www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

807073
سیکولرازم کے مسئلے میں ایک بنیادی امر اس نکتے کی وضاحت ہے کہ کیا دین، دنیوی امور میں مداخلت کرتا ہے یا نھیں؟ سیکولرازم کے حامی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دین اور دنیا میں علیحدگی ہے۔ ان کی نظر میں دین کا مقصد توحید اور عبودیت کی ترویج ہے اور دنیا کی تعمیر اور دنیوی امور سے اس کا کوئی تعلق نھیں۔ اسلامی متون اور تعلیمات سے ظاھر ھوتا ہے کہ اسلام نے دنیا پر بھی توجہ دی ہے اور آخرت پر بھی۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے درج ذیل شواھد پیش کئے جا رھے ہیں:
الف) دین کے اھداف
متعدد آیات اور احادیث میں دین کے اھداف بیان ھوئے ہیں جن سے ظاھر ھوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات میں دنیوی امور پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر چند موارد درج ذیل ہیں:
آیت نمبر ۱
لَقَدْ أَرْسَلْنٰا رُسُلَنٰا بِالْبَيِّنٰاتِ وَ أَنْزَلْنٰا مَعَهُمُ اَلْكِتٰابَ وَ اَلْمِيزٰانَ لِيَقُومَ اَلنّٰاسُ بِالْقِسْطِ(سورہ حدید، آیت 25﴾
انبیاء بھیجے جانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کتاب الھی کی پیروی کرتے ھوئے عدل و انصاف قائم کریں اور الھی تعلیمات پر عمل پیرا ھو کر اجتماعی انصاف کا حصول یقینی بنائیں۔ یوں، انبیاء کے اھداف میں سے ایک انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ مرحوم علامہ طباطبائی اس بارے میں فرماتے ہیں: "دین کی حقیقت، انسانی معاشرے کو بتدریج عدالت تک پھنچانا ہے جس کے نتیجے میں ایک انسان کی فردی زندگی بھی عدالت سے سرشار ھو جاتی ہے۔"
آیت نمبر ۲
يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا اِسْتَجِيبُوا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُولِ إِذٰا دَعٰاكُمْ لِمٰا يُحْيِيكُمْ (سورہ انفال، آیت 24﴾
یہ آیہ شریفہ مومنین سے مخاطب ھو کر کھتی ہے: خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کھو کیونکہ وہ تمھیں ایسی چیز کی جانب بلا رھے ہیں جو تمھاری حیات کا باعث ہے۔ چونکہ اس آیہ شریفہ میں حیات کی کسی خاص قسم کا ذکر نھیں کیا گیا لھذا حیات کی تمام اقسام یعنی دنیوی، اخروی، مادی، معنوی، جسمانی، روحانی، فردی، اجتماعی وغیرہ شامل ہیں۔ انسان انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں اعتدال تک پھنچتا ہے اور اعتدال انسان کی زندگی اور ترقی کا باعث ہے۔ مرحوم علامہ طباطبائی رحمہ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
"دین انسانی معاشرے کو فطرت اور خلقت کے راستے پر لاتا ہے اور اسے عدل کے تقاضوں کے مطابق آزادی اور فطری سعادت جیسی نعمت عطا کرتا ہے۔" (ترجمہ تفسیر المیزان، جلد 6، صفحہ 97)
علامہ طباطبائی ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"دین الھی انسانی سعادت کا واحد راستہ اور انسانی زندگی کے امور کی اصلاح کرنے والا ہے۔ دین ہے جو فطرت کو فطرت کے ذریعے اصلاح کرتا ہے اور مختلف قوتوں کو طغیان کے وقت اعتدال کی حالت میں واپس لاتا ہے اور انسان کی دنیوی، اخروی، مادی اور معنوی زندگی کو منظم کرتا ہے۔" (ترجمہ تفسیر المیزان، جلد 6، صفحہ 150﴾
