www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

502391
روایت میں ہے کہ شھزادی کائنات جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے جناب اسماء سے یہ تذکرہ فرمایا کہ مجھے یہ انداز بھت ناگوار لگتا ہے کہ عورت کی میت پر ایک چادر ڈال دی جاتی ہے جس سے اس کا بدن دیکھنے والے کوصاف محسوس ھوتا ہے تو جناب اسماء نے کھا:اے دختر رسولؐ میں آپ کو ایسا تابوت بناکر دکھاتی ھوں جو میں نے حبشہ میں دیکھا تھا چنانچہ انھوں نے ایک تازہ ٹھنی منگوائی اور اسے لگا کر اس کے اوپر ایک چادر ڈال دی تو شھزادیؑ کائنات نے فرمایا :’’ما أحسن ھذا و أجملہ ، لا تعرف بہ المرأۃ من الرجل ‘‘ ’’ یہ کتنی حسین اور خوبصورت چیز ہے کہ اس میں مرد اور عورت کی شناخت نھیں ھوپاتی ہے ‘‘۔
اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’أول نعش احدث فی الإسلام نعش فاطمۃ ، إنّھا اشتکت شکاتھا التی قبضت فیھا، و قالت لأسماء : إنّی نحلت فذھب لحمی ، ألا تجعلین لی شیئاً یسترنی فقالت أسماء: إنّی إذ کنت بأرض الحبشۃ رأیتھم یصنعون شیئاً أفلا أصنع لک مثلہ ؟ فإن أعجبک صنعت لک ، قالت (ع) : نعم ،فدعت بسریر ، فأکبتہ لوجھہ ، ثم دعت بجرائد نخل فشدّدتہ علی قوائمہ ، ثم جلّلتہ ثوباً فقالت أسماء : ھکذا رأیتھم یصنعون ، فقالت (س) : اصنعی لی مثلہ ، استرینی سترک ﷲ من النّار‘‘تاریخ اسلام میں سب سے پھلے جناب فاطمہؐ سلام اللہ علیھا کا تابوت بنایا گیا تھا ، کیونکہ جس بیماری میں آپ کی رحلت ھوئی تھی اس میں آپ نے جناب اسماء سے یہ شکایت کی تھی کہ میں اتنی لاغر ھوگئی ھوں کہ میرا گوشت گھل گیا ہے ، کیا تم کوئی ایسی چیز نھیں تیار کرسکتیں جو میرا پردہ کرسکے تو اسماء نے جواب دیا : جب میں حبشہ میں تھی تو میں نے ان لوگوں کو ایک چیز بناتے ھوئے دیکھا تھا کیا آپ کے لئے بھی اس طرح کی چیز تیار کردوں؟ آگر آپ چاھیں تو میں بنا سکتی ھوں ؟ تو شھزادی نے فرمایا : ھاں چنانچہ اسماء نے ایک چارپائی منگائی ، پھر اسے لٹادیا ، پھر کھجور کی کچھ شاخیں لے کر انھیں اس کے پایوں کےاوپر باندھ دیا اور اس کے اوپر کپڑا ڈال کر کھا : میں نے ان کو ایسا (تابوت) بناتے ھوئے دیکھا ہے توشھزادی نے فرمایا : میرے لئے بھی ایسا ھی تابوت بنادو ، تم نے میرا پردہ رکھا ہے اللہ تمھیں جھنم سے بچائے رکھے ۔ (احقاق الحق، جلد ۱۰، صفحہ ۴۷۴)۔
زندگی کے آخری لمحات
