمیں اپنے اسلامی سلیقہ کو دوسروں پر تحمیل نھیں کرنا چاھئے اور دوسروںکے سلیقوں کونظر انداز نھیں کرنا چاھئے۔
قارئین کرام! گذشتہ نظریہ کا جواب یہ ھے کہ ھم مان لیتے ھیں کہ اسلام کے بعض احکام (جیسے احکام ثانوی) نسبی اور متغیر ھیں اور بعض احکام موقع و محل کے لحاظ سے ھوتے ھیں، لیکن اسلامی تمام احکام متغیر نھیں ھیں؛ بلکہ بھت سے اسلامی احکام ثابت، مطلق اور غیر قابل تبدیلی ھیں اس کے علاوہ یہ بھی عرض کردیا جائے کہ اسلام کا کوئی بھی حکم عوام الناس کے سلیقہ کے تابع نھیں ھے ، اور متغیر احکام کے لئے بھی خاص دلائل ھوتے ھیں پس اولاً: ھم اس نظریہ کو نھیں مانتے کہ تمام اقدار عوام الناس کے سلیقہ اور ان کی پسند کے تابع ھیں بلکہ ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ بعض اقدار اور بعض ضد اقدار مطلق چیزیں؛ مصالح ومفاسد کے تابع اور نفس الامری ھیں، لھٰذا وہ ثابت اور غیر قابل تبدیلی ھیں دوسرے: اسلام کے ثابت اقدار اسی قسم کے ھیں (یعنی مصالح و مفاسد کے تابع اور نفس الامری ھیں) لھٰذا وہ مطلق ھیں اور ھم ان کو ھمیشہ اور ھر جگہ کے لئے معتبر جانتے ھیں اور اس بات پر زور دیتے ھیں کہ ھمارے اسلامی نظریات مطلق ھیں ، اور صرف یھی اسلامی نظریات مطلق ، صحیح اور بر حق ھیں پس نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی ممالک میں نسبی گرایی نظریہ اسلامی نظریات کے مطابق نھیں ھے۔
ج۔ معرفت کے نسبی ھونے پر تیسرا نظریھ(معرفت دینی میں نسبیت کا وجود)
نسبی نظریات میں سے ”معرفت دینی میں نسبیت“کا نظریہ بھی ھے، چنانچہ اسی نظریہ کے تحت بعض لوگ کھتے ھیں کہ ھم بھی یہ مانتے ھیں کہ دین ثابت اور مطلق ھے، اور دینی اقدار بھی مصالح ومفاسد کے تابع، واقعی اور نفس الامری ھیں، ھم بھی حقیقت دین کو مطلق اور ثابت مانتے ھیں لیکن ھمارے پاس کوئی واقعی اور مطلق دین نھیں ھے، جس سے ھم رابطہ برقرار کریں صرف ھمارے اختیار میں دین کی معرفت اور اس کی شناخت ھے اور جو کچھ بھی ھم دوسروں کو دین کے عنوان سے بتاتے ھیں، درحقیقت وہ دین سے حاصل کردہ ھمارا ایک نتیجہ اور شناخت ھوتی ھے جبکہ دوسرے افراد دین سے ایک دوسرا نتیجہ حاصل کرتے ھیں اگرچہ ھم اصلِ دین کو ثابت اور مطلق مانتے ھیں لیکن دینی معرفت اور دینی شناخت کو قابل تغیر اور نسبی مانتے ھیں ، ھمارے نظریہ کے مطابق کسی کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ وہ اپنے نتیجہ اور شناخت کو مطلق مانے، اور اپنے اس نظریہ کو دوسروں پر تھونپے۔
یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا ایسا ممکن ھے کہ ھماری بعض دینی شناخت مطلق ھو، اور سبھی لوگ دین سے یھی نتیجہ اخذ کریں اور سبھی اسی کو قبول کریں یا نہ ، دینی کوئی بھی معرفت مطلق نھیں ھے بلکہ دینی ھر موضوع کی ھر شناخت نسبی ھے؟ جس کے نتیجہ میں دو دینی شناختوں میں سو فی صد اختلاف ھوسکتا ھے کہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف ھو؛ یعنی کوئی شخص کسی چیز کو دینی مسائل میں شمار کرے جبکہ کوئی دوسرا شخص اس کا انکار کرے، حالانکہ دین سے حاصل کردہ دونوں شناخت مقبول اور معتبر ھوں ؟!
قارئین کرام! نسبت کے سلسلہ میں یہ تیسرا نظریہ جو ”معرفت دینی میں نسبیت“ کے نام سے شھرت پیدا کرتا جارھا ھے اور اس نظریہ کے طرفدار اس کو ”قبض وبسط شریعت“ (شرعی مسائل میں کمی وزیادتی) کے عنوان مانتے ھیں، اور یہ نظریہ تقریباً بیس سال سے رائج ھوتا جارھا ھے اور ھر روز مزید پھیلتا جارھا ھے نیز اخباروں اور جرائد میں بیان ھوتا ھے،اس کی بنا پر ایسا ظاھر کیا جاتا ھے کہ دین کے متعلق تمام لوگوں کی شناخت برابر نھیں ھے: ممکن ھے کہ کوئی شخص اپنے اعتقاد کی بنا پر کھے کہ نماز صبح دو رکعت ھے، لیکن کوئی اپنے نظریہ کی بنا پر یہ بھی کھہ سکتا ھے کہ نماز صبح تین رکعت ھے؛ حالانکہ دونوں نظریات معتبر او رمقبول ھیں! اور اگر ھم اپنے عقیدہ کی بنا پر نماز صبح کو دو رکعت سمجھیں تو ھمیں یہ حق نھیں ھے کہ دوسرے افراد کو بھی نماز صبح دو رکعت پڑھنے کے لئے کھیں اس بنیاد پر ھمارے عقیدہ کی بنا پر نماز صبح دو رکعت ھے، ھوسکتا ھے کہ کوئی دوسرا شخص دین سے یہ نتیجہ حاصل کرے کہ نماز صبح تین رکعت ھے اور وہ بھی دین کی شناخت اور ایک قرائت کھلائے گی، اور اقداری لحاظ سے دو قرائت کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے اور ھر شخص کا حاصل کردہ نتیجہ اس کے لئے محترم ھے، نیز کسی کویہ حق نھیں ھے کہ دین سے حاصل کردہ اپنے نتیجہ کو مطلق قرار دے،چونکہ شناخت اور معرفت قبض وبسط رکھتی ھیںیعنی ان میں کمی یا زیادتی ھوسکتی ھے، یھاں تک کہ ایک شناخت اور قرائت ایک طرف ھو او ردوسری شناخت اور قرائت اس کے بالکل مخالف ھو،اور یہ بھی ممکن ھے کہ کسی ایک دینی عقیدہ کو آج ثابت کریں اور کل اسی عقیدہ کی ردّ کریں اس کی وجہ یہ ھے کہ واقعی دین ھمارے پاس نھیں ھے، بلکہ صرف دینی معرفت ھمارے پاس ھے، جبکہ یہ دینی معرفت قابل تبدیلی ھے اور بعض افراد کے لحاظ سے مختلف ھو جاتی ھے۔

Add comment


Security code
Refresh