www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

۹۔ الفاظ کے ذریعہ مختلف حقائق کو سمجھا جاسکتا ھے
جیسا کہ اس بات کی طرف اشارہ ھوچکا ھے کہ ان لوگوں کے دعووں میں ایک دعویٰ یہ ھے کہ کسی موٴلف یا مقرر کے الفاظ مقصد کو بیان کرنے اور ما فی الضمیر کو منتقل کرنے سے قاصر ھیں ، اور الفاظ کامافی الضمیر کے منتقل کرنے میں نا کافی ھونا ھرمنوٹیک کی بحث کا ایک حصہ ھے نیز دینی تحریروں میں بھی اس سے کام لیا جاتا ھے گذشتہ اعتراض کا جواب یہ ھے کہ اگر ھم گذشتہ چند ھزار سال پھلے کی مختلف اقوام و مذاھب کا تاریخی مطالعہ کریں اور ھر دین و مذھب اور مسلک کے ماننے والوں کی ادبیات پر سرسری نظر دوڑائیں تو ھمیں معلوم ھوجائے گا کہ تمام ھی اقوام اور مذاھب کی رونق بخش تعلیمات ”عشق“ کی بنیاد پر ھے اور اس نکتہ سے پتہ یہ چلتا ھے کہ عشق ایک ایسی حالت ھے جس کا احساس تمام انسانوں کے یھاں پایا جاتا ھے، جو سب کے لئے قابل فھم ھے اب اگر کوئی جاپانی، چینی، ایرانی یا عرب باشندہ اپنے عشق کے بارے میں خبر دے تو پھر یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ھے کہ ھم اس کے احساس کو درک نھیں کرسکتے؟ کیونکر یہ دعویٰ کیا جاسکتاھے کہ لیلا مجنون یا شیرین اور فرھاد کی داستانِ عشق ھمارے لئے قابل فھم نھیں ھے اور ھم ان داستانوں میں عشق کو صحیح طریقہ سے سمجھ نھیں سکتے؛ اور یہ بھانہ کریں کہ الفاظ کے ذریعہ احساسات منتقل نھیں ھوتے ھیں، اگر عشق جیسی حالت اور احساس تمام کھنے والوں یا سننے والوں کے لئے قابل فھم نہ ھو تو پھر ھر قوم و ملت میں عشق کے سلسلے میں اس قدر نظم ونثر کیوں موجود ھے، اور عشق کے بارے میں اس زبان کی ادبیات کیوں بھری ھوئی ھے؟
ھم بھی اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ انسان اپنی اندرونی احساسات کو کما حقہ (ھو بھو) دوسروں کی طرف منتقل نھیں کرسکتا، لیکن قرائن و شواھد اور دوسری چیز کو دیکہ کر دوسروں کے احساسات کو سمجھا جاسکتا ھے (مثلاً) ھم اپنے اندر موجود احساس خوف کو دوسرے کی طرف منتقل نھیں کرسکتے جس سے ھمارے احساس کو سمجھ سکے؛ لیکن چونکہ خوف اور ڈر کا احساس ایک ایسی چیز ھے جو تقریباً کم و بیش سبھی کے اندر پایا جاتا ھے، لھٰذا دوسرے افراد بھی ھمارے اندر موجود خوف کا احساس کرسکتے ھیں لیکن اگر کسی کے یھاں ھماری طرح کا احساس نہ پایا جاتا ھو تو وہ قرائن اور شواھد کے ذریعہ بھی ھمارے احساس کا پتہ نھیں چلا سکتا مثال کے طور پر اگر کسی کے اندر عشق و محبت کا احساس نہ پایا جاتا ھو ، تو پھر وہ عشقی داستان سے لطف اندوز نھیں ھوسکتا، لیکن یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ ایسے شخص کو انسان بھی مشکل سے کھا جائے گا کیونکہ ھر شخص میں تھوڑا بھت محبت کا احساس پایا جانا ضروری ھے، اب اگر کوئی شخص اپنے اس اندرونی احساس کے بارے میں خبر دے اور وہ یہ بھی جانتا ھے کہ اس حالت میں شدت اور زیادتی کا امکان پایا جاتا ھے، تو اس کو یہ معلوم ھوجائے گا کہ جب یہ حالت اپنی سر حدّ کمال اور بھت زیادہ شدت تک پھنچتی ھے تو اسی کو ”عشق“ کھا جاتا ھے پس ایسا نھیں ھے کہ ھم اپنے اندرونی احساسات کو دوسروں تک منتقل نھیں کرسکتے، جس کے نتیجہ میں ھمارے استعمال کردہ الفاظ اپنی دلی حالت کی ترجمانی کرنے کے ناکافی اور قاصر ھوں۔