شھزادی کائنات حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اپنے اس بستر کے اوپر قبلہ رخ ھوکر لیٹ گئیں جو گھر کے درمیان میں بچھا ھوا تھا ۔ بیان کیا جاتا ہے : کہ آپ نے اپنی دونوں بیٹیوں یعنی جناب زینب اور جناب ام کلثومؑ کو اپنے کسی عزیز کے گھر بھیج دیا تھا تاکہ وہ آپ کی رحلت کے وقت آپ کو نہ دیکھنے پائیں ۔ یہ سب انتظام آپ کی شفقت و محبت کے علاوہ اس وجہ سے بھی تھا ،تاکہ وہ دونوں اس شدید صدمہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھنے پائیں ۔اس وقت مولائے کائناتؑ اور امام حسن ، امام حسین بھی کسی کام کے لئے گھر سے باھر گئے ھوئے تھے ۔
جناب اسماء سے مروی ہے کہ جب شھزادی کائناتؑ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اسماء سے کھا:’’إنّ جبرئیل أتی النبیّ لما حضرتہ الوفاۃ بکافور من الجنّۃ فقسّمہ أثلاثاً ، ثلثاً لنفسہ، و ثلثاً لعلی و ثلثاً لی و کان أربعین درھماً فقالت : یا أسماء ائتنی ببقیۃ حنوط والدی من موضع کذا و کذا ، وضعیہ عند رأسی ، فوضعتہ ثم قالت لأسماء حین توضأت وضوء ھا للصلاۃ : ھاتی طیبی الذی أتطیّب بہ ، وھاتی ثیابی التی اصلی فیھا فتوضأت‘‘ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو جناب جبرئیل آنحضرت کے پاس کافور لے کر آئے تھے تو آپ نے اسے تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا ، ایک تھائی اپنے لئے ، ایک تھائی حضرت علی علیہ السلام کے لئے اور ایک تھائی میرے لئے ، اس کی مقدار چالیس درھم تھی ، پھر آپ نے فرمایا : اے اسماء فلاں فلاں جگہ سے میرے بابا کا بچا ھوا حنوط لے آئیے اور اسے میرے سرھانے رکھ دیجئے جب انھوں نے وہ حنوط لاکر رکھ دیا تو شھزادی نے نماز کے لئے وضو کرنے سے پھلے اسماء سے کھا مجھے وہ خوشبو بھی لا دیجئے جو میں استعمال کرتی ھوں پھر کھا میرا وہ لباس بھی لادیجئے جسے پھن کر میں نماز پڑھتی ھوں پھر آپ نے وضو کرکے ان سے کھا :’’انتظرینی ھنیءۃ و ادعینی فإن أجبتک و إلّا فاعلمی إنّی قدمت علیٰ أبی فأرسلی إلیٰ علی‘‘’’کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد مجھے آواز دیجئے گا اگر میں نے جواب دے دیا تو بھتر ، ورنہ سمجھ لیجئے گا کہ میں اپنے باباکی خدمت میں پھنچ چکی ھوں لھذا کسی کو علی کے پاس بھیج دیجئے گا ‘‘۔ جب شھزادی کے احتضار کا وقت آپھنچا اور پردے ھٹا دئے گئے تو آپ نے ایک سمت نگاھیں جماکر فرمایا: ’’السلام علی جبرئیل ، السلام علی رسول ﷲ ، اللّھمّ مع رسولک ، اللّھمّ فی رضوانک و جوارک ودارک دار السلام ، ثم قالت : ھذہ مواکب أھل السماوات و ھذا جبرئیل و ھذا رسول ﷲ یقول : یا بنیۃ أقدمی فما أمامک خیر لک ‘‘سلام ھو جبرئیل پر ، سلام ھو رسول اللہؐ پر بار الٰھا تیرے رسول کے ھمراہ ، بارالٰھا تیری مرضی (کے حصارمیں )اور تیرے جوار، تیرے گھر اور دار السلام میں ، پھر آپ نے کھا ، یہ اھل آسمان کی محملیں ہیں ، یہ جبرئیل ہیں یہ رسول اللہؐ ہیں جو یہ فرما رھے ہیں : اے میری بیٹی آگے بڑھو جو تمھاری