www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انسانی زندگی کے مختلف تاریخی ادوار نے ثابت کیا ھے کہ انسانی معاشرے سے وابستہ امور کی تدبیر اور سیاست پر خاص توجہ رکھنا چاھئے ، کیونکہ معاشرے کے نظام کو عقل و رسم و رواج اور شرع نے موضوع بحث قراردیا ھے اور ان میں سے ھر ایک کے تقاضے کی بنا پر انسانی معاشرے کا نظام تیار ھوا ھے ۔

سیاست اور نظم و نسق کا مسئلہ اسلام میں دوسرے ادیان سے کھیں زیادہ اھم اور نمایاں ھے ۔ اسلامی احکام و قوانین پر طائرانہ نظر ڈالنے سے بھی یقین ھوجاتا ھے کہ سیاست کو شرع مقدس سے جدا نھیں کیا جا سکتا کیونکہ شرع کے تار و پود میں سیاست مضمر ھے ۔

حکومت ، ولایت ، امر بہ معروف ، نھی عن المنکر ، جھاد ، دفاع ، قضاوت ، شھادات ، حدود ، قصاص ، تجارت ، معاملات ، نا بالغوں ، یتیموں اور مجانین کی ولایت ، سماجی اور گھریلو حقوق ، تربیتی اور ثقافتی امور ، اقتصادی مسائل ، زکوٰة ، خمس ، غنائم ، ذمّی اور اھل کتاب کے احکام ، دوسری ملتوں سے امت مسلمہ کے تعلقات ، جنگ و صلح اور اسی طرح کے دوسرے مسائل ان فقھی اور اسلامی معارف کے زمرے میں شامل ھیں جنھیں معاشرے کی سیاست و تدبیر سے علیحدہ نھیں کیا جا سکتا ۔ یھاں تک کہ عبادات میں سے حج ، نماز جمعہ اور جماعت وغیرہ کا تعلق سیاست سے قابل توجہ ھونے کے ساتھ ساتھ ناقابل جدائی ھے ۔

پیغمبر اسلام  کی سیرت اور سیاست دونوں ایک کھلی کتاب کے مانند ھیں ، جو تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ھے۔

یہ کھنا غلط ھے کہ رسول خدا   محض عبادات ، اعتقادات کی تعلیم اور لوگوں کی تربیت و ھدایت ھی کرتے رھے ۔ اسلامی ملک کی اندرونی و بیرونی سیاست سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا ! مختلف ملکی سر براھوں کے نام آنحضرت  کے خطوط ، عملی طور پر ظالم و جابر افراد کے خلاف اقدامات ، شیطانی سیاست اور سیاست مداروں سے ٹکر ، باطل کے خلاف جنگ میں لوگوں کو جمع کرنا ، مسند قضاوت پر بیٹھنا ، (عدل و انصاف قائم کرنا ) اور تمام سماجی امور میں رھنمائی کرنا ․․․․․․․․․ایسے رویّے اور طور طریقے ھیں جن کو پیغمبر  کی سنت و سیرت سے جدا نھیں کیا جاسکتا ۔ لھذا سیاسی مسائل کی اھمیت ، ان کا شریعت سے تعلق ، اور بانی ٴاسلام کی ان معاملات میںبراہ راست رھنما ئی ، نیز اسلامی معاشرے کی ھدایت کی ذمہ داری نہ صرف عقل و شرع کے بدیھی امور میں شمار کی جاتی ھے بلکہ ان میں ابھام کی کوئی گنجائش نھیںھے ۔

چونکہ پیش نظر مباحث کا موضوع اسلام کا سیاسی نظام ھے ، لھذا ان میں حسب ذیل امور کا تجزیہ ضردری ھے :

۱۔سیاست کا مفھوم اور حیات انسانی میں اس کامقام

۲۔ اسلام میں سیاست اور اس کے ابعاد

۳۔اسلام کا سیاسی نظام اور قرآن میں اس کے مقدمات و اصول

۴۔ قرآنی نقطۂ نظر سے سیاست کے مقاصد

سیاست کا مفھوم

لفظ سیاست کے مروجّہ معنوں اور دنیا کے دھوکے باز سیاسی رھنماؤں کے عمل کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ بات کھی جا سکتی ھے کہ لفظ سیاست کے معنوں میں اتنی تحریف کی گئی ھے کہ آج دنیا میں جو کچہ ھو رھا ھے وہ اس لفظ کے لغوی و حقیقی معنوں سے تضاد رکھتا ھے ۔یہ بات ھم کو مجبور کرتی ھے کہ ھم سب سے پھلے لفظ سیاست کے مفھوم کی توضیح پیش کریں ۔ اس کے بعد سیاسی نظام کے ابعاد اور قرآنی نقطۂ نظر سے اس کے مقاصد پر روشنی ڈالیں ۔