۱۰۔ قرآن کریم سے مطلق اور واقعی معرفت کا حاصل کرنا ممکن ھے
جی ھاں، ھم بھی یہ بات مانتے ھیں کہ عام طریقوں اور معمولی شناخت کے ذریعہ کُنہ حقائق (جوھر حقائق) اور ماورای طبیعت مثلاً فرشتہ کے ماھیت اور حقیقت کے بارے میں آگاھی حاصل نھیں کی جاسکتی، اور ان کے بارے میں مکمل طور پر شناخت حاصل نھیں ھوسکتی، ان کے بارے میں ھونے والی گفتگو متشابہ اور ذو معنی ھیں، اسی وجہ سے بعض آیات قرآن میں اس طرح کی موجودات کے بارے میں بیان شدہ مطالب متشابہ ھیں ان حقائق کی پھچان کے لئے مخصوص راستے موجود ھیں جو عام انسان کو معلوم نھیں ھیں اور صرف وھی حضرات ان طریقوں کو جانتے ھیں جنھوں نے مدتوں تھذیب نفس اور اخلاقی و عرفانی سیر و سلوک کا راستہ طے کیا ھے،جس کی بنا پر ان بعض موجودات کو درک کیا ھے لیکن قرآن مجید کی بعض باتوں کو نہ سمجھنا دلیل نھیں ھے کہ ھم یہ کھہ دیں کہ جو کچھ بھی قرآن مجید میں بیان ھوا ھے وہ سب اسی طرح ھے، ھم اس کو نھیں سمجھ سکتے، اور ھمارے لئے قابل فھم نھیں ھے، نیز الفاظ کے ذریعہ ھمیں حقائق کا پتہ نھیں چلتا، اور ھر انسان اپنے ذھن کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی و تفسیر کرسکتا ھے اگرچہ یھی ماوراء طبیعت حقائق( جیسے ملک و فرشتہ )؛ کے بارے میں مکمل معرفت حاصل نھیں ھوسکتی، اور ایک عام انسان ان کی شناخت اور اور حقیقت سے باخبر نھیں ھوسکتا، لیکن ان کے بارے میں جن صفات اور خصوصیات کا ذکر قرآن مجید میں ھوا ھے ھم ان کے ذریعہ کافی حد تک ان کی معرفت حاصل کرسکتے ھیں۔
دین اور قرآن کی زبان کو افسانوی زبان قرار دینے والوں کی ایک دلیل یہ ھے کہ قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابوں میں استعارات، کنایات، تشبیھات اور تمثیلات ذکر ھوئی ھے، منجملہ یہ مثال قرآن مجید میںذکر ھوئی ھے:
( وَلاَتَکُونُوا کَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَھا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اٴَنکَاثًا )(۳)
” اور خبر دار ! اس عورت کے مانند نہ ھوجاؤ جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا “
گرچہ قرآن مجید میں یہ مثال بیان ھوئی ھے اور شاید اس طرح کی کوئی بُڑھیا کا وجود ھی نہ ھو۔
اسی طرح گدھے کے بارے میں ایک مثال قرآن مجید میں یہ ذکر ھوئی ھے:
( مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوھا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اٴَسْفَارًا ) (۴)
” ان لوگوں کی مثال جن پر توریت کا بار رکھا گیا اور وہ اسے اٹھا نہ سکے اس گدھے کی مثال ھے جو کتابوں کا بوجہ اٹھائے ھوئے ھو “
کھنے والے کھتے ھیں کہ جب اس طرح کی افسانوی مثالیں قرآن مجید میں بیان ھوئی ھیں تو پھر قرآن مجید میں بیان شدہ دوسری باتیں منجملہ خدا، قیامت، وحی اور جنت و دوزخ کس طرح افسانوی نہ ھوں گی!