نظروں کے سامنے ہے وہ تمھارے لئے بھتر ہے ‘‘ پھر آپ نے اپنی آنکھیں کھول کر کھا :’’و علیک السلام یا قابض الأرواح عجّل بی و لا تعذّبنی‘‘ اے قابض ارواح تمھارے اوپربھی میرا سلام ھو میری روح جلدی قبض کرلو اور مجھے اذیت نہ دینا پھر آپ نے کھا : ’’إلیک ربّی لا إلی النار‘‘بار الٰھا! تیری جانب نہ کہ جھنم کی جانب ، پھر آپ نے اپنی آنکھیں بند کرکے اپنے ھاتھ اور پیر بالکل سیدھے کرلئے ۔
جب جناب اسماء نے آپ کو آواز دی تو آپ نے کوئی جواب نھیں دیا تب انھوں نے آپ کے چھرۂ مبارک سے چادر ھٹاکر دیکھا تو معلوم ھوا کہ آپ اس دنیا سے رحلت فرما چکی ہیں یہ دیکھ کر وہ آپ کے اوپر گر پڑیں اور آپ کے بوسہ دیتے ھوئے یہ کھا : اے فاطمہؐ جب آپ اپنے بابا رسول اللہ کے پاس پھنچئے گا تو اسماء بنت عمیس کی طرف سے ان کی خدمت میں سلام کھدیجئے گا ، اور جب امام حسن اور امام حسینؑ آئے اور انھوں نے دیکھا کہ والدۂ گرامی آرام فرما رھی ہیں تو انھوں نے کھا: اے اسماء ھماری والدہ تو اس وقت نھیں سوتی تھیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا ، اے فرزندان رسولؐ ، آپ کی والدہ سو نھیں رھی ہیں بلکہ وہ دنیا سے رخصت ھوچکی ہیں ۔ امام حسن نے اپنے کو شھزادی کے اوپر گرادیا انھیں چومتے تھے یہ کھتے جاتے تھے :’’یا اماہ کلّمینی قبل أن تفارق روحی بدنی‘‘اے والدۂ گرامی اس سے پھلے کہ میرے بدن سے میری روح پرواز کر جائے آپ مجھ سے گفتگو فرمائیں ، امام حسین آپ کے پیروں کا بوسہ دیکر یہ کہہ رھے تھے:’’أنا ابنک الحسین کلّمینی قبل أن یتصدّع قلبی فأموت‘‘ ’’ میں آپ کا بیٹا حسین ھوں آپ مجھ سے کچھ بولئے اس سے پھلے کہ میرا دل پھٹ جائے اور میری موت واقع ھوجائے ‘‘ تو ان سے اسماء نے کہھا: اے فرزندان رسول جائیے اپنے بابا کو اپنی والدہ کی رحلت کی خبر دے دیجئے وہ دونوں شھزادے باھر نکلے اور مسجد کے نزدیک پھنچ کر، اُن کے رونے کی آوازیں بلند ھوگئیں جس سے صحابہ نے ان دونوں کو اپنے حلقہ میں لے کر رونے کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا : ’’قد ماتت امّنا فاطمۃ‘‘ھماری والدہ گرامی فاطمہؐ کا انتقال ھوگیا ہے ۔ یہ سن کر حضرت علی علیہ السلام منہ کے بل گرپڑے اور آپ نے کھا:’’بمن العزاء یا بنت محمد‘‘’’ اے بنت محمد کسے تعزیت دوں ؟ ‘‘۔
تشیع جنازہ اوردفن