آیت نمبر ۳
وَ لَقَدْ بَعَثْنٰا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اُعْبُدُوا اَللّٰهَ وَ اِجْتَنِبُوا اَلطّٰاغُوتَ (سورہ نحل، آیت 36)
قرآن کریم بیان کر رھا ہے کہ تمام انبیاء کا نعرہ عبودیت اور طاغوت سے مقابلہ تھا۔ اسلام جو دین خاتم ہے، اس کا نتیجہ پیغام توحید کی ترویج اور عدل و انصاف پھیلانا ہے۔ یوں دنیوی امور کی انجام دھی، تمام انبیاء علیھم السلام کی رسالت کے اھداف میں شامل تھا۔
ب) دین کے ایجنڈے
دینی متون اور اسلامی احکام کا جائزہ لینے سے معلوم ھوتا ہے کہ دین کا دائرہ دنیوی امور کو بھی اپنے اندر سموئے ھوئے ہے۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ اگر دین کا پیغام سماجی و سیاسی امور سے بے بھرہ ھو تو یہ احکام لغو اور بیھودہ ھو جائیں گے۔ ذیل میں ان احکام کی چند مثالیں پیش کی جا رھی ہیں:
۱۔ دین میں خدا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے خاص اولیاء کی بھرپور مادی اور معنوی اور دنیوی اور اخروی حاکمیت، ولایت اور سرپرستی ثابت کی گئی ہے۔ (سورہ مائدہ، آیات 42، 43،55؛ سورہ یوسف، آیت 40﴾
۲۔ دین میں حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے بعض قدیم انبیاء کی حکومت اور خلافت ثابت کی گئی ہے۔ (سورہ نساء، آیات 58، 59؛ سورہ مائدہ، آیت 67﴾
۳۔ عدالتی فیصلوں اور لوگوں کے درمیان تنازعات کے حل کی ذمہ داری انبیاء الھی سے منسوب کی گئی ہے۔ (سورہ ص، آیات 20 الی 26؛ سورہ نمل، آیات 27، 28، سورہ نساء، آیت 54﴾
۴۔ اجتماعی اور شورائی سرگرمیوں کی دعوت دی گئی ہے۔ (سورہ نساء، آیات 58 الی 65؛ سورہ مائدہ، آیت 42؛ سورہ انبیاء، آیت 78؛ سورہ انعام، آیت 89)
۵۔ عدل کی ترویج اور ظلم و فساد کے خاتمے کو اھل ایمان کے حقیقی فرائض میں شمار کیا گیا ہے۔ (سورہ شوری، آیت 38؛ سورہ آل عمران، آیت 159)
۶۔ انسانوں کے حقوق کا احترام اور انسان کی تکریم اسلام کے سیاسی اصولوں میں شمار کی گئی ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت 279؛ سورہ ھود، آیت 113؛ سورہ نساء، آیت 58؛ سورہ نحل، آیت 190؛ سورہ ص، آیت 28؛ سورہ حج، آیت 41)
۷۔ دین میں طاغوتی قوتوں، مستکبرین اور ظالموں کے خلاف جھاد اور مقابلے کی دعوت دی گئی ہے۔ اسی طرح دفاعی وسائل مھیا کرنے کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے۔ (سورہ اسراء، آیت 70؛ سورہ آل عمران، آیت 19؛ سورہ نساء، آیت 32﴾
۸۔ عزت اور سربلندی کو خدا اور اھل ایمان سے مخصوص کرتے ھوئے ھر قسم کی ذلت اور دیگر قوتوں کی اطاعت کی نفی کی گئی ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت 218؛ سورہ تحریم، آیت 9؛ سورہ نساء، آیت 75؛ سورہ انفال، آیت 60؛ سورہ اعراف، آیت 56﴾
۹۔ والی (حاکم شرع) اور عوام کے متقابل حقوق کا تعین اور انھیں بیان کیا ہے۔ (سورہ منافقون، آیت 8؛ سورہ محمد، آیت 35؛ سورہ ہود، آیت 113، سورہ آل عمران، آیات 146 الی 149﴾