قارئین کرام ! اس طرح بے بنیاد اور بے ھودہ نیز الحادی باتیں مقالات کی صورت میں پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے اسٹوڈینٹس تک پھنچائی جارھی ھیں، تاکہ ان کو یہ بات تلقین کی جائے کہ پورے کا پورا قرآن افسانہ اور کھانی ھے یھاں تک یہ گستاخی اس قدر بڑھتی جارھی ھے کہ ایک اسٹوڈینٹ نے اپنے مقالہ میںقرآن مجید میں بیان شدہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے رومانٹیک "Romantique" نتیجہ حاصل کیا اور ایک خیالی داستان کے عنوان سے لکھا، اور اس کے بعد اس پر ادبی تنقید کی اور اس پر بھت سے اعتراض و اشکال کئے، اور جب حضرت یوسف کی اس رومانٹیک داستان کو استاد کی موجودگی میں سب کے سامنے پڑھا، تو اس داستان کو سننے کے بعد استاد نے بھی بھت سے اعتراضات کئے، جس کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ داستان یوسف کا لکھنے والا کوئی ماھر ادیب نھیں تھا جس کی بنا پر یہ داستان صحیح طریقہ پر نھیں لکھی گئی ھے!!
۱۱۔ قرآن کی زبان کو واقع نما نہ ھونے پر نسبی نظریہ رکھنے والوں کی بے بنیاد دلیل
افسوس کہ جرائد کی ”آزادیٴ بیان“ کے زیر سایہ اور یونیورسٹیوں و دیگر مراکز میں آزاد سیاسی ماحول، اسی طرح ھمارے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی نظام کی کمزوری، نیز انقلاب کے بعد سے تعلیم و تربیت کے عھدہ داروں کی بے توجھی خصوصاً یونیورسٹی کا موجودہ ماحول میں ؛ اسلامی اقدار کے خلاف وسیع پیمانہ پر زھریلی تبلیغات اور پروپیگنڈے ھورھے ھیں، اور نوبت یھاں تک پھنچ گئی ھے کہ عصرِ حاضر میںبعض یونیورسٹی طلباء کا سوال یہ ھے کہ جب قرآن مجید میں داستان، افسانہ اور استعارات و کنایات بیان ھوئے ھیں اور ان کے حقیقی معنی مراد نھیں ھیں اور ان کی جگہ مجازی معنی مراد لئے جاتے ھیں، تو پھر قرآن مجید کے دوسرے مطالب بھی اسی طرح کے ھونے چاھئیں؟ شاید خدا، وحی اور قیامت جیسے الفاظ سے بھی مجازی اور غیر حقیقی معنی مراد ھوں؟
جی ھاں، یہ سب معرفت کے نسبی ھونے، زبان دین کے سمبلک ھونے اور ھر منوٹیک "Hermeneutics" کے ذریعہ دینی تحریر کے معنی و تفسیر کرنے کا نتیجہ ھے جس کے ذریعہ ھمارے عظیم الشان اعتقادت اور اصول کو نقصان پھنچایاجارھاھے جو ھمیشہ ھماری ثقافت اور معاشرہ کے لئے باعث عزت ھے اور ھمارے گذشتہ اور حال کے افتخارات انھیں اسلامی اعتقادات کی وجہ سے ھیںاور تمام انبیاء اور اولیاء اللہ کی امانت کی حفاظت کرنا ھماری ذمہ داری ھے۔