لغت اور اسلامی کتابوں کے ماخذ اور متون میں مندرج لفظ سیاست کے معنوں پر غور کرنے سے یہ مستفاد ھوتاھے کہ سیاست کے حقیقی معنی ، انسانی معاشرے ، ملک اور عوام کی سر پرستی و قیادت کے ان ابعاد پر مشتمل ھیں ، جن کے ذریعہ ان کی فلاح و بھبود اور ترقی کی ضمانت ملتی ھے ۔

لفظ سیاست پر مشتمل تشریحات کو لغت کی بعض کتابوں نے درج  کیا ھے :

مجمع البحرین

 ساس ، یسوس ، الرعیہ ، امرھا و نھاھا ، سیاست کے معنی ، عوام پر احکام جاری کرنے اور پابندی عائد کرنے کے ھیں ۔ حدیث میںھے : ” ثم فوض الی النبی  امر الدین و الامة لیسوس عباد“ ” دین اور امت مسلمہ سے وابستہ امور کی ذمہ داری پیغمبر اسلام  کو سونپی گئی تاکہ لوگوں کو سیاست اور راھنمائی کریں ۔

دائرة المعارف بستانی

ساس القوم ، دبرھم و تولیٰ امرھم ۔ الامر : قام بہ ، فھو ساس السیاسة : استصلاح الخلق بار شاد ھم الی الطریق المنجی فی العاجل او الآجل السیاسة المدینة : تدبیر المعاش مع العموم علیٰ سنن العدل و الاستقامہ “

کسی معاشرے کی سیاست کرنا : ان کے امور کی تدبیر اور ان کے تقاضوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف و رھنمائی کے معاملات کو آزادی سے بجالاناھے ۔ سیاست مدن : یعنی معاشرے کی معیشت ،عدل و انصاف اور آزادی کے اصولوں پر فراھم کرنا ۔

عربی لغت ، لاروس

 ساس الوالی الرعیہ : ”تولی امرھاواحسن النظر الیھا “ حاکم نے رعایا کی سیاست کرنے کی ذمہ داری قبول کی : یعنی عوام کے تمام کارو بار کی ذمہ داری قبول کر کے ان کی فلاح و بھبود کے لئے سوچا ۔

” منجد الطلاب “ کے ترجمے میںبھی سیاست کی اس طرح تعریف کی گئی ھے ۔ مملکت داری، عوام کے امور کی اصلاح ، ملکی کار وبار کا انتظام ، اور سیاست مدن یعنی معاشرے کو سیاست کرنا ۔

فارسی لغت ’ ’معین “ میں سیاست مذکورہ بالا معنوں کے علاوہ حسب ذیل معنی بھی درج کئے گئے ھیں ۔ ” قضاوت ، عدالت ، سزا ، جزا ، تنبیہ ، ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے داخلی اور خارجی امور کا انتظام “

اسی طرح ” اخوان الصفا “ کتاب کے حوالے سے سیاست کے کئی بُعد بتائے جاتے ھیں ۔ اقتصادی سیاست ، سیاست مدن اور جسمانی سیاست جو بدن کو قوت بخشنے اور اس کی حفاظت کرنے کے علاوہ اسے توازن اور حد اعتدال سے خارج ھونے سے روکتی ھے ۔ ” اخلاق ناصری “ کتاب سے نقل کیا گیا ھے کہ سیاست فاضلہ کو امامت کھتے ھیں ۔ اور اس سے مراد تکمیل خلق ھے جو سعادت کے حصول کے لئے ضروری اور لازمی ھے ۔

علمی اور عقلی مباحث میں حکماء و فلاسفہ نے حکمت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ھے ۔

حکمت نظری: اس علم کو کھتے ھیں جس کے ذریعہ عقل انسانی اپنی قدرت و توانائی کے مطابق جو موجودات کے حقیقی حالات کے بارے میںعلم رکھتی ھو۔

حکمت عملی :جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ھے ۔

(۱)اخلاق یعنی خود سازی (۲)تدبیر منزل یعنی گھریلو امور کی تنظیم (۳)سیاست مدن یعنی شھری اور ملکی پیمانے پر تشکیل حکومت تاکہ انسانی اجتماع کے مسائل و مشکلات کو حل کیا جائے ۔

