www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

501500
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی وصیتیں احادیث اور تاریخ کی مختلف کتب میں پھیلی ھوئی صورت میں موجود ہیں۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام، جن کا نام حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی وصیتوں میں کثرت سے ملتا ہے، کے علاوہ تین خواتین یعنی ام ایمن، اسماء اور ابو رافع کی زوجہ سلمی کا نام بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ام ایمن وھی باایمان اور جانثار خاتون ہیں جنھوں نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دعوے کی تصدیق کی۔ ان کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا: "وہ اھل بھشت کی خواتین میں سے ایک ہے۔" وہ رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے گھر میں مقیم تھیں اور اس کے بعد مدینہ کی جانب ھجرت کر گئیں اور اسامہ کے گھر چلی گئیں۔ اس کے بعد وہ اھلبیت اطھار علیھم السلام کی خدمت میں مصروف رھیں۔ جناب سلمی بھی رسول خدا (ص) کی خدمت میں مصروف رھیں۔ وہ حضرت عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ کی کنیز تھیں۔ سلمی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھر دایہ کے فرائض انجام دیتی رھیں اور ان کی وفات کے بعد امام علی علیہ السلام اور اسماء کی مدد سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو غسل دینے میں بھی شریک تھیں۔ (اسد الغابہ، جلد ۵، صفحہ ۴۷۸﴾
اسماء بنت عمیس سے روایت ہے: "فاطمہ سلام اللہ علیھا نے مجھے وصیت کی کہ میرے اور علی (ع) کے علاوہ کوئی اور انھیں غسل نہ دے، اور میں نے بھی انھیں غسل دیتے وقت ان کی وصیت پر عمل کرتے ھوئے علی (ع) کی مدد کی اور ھم دونوں نے مل کر انھیں غسل دیا۔" (بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۱۸۴ اور ۱۹۸) اسی طرح شیعہ اور سنی کتب میں اسماء بنت عمیس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ جب حضرت فاطمہ (س) کی زندگی کے آخری دن قریب آئے تو انھوں نے مجھ سے فرمایا: "اماں جایا، جس طرح خواتین کے جنازے کو ایک لکڑی کے تختے پر رکھ کر اوپر چادر ڈال کر اٹھاتے ہیں مجھے اچھا نھیں لگتا کیونکہ بدن کے حصے نمایاں ھو جاتے ہیں"۔ جناب اسماء کھتی ہیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا: "میں نے حبشہ میں دیکھا ہے کہ وہ لکڑی کا تابوت بنا کر اس میں جنازہ ڈال دیتے ہیں۔ میں ابھی آپ کو اس جیسا بنا کر دکھاتی ھوں۔" جناب اسماء کھتی ہیں کہ میں نے چارپائی کے کناروں پر دو لکڑے کے تختے رکھے اور اوپر چادر ڈال دی۔ جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے دیکھا تو بھت خوش ھوئیں اور رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد پھلی بار مسکرائیں۔ (احقاق الحق، جلد ۱۰، صفحہ ۴۷۴)۔
امام علی علیہ السلام کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی وصیتی
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی کرامات میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے پھلے سے ھی امام علی علیہ السلام کو اپنی وفات کی خبر دے دی تھی اور حتی وفات کا دن اور وقت بھی بتا چکی تھیں۔ یہ کرامت شیعہ اور سنی دونوں محدثین نے بیان کی ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث میں یوں بیان ھوا ہے:
"حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے امام علی (ع) کو کھا: "میری موت کا وقت آن پھنچا ہے"۔ امام علی (ع) نے فرمایا: "اے دختر رسول خدا (ص)، اب جبکہ وحی کا سلسلہ بھی ختم ھو چکا ہے آپ کو اس کا علم کیسے ھوا؟" حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے جواب دیا: "مجھے ابھی ابھی نیند کا ایک جھونکا آیا تھا اور خواب میں رسول خدا (ص) کو دیکھا جو مجھ سے فرما رھے تھے: "آج رات تم ھمارے پاس آ جاو گی"۔ میں جانتی ھوں کہ انھوں نے سچ کھا ہے اور آج میری زندگی کا آخری دن ہے۔" (بحار الانوار، جلد ۳، صفحہ ۲۱۳)۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے امام علی علیہ السلام کو مخاطب قرار دیتے ھوئے فرمایا: "میرے دل میں کچھ باتیں ہیں جو میں آپ کو وصیت کے طور پر کھنا چاھتی ھوں۔" امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "اے دختر رسول خدا (ص)، جو چاھتی ہیں بیان کریں۔" امام علی علیہ السلام نے کمرے میں موجود افراد کو باھر جانے کو کھا اور خود حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے سرھانے تشریف فرما ھو گئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا: "اے رسول خدا(ص) کے چچا زاد بھائی، آپ نے مجھے ھر گز جھوٹا یا بددیانت نہ پایا ھو گا اور جب سے میں آپ کے گھر آئی ھوں آپ کی نافرمانی نھیں کی۔" امام علی علیہ السلام نے جواب دیا: "خدا کی پناہ، آپ سب سے زیادہ دانا، نیک سیرت، پرھیزگار، عظیم اخلاق کی مالک اور خدا سے خوف کھانے والی ہیں پھر میں کیسے آپ کو اپنی مخالفت اور نافرمانی پر سرزنش کر سکتا ھوں؟ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی جدائی میرے لئے انتھائی ناگوار ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نھیں۔"
حضرت علی علیہ السلام نے مزید کھا: "خدا کی قسم، رسول خدا (ص) کی وفات کی مصیبت میرے لئے تکرار ھو گئی ہے اور میرے لئے آپ کی وفات اور جدائی بھت بھاری ہے۔ پس انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آہ، یہ مصیبت کس قدر دردناک، جانکاہ اور غمناک ہے۔ خدا کی قسم اس مصیبت کا ازالہ ممکن نھیں۔" حدیث میں آیا ہے کہ اس کے بعد دونوں شدید گریہ کرنے لگے۔ کچھ لمحات کے بعد امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا سر اپنے سینہ مبارک سے لگایا اور فرمایا: "جو بھی وصیت ہے بیان کر دیں تاکہ میں اسے انجام دے دوں۔" حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا: "خدا آپ کو نیک اجر عطا فرمائے اے رسول خدا (ص) کے چچازاد بھائی۔ میری پھلی وصیت یہ ہے کہ میرے بعد "امامہ" سے شادی کر لیجئے گا کیونکہ وہ میرے بچوں پر میری طرح مھربان ہے اور مردوں کو بھی شادی شدہ رھنے کی ضرورت ہے۔ میری دوسری وصیت یہ ہے کہ جن افراد نے مجھ پر ظلم کیا اور میرا حق مجھ سے چھینا ہے ان میں سے کوئی میرے جنازے میں شرکت نہ کرے کیونکہ یہ میرے اور رسول خدا (ص) کے دشمن ہیں۔ آپ انھیں یا ان کے پیروکاروں میں سے کسی کو میرے جنازے میں شریک نہ ھونے دیں۔ مجھے رات کے وقت اس وقت دفن کریں جب سب سو چکے ھوں۔" (بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۱۹۲)۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اپنی وصیتیں کاغذ کے ایک ٹکڑے پر تحریر فرمائیں اور اپنے سرھانے کے نیچے رکھ دیں۔ آپ کی وفات کے بعد امام علی علیہ السلام کو وہ کاغذ ملا جس میں یہ لکھا تھا:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ دختر رسول خدا (ص) کا وصیت نامہ ہے۔ میں نے ایسی حالت میں یہ وصیت نامہ لکھا ہے جب یہ گواھی دے رھی ھوں کہ خدائے یکتا کے علاوہ کوئی معبود نھیں اور محمد (ص) خدا کے بندے اور رسول ہیں۔ اور گواھی دیتی ھوں کہ بھشت حق ہے اور جھنم حق ہے اور قیامت ضرور برپا ھو گی اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبھہ نھیں۔ اور گواھی دیتی ھوں کہ خداوند متعال تمام قبروں والوں کو مبعوث فرمائے گا۔ اے علی (ع) میں فاطمہ رسول خدا (ص) کی بیٹی ھوں جسے خداوند متعال نے آپ کی زوجہ قرار دیا تاکہ دنیا اور آخرت میں آپ کی ھو جاوں۔ آپ کو دوسروں کی نسبت میرے کاموں کا زیادہ حق پھنچتا ہے۔ میرا حنوط، غسل اور کفن رات کو انجام دیں۔ رات کو میری نماز جنازہ پڑھیں اور رات کو ھی دفن کریں۔ کسی کو میری وفات کی اطلاع مت دیں۔ آپ کو خدا کے حوالے کرتی ھوں اور قیامت تک آنے والے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سلام کھتی ھوں۔" (بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۲۱۴)۔
تحریر: مریم نورانی

Add comment


Security code
Refresh