یہ نسبیت گرائی اور شکاکیت کا نتیجہ ھے کہ کھنے والے کھتے ھیں کہ کسی شخص کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ اپنے نظریہ کو مطلق قرار دے، اور دین سے حاصل شدہ مختلف نتائج کو قابل احترام سمجھا جائے کیونکہ قرآن کی زبان واقع نما اور حقیقی نھیں ھے بلکہ سمبلک ھے، ھر شخص قرآنی آیات سے مستقل طور پر نتیجہ نکال سکتا ھے ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ یہ لوگ قرآن مجید میں مثالوں، استعاروں اور داستانوں کو بھانہ بنا کر یہ دعویٰ کرتے ھیں کہ قرآن کریم اصولی طور پر حقائق اور واقعیت کو بیان کرنا نھیں چاھتا بلکہ صرف داستانوں ، افسانوں اور کنایات و استعارات کی گفتگو کو بیان کرنا چاھتا ھے ھم یھاں پر یہ سوال کرتے ھیں کہ اگر کسی کتاب یا مقالہ یا نظم میں کوئی مثال ذکر ھوئی ھو تو کیا اس کو شعر اور مَثَل کی کتاب کا نام دیا جائے گا؟ اگر کوئی مقرر اپنی تقریر کے دوران کوئی لطیفہ یا کوئی طنز بیان کرے تو کیا اس کی تمام باتوں کو مسخرہ اور طنز آمیز کھا جاسکتا ھے ؟ اگر کوئی شخص کسی موقع پر اپنی گفتگو میں مثال، شعر، استعارہ، تشبیہ، کنایہ اور مجاز جیسی چیزوں کا استعمال کرتا ھے تو اس کے معنی یہ نھیں ھے کہ اس کی تمام گفتگو شعر اور افسانہ ھے جس میں کچھ استعارات، کنایات ، تشبیھات اور مثالیں بیان ھوئی ھیں اس صورت میں پھر کسی بھی قلمکار کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنی کتابوں میں مثال ، شعر یا طنز کا استعمال کرے، ورنہ تو اس کی کتاب شعر اور طنز کی کتاب کھلائے گی اگر خداوندعالم نے قرآن مجید میں مَثَل ذکر کی ھے تو کیا خداوندعالم کے اس قول ( وَاتْلُ عَلَیْھمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقّ ) (۵) کو ایک افسانہ اور مَثَل قرار دیا جاسکتا ھے؟ اورکیا خداوندعالم کے اس فرمان ( وَبِالْحَقِّ اٴَنزَلْنَاہ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ) (۶)کو شعر اور افسانہ قرار دیں سکتے ھیں؟!۔
یہ لوگ ھر منوٹیک "Hermeneutics" نظریہ اور عبارت و تحریر کی تفسیر کے اعتبار پر ایک دلیل یہ ذکر کرتے ھیں کہ مسلمانوں کے یھاں ھمیشہ تفسیر اور تاویلات ھوتی رھی ھیں اور علماء و عرفاء نے تاویل اور تفسیر کے بارے میں بھت سی کتابیں بھی لکھی ھیں؛ جن سے معلوم ھوتا ھے کہ قرآن مجید کی مختلف تفاسیر اور مختلف تاویلات ھوسکتی ھیں جس طرح عرفاء اور علماء نے قرآن مجید کی تاویلات اور تفاسیر ذکر کی ھیں اسی طرح ھمیں بھی قرآن مجید کی جدید تفسیر کرنے کا حق حاصل ھے، اگرچہ ھماری بیان کردہ تفسیر علماء کی تفسیر سے بالکل مخالف ھو جیسا کہ بعض روایات میں قرآن مجید کی تفسیر؛ قرآن کے ظاھری الفاظ سے بالکل مختلف ھے، لھٰذا قرآن مجید میں مختلف تفاسیر کا ھونا اس بات کی دلیل ھے کہ قرآن مجید کی مختلف تفاسیر اور تاویلات کی جاسکتی ھیں؛ لھٰذا ھم بھی یہ کام کرسکتے ھیں اور چونکہ ان کے درمیان فرق نھیںکیا جاسکتا کہ ان میں سے کون سے تفسیر صحیح ھے اور کون سی غلط؛ لھٰذا ان سب کو معتبر ماننا چاھئے!