مذکورہ مفاھیم اور آج کی دنیا میں رائج سیاست اور سیاسی رھنماؤں کی منطق کے درمیان مکمل تضاد ھے ، اس لئے کہ ان لوگوں نے عوامی مصلحت ، ترقی اور سر حدوں کی حفاظت کے بجائے اپنی سیاست کی بنیاد ، مکاری ، قتل و غارت گری ، جاہ طلبی ، ریاست اور وسعت طلبی ،نیز محروموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے پر رکھی ھے۔ یہ عوام دشمن غریبوں کو موت کے حوالے کرنے ، انھیں علمی ، فنی اور فکری افلاس کے حوالے کرنے کو نصب العین بنائے ھوئے ھیں ۔ ظاھر ھے اس سیاست کی دین، ضمیر اور عقل میں کوئی گنجائش نھیں ۔

اب تک سیاست کے مختلف معنی جو ھم ذکر کرتے چلے آئے ھیں اورجن معنوں پر مصلح اور دانشور افراد غور و فکر کرتے رھے ھیں ، وہ انسان کی ضروریات زندگی سے وابستہ ھیں اور بے شک اسلام اور دوسرے ادیان نے اس کی نسبت خاص اھتمام کیا ھے اور کبھی اس پر غور و فکر کرنے سے منع نھیں کیاھے ۔

اگر محض قرآنی نقطۂ نظر سے انبیاء علیھم السلام کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ھے کہ انسانوں کے حقیقی اور سچے رھنما اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں (ع)نے عوامی معاملات کی بھلائی کے لئے کس قدر جانفشانی کی ھے ، خاص طور پر سیاست ، رھبری اور اصلاح کے لحاظ سے ان کی خدمات مثالی ، قابل تحسین و قابل عمل و پیروی ھیں ۔

دو طرح کے سر براہ

 بے جانہ ھو گا اگر یھاں ایک خاص نکتے کی طرف توجہ مبذول کرتے چلیں کہ قرآن مجید نے دو طرح کے سر براھوں کا ذکر کیا ھے ۔الھی رھبراور شیطانی سربراہ جو ایک دوسرے کی مخالف جھت میں چلتے رھے ھیں ۔ قرآن میں جھاں بھی ان دونوں طرح کے سربراھوں کا ذکر ھوا ھے وھاں ان کے حکمرانی کے طریقوں کی بھی وضاحت کی گئی ھے ، بعنوان مثال :

۱۔ سلیمان (ع)اور بلقیس کے سلسلے میں یوں بیان ھواھے :

” قالت ان الملوک اذا دخلوا قریة افسد و ھا وجعلوا اعزة اھلھا اذلة و کذلک یفعلون “(۱)

اس نے کھا کہ بادشاہ جب کسی علاقہ میں داخل ھوتے ھیں تو بستی کو ویران کردیتے ھیں اور صاحبان عزت کو ذلیل کردیتے ھیں اور ان کا یھی طریقہ کار ھوتا ھے ۔

اگر چہ یہ آیت بلقیس کی ترجمانی کر رھی ھے ، لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ قرآن مجید جب کبھی کسی بات کو درج کر کے رد نھیں کرتا تو اس کا حکم دستخط اور تصدیق کے برابر ھے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ھے کہ بادشاہ بنیادی طور پر اسی طرح کے ھوتے ھیں، یعنی مفسد ، تباہ کار ، گمراہ کن اور غاصب ۔

۲۔ حضرت موسیٰ (ع)اور حضرت خضر (ع)سے متعلق کشتی کا واقعہ بیان ھوا ھے ۔ وھاں حسب ذیل آیت ھے :

” ام السفینة فکانت لمساکین یعملون فی البحر فاٴردت ان اعیبھا و کان و راء ھم ملک یاٴخذ کل سفینة غصبا “

جھاں تک اس کشتی کی بات ھے تو اس کا تعلق ان غریب افراد سے تھا جو دریا میں کام کرتے تھے ۔ میں نے اس کشتی میں سوراخ اس لئے کرنا چاھا تھا ،کہ ان پر ایک ایسے بادشاہ کا تسلط تھا جو کشتیوں کوھتھیا لیتا تھا ۔

قرآن میں مسرفین ، مستکبرین ، مفسدین اور مترفین جیسی تعبیریںطاغوتوں اور صاحب مال و قدرت سربراھوں کےلئے بارھا استعمال ھوئی ھیں ۔

Add comment


Security code
Refresh