حضرت علی علیہ السلام کے گھر سے رونے کی آوازیں بلند ھوئیں عورتوں اور مردوں کے گریہ کی آوازوں سے پورا مدینہ ھل گیا اور لوگ اسی طرح دھشت زدہ ھوگئے جس طرح رسول اللہ کی وفات کے وقت سراسیمگی کا ماحول تھا ، بنی ھاشم کی خواتین روتی پیٹتی ھوئی جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھر پھنچنے لگیں ، مرد حضرت علی علیہ السلام کے پاس جمع ھونے لگے اور آپ کے پاس ھی امام حسن اور امام حسین بیٹھے ھوئے رو رھے تھے ، جناب ام کلثوم کی زبا ن پر یہ بین تھے : ھائے بابا، اے رسول اللہ در حقیقت آج آپ ھم سے ایسے جدا ھوئے کہ جس کے بعد ملاقات کا کوئی امکان نھیں ہے ‘‘۔آھستہ آھستہ کافی لوگ جمع ھوگئے ھر طرف گریہ و بکا کا سماں تھا ، اور سب لوگ جنازہ اٹھنے کا انتظار کر رھے تھے تاکہ نماز جنازہ میں شرکت کرسکیں تو جناب ابوذرؓ نے باھر نکل کر یہ اعلان کیا : آپ حضرات واپس تشریف لے جائیں کیونکہ دختر پیغمبر کی تشییع جنازہ اس عشا کے وقت نھیں ھوگی ، ابوبکر و عمر بھی حضرت علی علیہ السلام کو یہ کہہ کر تعزیت پیش کر رھے تھے کہ اے ابو الحسنؑ ھم سے پھلے آپ بنت رسول کی نماز جنازہ نہ پڑھا دیجئے گا ۔
اس طرح لوگ آھستہ آھستہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور اکثر کا یھی خیال تھا کہ تشییع جنازہ کل صبح میں ھوگی (روایت میں ہے کہ شھزادی کی وفات نماز عصر کے بعد یا رات کے ابتدائی حصہ میں ھوئی تھی)لیکن حضرت علی علیہ السلام اور جناب اسماء نے آپ کو اسی رات غسل و کفن دیا اور اس کے بعد جناب امام حسن اور امام حسین اور جناب زینبؑ و ام کلثومؑ کو آواز دی کہ اپنی والدہ سے رخصت ھو لو کہ یہ جدائی کا وقت ہے اور اب ملاقات جنت میں ھوگی، تھوڑی دیر کے بعد امیر المومنین نے ان لوگوں کو شھزادی کے جنازہ سے جدا کر دیا ۔ پھر حضرت علی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد آسمان کی طرف دونوں ھاتھوں کو اٹھا کر یہ آواز دی: ’’اللّھم ھذ ہ بنت نبیّک فاطمۃ أخرجتھا من الظلمات إلی النور، فأضاء ت میلاً فی میل‘‘ ’’ بارالٰھا یہ تیرے پیغمبر کی بیٹی فاطمہؐ ہیں جن کو تونے(عدم کی) تاریکیوں سے نکال کر(وجودکے) نور تک پھنچا دیا تو انھوں نے میلوں دور کے فاصلوں کو منور کردیا۔ جب ھر طرف سناٹا چھا گیا اور سب لوگ نیند کی آغوش میں چلے گئے اور رات کا کافی حصہ گذر گیا تو امیر المومنین ، عباس اور فضل بن عباس نے اس نحیف و لاغر جنازہ کے تابوت کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا ، امام حسن و امام حسین اور عقیل ، سلمان ، ابوذر ، مقداد اور بریدہ و عمار بھی جنازہ کے ساتھ ساتھ تھے۔
حضرت علی علیہ السلام قبر کے پاس بیٹھے اور رسول اللہ کی بیٹی کو سپرد لحد کرتے ھوئے یہ ارشاد فرمایا:’’ یا أرض أستودعک ودیعتی ، ھذہ بنت رسول ﷲ ، بسم ﷲ الرحمن الرحیم ، بسم ﷲ و باﷲ و علی ملّۃ رسول ﷲ محمد بن عبدﷲ (ص) سلمتک أیتھا الصدّیقۃ إلی من ھو أولی بک منّی ، و رضیت لک بما رضی ﷲ تعالی لک‘‘اے زمین میں اپنی امانت کو تیرے سپرد کر رھا ھوں ، یہ رسول اللہ کی بیٹی ہے ’’ بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم ‘‘ اللہ کے نام سے ، اللہ کے سھارے اور حضرت عبد اللہ کے بیٹے حضرت محمد رسول اللہ کے دین پر اے صدیقہ میں تمھیں اس کے سپرد کر رھا ھوں جو تمھارے لئے مجھ سے زیادہ اولیٰ ہے اور میں تمھارے لئے اس بات سے راضی ھوں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے ‘‘۔