قارئین کرام ! یہ بات صحیح ھے کہ قرآن مجید میں متشابہ آیات پائی جاتی ھیں جس کی تفسیر آیات محکمات کے لحاظ سے ھونا چاھئے، اور روایات میں بھی بیان ھوا ھے کہ قرآن مجید میں بھت سارے باطن اور مختلف پردہ ھیں، لیکن قرآن مجید کی کسی بھی آیت میں یہ بیان نھیں ھوا کہ ظاھر آیات اور کلمات و الفاظ حجیت نھیں ھیں، اور ھم پر حقائق کو آشکار نھیں ھوتے۔
قارئین کرام ! آیات کے ظاھری اعتبار کے علاوہ قرآن مجید میں اور بھی مزید دقیق اور گھرے مطالب موجود ھیں جن کو بطون اور تاویل آیات کھا جاتا ھے، اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اصلاً قرآنی ظواھر معتبر نھیں ھیں، اور صرف ان سے حاصل کردہ ھمارا نتیجہ معتبر ھے اور وہ بھی وہ تاویلات جو تاویل کرنے والے کے ذھن کے مطابق اور اس کے ذھن کی پیداوار ھوں اس طرح دینی سلسلہ میں مختلف اور متضاد قرائت پیش کی ھو رھی ھیں اور ھم سے یہ کھا جاتا ھے کہ ان سب کو قابل احترام مانیں!!
۱۲۔ تحریف دین کے سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام کا اظھار افسوس
قارئین کرام ! ھم اپنی گفتگو کے آخر میں لازم اور ضروری سمجھتے ھیںکہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے ان نورانی کلمات کی طرف اشارہ کریں جس میں آپ نے رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد پیدا ھونے والے دینی انحرافات اور شبھات کو بیان کیا ھے اورجن کی بنا پر افسوس ناک اور بُرے نتائج بر آمد ھوئے ھیں جیسا کہ ھم سب جانتے ھیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت رسول اکرم (ص) کی وفات کے ۲۵/ سال کے بعد قائم ھوئی ھے، اس وقت تک وہ اصحاب رسول موجود تھے جنھوں نے خود رسول اکرم (ص) کی زبان مبارک سے آیات قرآن کی تفسیر اور شان نزول کو سنا تھا اور پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ھونے والی آیات کے موقع کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا؛ کیونکہ اس وقت قرآن کے نزول کو زیادہ وقت نھیں گذرا تھا لیکن وہ منافقین اور دشمنان اسلام موجود تھے جو اھل بیت علیھم السلام کے بے انتھا دریائے معرفت سے بے بھرہ تھے، اور جاہ وحشم کے دلدادہ اور ھوا پرست دین میں شبھات اور تحریفات ایجاد کررھے تھے جس کی وجہ سے اسلام میں انحرافات پیدا ھوگئے، جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ مسلمانوں کے درمیان برادر کُشی ھونے لگی چنانچہ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
” وَ لٰکِنَّا إِنَّمَا اٴَصْبَحْنَا نُقَاتِلُ إِخْوَانَنَا فِی الإِسْلاٰمِ عَلٰی مَا دَخَلَ فِیْہ مِنَ الزَّیْغِ وَ الْإِعْوِجَاجِ وَالشُّبْھةِ وَالتَّاوِیْلِ “ (۷)
( مگر اب ھم کو ان لوگوں سے جو اسلام کی رُو سے ھمارے بھائی کھلاتے ھیں ان سے جنگ کرناپڑ گئی ھے، چونکہ (ان کی وجہ سے) اس میں گمراھی، کجی، شبھات اور غلط سلط تاویلات داخل ھوگئے ھیں )
یھی وہ شبھات اور اعتراضات ھیں جو عصر حاضر میں علمی طریقہ سے بیان کئے جاتے ھیں اور منظم طور پر بیان ھوتے ھیں، حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ میں انھیں اعتراضات کی وجہ سے مسلمانوں میں مقابلہ بازی شروع ھوگئی ، اور اسی طرح کے شبھات اور اعتراضات کو قبول کرتے ھوئے جنگ جمل اور جنگ نھروان میں حقیقی مفسر قرآن حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں آگئے جس کی بنا پر بھت سے لوگ قتل کردئے گئے۔