۱۰۔ بعض صالح اور عادل سلاطین جیسے طالوت اور ذوالقرنین کی سلطنت اور حکومت کو ثابت کیا گیا ہے۔ (نھج البلاغہ، نسخہ صبحی صالح، خطبہ 216﴾
۱۱۔ امت اسلامی کی خیر و صلاح کے راستے میں خرچ کرنے کیلئے وسیع مالی وسائل کو ولی امر مسلمین اور اسلامی حکومت سے مخصوص کیا گیا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیات 246، 247؛ سورہ کھف، آیات 83 و 98﴾
۱۲۔ دین میں اجتماعی تعلقات، اقتصادی امور، طلاق، ازدواج اور عدالتی امور کے بارے میں احکام پائے جاتے ہیں۔
ج) دین پر عمل کے نتائج اور آثار
دنیوی امور میں دین کی مداخلت اور انسانوں کی دنیا پر دین کی توجہ کے دائرہ کار کو ثابت کرنے کا ایک راستہ دینی متون یا انسانی حیات کی تاریخ میں دین کے بیان شدہ نتائج اور اثرات کا جائزہ لینا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل اثرات پر غور کریں:
۱۔ برکت کا نزول
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ھوتا ہے:
وَ لَوْ أَنَّهُمْ أَقٰامُوا اَلتَّوْرٰاةَ وَ اَلْإِنْجِيلَ وَ مٰا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ (سورہ مائدہ، آیت 66﴾
"اور اگر وہ (یھود و نصاری) تورات، انجیل اور جو (اور کتابیں) ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ھوئیں، ان پر عمل کرتے تو خدا کی بیشمار نعمتیں ان پر نازل ھوتیں۔"
اگر تورات اور انجیل پر عمل کا نتیجہ دنیوی سعادت اور دنیوی نعمتوں سے مالامال ھونا ہے تو قرآن کریم پر عمل پیرا ھونے کا نتیجہ اسے سے کھیں زیادہ بھتر نکل سکتا ہے، کیونکہ قرآن میں زیادہ بھتر انداز میں ھدایت اور رھنمائی بیان کی گئی ہے۔( سورہ اسراء آیت 9) اس آیت کریمہ سے ظاھر ھوتا ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات میں اخروی سعادت کے علاوہ دنیوی سعادت پر بھی توجہ دی گئی ہے۔
۲۔ ضروریات کی برطرفی
خداوند متعال فرماتا ہے:
"قرآن ھر شی کی وضاحت کرنے والا ہے۔" (سورہ نحل، آیت 89)
یعنی قرآن کریم ضرورت کے مسائل کے بارے میں انسان کی جھالت دور کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نھیں کہ اخروی سعادت سے متناسب سعادت مندانہ دنیوی زندگی کا حصول انسان کی اھم ضروریات میں سے ایک ہے۔
۳۔ عقل کی پرورش
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"انبیاء اس لئے آئے تاکہ ان کی تعلیمات کی روشنی میں انسانوں کی عقل ترقی کر سکے۔" (نھج البلاغہ، ترجمہ فیض الاسلام، خطبہ اول)
اس میں کوئی شک نھیں کہ عقل کے امور میں سے ایک رھن سھن کے طور طریقوں اور مختلف سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور گھریلو امور کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے، لھذا نتیجتاً دینی تعلیمات بھی ان تمام امور پر مشتمل ہیں تاکہ الھی رھنمائی کے ذریعے ان تمام شعبوں میں عقل پرورش پا سکے۔ لھذا، دین کے اھداف، منصوبوں اور اثرات کا جائزہ لینے سے ھم اس نتیجے تک پھنچے ہیں کہ دنیوی امور کی تعمیر اور ترقی اور دنیا میں انسان کی فلاح و بھبود میں دین نے مداخلت کی ہے۔
تحریر: حجت الاسلام والمسلمین داعی نژاد

Add comment


Security code
Refresh