پھر آپ نے فرمایا : منھا خلقناکم و فیھا نعیدکم و منھا نخرجکم تارۃ اخری‘‘اسی زمین سے ھم نے تمھیں پیدا کیا ہے اور اسی میں پلٹا کر لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے۔پھر آپ قبر سے باھر نکل آئے اور اس کے بعد تمام حاضرین نے اس نبوی دریکتا کی قبر پر مٹی ڈالدی اور آخر میں حضرت علی علیہ السلام نے قبر بتول پر بیٹھ کر مرثیہ پڑھا۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے بین
نھایت تیزی کے ساتھ شھزادی کی تدفین کا مرحلہ مکمل ھوگیا کیونکہ ھر لمحہ یہ خوف لاحق تھا کہ کھیں لوگوں کو خبر نہ ھوجائے اور سب لوگ جمع نہ ھوجائیں اور جب حضرت علی علیہ السلام اپنے دونوں ھاتھ جھاڑ کر قبر سے اٹھنے لگے تو رسول کی پارۂ جگر اور آپ کی رحمدل شریکۂ حیات کے غم سے آپ کا دل بیٹھنے لگااور آپ کو شھزادی کا اخلاص ،طھارت نفس ، ایثار و قربانی اور وہ مشکلات یاد آگئیں جو انھوں نے آپ کے لئے برداشت کی تھیں اور آپ اس فراق کوبرداشت نہ کرسکے آپ کے رخساروں سے آنسو بھنے لگے اور آپ نے رسول اللہ کی قبر مبارک کی طرف رخ کرکے رازدارانہ انداز میں یہ بین شروع کردیا :السلام علیک یا رسول اﷲ عنّی ، و السلام علیک عن ابنتک و حبیبتک و قرّۃ عینک و زائرتک و البائنۃ فی الثری ببقعتک ، و المختار ﷲ لھا سرعۃ اللحاق بک ، قلّ یا رسول ﷲ عن صفیتک صبری ، و عفی عن سیدۃ نساء العالمین تجلّدی ، إلّا أنّ فی التأسی لی بسنّتک فی فرقتک موضع تعزی ، فلقد و سدتک فی ملحودۃ قبرک بعد أن فاضت نفسک بین نحری و صدری ، و غمضتک بیدی، و تولیت أمرک بنفسی.بلی ، وفی کتاب ﷲ لی أنعم القبول ، إنا ﷲ و إنّا الیہ راجعون ، قد استرجعت الودیعۃ، و أخذت الرھینۃ ، و اختلست الزھراء فما أقبح الخضراء والغبراء یا رسول ﷲ أمّا حزنی فسرمد، أمّا لیلی فمسھّد ، لا یبرح الحزن من قلبی أو یختارﷲ دارک التی أنت فیھا مقیم ، کمد مقیّح ، و ھم مھیّج ، سرعان ما فرّق ﷲ بیننا و إلی ﷲ أشکو، و ستنبئک ابنتک بتضافر امّتک علیّ ، و علی ھضمھا حقّھا فأحفھا السؤال ، و استخبرھا الحال، فکم من غلیل معتلج بصدرھا لم تجد إلی بثہ سبیلاً ، و ستقول و یحکم ﷲ و ھو خیر الحاکمین ، و السلام علیکما یا رسول ﷲ سلام مودّع لاسئم و لا قالٍ فإن أنصرف فلا عن ملالۃ ، و إن أقم فلا عن سوء ظنّ بما وعد ﷲ الصابرین ، و الصبر أیمن و أجمل. و لو لا غلبۃ المستولین علینا لجعلت المقام عند قبرک لزاماً ، و التلبّث عندہ عکوفاً ، و لأعولت إعوال الثکلی علی جلیل الرزیۃ ، فبعین ﷲ تدفن ابنتک سرّاً ، و یھتضم حقّھا قھراً ، و یمنع إرثھا جھراً و لم یطل منک العھد، و لم یخلق منک الذکر، فإلی ﷲ یا رسول ﷲ المشتکی ، و فیک یا رسول ﷲ أجمل العزاء فصلوات ﷲ علیھا و علیک و رحمۃ ﷲ و برکاتہ‘‘ سلام ھو آپ پر اے خدا کے رسولؑ ۔میری طرف سے اور آپ کی اس دختر کی طرف سے جوآپ کے جوار میں پھنچ رھی ہے اور بھت جلدی آپ سے ملحق ھو رھی ہے۔یا رسول اللہؐ ! میری قوت صبر آپ کی منتخب روزگار دختر کے بارے میں ختم ھوئی جا رھی ہے اور میری ھمت ساتھ چھوڑے دے رھی ہے صرف سھارا یہ ہے کہ میں نے آپ کے فراق کے عظیم صدمہ اور جانکاہ حادثہ پر صبر کر لیا ہے تو اب بھی صبر کروں گا کہ میں نے ھی آپ کو قبر میں اتارا تھا اور میرے ھی سینہ پر سر رکھ کر آپ نے انتقال فرمایا تھا۔بھر حال میں اللہ ھی کے لئے ھوں اور مجھے بھی اسی کی بارگاہ میں واپس جانا ہے۔آج امانت واپس چلی گئی اور جو چیز میری تحویل میں تھی مجھ سے جدا ھو گئی ۔اب میرا رنج وغم دائمی ہے اور میری راتیں نذر بیداری ہیں جب تک مجھے بھی پروردگار اس گھر تک نہ پھونچا دے جھاں آپ کا قیام ہے عنقریب آپ کی دختر نیک اختر ان حالات کی اطلاع دے گی کہ کس طرح آپ کی امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کر لیا تھاآپ اس سے مفصل سوال فرمائیں اور جملہ حالات دریافت کریں۔
افسوس کہ یہ سب اس وقت ھوا ہے جب آپ کا زمانہ گذرے دیر نھیں ھوئی ہے اور ابھی آپ کا تذ کرہ باقی ہے۔میرا سلام ھو آپ دونوں پر۔اس شخص کا سلام جو رخصت کرنے والا ہے اور دل تنگ و ملول نھیں ہے ۔میں اگر اس قبر سے واپس چلا جاؤں تو یہ کسی د ل تنگی کا نتیجہ نھیں ہے اور اگر یھیں ٹھہر جاؤں تو یہ اس وعدہ کی بے اعتباری نھیں ہے جو پر وردگار نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے اور صبر کا راستہ زیادہ پر امن اور خوبصورت ہے ۔اگر ھمارے اوپر قابو پانے والوں کا غلبہ نہ ہوتا تو میں آپ کی قبر کے پاس ہی سکونت اور اس کی مجاوری اختیار کر لیتا۔
خدا کی نظروں کے سامنے آپ کی بیٹی کو خاموشی سے دفن کردیا گیا ، اور اس کا حق زبردستی ھضم کر لیا گیا کھلے عام اسے اس کی میراث لینے سے روک دیا گیا ، ابھی تو آپ کا زمانہ کچھ بھی نھیں گذرا ہے ، آپ کا ذکر بھی پرانا نھیں ھوا ، اب تو یا رسول اللہ ؛اللہ کی بارگاہ میں ھی شکوہ ہے ، اور (یارسول اللہؐ)آپ کی سیرت میں بھترین تسلی خاطر ہے لھذا آپ کے اوپر اور ان کے اوپر اللہ کی صلوات اور اس کی رحمت و برکت ھو۔

Add comment


Security code
Refresh