حضرت علی علیہ السلام خداوندعالم کی بارگاہ میں عوام الناس کی جھالت کی شکایت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
” إِلَی اللّٰہ اَشکُوا ِمنْ مَعْشَرٍ یُعِیْشُوْنَ جُھالًا وَ یَمُوْتُوْنَ ضَلاٰلًا، لَیْسَ فِیْھمْ سِلْعَةٌ اٴَبْوَرُ مِنِ الْکِتَابِ إِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاٰوَتِہ، وَلاٰ سُلْعَةٌ اٴَنْفَقُ بَیْعاً وَلاٰ اٴَغْلیٰ ثَمَناً مِنَ الْکِتَابِ إِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِہ وَ لٰا عِنْدَھمْ اٴَنْکَرُ مِنَ الْمَعْرُوْفِ وَلاٰ اٴَعْرَفُ مِنَ الْمُنْکَرِ “ (۸)
( اللہ ھی سے شکوہ ھے ان لوگوںکا جو جھالت میں جیتے ھیں اور گمراھی میں مرجاتے ھیں، ان میں قرآن سے زیادہ کو ئی بے قیمت چیز نھیں ھے، جب کہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسا پیش کرنے کا حق ھے، اور اس قرآن سے زیادہ کوئی مقبول اور قیمتی چیز نھیں، اس وقت جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے، ان کے نزدیک نیکی سے بڑہ کر کوئی برائی نھیں اور بُرائی سے زیادہ کوئی نیکی نھیں۔)
قارئین کرام ! توجہ فرمائیں حضرت امیر علیہ السلام کا یہ شکوہ و شکایت اس وقت کا ھے جب رحلت پیغمبر اکرم (ص) کو ۲۵/ سال کا عرصہ بھی نہ گذرا تھا، لیکن انحرفات ، شبھات اور بدعت دین کے لئے اس قدر نقصان دہ ثابت ھورھے تھے کہ حضرت نے تنھائی کے عالم میں لوگوں کی ھدایت کے مسئلہ کو ان کے حال پر چھوڑتے ھوئے بارگاہ رب العزت میں اپنے ھاتہ آسمان کی طرف بلند کردئے اور اپنے درد و غم کو بیان کرنا شروع کردیا۔
مذکورہ بالا کلام کی طرح خطبہ نمبر ۱۴۵/ میں بھی حضرت فرماتے ھیں:
” وَ إِنَّہ سَیَاتِی عَلَیْکُمْ مِنْ بَعْدِیْ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْہ شَیْءٌ اَخْفٰی مِنَ الْحَقِّ، وَ لٰا اٴَظْھرُ مِنَ الْبَاطِلِ، وَ لاٰ اٴَکْثَرُمِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللهِ وَ رَسُوْلِہ، وَ لَیْسَ عِنْدَ اٴَھلِ ذٰلِکَ الزَّمَانُ سِلْعَةٌ اٴَبْوَرَ مِنِ الْکِتَابِ إِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاٰوَتِہ، وَلاٰ اٴَنْفَق إِذَاحُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِہ وَ لٰا فِی الْبِلاٰدِ شَیْءٌ اٴَنْکَرَ مِنَ الْمَعْرُوْفِ وَلاٰ اٴَعْرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ “
(میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ھے جس میں حق بھت پوشیدہ اور باطل بھت نمایاں ھوگا، اور اللہ اور اس کے رسول پر افتراء پردازی کا زور ھوگا، اس زمانہ والوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ھوگی جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کاحق ھے، اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نھیں ھوگی جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے، اور (ان کے) شھروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہ ھوگی۔ )
اس کے بعد مزید فرماتے ھیں:
”چنانچہ حاملان قرآن کو چھوڑ دیا جائے گا اور حافظین قرآن کو بھلادیا جائے گا، قرآن اور قرآن والے (اھل بیت ) بے گھر اور بے در ھوں گے، اور ایک ھی راہ میں ایک دوسرے ساتھی ھوں گے، انھیں کوئی پناہ دینے والا نہ ھوگا وہ (بظاھر) لوگوں میں ھوں گے مگر ان سے الگ تھلگ ، ان کے ساتھ ھوں گے مگر بے تعلق، اس لئے کہ گمراھی ھدایت سے سازگار نھیں ھوسکتی، اگرچہ وہ یک جا ھوں لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کرلیا ھے اور جماعت سے کٹ گئے ھیں گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ھیں کتاب ان کی پیشوا نھیں ، ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ھے اور صرف اس کے خطوط او رنقوش کو پھچان سکتے ھیں، اس آنے والے دور سے پھلے وہ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پھنچا چکے ھوں گے، اور اللہ کے متعلق ان کی سچی باتوں کا نام بھی بھتان رکہ دیا ھوگا اور نیکیوں کے بدلہ میں انھیں بُری سزائیں دی ھوں گی۔“
نیز فرماتے ھیں:
” وَ اْعَلَمُوْا اٴَنَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُوْا الرُّشْدَ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ تَرَکَہ وَ لَنْ تَاخُذُوْا بِمِیْثَاقِ الْکِتَابِ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ نَقَضَہ وَ لَنْ تَمَسَّکُوْا بِہ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ نَبَذَہ “
( جان لو کہ تم ھدایت کو اس وقت تک نہ پھچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پھچان لو اور قرآن کے عھد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک کہ اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو اور اس سے وابستہ نھیں رہ سکتے جب تک کہ اسے دور پھینکنے والوں کی شناخت نہ کرلو )
اور خطبہ کے آخر میں ارشاد فرماتے ھیں:
” پس انھیں سے ھدایت حاصل کرو، وھی علم کی زندگی اور جھالت کی موت ھیں وہ ایسے لوگ ھیں کہ ان کا (دیا ھوا) ھر حکم ان کے علم اوران کی خاموشی ان کی گویائی کا پتہ دے گی، اور ان کا ظاھر ان کے باطن کا آئینہ دار ھے، وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ھیں نہ اس کے بارے میں باھم اختلاف رکھتے ھیں، دین ان کے سامنے ایک سچا گواہ ھے اور ایک ایسا بے زبان ھے جو بول رھا ھے۔“(۹)
قارئین کرام ! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام لوگوں کو متوجہ کرنے کے بعد ان سے چاھتے یہ ھیں کہ دین کو صرف اھل بیت (علیھم السلام) کے ذریعہ حاصل کریں کیونکہ دین اور قرآن سے انھیں کا حاصل کردہ نتیجہ صحیح اور بر حق ھے، اور دین سے دوسرے حاصل کردہ نتائج باطل اور بے بنیاد اور راہ خدا کو حاصل کرنے والوں اور حق و حقیقت کے تلاش کرنے والوں کے چور ھیں، جس کا نتیجہ گمراھی اور ذلت کے علاوہ کچھ نھیں ھوگا۔
توجہ فرمائیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے نظریہ کے مطابق یہ بات قابل قبول نھیں ھے کہ ھر کس و ناکس دین سے ایک الگ نتیجہ حاصل کرلے اور اس طرح کے تمام حاصل شدہ نتائج صحیح اور درست ھوں، کیونکہ یہ اپنے سلیقہ اور ذوق کے مطابق ھے کیا دین کے سلسلہ میں ذوق کا بھی کوئی دخل ھے؟ کیا دینی مسائل میں بھی ذوق دکھایا جاسکتا ھے؟ (ھرگز نھیں)
تو پھر دین کی صحیح تفسیر اھل بیت علیھم السلام سے حاصل کرنا چاھئے ، نہ یہ کہ اپنے سلیقہ اور ذوق کی بنا پر خود بھی گمراہ ھورھے ھوںاور دوسروں کو دین سے گمراہ کردیں۔
۱۳۔ دینی سلسلہ میں ذاتی سلیقہ کو ردّ کیا جائے
بعض لوگ ھم سے کھتے ھیں کہ اپنے سلیقہ اور ذوق کو دوسروں پر نہ تھونپئے، تو کیا دین ذوق اور سلیقہ کا نام ھے، اور اس کی حد و حدود اور اس کے معنی و تفسیر انسان کے سلیقہ سے معین ھوتے ھیں؟ سلیقہ اور ذوق انسان کی عام زندگی سے متعلق ھوتا ھے؛ مثال کے طور پر کوئی شخص کوئی کپڑا یا دوسری چیز خریدنا چاھتا ھے تو اس موقع پر کسی دوسرے شخص پر اپنا سلیقہ تحمیل کرنا صحیح نھیں ھے لیکن اعتقادات میں سلیقہ اور ذوق کا کوئی سرو کار نھیں ھے، مثلاً کوئی شخص یہ کھے کہ میرا سلیقہ یہ کھتا ھے کہ خدا ایک ھے، اور( نعوذ باللھ) دوسرا شخص کھے کہ میرا سلیقہ یہ ھے کہ کئی خدا ھیں، کیونکہ شریعت اور احکام الٰھی عوام الناس کے ذوق کے تحت نھیں ھیں تاکہ کھنے والے کھیں کہ دوسروں کے سلیقوں کو بھی برداشت کریں ، نیز دوسروں کے سلیقوں کو ردّ نہ کریں پس اعتقادی مسائل، ضروریات اسلام، احکام اسلام، عقائد اور الٰھی اقدار کسی کے سلیقہ کے تحت نھیں ھیں، او ران کے سامنے ذوق و سلیقہ کو بالائے طاق رکہ دیا جائے۔
خلاصہ یہ ھے اپنے نظریہ کو مطلق نہ قرار دینے کے شعار فقط دین کے فرعی اور ظنی مسائل میں صحیح ھے اور ان میں بھی ان حضرات کا نظریہ قابل قبول ھے جو دینی و فقھی مسائل میں اپنے عظیم الشان علم اور صحیح طریقہ سے مکمل طور پر اجتھاد کریں اور قرآن و سنت کے ذریعہ اپنے نظریہ کو استنباط کریں اور اسی کے مطابق فتویٰ دیں اور جو شخص اس طرح کی صلاحیت کا مالک ھوتا ھے اس کو اصطلاحاً ”فقیھ“ کھا جاتا ھے ، چنانچہ اسی موقع پر کھا جاتا ھے کہ ایک فقیہ اپنی رائے کو دوسرے فقیہ پر تحمیل کرنے کا حق نھیں رکھتا یہ مسلم ھے کہ دو فقھاء کے درمیان فتووں میں اختلاف ھوتا ھے لیکن ان میں سے کوئی بھی فقیہ یہ نھیں چاھتا کہ اپنے نظریہ کو دوسرے فقیہ پر تحمیل کرے لیکن عقائد، اصول اور اسلام کے قطعیات میں انسان کا کوئی سلیقہ اور ذوق قابل قبول نھیں ھے کیونکہ دینی عقائد میں صرف وھی چیز صحیح ھے جس کو چودہ سو سال پھلے پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے بعد ائمہ معصومین علیھم السلام نے بیان فرمایا ھے، اور تمام علماء اور فقھاء کا اس بات پر اتفاق ھے، کیونکہ اسلامی مسلمات کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی قرائت کے علاوہ دوسری تمام قرائت باطل اور بے بنیاد ھیں، اور کسی بھی صورت میں قابل قبول نھیں ھے کہ کوئی آگے بڑہ کر یہ کھے میں بھی دین سے ایک نئی قرائت پیش کرتا ھو ں، در حقیقت اس طرح کا نظریہ دین میں بدعت گذاری کا واضح مصداق ھے جس سے مقابلہ کرنا حقیقی علماء اسلام کا فریضہ ھے، تاکہ وہ خداوندعالم ، اس کے فرشتوں اور نیک بندوں کی لعنت و نفرین کے مستحق قرار نہ پائیں۔
والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ۔
والحمد للہ رب العالمین
تمت بالخیر
حوالے:
(۱)سورہ مائدہ آیت۲۷ .
(۲) سورہ مائدہ آیت۳۱ .
(۳) سورہ نحل آیت ۹۲ .
(۴) سورہ جمعہ آیت ۵ .
)۵( سورہ مائدہ آیت ۲۷ ترجمہ : ” اور اے پیغمبر ! آپ ان کو آدم کے دونوں فرزندوں کا سچا قصہ پڑہ کر سنائیے “
(۶) سورہ اسراء (بنی اسرائیل) آیت ۱۰۵ ترجمہ : ھم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا ھے اور یہ حق ھی کے ساتھ نازل ھوا ھے “
(۷) نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۲۲ .
(۸) نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۷.
(۹)نھج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، خطبہ نمبر۱۴۵  

Add comment


Security code
Refresh